- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّـهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّـهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّـهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿١٥٤﴾
پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی۔ (١) ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، (٢) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں کر رہے تھے (٣) اور کہتے تھے کہ ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے؟ (٤) آپ کہہ دیجئیے کہ کام کل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے، (٥) یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتے، (٦) کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ (٧) آپ کہہ دیجئے کہ گو تم اپنے گھروں میں ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے، (٨) اللہ تعالیٰ کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اس کو پاک کرنا تھا، (٩) اور اللہ تعالیٰ سینوں کے بھید سے آگاہ ہے۔ (١٠)
١٥٤۔١ مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کر دی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے سکینت اور نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میری ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا، وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا اور پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نُعَاسًا أَمَنَةً سے بدل ہے۔ طائفہ، واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر)
١٥٤۔٢ اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔
١٥٤۔٣ وہ یہ تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
١٥٤۔٤ یعنی کیا اب ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ کیا ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جا سکتی ہے؟
١٥٤۔٥ تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اس کے حکم سے ہو گی اور امر و نہی بھی اسی کا ہو گا۔
١٥٤۔٦ اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ رہنمائی کے طالب ہیں۔
١٥٤۔٧ یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔
١٥٤۔٨ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ کی طرف سے لکھ دی گئی ہے۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضروروہاں کھینچ لے جاتی؟
١٥٤۔٩ یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان، اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہو جائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔
١٥٤۔١٠ یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آ جاتے ہیں جنہیں عام لوگ بھی پھر دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔
پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی۔ (١) ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، (٢) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں کر رہے تھے (٣) اور کہتے تھے کہ ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے؟ (٤) آپ کہہ دیجئیے کہ کام کل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے، (٥) یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتے، (٦) کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ (٧) آپ کہہ دیجئے کہ گو تم اپنے گھروں میں ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے، (٨) اللہ تعالیٰ کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اس کو پاک کرنا تھا، (٩) اور اللہ تعالیٰ سینوں کے بھید سے آگاہ ہے۔ (١٠)
١٥٤۔١ مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کر دی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے سکینت اور نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میری ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا، وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا اور پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نُعَاسًا أَمَنَةً سے بدل ہے۔ طائفہ، واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر)
١٥٤۔٢ اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔
١٥٤۔٣ وہ یہ تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
١٥٤۔٤ یعنی کیا اب ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ کیا ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جا سکتی ہے؟
١٥٤۔٥ تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اس کے حکم سے ہو گی اور امر و نہی بھی اسی کا ہو گا۔
١٥٤۔٦ اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ رہنمائی کے طالب ہیں۔
١٥٤۔٧ یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔
١٥٤۔٨ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ کی طرف سے لکھ دی گئی ہے۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضروروہاں کھینچ لے جاتی؟
١٥٤۔٩ یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان، اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہو جائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔
١٥٤۔١٠ یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آ جاتے ہیں جنہیں عام لوگ بھی پھر دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔