• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أُمَمًا ۖ مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَبَلَوْنَاهُم بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ ﴿١٦٨﴾
اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کردیں۔ بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح کے تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے شاید باز آجائیں (١)۔
١٦٨۔١ اس میں یہود کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے ان میں سے بعض کے نیک ہونے کا ذکر ہے۔ اور ان دونوں طریقوں سے آزمائے جانے کا بیان ہے کہ شاید وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِ‌ثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَ‌ضَ هَـٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ‌ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَ‌ضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَ‌سُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ‌ الْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿١٦٩﴾
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وہ اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں (١) اور کہتے ہیں ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی (٢) حالانکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف سے بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں (٣) اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا (٤) اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقوٰی رکھتے ہیں، پھر کیا تم نہیں سمجھتے۔
(۱) خلف (لام پر فتح کیساتھ) اولاد صالح کو اور خلف (بسکون اللام) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔
١٦٩۔١ أدنی دنو (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَآءَۃ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر گرا پڑا مال ہے۔ مطلب دونوں سے اس دنیا کے مال متاع کے حرص کی وضاحت ہے۔
١٦٩۔٢ یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں، جیسے آجکل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔
١٦٩۔٣ اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔
١٦٩۔٤ اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہو سکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّیْحُ الاَ ثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کر دیا یعنی ان پر عمل ترک کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ‌ الْمُصْلِحِينَ ﴿١٧٠﴾
اور جو لوگ کتاب کے پابند ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں ہم ایسے لوگوں کو جو اپنی اصلاح کریں ثواب ضائع نہ کریں گے (١)
١٧٠۔١ ان لوگوں میں سے جو تقوٰی کا راستہ اختیار کرلیں، کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں۔ جس سے مراد اصلی تورات ہے اور جس پر عمل کرتے ہوئے نبوت محمدی پر ایمان لے آئیں، نماز وغیرہ کی پابندی کریں، تو اللہ ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ اس میں ان اہل کتاب (سیاق کلام سے یہاں
بطور خاص یہود) کا ذکر ہے جو تقوٰی، تمسک یا کتاب اور اقامت صلٰوۃ کا اہتمام کریں اور ان کے لئے آخرت کی خوشخبری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور رسالت محمدیہ پر ایمان لے آئیں۔ کیونکہ اب پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُ‌وا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٧١﴾
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق کر دیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ (١)۔
١٧١۔١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس تورات لائے اور اس کے احکام ان کو سنائے، تو انہوں نے پھر حسب عادت ان پر عمل کرنے سے انکار و اعراض کیا جس پر اللہ تعالٰی نے ان پر پہاڑ کو بلند کر دیا کہ تم پر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا، جس سے ڈرتے ہوئے انہوں تورات پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ رفع جبل کا یہ واقعہ ان کے مطالبے پر پیش آیا، جب انہوں نے کہا کہ ہم تورات پر عمل اس وقت کریں گے جب اللہ تعالٰی پہاڑ کو ہمارے اوپر بلند کرکے دکھائے، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے واللہ اَعلَم۔ یہاں مطلق پہاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل سورہ بقرہ آیت ٦۳اور آیت ۹۳میں دو جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں اس کا نام صراحت کے ساتھ کوہ طور بتلایا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ أَخَذَ رَ‌بُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِ‌هِمْ ذُرِّ‌يَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَ‌بِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ (١) تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بےخبر تھے۔
١٧٢۔١ یہ عہد حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک حدیث میں اس طرح آتی ہے ' عرفہ والے دن نعمان جگہ میں اللہ تعالٰی نے اصلاب آدم سے عہد (میثاق) لیا۔ پس آدم کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد کو نکالا اور اس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا، ' کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ' سب نے کہا ' کیوں نہیں ' ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں واسنادہ لامطعن فیہ (فتح القدیر) اس کی سند میں کوئی طعن نہیں نیز امام شوکانی فرماتے ہیں۔ یہ عالم ذر کہلاتا ہے اس کی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے جس سے عدول اور کسی اور مفہوم کی طرف جاناصحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مرفوع حدیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے اور اسے مجاز پر بھی محمول کرناجائز نہیں ہے۔ بہرحال اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اسی مفہوم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے اس کا ناک کان کٹا نہیں ہوتا۔ اور صحیح مسلم کی روایت ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا) پیدا کیا ہے۔ پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کردیتا ہے۔ الحدیث۔ یہ فطرت یادین فطرت یہی رب کی توحید اور اس کی نازل کردہ شریعت ہے جو اب اسلام کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَ‌كَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّ‌يَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾
یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ (١)۔
١٧٣۔١ یعنی ہم نے یہ اخذ عہد اپنی ربوبیت کی گواہی اس لئے لی تاکہ تم یہ عذر پیش نہ کر سکو کہ ہم تو غافل تھے یا ہمارے باپ دادا شرک کرتے تھے، یہ عذر قیامت والے دن بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہونگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ ﴿١٧٤﴾
ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿١٧٥﴾
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا (١)
١٧٥۔١ مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا۔ تاہم اس کے تعیین میں کوئی مسند بات مروی بھی نہیں۔ اس لئے اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ شِئْنَا لَرَ‌فَعْنَاهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْ‌ضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُ‌كْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿١٧٦﴾
اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے (١) یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں (٢)۔
١٧٦۔١ لَھَت،ُ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان باہر نکالنے کو، کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اسکے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہو یا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہرحال میں زبان باہر نکالے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال و متاع کے لئے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔
١٧٦۔٢ اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ ﴿١٧٧﴾
اور ان لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے (١) جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اپنا نقصان کرتے ہیں
١٧٧۔١ مثلاً تمییز ہے۔ اصل عبارت یوں ہوگی :
' سَاَءَ مَثَلاً! ( مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا) 7۔ الاعراف:176) '
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿١٧٨﴾
جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جسے وہ گمراہ کردے سو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں (١)۔
١٧٨۔١ یہ اس کے قانون مشیت کا بیان ہے جس کی وضاحت پہلے دو تین مرتبہ کی جاچکی ہے۔
 
Top