• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٩٤﴾
واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے ہی بندے ہیں (١) سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہیے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو۔
١٩٤۔١ یعنی جب وہ زندہ تھے۔ بلکہ اب تو تم خود ان سے زیادہ کامل ہو، اب وہ دیکھ نہیں سکتے، تم دیکھتے ہو۔ وہ سن نہیں سکتے، تم سنتے ہو۔ وہ کسی کی بات سمجھ نہیں سکتے، تم سمجھتے ہو۔ وہ جواب نہیں دے سکتے، تم دیتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین، جن کی مورتیاں بنا کر پوجتے تھے، وہ بھی پہلے اللہ کے بندے یعنی انسان ہی تھے، جیسے حضرت نوح عليہ السلام کی قوم کے پانچ بتوں کی بابت صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
أَلَهُمْ أَرْ‌جُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ قُلِ ادْعُوا شُرَ‌كَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُ‌ونِ ﴿١٩٥﴾
کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو۔ (٢)
١٩٥۔١ یعنی اب ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی دیکھنے، سننے، سمجھنے اور چلنے کی طاقت ختم ہ وگئی۔ اب ان کی طرف منسوب یا تو پتھر یا لکڑی کی خود تراشیدہ مورتیاں ہیں یا گنبد، قبے اور آستانے ہیں جو ان کی قبروں پر بنا لیے گئے اور یوں استخواں فروشی کا کاروبار فروغ پذیر ہے۔
ع
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
١٩٥۔٢ یعنی اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ یہ تمہارے مددگار ہیں تو ان سے کہو کہ میرے خلاف تدبیر کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّـهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ﴿١٩٦﴾
یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ‌كُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُ‌ونَ ﴿١٩٧﴾
اور تم جن لوگوں کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے ہیں (١)
١٩٧۔١ جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہوں، وہ بھلا دوسروں کی مدد کیا کریں گے؟
جو خود محتاج ہووے دوسرے کا
بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَ‌اهُمْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُ‌ونَ ﴿١٩٨﴾
اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں (١) اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔
١٩٨۔١ اس کا وہی مفہوم ہے جو آیت ١٩٣ کا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾
آپ درگزر اختیار کریں (١) نیک کام کی تعلیم دیں (٢) اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جائیں۔ (٣)
١٩٩۔١ بعض علماء نے اس کے معنی کیے ہیں ”خُذْ مَا عَفَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ أَيْ: مَا فَضَلَ“ یعنی ”جو ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو“ اور یہ زکوٰۃ کی فرضیت سے قبل کا حکم ہے۔ (فتح الباري، جلد 8، ص 305) لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام ابن جریر اور امام بخاری وغیرہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر رضی الله عنہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر ان پر تنقید کرنے لگے کہ آپ ہمیں نہ پوری عطا دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر رضی الله عنہ غضب ناک ہوئے، یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر رضی الله عنہ کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھیتجے تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنه سے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا تھا۔ ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ [الأعراف:199] ”درگزر کو اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے“۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے“۔ جس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے درگزر فرما دیا۔ ”وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللهِ“ اور حضرت عمر رضی الله عنہ اللہ کی کتاب کا حکم سن کر فوراً گردن خم کر دینے والے تھے۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الأعراف) اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کر دینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلۂ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
١٩٩۔٢ ”عُرْفٌ“ سے مراد معروف یعنی نیکی ہے۔
١٩٩۔٣ یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرما لیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠﴾
اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے (١) بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
٢٠٠۔١ اور اس موقعے پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُ‌وا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُ‌ونَ ﴿٢٠١﴾
یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آ جاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ (١)
٢٠١۔١ اس میں اہل تقویٰ کی بابت بتلایا گیا ہے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہتے ہیں۔ طائف یا طیف، اس تخیل کو کہتے ہیں جو دل میں آئے یا خواب میں نظر آئے۔ یہاں اسے شیطانی وسوسے کے معنی میں استعمال کیا گیا، کیونکہ وسوسۂ شیطانی بھی خیالی تصورات کے مشابہ ہے۔ ( فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُ‌ونَ ﴿٢٠٢﴾
اور جو شیاطین کے طابع ہیں وہ ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وہ باز نہیں آتے۔ (١)
٢٠٢۔١ یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچے لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان ان کو لے جانے میں کوتاہی کمی نہیں کرتے۔ یعنی لا يُقْصِرُونَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور إِخْوانُ الكُفَّارِ شیاطین بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّ‌بِّي ۚ هَـٰذَا بَصَائِرُ‌ مِن رَّ‌بِّكُمْ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠٣﴾
اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے؟ (١) آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔ (٢)
٢٠٣۔١ مراد ایسا معجزہ ہے جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق ظاہر کر کے دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطالبات سورۂ بنی اسرائیل، آیت:90۔93 میں بیان کیے گئے ہیں۔
٢٠٣۔٢ لَوْلا اجْتَبَيْتَهَا کے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا؟ اس کے جواب میں بتلایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے، یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر (دلائل و براہین) اور ہدایت وہ رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لانے والا ہو۔
مراد ایسا معجزہ جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطا بات سورہ بنی اسرائیل، آیت ٩٠۔٩٣ میں بیان کیے گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا قُرِ‌ئَ الْقُرْ‌آنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٢٠٤﴾
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔ (١)
٢٠٤۔١ یہ ان کافروں کو کہا جا رہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو کہتے تھے: ﴿لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ﴾ [فصلت:26] ”یہ قرآن مت سنو اور شور کرو“، ان سے کہا گیا کہ اس کے بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ۔ بعض ائمۂ دین اسے عام مراد لیتے ہیں جب بھی قرآن پڑھا جائے، چاہے نماز ہو یا غیر نماز، سب کو خاموشی سے قرآن سننے کا حکم ہے اور پھر وہ اس عموم سے استدلال کرتے ہوئے جہری نمازوں میں مقتدی کے سورۂ فاتحہ پڑھنے کو بھی اس قرآنی حکم کے خلاف بتاتے ہیں۔ لیکن دوسرے علماء کی رائے یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت کو صرف کفار کے متعلق ہی سمجھنا صحیح ہے، جیسا کہ اس کے مکی ہونے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن اگر اسے عام سمجھا جائے تب بھی اس عموم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدیوں کو خارج فرما دیا اور یوں قرآن کے اس عموم کے باوجود جہری نمازوں میں مقتدیوں کا سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہو گا۔ کیونکہ قرآن کے اس عموم کی یہ تخصیص صحیح و قوی احادیث سے ثابت ہے۔ بنا بریں جس طرح اور بعض عمومات قرآنی کی تخصیص احادیث کی بنیاد پر تسلیم کی جاتی ہے، مثلاً آیت ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا﴾ الآية (النور:2) کے عموم سے شادی شدہ زانی کا اخراج، اور ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ﴾ (المائدۃ:38) کے عموم سے ایسے چور کا اخراج یا تخصیص جس نے ربع دینار سے کم مالیت کی چیز چوری کی ہو یا چوری شدہ چیز، حرز میں نہ رکھی ہو، وغیرہ۔ اسی طرح ﴿فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا﴾ کے عمومی حکم سے مقتدی خارج ہوں گے اور ان کے لیے جہری نمازوں میں بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہو گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ (جیسا کہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں یہ احادیث بیان کی گئی ہیں)۔
 
Top