• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَ‌أَ مِنَ الْحَرْ‌ثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَـٰذَا لِلَّـهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَ‌كَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَ‌كَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّـهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَ‌كَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿١٣٦﴾
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیدا کیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے، (١) پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی (٢) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (٣) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
١٣٦۔١ اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لیے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کر لیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکاﻝ کر اس میں شامل کر لیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔
١٣٦۔٢ یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات و خیرات نہ کرتے۔
١٣٦۔٣ ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہو جاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کر لیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ‌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَ‌كَاؤُهُمْ لِيُرْ‌دُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْ‌هُمْ وَمَا يَفْتَرُ‌ونَ ﴿١٣٧﴾
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے (١) تاکہ وہ ان کو برباد نہ کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کر دیں (٢) اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے (٣) تو آپ نے ان کو اور جو کچھ یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔
١٣٧۔١ یہ اشارہ ہے ان کے بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔
١٣٧۔٢ یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کر دیں۔
١٣٧۔٣ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کر لیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہو سکتی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لیے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا هَـٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْ‌ثٌ حِجْرٌ‌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّ‌مَتْ ظُهُورُ‌هَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُ‌ونَ اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا افْتِرَ‌اءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُ‌ونَ ﴿١٣٨﴾
اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کچھ مواشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (١) اور مواشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کر دی گئی (٢) اور کچھ مواشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔ (٣) ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔
١٣٨۔١ اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حِجْرٌ( بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُورٌ (ممنوع) کے معنی میں ہے۔ یہ پہلی صورت ہے کہ یہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین ہی کے لیے ہوتی۔
١٣٨۔٢ یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے۔ جیسے بَحِيرَة، سَائِبَة وغیرہ کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
١٣٨۔٣ یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، اللہ کا نام نہ لیتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لیے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی ہم سب کچھ کر رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَـٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِ‌نَا وَمُحَرَّ‌مٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَ‌كَاءُ ۚ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿١٣٩﴾
اور وہ کہتے ہیں کہ جو چیز ان مواشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہیں۔ اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں سب برابر ہیں۔ (۱) ابھی اللہ ان کو ان کی غلط بیانی کی سزا دیئے دیتا ہے (۲) بلا شبہ وہ حکمت والا ہے اور وہ بڑا علم والا ہے۔
١٣٩۔١ یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے، ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودھ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے والا زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے، عورتوں کے لیے حرام ہے۔ ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مرد و عورت برابر ہیں۔
١٣٩۔۲ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم و حکمت کے مطابق وہ جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَدْ خَسِرَ‌ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ وَحَرَّ‌مُوا مَا رَ‌زَقَهُمُ اللَّـهُ افْتِرَ‌اءً عَلَى اللَّـهِ ۚ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٤٠﴾
واقع خرابی میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو محض حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈالا اور جو چیزیں ان کو اللہ نے کھانے پینے کودی تھیں ان کو حرام کر لیا محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔ بے شک یہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے اور کبھی راہ راست پر چلنے والے نہیں ہوئے۔

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُ‌وشَاتٍ وَغَيْرَ‌ مَعْرُ‌وشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْ‌عَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّ‌مَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ‌ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِ‌هِ إِذَا أَثْمَرَ‌ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِ‌فُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِ‌فِينَ ﴿١٤١﴾
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے وہ بھی جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں (١) اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے، (٢) ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اسکے کاٹنے کے دن دیا کرو (٣) اور حد سے (٤) مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ (٥)
١٤١۔١ مَعْرُوشَاتٍ کا مادہ عَرْشٌ ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں جو ٹٹیوں (چھپروں، منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیرمعروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز وغیرہ کی بیلیں ہیں یا وہ تنے دار درخت ہیں جو بیل کی شکل میں نہیں ہوتے۔ یہ تمام بیلیں، درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون و انار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔
١٤١۔٢ اس کے لیے دیکھئے آیت 99 کا حاشیہ۔
١٤١۔٣ یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کر لو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ اس حق سے مراد بعض علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقۂ واجبہ یعنی عُشر، دسواں حصہ (اگر زمین بارانی ہو) یا نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہو)
١٤١۔٤ یعنی صدقہ و خیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ کل کو تم ضرورت مند ہو جاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات و زکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاوز نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو، کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم دونوں کے لیے مضر ہے۔ اسراف کے یہ سارے ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ درست ہیں، اس لیے سارے ہی مفہوم مراد ہو سکتے ہیں۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں بھی اسراف سے منع فرمایا ہے، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنالیا ہے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
١٤١۔٥ اس لیے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں ہے، صدقہ و خیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں۔ ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب و محبوب ہے اور اسی کی تاکید کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْ‌شًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَ‌زَقَكُمُ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٤٢﴾
اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)(١)، جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہے کھاؤ (٢) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، (٣) بلا شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔
١٤٢۔١ حُمُولَةً (بوجھ اٹھانے والے) سے مراد، اونٹ، بیل، گدھا، خچر وغیرہ ہیں، جو باربرداری کے کام میں آتے ہیں اور فَرْشًا سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور۔ جیسے بکری وغیرہ جس کا تم دودھ پیتے یا گوشت کھاتے ہو۔
١٤٢۔٢ یعنی پھلوں، کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور ان کو تمہارے لیے خوراک بنایا ہے۔
١٤٢۔٣ جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کر لینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَ‌يْنِ حَرَّ‌مَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْ‌حَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٤٣﴾
(پیدا کیے) آٹھ نر و مادہ (١) یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم (٢) آپ کہئے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہوئے ہوں؟ (٣) تم مجھ کو کسی دلیل سے بتاؤ اگر سچے ہو۔ (٤)
١٤٣۔١ یعنی أَنْشَأَ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (اسی اللہ نے آٹھ زوﺝ پیدا کیے ) أَزْوَاجٌ، زَوْجٌ کی جمع ہے۔ ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوﺝ (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک ایک فرد کو بھی زوﺝ کہہ لیا جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کے لیے زوﺝ ہوتا ہے۔ قرآن کے اس مقام پر بھی ازواﺝ، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی آٹھ افراد اللہ نے پیدا کیے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ یہ نہیں کہ زوﺝ (معنی جوڑے) پیدا کیے کیوں کہ اس طرح تعداد آٹھ کے بجائے سولہ ہو جائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔
١٤٣۔٢ یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم سے نر اور مادہ ہے یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کیے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا بھی شامل ہے)۔
١٤٣۔٣ مشرکین جو بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کر لیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو کسی کو بھی حرام نہیں کیا ہے۔
١٤٣۔٤ تمہارے پاس حرام قرار دینے کی کوئی یقینی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِيرَةٌ، سَائِبَةٍ، وَصِيلَةٍ اورحَامٍ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔


تمہارے پاس حرام کر دینے کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِیْرَۃ، سَاَئِبَۃِ، وَصِیْلَۃِ اور حَامِ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ‌ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَ‌يْنِ حَرَّ‌مَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْ‌حَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّـهُ بِهَـٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿١٤٤﴾
اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم (١) آپ کہئے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہوئے ہوں؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا؟ (٢) تو اس سے زیادہ کون ظالم ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے، (٣) تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے یقیناً اللہ تعالیٰ ظالم کو راست نہیں دکھلاتا۔
١٤٤۔١ یہ بھی ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر اور مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہو گئیں۔
١٤٤۔٢ یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔
١٤٤۔٣ یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا تھا (صحيح بخاری سورة المائدة- صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون والجنة ... يدخلها الضعفاء) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمرو بن لحی، خزاعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا والی بنا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی اور حجاز میں بت قائم کر کے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کر کے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کر لینا ، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّ‌مًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ‌ فَإِنَّهُ رِ‌جْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ‌ غَيْرَ‌ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَ‌بَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٤٥﴾
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لیے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیوں کہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے لیے نامزد کر دیا گیا ہو۔ (١) پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔
١٤٥۔١ اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۂ بقرہ 173 کے حاشیے میں گزر چکی ہے۔ یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمۂ حصر سے کیا گیا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آ رہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے، اس سیاق اور ضمن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو اس سے مقصود مشرکین کے حرام کردہ جانوروں کی حلت ہے یعنی وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ حرام ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی ذکر ضرور کرتا۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینًا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض اور محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پرندوں اور درندوں کے حلت و حرمت معلوم کرنے کے لیے دو اصول بیان فرما دیئے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ ”او فِسْقًا“ کا عطف ”لَحْمَ خِنْزِير“ پر ہے۔ اس لیے منصوب ہے، معنی ہیں أَيْ: ذُبِحَ عَلَى الأَصْنَامِ، (وہ جانور جو بتوں کے نام پر ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں) یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جائے، تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں، غیراللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور صرف اسی کے تقرب و نیاز کے لیے کیا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّ‌مْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ‌ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ‌ وَالْغَنَمِ حَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُ‌هُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿١٤٦﴾
اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے (١) اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کر دی تھیں مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہو۔ (٢) ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی (٣) اور ہم یقیناً سچے ہیں۔ (٤)
١٤٦۔١ ناخن والے جانور سے مراد وہ ہاتھ والے جانور ہیں جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شترمرغ، بطخ، قاز، گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لیے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔
١٤٦۔٢ یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (یا دنبے کی چکتی ہو) یا انتڑیوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ چربی کی یہ مقدار حلال تھی۔
١٤٦۔٣ یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کے اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔
١٤٦۔٤ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینًا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے ہیں۔
 
Top