- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ (١) پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (۲)
٥٩۔١ ”اولو الامر“ (اپنے میں سے اختیار والے) سے مراد بعض کے نزدیک امرا و حکام اور بعض کے نزدیک علماء و فقہاء ہیں مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ ﴿أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ﴾ (الاعراف: 54) "خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے حکم بھی اسی کا ہے" ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ﴾ (يوسف: 40) "حکم صرف اللہ ہی کا ہے"۔ لیکن چونکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (النساء: 80) "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی"۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امراء و حکام کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرا و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لیے ”أَطِيعُوا اللهَ“ کے بعد ”أَطِيعُوا الرَّسُولَ“ تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن ”أَطِيعُوا أُولِي الأَمْر“ ِنہیں کہا کیونکہ أُولِي الأَمْرِکی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الْخَالِقِ (وقال الألباني حديث صحيح- مشكوة نمبر 3696، في لفظ لمسلم لا طاعة في معصية الله، كتاب الإمارة باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية حديث نمبر1840) اور إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ (صحيح بخاری كتاب الأحكام باب نمبر 4) السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً "معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے"۔ یہی حال علماء و فقہاء کا بھی ہے۔ (اگر اولو الامر میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہو گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء و فقہاء بھی دینی امور و معاملات میں حکام کی طرح یقیناً مرجعِ عوام ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔
۵۹۔۲ اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد، قرآن کریم اور الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اب حدیث رسول ہے۔ یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لیے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے، جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور اس کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ (١) پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (۲)
٥٩۔١ ”اولو الامر“ (اپنے میں سے اختیار والے) سے مراد بعض کے نزدیک امرا و حکام اور بعض کے نزدیک علماء و فقہاء ہیں مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ ﴿أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ﴾ (الاعراف: 54) "خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے حکم بھی اسی کا ہے" ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ﴾ (يوسف: 40) "حکم صرف اللہ ہی کا ہے"۔ لیکن چونکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ﴿مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (النساء: 80) "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی"۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امراء و حکام کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرا و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لیے ”أَطِيعُوا اللهَ“ کے بعد ”أَطِيعُوا الرَّسُولَ“ تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن ”أَطِيعُوا أُولِي الأَمْر“ ِنہیں کہا کیونکہ أُولِي الأَمْرِکی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الْخَالِقِ (وقال الألباني حديث صحيح- مشكوة نمبر 3696، في لفظ لمسلم لا طاعة في معصية الله، كتاب الإمارة باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية حديث نمبر1840) اور إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ (صحيح بخاری كتاب الأحكام باب نمبر 4) السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً "معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے"۔ یہی حال علماء و فقہاء کا بھی ہے۔ (اگر اولو الامر میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہو گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء و فقہاء بھی دینی امور و معاملات میں حکام کی طرح یقیناً مرجعِ عوام ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔
۵۹۔۲ اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد، قرآن کریم اور الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اب حدیث رسول ہے۔ یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لیے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے، جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور اس کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔