• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّ‌ضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّـهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ وَاللَّـهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلًا ﴿٨٤﴾
تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا رہ، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے، ہاں ایمان والوں کو رغبت دلاتا رہ، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سخت قوت والا ہے اور سزا دینے میں بھی سخت ہے۔

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو شخص کسی نیکی یا بھلے کام کی سفارش کرے، اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا اور جو برائی اور بدی کی سفارش کرے اس کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُ‌دُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ﴿٨٦﴾
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو، (١) بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
٨٦۔١ تَحِيَّةٌ اصل میں تَحْيِيَةٌ (تَفْعِيلَةٌ) ہے۔ یا کے یا میں ادغام کے بعد تَحِيَّةٌ ہو گیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدُّعَاءُ بِالْحَيَاةِ) یہاں یہ سلام کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السّلام علیکم کے جواب میں ورحمتہ اللہ کا اضافہ اور السّلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کر دیا جائے۔ لیکن اگر کوئی السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے۔ (ابن کثیر) ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السّلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اس کے ساتھ ورحمۃ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند أحمد جلد 4، ص 439، 440)، یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لیے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمّہ یعنی یہود و نصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرا، اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیا جائے۔ (صحيح بخاری، كتاب الاستيذان- مسلم، كتاب السلام)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَ‌يْبَ فِيهِ ۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا ﴿٨٧﴾
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں وہ تم سب کو یقیناً قیامت کے دن جمع کرے گا، جس کے (آنے) میں کوئی شک نہیں، اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہو گا۔

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّـهُ أَرْ‌كَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِ‌يدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّـهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ﴿٨٨﴾
تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ (١) انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کر دیا ہے۔ (٢) اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کیے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالیٰ راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔ (٣)
٨٨۔١ یہ استفہام انکار کے لیے ہے، یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آ گئے تھے، کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ (صحیح بخاری سورۃ النساء، صحیح مسلم کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہیے۔ دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔
٨٨۔٢ ”كَسَبُوا“ (اعمال) سے مراد، رسول کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے ”أَرْكَسَهُمْ“ اوندھا کر دیا۔ یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کر دیا، یا اس کے سبب ہلاک کر دیا۔
٨٨۔٣ جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کر سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُ‌ونَ كَمَا كَفَرُ‌وا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُ‌وا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا ﴿٨٩﴾
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہو جاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ، (١) پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو (٢) اور قتل کرو جہاں بھی یہ ہاتھ لگ جائیں، (٣) خبردار! ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔
٨٩۔١ ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہو گی کہ اب یہ مخلص مسلمان بن گئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہو گی۔
٨٩۔٢ یعنی جب تمہیں ان پر قدرت و طاقت حاصل ہو جائے۔
٩٨۔٣ حِل ہو یا حَرم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَ‌تْ صُدُورُ‌هُمْ أَن يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ ۚ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا ﴿٩٠﴾
سوائے ان کے جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہوں جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے یا جو تمہارے پاس اس حالت میں آئیں کہ تم سے جنگ کرنے سے بھی تنگ دل ہیں اور اپنی قوم سے بھی جنگ کرنے میں تنگ دل ہیں (١) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے یقیناً جنگ کرتے، (٢) پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور تم سے لڑائی نہ کریں اور تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، (٣) تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان پر کوئی راہ لڑائی کی نہیں کی۔
٩٠۔١یعنی جن سے لڑنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس سے دو قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں۔ ایک وہ لوگ، جو ایسی قوم سے ربط و تعلق رکھتے ہیں یعنی ایسی قوم کے فرد ہیں یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے۔ دوسرے وہ جو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔
٩٠۔٢ یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ ان کو لڑائی سے الگ کر دیا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کر دیتا تو یقیناً وہ بھی تم سے لڑتے۔ اس لیے اگر واقعی لوگ جنگ سے کنارہ کش رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کرو۔
٩٠۔٣ کنارہ کش رہیں، نہ لڑیں، تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تاکید اور وضاحت کے لیے تین الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تاکہ مسلمان ان کے بارے میں محتاط رہیں کیونکہ جو جنگ و قتال سے پہلے ہی علیحدہ ہیں اور ان کی یہ علیحدگی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے، اسی لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے بطور امتنان اور احسان کے ذکر کیا ہے، تو ان کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کا رویّہ یا غیر محتاط طرز عمل ان کے اندر بھی مخالفت و مخاصمت کا جذبہ بیدار کر سکتا ہے جو مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے جب تک مذکورہ حال پر قائم رہیں، ان سے مت لڑو! اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا، یہ جنگ بدر والے دن مشرکین مکہ کے ساتھ میدان جنگ میں تو آئے تھے، لیکن یہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے، جیسے حضرت عباس رضی الله عنه عّم رسول وغیرہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی لیے ظاہری طور پر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے سے روک دیا اور انہیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔ ”سِلْمٌ“ یہاں ”مُسَالَمَةُ“ یعنی صلح کے معنی میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سَتَجِدُونَ آخَرِ‌ينَ يُرِ‌يدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُ‌دُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْ‌كِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَـٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا ﴿٩١﴾
تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے جن کی (بظاہر) چاہت ہے کہ تم سے بھی امن میں رہیں۔ اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں (١) (لیکن) جب کبھی فتنہ انگیزی (٢) کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اوندھے منہ اس میں ڈال دیئے جاتے ہیں، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تم سے صلح کا سلسلہ جنبانی نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں، (٣) تو انہیں پکڑو اور مار ڈالو جہاں کہیں بھی پا لو! یہی وہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں ظاہر حجت عنایت فرمائی ہے۔ (٤)
٩١۔١ یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا۔ یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم کے پاس جاتے تو شرک و بت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی ہم مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔
٩١۔٢ ”الفِتْنَة“ سے مراد شرک بھی ہو سکتا ہے۔ ”أُرْكِسُوا فِيهَا“ اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا ”الْفِتْنَة“ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
٩١۔٣ ”يُلْقُوا“ اور ”يَكُفُّوا“ کا عطف ”يَعْتَزِلُوكُمْ“ پر ہے یعنی سب نفی کے معنی میں ہیں، سب میں ”لم“ لگے گا۔
٩١۔٤ اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض و عناد ہے، تب ہی تو وہ بہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک یا تمہارے خلاف آمادۂ قتال ہونے) میں مبتلا ہو گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَ‌يْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٩٢﴾
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں (١) مگر غلطی سے ہو جائے (٢) (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرانا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ (٣) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں (٤) اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے۔ (٥) اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، (٦) پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں، (٧) اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لیے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
٩٢۔١ یہ نفی، نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے جیسے ﴿وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ﴾ (الأحزاب: 53) ”تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاو“ یعنی حرام ہے۔
٩٢۔٢ غلطی کے اسباب و وجوہ متعدد ہو سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہو جائے۔
٩٢۔٣ یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چیزیں ہیں۔ ایک بطور کفّارہ و استغفار ہے۔ یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے ”دِيَةٌ“ (خون بہا)۔ مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت ہے۔ اور دیت کی مقدار احادیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے، چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہو گی۔
ملحوظة: خیال رہے کہ قتل عمد میں قصاص یا دیت مغلظہ ہے اور دیتِ مغلظہ کی مقدار سو اونٹ ہے جو عمر اور وصف کے لحاظ سے تین قسم یا تین معیار کے ہوں گے۔ جب کہ قتل خطا میں صرف دیت ہے۔ قصاص نہیں ہے۔ اس دیت کی مقدار سو اونٹ ہے مگر معیار اتنا کڑا نہیں۔ علاوہ ازیں اس دیت کی قیمت سنن ابی داود کی حدیث میں 800 دینار یا 8 ہزار درہم اور ترمذی کی روایت میں بارہ ہزار درہم بتلائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں قیمت دیت میں کمی بیشی اور مختلف پیشوں والوں کے اعتبار سے اس کی مختلف نوعیتیں مقرر فرمائی تھیں۔ (ارواء الغلیل جلد: 8) جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دیت (سو اونٹ) کی بنیاد پر اس کی قیمت ہر دور کے اعتبار سے مقرر کی جائے گی۔ (تفصیل کے لیے شروح حدیث و کتب فقہ ملاحظہ ہوں)
٩٢۔٤ معاف کر دینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔
٩٢۔٥ یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہو گی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وراث حربی کافر ہیں، اس لیے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حق دار نہیں۔ بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس مسلمان نےاسلام قبول کرنے کے بعد چونکہ ہجرت نہیں کی، جب کہ ہجرت کی اس وقت بڑی تاکید تھی۔ اس کوتاہی کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے۔ (فتح القدیر)
٩٢۔٦ یہ ایک تیسری صورت ہے، اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے، بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہو گی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔
٩٢۔٧ یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہوں گے۔ البتہ عذر شرعی کی وجہ سے ناغہ ہونے کی صورت میں نئے سرے سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو، سفر کے عذرشرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن كثير)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ﴿٩٣﴾
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، (١) اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (٢)
۹۳۔۱ یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ 1- قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے)۔ 2- قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے، 3- قتل عمد جس کا مطلب ہے، ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً اس کی سزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہنا ہو گا، نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہو گا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا جرم ہے۔ احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
۹۳۔٢ مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علماء مذکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبولِ توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔ ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا﴾ (الفرقان: 70) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہر گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبہ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے۔ یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دے سکتا ہے۔ اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مُكْثٌ طَوِيلٌ (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لیے ہی ہے۔ علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے تو جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہو جائے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَ‌بْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَ‌ضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّـهِ مَغَانِمُ كَثِيرَ‌ةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿٩٤﴾
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں۔ (١) تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں (۲) پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہذا تم ضرور تحقیق و تفتیش کر لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
٩٤۔١ احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزرے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمانوں کو دیکھ کر چرواہے نے سلام کیا، بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لیے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے، چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کیے اسے قتل کر ڈالا، اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح بخاری، ترمذي تفسير سورة النساء) بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی اس چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے (صحيح بخاری، كتاب الديات) مطلب یہ تھا کہ اس قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔
٩٤۔۲ یعنی تمہیں چند بکریاں، اس مقتول سے حاصل ہو گئیں، یہ کچھ بھی نہیں اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر غنیمتیں ہیں جو اللہ و رسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں بھی مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ‌ أُولِي الضَّرَ‌رِ‌ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَ‌جَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٩٥﴾
اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں، (١) اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا، (۲) ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔
٩٥۔١ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی الله عنه (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کر سکیں گے درآں حالیکہ ہمارا گھر میں بیٹھ رہنا بطور شوق، یا جان کی حفاظت کے نہیں ہے بلکہ عذر شرعی کی وجہ سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ ( بغیر عذر کے) کا استثنا نازل فرمایا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ”حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ“ ان کو عذر نے روکا ہوا ہے (صحیح بخاری، کتاب الجہاد )
۹۵۔۲ یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہو گی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دَرَ‌جَاتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَ‌ةً وَرَ‌حْمَةً ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٩٦﴾
اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْ‌ضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُ‌وا فِيهَا ۚ فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً‌ا ﴿٩٧﴾
جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ (١) یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ (٢) فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔
٩٧۔١ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب وجوار میں مسلمان تو ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑکر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک جگہ مجتمع کرنے کے لیے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمان کو دیا جا چکا تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتلایا گیا ہے۔ جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دار الکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔
٩٧۔٢ یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ”ارض اللہ“ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہو گی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہو گی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کر کے جائے۔
 
Top