• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّ‌بِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ ﴿٣٧﴾
(حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں (١) اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
٣٧۔١ حضرت آدم عليہ السلام جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہو گئے۔ اس موقعے پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو (الاعراف) میں بیان کیے گئے ہیں ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا﴾ الآية بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الٰہی پر ”لا إِلهَ إِلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ“ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیاء عليہم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں، کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعا یہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾
ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔

وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩﴾
اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (۱)
٣٩۔١ قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا میں ہی رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم عليہ السلام کے واسطے سے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے کہ انبیاء عليہم السلام کے ذریعے سے میری ہدایت (زندگی گزارنے کے احکام و ضابطے) تم تک پہنچے گی، جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق، اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہو گا۔ "ان پر خوف نہیں ہو گا" کا تعلق آخرت سے ہے۔ أيْ: فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَهُ مِنْ أَمْرِ الآخِرَةِ۔ اور "حزن نہیں ہو گا" کا تعلق دنیا سے۔ عَلَى مَا فَاتَهُمْ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا (جو فوت ہو گیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے، ﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى﴾ (طٰہ: 123) جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہو گا اور نہ (آخرت میں) بدبخت۔" (ابن کثیر) گویا ﴿لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے۔ یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہو اور پھر اس ”مقام“ کا مفہوم بھی کچھ کا کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی اولیاء اللہ ہیں "اولیاء اللہ" کوئی الگ مخلوق نہیں۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْ‌هَبُونِ ﴿٤٠﴾
اے بنی اسرائیل! (١) میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
٤٠۔١ إِسْرَائِيلُ (بمعنی عبد اللہ) حضرت یعقوب عليہ السلام کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائیل کہا جاتا ہے یعنی یعقوب عليہ السلام کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب عليہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، جن سے یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء و رسل ہوئے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اس لیے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخرالزمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں بھی اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دیئے جائیں گے جو تمہاری غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا تم پر لاد دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ‌ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُ‌وا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ ﴿٤١﴾
اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس (١) کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت (٢) پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔
٤١۔١ ”بِهِ“ کی ضمیر قرآن کی طرف، یا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صحیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا، اس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) ”پہلے کافر نہ بنو“ کا مطلب ہے کہ ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لیے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے، مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کر چکے تھے۔ اس لیے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر و جحود کا وبال تم پر پڑے گا۔
٤١۔٢ ”تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو“ کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کر لو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور ثمن قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لیے ہے، جو بھی ابطال حق یا اثبات باطل یا کتمان علم کا ارتکاب اور احقاق حق سے محض طلب دنیا کے لیے، گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہو گا۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٤٢﴾
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ ﴿٤٣﴾
اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

أَتَأْمُرُ‌ونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ‌ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾
کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَ‌ةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥﴾
صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو (١) یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔ (۲)
٤٥۔١ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لیے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے اِذَا حَزَبَه أَمْرٌ فَزِعَ إِلَى الصَّلاةِ (احمد و ابوداود بحوالہ فتح القدیر) "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے"۔ (فتح القدیر)
٤٥۔٢ نماز کی پابندی عام لوگوں کے لیے گراں ہے، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لیے یہ آسان، بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو آسان کر دیتا اور آخرت سے بے فکری انسان کو بے عمل، بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَ‌بِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ﴿٤٦﴾
جو جانتے ہیں کہ بے شک وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٤٧﴾
اے اولاد یعقوب! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ (١)
٤٧۔١ یہاں سے دوبارہ بنی اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں، جو ان پر کیے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے، جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا، نہ سفارش قبول ہو گی، نہ معاوضہ دے کر چھٹکارا ہو سکے گا، نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی، یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنو اسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کر کے گنوا لی اور امت محمدیہ کو خَيْرُ أُمَّةٍ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں، اور ایمان و عمل سے محرومی پر سلب کر لیے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بد عملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے ”خَيْرُ أُمَّةٍ“ کے بجائے ”شَرُّ أمَّةٍ“ بنی ہوئی ہے۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالى۔ یہود کو یہ دھوکہ بھی تھا کہ ہم تو اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، اس لیے مؤاخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا، اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جو اہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے) اپنی بد عملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً شفاعت فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا (احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے) لیکن یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ إِحْدَاثٌ فِي الدِّينِ (بدعات) کے مرتکب اس سے محروم ہی رہیں گے۔ نیز بہت سے گناہ گاروں کو جہنم میں سزا دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا، کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابل برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کرکے معصیت کا ارتکاب کرتے رہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿٤٨﴾
اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اسکی بابت کوئی سفارش ہو گی اور نہ کوئی بدلہ اسکے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کئے جائیں گے۔

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿٤٩﴾
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں (١) سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔
٤٩۔١ آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں، بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے: ﴿وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْن﴾ ہے ”ہم نے آل فرعون کو غرق کر دیا“ یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر والے ہی نہیں تھے، اس کے فوجی اور دیگر پیروکار تھے۔ گویا قرآن میں ’’آل‘‘ مُتَّبِعِينَ (پیروکاروں) کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں ان شاء اللہ آئے گی۔

وَإِذْ فَرَ‌قْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ‌ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَ‌قْنَا آلَ فِرْ‌عَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٥٠﴾
اور جب ہم نے تمہارے لیے (١) دریا چیر (پھاڑ) دیا اور تمہیں اس سے پار کر دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔
٥٠۔١ سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۃ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا، جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْ‌بَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ﴿٥١﴾
اور ہم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور ظالم بن گئے۔ (١)
٥١۔١یہ گؤ سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نمائے سینا پہنچے . وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عليہ السلام کو تورات دینے کے لیے چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ عليہ السلام کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون وموسیٰ علیہما السلام) کی موجودگی کے باوصف بچھڑے کو اپنا (معبود) سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد و اعمال میں بری طرح مبتلا ہے، لیکن وہ سمجھتا یہ ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہو سکتا ہے؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے پجاریوں کے لیے خاص کر دیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے ہیں جو پتھر کے پجاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٥٢﴾
لیکن ہم نے باوجود اس کے پھر بھی تمہیں معاف کر دیا، تاکہ تم شکر کرو۔

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْ‌قَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿٥٣﴾
اور ہم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) کو تمہاری ہدایت کے لیے کتاب اور معجزے عطا فرمائے۔ (١)
٥٣۔١ یہ بھی بحر قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) ممکن ہے کتاب یعنی تورات ہی کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو، کیوں کہ ہر آسمانی کتاب حق و باطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے، یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِ‌ئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ عِندَ بَارِ‌ئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ ﴿٥٤﴾
جب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
٥٤۔١ جب حضرت موسیٰ عليہ السلام نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا، توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا : ﴿فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ ”اپنے کو آپس میں قتل کرو“ کی دو تفسیریں کی گئی ہیں : ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کر دیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ دوسری، یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کر دیا گیا اور جو اس سے محفوظ رہے تھے، انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَ‌ى اللَّـهَ جَهْرَ‌ةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٥٥﴾
اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی کی سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔
٥٥۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لیے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں، ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں جن پر بجلی گری، آخر والے اسے دیکھ رہے تھے، حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٥٦﴾
لیکن پھر اس لیے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا۔

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَ‌زَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٥٧﴾
اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا (١) (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
٥٧۔١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کر دیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔
٥٧۔١ مَنَّ، بعض کے نزدیک ترنجبین ہے، یا اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی، شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلا دقت بہم پہنچ جاتا تھا، اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بونے کے پیدا ہو جاتی ہے (تفسیر احسن التفاسیر) سلویٰ بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ (فتح القدیر)
 
Top