• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سورة المائدہ

(سورة المائدہ مدنی ہے اس میں ایک سو بیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ‌ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌ ۗ إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِ‌يدُ ﴿١﴾
اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو، (١) تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کیے گئے ہیں (٢) بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے (٣) مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے۔
١۔١ عُقُودٌ عَقْدٌ کی جمع ہے، جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں۔ اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہد و پیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی ہیں جن کا اللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھہرایا ہے اور عہد و پیمان و معاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔
١۔٢ بَهِيمَةٌ چوپائے (چار ٹانگوں والے جانور) کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بَهْمٌ، إِبْهَامٌ ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل و فہم میں چونکہ ابہام ہے، اس لیے ان کو بَهِيمَةٌ کہا جاتا ہے۔ ”أَنْعَامٌ“ اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے۔ یہ بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں، جن کی تفصیل سورۃ الانعام آیت نمبر143 میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، جن کا عموماً شکار کیا جاتا ہے، یہ بھی حلال ہیں۔ البتہ حالت احرام میں ان کا اور دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانورذُونَابٍ اور جو پرندے ذُومِخْلَبٍ نہیں ہیں، وہ سب حلال ہیں، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت نمبر 173 کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذُونَابٍ کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنے کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو اور چیرتا ہو، مثلاً شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا وغیرہ اور ذُومِخْلَبٍ کا مطلب ہے وہ پرندہ جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو۔ مثلاً شکرہ، باز، شاہین، عقاب وغیرہ۔
١۔٣ ان کی تفصیل آیت نمبر ٣ میں آرہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرِ‌ضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو (١) نہ ادب والے مہینوں کی (٢) نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں (٣) اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں، (٤) ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو، (٥) جن لوگوں نے تمہیں مسجد احرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ، (٦) نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو، (٧) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
٢۔١ شَعَائِرَ، شَعِيرَةٌ کی جمع ہے، اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسےعام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بے حرمتی اور بے توقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج و عمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ بھی مت بنو، کہ یہ بھی بے حرمتی ہی ہے۔
٢۔٢ (اشھر الحرام) مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ مراد یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے منسوخ مانا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں دونوں احکام اپنے اپنے دائرے میں ہیں جن میں تعارض نہیں۔
٢۔٣ هَدْيٌ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لیے ساتھ لے جاتے تھے۔ قَلائِدُ قلادَةٌ کی جمع ہے جو گلے کے پٹے کو کہا جاتا ہے، یہاں حج یا عمرہ کے موقع پر قربان کیے جانے والے ان جانوروں کو مراد لیا گیا ہے۔ جن کے گلوں میں علامت اور نشانی کے طور پر جوتے یا پٹے ڈال دیئے جاتے تھے پس قلائد سے مقصود وہی جانور ہوئے جنہیں حرم لے جایا جاتا تھا۔ یہ ھدی کی مزید تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کو کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔
٢۔٤ یعنی حج و عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو نہ انہیں تنگ کرو۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکٹھے حج و عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب آیت ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا﴾ (التوبہ: 28) ”مشرکین تو پلید ہیں، پس اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں“ نازل ہو گئی، تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ (فتح القدیر)
٢۔٥ یہاں امر اباحت یعنی جواز بتلانے کے لیے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لیے جائز ہے۔
٢۔٦ یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے چھ ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے اس روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔
٢۔٧ یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کر دیا گیا ہے۔ جو ایک مسلمان کے لیے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کر سکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنا سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ‌ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣﴾
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو (۱) اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، (۲) اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو (۳) اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو (٤) جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو (۵) اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو (٦) لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں (۷) اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو (۸) اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو (۹) یہ سب بد ترین گناہ ہیں، آج کفار دین سے ناامید ہو گئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے۔ (۱۰)
٣۔١ یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورۂ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ (دیکھیےآیت نمبر 173)
٣۔۲ گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔
٣۔۳ کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مر گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھا لیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کر دیا۔
بندوق کا شکار: بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائی گئی اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔
٣۔٤ چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔
٣۔۵ نَطِيحَةٌ، مَنْطُوحَةٌ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کئے وہ مر گیا۔
٣۔٦ یعنی شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جسے ذو ناب (کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے) اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانۂ جاہلیت میں مرجانے کے باوجود ایسے جانور کو کھا لیا جاتا تھا۔
٣۔۷ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی مُنْخَنِقَةٌ، مَوْقُوذَةٌ، مُتَرَدِّيَةٌ، نَطِيحَةٌ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پا لو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہیں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہو گا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب و حرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہیں اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔
٣۔۸ مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ، بناتے تھے۔ جسے نصب (تھان یا آستانہ) کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ ﴿وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾ ہی کی ایک شکل تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر، جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور (مرغا، بکرا وغیرہ) ذبح کرتے ہیں، یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ ﴿وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ میں داخل ہیں۔
٣۔۹ ﴿وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالأَزْلامِ﴾ کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے، تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا، پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے، معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے مراد تیر ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھے تھے۔ ایک افْعَلْ ( کر) دوسرے میں لا تَفْعَلْ (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افْعَلْ والا تیر نکل آتا تو وہ کام کر لیا جاتا، لا تَفْعَلْ والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور ”اسْتِمْدَادٌ بِغَيْرِ اللهِ“ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کر دیا گیا۔ استقسام کے معنی طلب قسمت ہیں۔ یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔
٣۔۱۰ یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِ‌حِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّـهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿٤﴾
آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں، (١) اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے (۲) پس جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لیا کرو۔ (۳) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔
٤۔۱ اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور حرام خبیث۔
٤۔۲ جَوَارِحُ، جَارِحٌ کی جمع ہے جو کاسب (کمانے والا) کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مُكَلِّبِينَ کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سدھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔
٤۔۳ ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لیے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لیے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کہ اگر اس نے اسے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی وہ مقتول شکار شدہ جانور حلال ہو گا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو۔ (صحيح بخاری، كتاب الذبائح والصيد، مسلم، كتاب الصيد)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٥﴾
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لیے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے (١) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں (٢) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
٥۔١ اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہو گا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ گویا ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔
٥۔٢ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاک دامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے، اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہو گئے۔ اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہو گا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ ایک جائز کام کے لیے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لیے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک مذکورہ دونوں چیزیں مفقود نہ ہو جائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہو سکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَ‌افِقِ وَامْسَحُوا بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُ‌وا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَ‌جٍ وَلَـٰكِن يُرِ‌يدُ لِيُطَهِّرَ‌كُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٦﴾
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اُٹھو تو اپنے منہ کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو (۱) اپنے سروں کو مسح کرو (۲) اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو، (۳) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر لو، (٤) ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم سے کوئی حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو (۵) اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا (٦) بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے، (۷) تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔
٦۔١ منہ دھوؤ یعنی ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔
٦۔۲ مسح پورے سر کا کیا جائے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کر لے۔ اگر سر پر پگڑی یا عمامہ ہو تو حدیث کی رو سے موزوں کی طرح اس پر بھی مسح جائز ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) علاوہ ازیں ایک مرتبہ ہی اس طرح مسح کر لینا کافی ہے۔
٦۔۳ أَرْجُلَكُمْ کا عطف وُجُوهَكُمْ پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! اور اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوئی ہیں (بشرطیکہ وضو کی حالت میں پہنی ہوں) تو حدیث کی رو سے پیر دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح بھی جائز ہے۔
ملحوظة: (1) اگر پہلے سے باوضو ہو تو نیا وضو کرنا ضروری نہیں۔ تاہم ہر نماز کے لیے تازہ وضو بہتر ہے۔ (2) وضو سے پہلے نیت فرض ہے۔ (3) وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنی بھی ضروری ہے۔ (4) داڑھی گھنی ہو تو اس کا خلال کیا جائے۔ (5) اعضا کو ترتیب وار دھویا جائے۔ (6) ”ان کے درمیان فاصلہ نہ کیا جائے“ یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں دیر نہ کی جائے۔ بلکہ سب اعضا تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے دھوئے جائیں۔ (7) اعضائے وضو میں سے کسی بھی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، ورنہ وضو نہیں ہو گا۔ (8) کوئی عضو بھی تین مرتبہ سے زیادہ نہ دھویا جائے۔ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، فتح القدیر و ایسر التفاسیر)
٦ ۔٤ جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض یا نفاس کا خون بند ہو جائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح القدیر و ایسر التفاسیر)
٦۔۵ اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 43 میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ رضی الله عنها کا ہار گم ہو گیا جس کی وجہ سے وہاں رکنا یا رکے رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لیے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر رضی الله عنہ نے آیت سن کر کہا ”اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لیے برکتیں نازل فرمائی ہیں اور یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ (تم لوگوں کے لیے سراپا برکت ہو) (صحیح بخاری۔ سورۃ المائدۃ)
٦۔٦ اسی لیے تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔
٦۔۷ اسی لیے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے یہ دعا یاد کر لی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ ﴿٧﴾
تم پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿٨﴾
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، (١) کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے، (٢) عدل کیا کرو جو پرہزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
٨۔١، ٢ پہلے جملے کی تشریح سورۃ النساء آیت نمبر 135 میں اور دوسرے جملہ کی سورۃ المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عادلانہ گواہی کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ سے ڈرو! اور اولاد کے درمیان انصاف کرو“ اور فرمایا کہ ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا“۔ (صحيح بخاری ومسلم، كتاب الهبة)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَأَجْرٌ‌ عَظِيمٌ ﴿٩﴾
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کے لیے وسیع مغفرت اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿١٠﴾
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وہ دوزخی ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١١﴾
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا (۱) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
١١۔۱ اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کیے ہیں۔ مثلاً اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تامل فرمایا ”اللہ“ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہو گئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر سے حسب معاہدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقا سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہو سکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ایسرالتفاسیر و فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ‌ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُ‌سُلِي وَعَزَّرْ‌تُمُوهُمْ وَأَقْرَ‌ضْتُمُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَ‌نَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ ۚ فَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١٢﴾
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا (١) اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے (۲) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔
١٢۔۱ جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہراً و باطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و صواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد و میثاق کو پامال کرنا شروع نہ کر دینا۔
١٢۔۲ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جبابرہ سے قتال کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پر بارہ نقیب مقرر فرما دیئے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لیے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و رہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُ‌وا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣﴾
پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کر دیئے کہ وہ کلام کو اپنی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں (١) اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے، (٢) ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی (٣) ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں (٤) پس تو انہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا رہ، (٥) بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
١٣۔١ یعنی اتنے انتظامات اور عہد مواعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی، جس کی بنا پر وہ لعنت الٰہی کے مستحق بنے۔ اس لعنت کے دنیاوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کر دیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پذیری سے محروم ہو گئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لیے بے کار ہو گئے، دوسرے، یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ یہ تحریف لفظی اور معنوی دونوں طرح کی ہوتی تھی جو اس بات کی دلیل تھی کہ ان کی عقل و فہم میں کجی آ گئی ہے اور ان کی جسارتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے کہ اللہ کی آیتوں تک میں تصرف کرنے سے انہیں گریز نہیں۔ بد قسمتی اس قساوت قلبی اور کلمات الٰہی میں تحریف سے امت محمدیہ کے افراد بھی محفوظ نہیں رہے۔ مسلمان کہلانے والے عوام نہیں خواص بھی، جہلاء ہی نہیں علماء بھی، ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وعظ و نصیحت اور احکام الٰہی کی یاد دہانی ان کے لیے بے کار ہے، وہ سن کر ان سے ذرا اثر قبول نہیں کرتے اور جن غفلتوں اور کوتاہیوں کا وہ شکار ہیں، ان سے تائب نہیں ہوتے۔ اسی طرح اپنی بدعات، خود ساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔
١٣۔٢ یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بے عملی اور بد عملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل سلیم رہے نہ ان کی فطرت مستقیم۔
١٣۔٣ یعنی شذر، خیانت اور مکر، ان کے کردار کا جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔
١٣۔٤ یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہو گئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔
١٣۔٥ عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا، جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا ﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ﴾ (التوبہ: 29) ”ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے“۔ بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات و ظروف کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے اور اس سے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہو جاتے ہیں جن کے لیے قتال کا حکم ہے۔
 
Top