• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَ‌كُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرً‌ا ﴿٢٤﴾
وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ (١) دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔
٢٤۔١ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے ٨٠ آدمی، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اس نیت سے بھیجے کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اکرام کے خلاف کاروائی کریں چنانچہ یہ مسلح جتھہ جبل تغیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہوگیا اور انہوں نے ہمت کر کے تمام آدمیوں کو گرفتار کر لیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ ان کا جرم شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی، صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا پھر جنگ ناگزیر ہو جاتی۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا (صحیح مسلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِ‌جَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّ‌ةٌ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا (۱) اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے روکا اور اگر ایسے بہت سے مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی (۲) یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بےخبری میں ضرر پہنچتا (۳) تو تمہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی (٤) لیکن ایسا نہیں کیا (۵) تاکہ اللہ تعالٰی اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے۔ ( ٦)
۲۵۔ ۱ ھدی اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر عمرہ کرنے والا اپنے ساتھ مکے لے جاتا تھا یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا محل سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں یہ مقام معتمر کے لیے مروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لیے منی تھا اور اسلام میں ذبح کرنے کی چگہ مکہ منی اور پورے حدود حرم ہیں۔ معکوفا حال ہے یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا ۔
٢٥۔۲یعنی مکہ میں اپنا ایمان چھپائے رہ رہے تھے۔
۲۵۔۳ کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھا کہ یہ بھی مارے جاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا معرۃ کے اصل معنی عیب کے ہیں یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی یعنی ایک تو قتل خطا کی دیت دینی پڑتی اور دوسرے کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں ۔
۲۵۔٤ یہ لولا کا محذوف جواب ہے یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکے میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی ۔
٢٥۔۵ بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔
۲۵۔ ٦ تزیلوا بمعنی تمیزوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکے میں آباد مسلمان اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے عذاب الیم سے مراد یہاں قتل قیدی بنانا اور قہر اور غلبہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٢٦﴾
جب کہ (۱) ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت کو جگہ دی اور غیرت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (۲) اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا (۳) اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جانتا ہے۔
۲ ٦ ۔۱ اذ کا ظرف یا تو لعذبتا ہے یا واذکرو محذوف ہے یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ ان کافروں نے۔
۲ ٦ ۔۲ کفار کی اس حمیت جاہلیہ عار اور غرور سے مراد اہل مکہ کا مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے سے روکتا ہے انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے لات وعزی کی قسم ہم انہیں کبھی یہاں داخل نہیں ہونے دیں گے یعنی انٰہوں نے اسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے کیونکہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لیے آنے سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آ جاتی اور وہ بھی اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر مکے جانے پر اصرار کرتے جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک رہتی اس لیے اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر وتحمل کی توفیق دے دی اور وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہے جوش اور جذبے میں آ کر مکے جانے کی کوشش نہیں کی لعض کہتے ہیں کہ اس حمیت جاہلیہ سے مراد قریش مکہ کا وہ رویہ ہے جو صلح کے لیے اور معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا یہ رویہ اور معاہدہ دونوں مسلمانوں کے لیے بظاہر ناقابل برداشت تھا لیکن انجام کے اعتبار سے چونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا اس لیے اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو نہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما دیا اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کر لی کہ اس سال مسلمان عمرے کے لیے مکہ نہیں جائیں گے اور یہیں سے واپس ہو جائیں گے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا انہوں نے آپ کے حکم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی انہوں نے اس پر اعتراض کر دیا کہ رحمن رحیم کو ہم نہیں جانتے ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے اس کے ساتھ یعنی باسمک اللھم اے اللہ تیرے نام سے لکھیں چنانچہ آپ نے اسی طرح لکھوایا پھر آپ نے لکھوایا یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے مصالحت کی ہے قریش کے نمائندوں نے کہا اختلاف کی بنٰیاد تو آپ کی رسالت ہی ہے اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانٰ لیں تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے پھر ہمیں آپ سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھیں چنانچہ آپ نے حضرت علی رضی الیہ کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا یہ مسلمانوں کے لیے نہایت اشتعال انگیز صورت حال تھی اگر اللہ تعالٰی مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتے حضرت علی رضی اللہ نے اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ لفظ کہاں ہے بتانے کے بعد خود آپ نے اسے اپنے دست مبارک سے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبد اللہ تحریر کرنے کو فرمایا اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھیں گئیں ۱۔ اہل مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کر دیا جائے گا ۔۲۔ جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا وہ اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے ۔۳۔ مسلمان آئندہ سال مکے میں آئیں گے اور یہاں تین دن قیام کر سکیں گے تاہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح مسلم کتاب الجہاد) اور اس کے ساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں ۔۱ اس سال لڑائی موقوف رہے گی ۔۲۔ قبائل میں سے جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہو جائے ۔
٢٦۔۳ اس سے مراد کلمہ توحید و رسالت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے، جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے طواف و عمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان، اس بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرے کے لئے فوراً ہی امادہ ہوگئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَّقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَ‌سُولَهُ الرُّ‌ؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَ‌امَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُ‌ءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِ‌ينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿٢٧﴾
یقیناً اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ انشاء اللہ تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے سر منڈواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر (۱)، وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے (۲) پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی (۳)۔
۲۷۔۱ واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھا گیا نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے عمرے کے لیے فورا ہی آمادہ ہوگئے اور اس کے لیے عام مندی کرا دی گئی اور چل پڑے بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی جس کی تفصل ابھی گزری دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا ۔
٢٧۔۲یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔
٢٧۔۳ اس سے فتح خیبر و فتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجے میں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دوسال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴿٢٨﴾
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب (۱) کرے، اور اللہ تعالٰی کافی ہے گواہی دینے والا۔
۲۸۔۱ اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے تاہم دنیاوی اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولی اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انہیں غلبہ حاصل رہا اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان مسلمان بن جائیں (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ) 3۔ آل عمران:139)۔ یہ دین غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مُّحَمَّدٌ رَّ‌سُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَ‌اهُمْ رُ‌كَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ‌ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْ‌عٍ أَخْرَ‌جَ شَطْأَهُ فَآزَرَ‌هُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّ‌اعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ‌ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَ‌ةً وَأَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے (۱) مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا (۲) پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا (۳) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے (٤)، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے (۵)
۲۹۔۱ انجیل پر وقف کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ان کی یہ خوبیاں جو قران میں بیان ہوئی ہیں ان کی یہی خوبیاں تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور آگے کزرع میں اس سے پہلے ھم محذوف ہوگا اور بعض فی التوراۃ پر وقف کرتے ہیں یعنی ان کی مذکرورہ صفت تورات میں ہے اور مثلھم فی الانجیل کو کزرع کے ساتھ ملاتے ہیں یعنی انجیل میں ان کی مثال مانند اس کھیتی کے ہے ۔ فتح القدیر ۔
٢٩۔۲ شَطْاَءُ سے پودے کا پہلا ظہور ہے جو دانہ پھاڑ کر اللہ کی قدرت سے باہر نکلتا ہے۔
٢٩۔۳ یہ صحابہ کرام کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ ابتدا میں وہ قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہوگئے، جیسے کھیتی ابتدا میں کمزور ہوتی ہے، پھر دن بدن قوی ہوتی جاتی ہے حتٰی کہ مضبوط تنے پر وہ قائم ہو جاتی ہے۔
۲۹۔٤ یا کافر غیظ وغضب کا باعث تھی اس لیے کہ اس سے اسلام کا دائرہ پھیل رہا اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض وعناد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے علاوہ ازیں اس فرقہ ضالہ کے دیگر عقائد بھی ان کے کفر پر ہی دال ہیں ۔٢٩۔۵ اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جا سکتا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة الحجرات

(سورة الحجرات ۔ سورہ نمبر ٤۹ ۔ تعداد آیات ۱۸)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
یہ طوال مفصل میں پہلی سورت ہے حجرات سے نازعات تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں بعض نے سورہ ق کو پہلی سورت قرار دیا ہے ابن کثیر وفتح القدیر۔ ان کا فجر کی نماز میں پڑھنا مسنون ومستحب ہے اور عبس سے سورۃ الشمس تک اوساط مفصل اور سورہ ضحی سے والناس تک قصار مفصل ہیں ظہر اور عشاء میں اوساط اور مغرب میں قصار پڑھنی مستحب ہیں (ایسر التفاسیر)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١﴾
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔
١۔١ اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْ‌فَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُ‌وا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ‌ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿٢﴾
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (۱)
۲۔۱ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے پہلا ادب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہو دوسرا ادب جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بےشعوری میں تمہاے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لیے دیکھئے صحیح بخاری تفسیر سورۃ الحجرات تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَأَجْرٌ‌ عَظِيمٌ ﴿٣﴾
بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کے لئے مغفرت اور بڑا ثواب ہے (١)۔
٣۔١ اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَ‌اءِ الْحُجُرَ‌اتِ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٤﴾
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں اکثر (بالکل) بےعقل ہیں (١)۔
٤۔١ یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد ٨٤۔٣١٨) اللہ تعالٰی نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بےعقلی ہے۔
 
Top