• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٣٦﴾
یقین مانو کہ کافروں کے لیے اگر وہ سب کچھ ہو جو ساری زمین میں ہے بلکہ اسی کے مثل اور بھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن کے عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں تو بھی ناممکن ہے کہ ان کا فدیہ قبول کر لیا جائے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (١)
٣٦۔١ حدیث میں آتا ہے کہ ایک جہنمی کو جہنم سے نکال کر اللہ کی بارگارہ میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا ”تو نے اپنی آرام گاہ کیسی پائی؟“، وہ کہے گا بد ترین آرام گاہ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”کیا تو زمین بھر سونا فدیہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا پسند کرے گا؟“ وہ اثبات میں جواب دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”میں نے تو دنیا میں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیا تھا تو نے وہاں اس کی پروا نہیں کی“، اور اسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحيح مسلم، صفة القيامة، صحيح بخاری، كتاب الرقاق والأنبياء)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يُرِ‌يدُونَ أَن يَخْرُ‌جُوا مِنَ النَّارِ‌ وَمَا هُم بِخَارِ‌جِينَ مِنْهَا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴿٣٧﴾
یہ چاہیں گے کہ دوزخ میں سے نکل جائیں لیکن یہ ہرگز اس میں سے نہ نکل سکیں گے، ان کے لیے تو دوامی عذاب ہیں۔ (١)
٣٧۔١ یہ آیت کافروں کے حق میں ہے، کیونکہ مومنوں کو بالآخر سزا کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَالسَّارِ‌قُ وَالسَّارِ‌قَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾
چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو۔ (١) یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا، عذاب اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت و حکمت والا ہے۔
٣٨۔١ بعض فقہاء ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح وہ حرز (محفوظ جگہ) میں رکھی ہو یا غیر حرز میں۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہاء اس کے لیے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کی تعیین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب ربع دینار یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے، اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ (تفصیلات کے لیے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٩﴾
جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ اس کی طرف لوٹتا ہے (١) یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
٣٩۔١ اس توبہ سے مراد عند اللہ قبول توبہ ہے۔ یہ نہیں کہ توبہ سے چوری یا کسی اور قابل حد جرم کی سزا معاف ہو جائے گی۔ حدود، توبہ سے معاف نہیں ہوں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ‌ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٤٠﴾
کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِ‌عُونَ فِي الْكُفْرِ‌ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِ‌ينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُ‌وا ۚ وَمَن يُرِ‌دِ اللَّـهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِ‌دِ اللَّـهُ أَن يُطَهِّرَ‌ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٤١﴾
اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان (منافقوں) میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوا کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل با ایمان نہیں (١) اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں جو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے، وہ کلمات کو اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں متغیر کر دیا کرتے ہیں، کہتے کہ اگر تم یہی حکم دیئے جاؤ تو قبول کر لینا اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ (٢) رہنا اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں، ان کے لیے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔
٤١۔١ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کفر و شرک کے ایمان نہ لانے اور ہدایت کا راستہ نہ اپنانے پر جو قلق اور افسوس ہوتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو زیادہ غم نہ کرنے کی ہدایت فرما رہا ہے تاکہ اس اعتبار سے آپ کو تسلی رہے کہ ایسے لوگوں کی بابت عند اللہ مجھ سے باز پرس نہیں ہو گی۔
٤١۔٢ آیت نمبر 41 تا 44 کی شان نزول میں دو واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک تو دو شادی شدہ یہودی زانیوں (مرد و عورت) کا۔ انہوں نے اپنی کتاب تورات میں تو رد و بدل کر ڈالا تھا، علاوہ ازیں اس کی کئی باتوں پر عمل بھی نہیں کرتے تھے۔ ان ہی میں سے ایک حکم رجم بھی تھا جو ان کی کتاب میں شادی شدہ زانیوں کے لیے تھا اور اب بھی موجود ہے لیکن وہ چونکہ اس سزا سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آپس میں فیصلہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتے ہیں اگر انہوں نے ہمارے ایجاد کردہ طریقہ کے مطابق کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا کا فیصلہ کیا تو مان لیں گے اور اگر رجم کا فیصلہ دیا تو نہیں مانیں گے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کی بابت کیا ہے؟ انہوں نے کہا تورات میں زنا کی سزا کوڑے مارنا اور رسوا کرنا ہے۔ عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، جاؤ تورات لاؤ، تورات لا کر وہ پڑھنے لگے تو آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے کی آیات پڑھ دیں۔ عبد اللہ بن سلام رضی الله عنہ نے کہا ہاتھ اٹھاؤ، ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم تھی۔ بالآخر انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچ کہتے ہیں، تورات میں آیت رجم موجود ہے۔ چنانچہ دونوں زانیوں کو سنگسار کر دیا گیا۔ (ملاحظہ ہو صحیحین و دیگر کتب حدیث) ایک دوسرا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ یہود کا ایک قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے یہودی قبیلے سے زیادہ معزز اور محترم سمجھتا تھا اور اسی کے مطابق اپنے مقتول کی دیت سو وسق اور دوسرے قبیلے کے مقتول کی پچاس وسق مقرر کر رکھی تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تو یہود کے دوسرے قبیلے کو کچھ حوصلہ ہوا جس کے مقتول کی دیت نصف تھی اور اس نے دیت سو وسق دینے سے انکار کر دیا۔ قریب تھا کہ ان کے درمیان اس مسئلے پر لڑائی چھڑ جاتی، لیکن ان کے سمجھدار لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کرانے پر رضا مند ہو گئے اس موقعے پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں سے ایک آیت میں قصاص میں برابری کا حکم دیا گیا ہے۔ (یہ روایت مسند احمد میں ہے جس کی سند کو شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ہے۔ مسند احمد جلد 1، ص246۔ حدیث نمبر۔2212 ) امام ابن کثیر فرماتے ہیں ممکن ہے دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہو گئے ہوں اور ان سب کے لیے ان آیات کا نزول ہوا ہو۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّ‌وكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٤٢﴾
یہ کان لگا لگا کر جھوٹ کے سننے والے (١) اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں، اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے خواہ ان کے آپس کا فیصلہ کرو خواہ ان کو ٹال دو، اگر تم ان سے منہ پھیرو گے تو بھی یہ تم کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، یقیناً عدل والوں کے ساتھ اللہ محبت رکھتا ہے۔
٤٢۔١ سَمَّاعُونَ کے معنی (بہت زیادہ سننے والے) اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لiے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لیے سننا۔ بعض مفسرین نے پہلے معنی مراد لیے ہیں اور بعض نے دوسرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَ‌اةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّـهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَـٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٤٣﴾
(تعجب کی بات ہے کہ) وہ کیسے اپنے پاس تورات ہوتے ہوئے جس میں احکام الٰہی ہیں تم کو منصف بناتے ہیں پھر اس کے بعد بھی پھر جاتے ہیں، دراصل یہ ایمان و یقین والے ہیں ہی نہیں۔

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَ‌اةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ‌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّ‌بَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ‌ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُ‌وا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿٤٤﴾
ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے، یہودیوں میں (١) اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیاء (علیہ السلام) (٢) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا۔ (٣) اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے (٤) اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو، (٥) جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ (٦)
٤٤۔١ لِلَّذِينَ هَادُوا اس کا تعلق يَحْكُمْ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔
٤٤۔٢ أَسْلَمُوا یہ نَبِيِّينَ کی صفت بیان کی کہ وہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پیغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید و اخلاص پیش کی ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الأنبياء: 25) ”ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو“۔ اسی کو قرآن میں الدين بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ شوریٰ کی آیت 13 ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا﴾ الآية میں کہا گیا ہے، جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیاء کے لیے کیا تھا۔
٤٤۔٣ چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔
٤٤۔٤ کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
٤٤۔٥ یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو، نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لیے ان میں رد و بدل کرو۔
٤٤۔٦ پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہو گئے ہو؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُ‌وحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَ‌ةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٤٥﴾
اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، (١) پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں۔ (۲)
٤٥۔١ جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تھا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنو نضیر) کا دوسرے قبیلے (بنو قریظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بہ نسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔
٤٥۔۲ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے نے مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الٰہی کو اپنائے، اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الٰہی میں ظالم متصور ہو گا، فاسق متصور ہو گا اور کافر متصورہو گا۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کرکے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو گی؟
ملحوظة: علمائے اصولیین نے لکھا ہے کہ پچھلی شریعت کا حکم، اگر اللہ نے برقرار رکھا ہے تو ہمارے لیے بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس آیت میں بیان کردہ حکم غیر منسوخ ہے اس لیے یہ بھی شریعت اسلامیہ ہی کے احکام ہیں جیسا کہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے ﴿النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ (جان، بدلے جان کے) کے عموم سے دو صورتیں خارج ہوں گی۔ کہ کوئی مسلمان اگر کسی کافر کو قتل کر دے تو قصاص میں اس کافر کے بدلے مسلمان کو، اسی طرح غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری ونیل الاوطار وغیرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِ‌هِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْ‌يَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ‌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٦﴾
اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے (١) اور ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور وہ اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وو سراسر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کے لیے۔ (٢)
٤٦۔١ یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، اس کی تکذیب کرنے والے نہیں، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود بھی یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص و اہانت کی۔
٤٦۔٢ یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہو گئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات و انجیل اور دیگر صحائف آسمانی پر عمل منسوخ ہو گیا اور ہدایت و نجات کا واحد ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا۔ یہ گویا اسی بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح و کامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا، سرخرو رہے گا۔ جو کٹ گیا ناکامی و نامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ (وحدت ادیان) کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی، اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہو گیا تو انجیل منسوخ ہو گئی، انجیل پر عمل کرنا جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لیے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمدی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کو تسلیم کیے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو: سورۂ بقرہ آیت 62 کا حاشیہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧﴾
اور انجیل والوں کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق حکم کریں (١) اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ (بدکار) فاسق ہیں۔
٤٧۔١ اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تک تھا، جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور نبوت بھی ختم ہو گیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدی پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی اتباع کرے گا۔
 
Top