• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرً‌ا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ‌ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّـهِ مِيرَ‌اثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ﴿١٨٠﴾
جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، (١) آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے۔
١٨٠۔١ اس میں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوۃ بھی نہیں نکالتا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں“، [مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثّلَ لَهُ شُجاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ]. (صحيح بخاري- كتاب تفسير، باب تفسير آل عمران، كتاب الزكاة - حديث نمبر 4565)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّقَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ فَقِيرٌ‌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ‌ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِ‌يقِ ﴿١٨١﴾
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں (١)۔ ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے۔ اور ان کا انبیاء کو بلا وجہ قتل کرنا بھی، (٢) اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھو!۔
١٨١۔١ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ (البقرۃ: 245) ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے“، تو یہود نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! تیرا رب فقیر ہو گیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن کثیر)
١٨١۔٢ یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء علیھم السلام کو ناحق قتل کرنا، ان کے یہ سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے۔ٍ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴿١٨٢﴾
یہ تمہارے پیش کردہ اعمال کا بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَ‌سُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْ‌بَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ‌ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُ‌سُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٨٣﴾
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو مجھ سے پہلے تمہارے پاس جو رسول دیگر معجزوں کے ساتھ یہ بھی لائے جسے تم کہہ رہے ہو تو پھر تم نے انہیں کیوں مار ڈالا؟۔ (١)
١٨٣۔١ اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی و صدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لیے بحکم الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے کہ جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہو گئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے؟“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُ‌سُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ‌ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ‌ ﴿١٨٤﴾
پھر بھی یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے وہ رسول جھٹلائے گئے ہیں جو روشن دلیلیں صحیفے اور منور کتاب لے کر آئے۔ (١)
١٨٤۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بد دل نہ ہوں، ایسا معاملہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو چکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَ‌كُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ‌ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُ‌ورِ‌ ﴿١٨٥﴾
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔ (١)
١٨٥۔١ اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کا بیان ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں جس نے، اچھا یا برا، جو کچھ کیا ہو گا، اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تیسرا، کامیابی کا معیار بتلایا گیا ہے کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لیا جس کے نتیجے میں جہنم سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔ چوتھا یہ کہ دنیا کی زندگی سامان فریب ہے، جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا، وہ ناکام و نامراد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا أَذًى كَثِيرً‌ا ۚ وَإِن تَصْبِرُ‌وا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ ﴿١٨٦﴾
یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی (١) اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔ (٢)
١٨٦۔١ اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبد اللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبد اللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو خاموش کرایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی یہ باتیں اس لیے کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندگان کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض و عناد کا مظہر ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم درگزر ہی سے کام لیں۔ (صحيح البخاری كتاب التفسير ملخصًا)
١٨٦۔٢ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن و تشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبد اللہ بن ابی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف سب و شتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضرورت تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَ‌اءَ ظُهُورِ‌هِمْ وَاشْتَرَ‌وْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُ‌ونَ ﴿١٨٧﴾
اور اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں، تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا۔ ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے۔
١٨٧۔١ اس میں اہل کتاب کو زجر و توبیخ کی جا رہی ہے کہ ان سے اللہ نے یہ عہد لیا تھا کہ کتاب الٰہی (تورات اور انجیل) میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں۔ لیکن ان لوگوں نے دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لیے اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ گویا اہل علم کو تلقین و تنبیہ ہے کہ ان کے ہاں جو علم نافع ہے، جس سے لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو سکتی ہو، وہ لوگوں تک ضرور پہنچانا چاہیے اور دنیاوی اغراض و مفادات کی خاطر ان کو چھپانا بہت بڑا جرم ہے۔ قیامت والے دن ایسے لوگوں کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی (کما فی الحدیث)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَ‌حُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٨٨﴾
وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔ (١)
١٨٨۔١ اس میں ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کیے جائیں جو انہوں نے نہیں کیے ہوتے۔ یہ بیماری جس طرح عہد رسالت کے بعض لوگوں میں تھی جس کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا۔ اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پروپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ۔ اس آیت کے سباق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف و کتمان کے مجرم تھے، مگر وہ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے، یہی حال آج کے باطل گروہوں کا بھی ہے، وہ بھی لوگوں کو گمراہ کر کے، غلط رہنمائی کرکے آیات الٰہی میں معنوی تحریف و تلبیس کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور یہ کہ ان کے دجل و فریب کاری کی انہیں داد دی جائے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٨٩﴾
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (١)
١٩٠۔١ یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقیناً اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے ان ہی اہل دانش کی صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ﴾ سے لے کر آخر سورت تک یہ آیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کے لیے اٹھتے، تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم، کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا، باب الدعاء فی صلٰوۃ اللیل وقیامہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يَذْكُرُ‌ونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُ‌ونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ رَ‌بَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌ ﴿١٩١﴾
جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ (١)
١٩١۔١ ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت و طاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لیے؟ اہل عقل و دانش کے لیے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہیہ کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو، وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں (دانش ور) سمجھا ہی اس کو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان وزمین کی تخلیق میں غورو فکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر اور بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو“ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) ایسے لوگ جو ہر وقت اللہ کو یاد کرتے اور رکھتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق اور اس کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جن سے خالق کائنات کی عظمت و قدرت،اس کا علم و اختیار اور اس کی رحمت و ربوبیت کی صحیح معرفت انہیں حاصل ہوتی ہے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ رب کائنات نے یہ کائنات یوں ہی بے مقصد نہیں بنائی ہے بلکہ اس سے مقصد بندوں کا امتحان ہے۔ جو امتحان میں کامیاب ہو گیا، اس کے لیے ابدالآباد تک جنت کی نعمتیں ہیں اور جو ناکام ہوا اس کے لیے عذاب نار ہے۔ اس لیے وہ عذاب نار سے بچنے کی دعا بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔
 
Top