• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَمَن يُرِ‌دِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَ‌حْ صَدْرَ‌هُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِ‌دْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَ‌هُ ضَيِّقًا حَرَ‌جًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّ‌جْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٢٥﴾
سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے جس کو بے راہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے، (١) اس طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے۔ (٢)
١٢٥۔١ یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں ہے، اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کر دے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لیے کھول دے۔
١٢٥۔٢ یعنی جس طرح سینہ تنگ کر دیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَهَـٰذَا صِرَ‌اطُ رَ‌بِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُ‌ونَ ﴿١٢٦﴾
اور یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے۔ ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کر دیا۔

لَهُمْ دَارُ‌ السَّلَامِ عِندَ رَ‌بِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢٧﴾
ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے۔ (١)
١٢٧۔١ یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر و ضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان و ہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کارساز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَوْمَ يَحْشُرُ‌هُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ‌ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْ‌تُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَ‌بَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ‌ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿١٢٨﴾
اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا، (کہے گا) اے جماعت جنات کی! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لیے (١) جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا (٢) اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آ پہنچے جو تو نے جو ہمارے لیے معین فرمائی، (۳) اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے، ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے۔ (٤) بے شک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے۔
١٢٨۔١ یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تم نے گمراہ کر کے اپنا پیروکار بنا لیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۂ یٰسین میں فرمایا: ”اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کر دیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور اس شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر دیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے؟“ (یسین:60/62)
١٢٨۔٢ جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے کیا فائدہ حاصل کیا؟ اس کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بنا کر ان سے تلذذ حاصل کرنا ہے اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطانوں نے گناہوں کو ان کے لیے خوبصورت بنا دیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین و جنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بے وقوف بنا کر فائدہ اٹھایا اور انسانوں کا فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انسان جنات کی بیان کردہ جھوٹی یا اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے رہے۔
١٢٨۔٣ یعنی قیامت واقع ہو گئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانہ ہے۔
١٢٨۔٤ اور اللہ کی مشیت کفار کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہی ہے جس کی اس نے بار بار قرآن کریم میں وضاحت کی ہے۔ بنا بریں اس سے کسی کو مغالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ استثنا اللہ تعالیٰ کے مطلق ارادہ کے بیان کے لیے ہے جسے کسی چیز کے ساتھ مقید نہیں کیا جا سکتا اس لیے اگر وہ کفار کو جہنم سے نکالنا چاہے تو نکال سکتا ہے اس سے نہ وہ عاجز ہے نہ کوئی دوسرا روکنے والا۔ (ایسر التفاسیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٢٩﴾
اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب۔ (١)
١٢٩۔١ یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کا ساتھی اور مددگار بنایا (جیسا کہ گذشتہ آیت میں گزرا) اسی طرح ہم ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کر دیتے ہیں اس طرح ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک و تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا مَعْشَرَ‌ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُ‌سُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُ‌ونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّ‌تْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِ‌ينَ ﴿١٣٠﴾
اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی پیغمبر نہیں آئے تھے، (١) جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیتے؟ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے۔ (٢)
١٣٠۔١ رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے پہلے سے ہی ہے تو ان کی ہدایت کے لیے انہی میں سے کوئی نبی آیا ہو گا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہو سکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت بہرحال تمام جن وانس کے لیے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔
١٣٠۔٢ میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الانعام: 23) اور کبھی اقرار کیے بغیر چارہ نہیں ہو گا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ أَن لَّمْ يَكُن رَّ‌بُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَ‌ىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ ﴿١٣١﴾
یہ اس وجہ سے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بے خبر ہوں۔ (١)
١٣١۔١ یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کر دیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۃ فاطر ٤٢، سورۃ نحل ٦٢، سورۃ بنی اسرائیل ١٥ اور سورہ ملک ٨،٩ وغیرہ میں بیان کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلِكُلٍّ دَرَ‌جَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ۚ وَمَا رَ‌بُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ﴿١٣٢﴾
اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب (١) ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔
١٣٢۔١ یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے باہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق و تفاوت ہو گا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَرَ‌بُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّ‌حْمَةِ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّ‌يَّةِ قَوْمٍ آخَرِ‌ينَ ﴿١٣٣﴾
اور آپ کا رب بالکل غنی ہے رحمت والا ہے۔ (١) اگر وہ چاہے تو تم سب کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہای جگہ آباد کر دے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ (٢)
١٣٣۔١ وہ غنی (بے نیاز) ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لیے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لیے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔
١٣٣۔۲ یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیرمحدود قدرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست و نابود کر دے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کر دے جو تم جیسی نہ ہو۔ مزید ملاحظہ ہو سورہ نساء ۱۳۳، سورہ ابراہیم ۲۰، سورہ فاطر ۱۵،۱۷، سورہ محمد ۳۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴿١٣٤﴾
جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ بے شک آنے والی چیز ہے تم عاجز نہیں کر سکتے۔
١٣٤۔١ اس سے مراد قیامت ہے۔ (اور تم عاجز نہیں کر سکتے) کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہو چکے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ‌ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿١٣٥﴾
آپ یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں، (١) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لیے نافع ہو گا۔ یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہو گی۔
١٣٥۔١ یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے بھی واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ﴾ (سورة هود:٢٢٢۔٢٢١) ”جو ایمان نہیں لاتے، ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں“۔
١٣٥۔۲ جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھایا، آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور اس کے فتح کے بعد عرب قبائل فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہو گئے اور پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا اور یہ دائرہ پھر پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔
 
Top