• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَ‌ىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُ‌وا بِهِ فَأَغْرَ‌يْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّـهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ﴿١٤﴾
اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں (١) ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض و عداوت ڈال دی جو تاقیامت رہے گی (٢) اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سب بتا دے گا۔
١٤۔١ نَصَارَى نُصْرَةٌ (مدد) سے ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوال ﴿مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ﴾ (اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے؟) کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا ﴿نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ﴾ (ہم اللہ کے مددگار ہیں) اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ نے عہد لیا، لیکن انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پذیری سے خالی اور ان کے کردار کھوکھلے ہو گئے۔
١٤۔٢ یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بے عملی کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لیے مسلط کر دی گئی۔ چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت و عناد رکھتے اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معبد میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کر دی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت و عناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَ‌سُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرً‌ا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ‌ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ‌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾
اے اہل کتاب! یقینًا تمہارے پاس ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آ چکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے (١) اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آ چکی ہے۔ (۲)
١٥۔١ یعنی انہوں نے تورات و انجیل میں جو تبدیلیاں اور تحریفات کیں، انہیں طشت از بام کیا اور جن کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کیا، جیسے سزائے رجم۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
١٥۔٢ نُورٌ اور كِتَابٌ مُبِينٌ دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان ”واو“، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لیے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ”يَهْدِي بِهِ اللهُ“ (کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے) اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ”يَهْدِي بِهِمَا اللهُ“ ہوتے (یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے) قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہ وگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ”نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ“ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لیے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا: إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمُ یہ روایت ترمذی اور ابوداود میں ہے۔ محدث البانی لکھتے ہیں: فَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ بِلا رَيبٍ وَهُو من الأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ عَلَى بُطْلانِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ [أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُور نَبِيِّكَ يَا جَابِرُ] (تعليقات المشكاة جلد 1 ص 34) مشہور حدیث جابر کہ ”اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا“، باطل ہے۔ (خلاصۂ ترجمہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِ‌ضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِ‌جُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ‌ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٦﴾
جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہبری کرتا ہے۔

لَّقَدْ كَفَرَ‌ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْ‌يَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَ‌ادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْ‌يَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٧﴾
یقیناً وہ لوگ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (١)
١٧۔١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور ملکیت تامہ کا بیان فرمایا ہے۔ مقصد عیسائیوں کے عقیدۂ الوہیت مسیح کا رد و ابطال ہے۔ حضرت مسیح کے عین اللہ ہونے کے قائل پہلے تو کچھ ہی لوگ تھے یعنی ایک ہی فرقہ۔ یعقوبیہ۔ کا یہ عقیدہ تھا لیکن اب تقریباً تمام عیسائی الوہیت مسیح کے کسی نہ کسی انداز سے قائل ہیں۔ اسی لیے مسیحیت میں اب عقیدۂ تثلیث یا اقانیم ثلاثہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بہرحال قرآن نے اس مقام پر تصریح کر دی کہ کسی پیغمبر اور رسول کو الٰہی صفات سے متصف قرار دینا کفر صریح ہے۔ اس کفر کا ارتکاب عیسائیوں نے، حضرت مسیح کو اللہ قرار دے کر کیا، اگر کوئی اور گروہ یا فرقہ کسی اور پیغمبر کو بشریت و رسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کرے گا تو وہ بھی اسی کفر کا ارتکاب کرے گا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذِهِ الْعَقِيدَةِ الْفَاسِدَةِ.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَ‌ىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ‌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ‌ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٨﴾
یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں، (١) آپ کہہ دیجئے کہ پھر تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث اللہ کیوں سزا دیتا ہے؟ (٢) نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عذاب کرتا ہے، (٣) زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
١٨۔١ یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا۔ اور اپنے آپ کو بھی ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) اور اس کا محبوب قرار دے لیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں ایک لفظ محذوف ہے یعنی ”أَتْبَاعُ أَبْنَاءِ اللهِ“ ہم اللہ کے بیٹوں (عزیر و مسیح) کے پیروکار ہیں۔ دونوں مفہوموں میں سے کوئی سا بھی مفہوم مراد لیا جائے، اس سے ان کے تفاخر اور اللہ کے بارے میں بے جا اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، جس کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں۔
١٨۔٢ اس میں ان کے مذکورہ تفاخر کا بے بنیاد ہونا واضح کر دیا گیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور چہیتے ہوتے یا محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم جو چاہو کرو، اللہ تعالیٰ تم سے بازپرس ہی نہیں کرے گا، تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں سزا کیوں دیتا رہا ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں فیصلہ، دعووں کی بنیاد پر نہیں ہوتا نہ قیامت والے دن ہو گا، بلکہ وہ تو ایمان و تقویٰ اور عمل دیکھتا ہے اور دنیا میں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتا ہے اور قیامت والے دن بھی اسی اصول پر فیصلہ ہو گا۔
١٨۔٣ تاہم یہ عذاب یا مغفرت کا فیصلہ اسی سنت اللہ کے مطابق ہو گا، جس کی اس نے وضاحت فرما دی ہے کہ اہل ایمان کے لیے مغفرت اور اہل کفر و فسق کے لیے عذاب، تمام انسانوں کا فیصلہ اسی کے مطابق ہو گا۔ اے اہل کتاب! تم بھی اسی کی پیدا کردہ مخلوق یعنی انسان ہو۔ تمہاری بابت فیصلہ دیگر انسانی مخلوق سے مختلف کیوں کر ہو گا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَ‌سُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَ‌ةٍ مِّنَ الرُّ‌سُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ‌ وَلَا نَذِيرٍ‌ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ‌ وَنَذِيرٌ‌ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٩﴾
اے اہل کتاب! بالیقین ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک وقفے کے بعد آ پہنچا ہے۔ جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کر رہا ہے تاکہ تمہاری یہ بات نہ رہ جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھلائی، برائی سنانے والا آیا ہی نہیں، پس اب تو یقیناً خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا آ پہنچا (١) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
١٩۔١ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو تقریباً 570 یا 600 سال کا فاصلہ ہے یہ زمانۂ فترت کہلاتا ہے۔ اہل کتاب کو کہا جا رہا ہے کہ اس فترت کے بعد ہم نے اپنا آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیج دیا ہے۔ اب تم یہ بھی نہ کہہ سکو گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر و نذیر پیغمبر ہی نہیں آیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٢٠﴾
اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا (١) اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔ (٢)
٢٠۔١ بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم کر دیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کابوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمراں عادل و متقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔
٢٠۔٢ یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من و سلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لیے دریا سے راستہ بنا دینا۔ وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و بعثت کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہو گیا ہے۔ ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: 110) ”تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لیے بنایا گیا ہے“، لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ﴿تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾ ”تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس مقصد کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْ‌ضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْ‌تَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِ‌كُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِ‌ينَ ﴿٢١﴾
اے میری قوم والو! اس مقدس زمین (١) میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے (٢) اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو (٣) کہ پھر نقصان میں جا پڑو۔
٢١۔١ بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے امارت مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہو گئے تھے اور پھر تب سے اس وقت تک مصر ہی میں رہے، جب تک کہ موسیٰ علیہ السلام انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لیے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنو اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے (ابن کثیر)
٢١۔٢ اس سے مراد وہی فتح و نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ان سے کر رکھا تھا۔
٢١۔٣ یعنی جہاد سے اعراض مت کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِ‌ينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُ‌جُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُ‌جُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ﴿٢٢﴾
انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم (بخوشی) چلے جائیں گے۔ (۱)
٢٢۔١ بنو اسرائیل عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے مرعوب ہو گئے اور پہلے مرحلے پر ہی ہمت ہار بیٹھے۔ اور جہاد سے دست بردار ہو گئے۔ اللہ کے رسول حضرت موسی علیہ السلام کے حکم کی کوئی پروا کی اور نہ اللہ تعالیٰ کے وعدۂ نصرت پر یقین کیا۔ اور وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ رَ‌جُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٣﴾
دو شخصوں نے جو خدا ترس لوگوں میں سے تھے، جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہا کہ تم ان کے پاس دروازے میں تو پہنچ جاؤ، دروازے پر قدم رکھتے ہی یقیناً تم غالب آ جاؤ گے، اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ (١)
٢٣۔١ قوم موسیٰ علیہ السلام میں صرف یہ دو شخص صحیح معنوں میں ایماندار نکلے، جنہیں نصرت الٰہی پر یقین تھا انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تم ہمت تو کرو، پھر دیکھو کس طرح اللہ تمہیں غلبہ عطا فرماتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ﴿٢٤﴾
قوم نے جواب دیا کہ اے موسٰی! جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے، اس لیے تم اور تمہارا پروردگار جا کر دونوں ہی لڑ بھڑ لو، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ (١)
٢٤۔١ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بد ترین بزدلی، سوء ادبی اور تمرد و سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”تو اور تیرا رب جا کر لڑے“۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لیے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ ”یا رسول اللہ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کہا تھا۔“ (صحيح بخاری، كتاب المغازی والتفسير)
 
Top