• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢٥﴾
اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں (١) اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
٢٥۔١ اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَاذْكُرُ‌وا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِ‌هِ وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٢٦﴾
اور اس حالت کو یاد کرو! جب کہ تم زمین میں قلیل تھے، کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں، سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو (١)۔
٢٦۔١ اس میں مکی زندگی کے شدائد و خطرات کا بیان اور اس کے بعد مدنی زندگی میں مسلمان جس آرام و راحت اور آسودگی سے بفضل الٰہی ہمکنار ہوئے، اس کا تذکرہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧﴾
اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو (١)۔
٢٧۔١ اللہ اور رسول کے حقوق میں خیانت یہ ہے کہ جلوت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع دار بن کر رہے اور خلوت میں اس کے برعکس معصیت کار۔ اسی طرح یہ بھی خیانت ہے کہ فرائض میں سے کسی فرض کا ترک اور نواہی میں سے کسی بات کا ارتکاب کیا جائے اور ایک شخص دوسرے کے پاس جو امانت رکھواتا ہے اس میں خیانت نہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امانت کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اکثر خطبوں میں یہ ضرور ارشاد فرماتے تھے ' اس کا ایمان نہیں، جس کے اندر امانت کی پاسداری نہیں اور اس کا دین نہیں، جس کے اندر دین کی پابندی کا احساس نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّـهَ عِندَهُ أَجْرٌ‌ عَظِيمٌ ﴿٢٨﴾
اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے (١) اور اس بات کو جان رکھو کہ اللہ تعالٰی کے پاس بڑا بھاری اجر ہے۔
٢٨۔١ مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز پر مجبور کرتی ہے اس لئے ان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں؟ اگر پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہے۔ بصورت دیگر ناکام۔ اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لئے عذاب الٰہی کا باعث بن جائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْ‌قَانًا وَيُكَفِّرْ‌ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿٢٩﴾
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالٰی تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالٰی بڑے فضل والا ہے۔
٢٩۔١ تقویٰ کا مطلب ہے، اوامر الٰہی کی مخالفت اور اس کی مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلاً ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیزتر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر، جب عام انسان شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنی کئے گئے ہیں۔ اور سارے ہی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ تقویٰ سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ کفر، مغفرت گناہ اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ يَمْكُرُ‌ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِ‌جُوكَ ۚ وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ ﴿٣٠﴾
اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں (١) اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے (٢)۔
٣٠۔١ یہ اس سازش کا تذکرہ جو روسائے مکہ نے ایک رات دار الندہ میں تیار کی تھی اور بالاخر یہ طے پایا تھا کہ مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو آپ کے قتل پر مامور کیا جائے تاکہ کسی ایک کو قتل کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے بلکہ دیت دیکر جان چھوٹ جائے۔
٣٠۔٢ چنانچہ اس سازش کے تحت ایک رات یہ نوجوان آپ کے گھر کے باہر اس انتظار میں کھڑے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلیں تو آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سازش سے آگاہ فرمادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں لگا، حتیٰ کہ آپ غار ثور میں پہنچ گئے۔ یہ کافروں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر تھی۔ جس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کر سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَـٰذَا ۙ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ ﴿٣١﴾
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں، یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں۔
وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ‌ عَلَيْنَا حِجَارَ‌ةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٢﴾
اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔
وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُ‌ونَ ﴿٣٣﴾
اور اللہ تعالٰی ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے (١) اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں (٢)۔
٣٣۔١ یعنی پیغمبر کی موجودگی میں قوم پر عذاب نہیں آتا، اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود گرامی ان کے حفظ و امان کا سبب تھا۔
٣٣۔٢ اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ مسلمان ہو کر استغفار کریں گے، یا یہ کہ طواف کرتے وقت مشرکین غَفْرَانَکَ رَبَّنَا غْفُرَانَکَ کہا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤﴾
اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالٰی سزا نہ دے حالانکہ وہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں، جب کہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی نہیں۔ اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔
٣٤۔١ یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سے جس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے حالانکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، زبردستی بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب عظیم رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت وتبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُ‌ونَ ﴿٣٥﴾
اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا (١) سو اپنے کفر کے سبب اس عذاب کا مزہ چکھو۔
٣٥۔١ مشرکین جس طرح بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے، اسی طرح طواف کے دوران وہ انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے۔ اس کو بھی وہ عبادت اور نیکی تصور کرتے تھے۔ جس طرح آج بھی جاہل صوفی مسجدوں اور آستانوں میں رقص کرتے، ڈھول پیٹتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہی ہماری نماز اور عبادت ہے۔ ناچ ناچ کر ہم اپنے یار (اللہ) کو منالیں گے۔ نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَ‌ةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُ‌ونَ ﴿٣٦﴾
بلا شک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے روکیں سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہوجائیں گے، پھر مغلوب ہوجائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا (١)۔
٣٦۔١ جب قریش مکہ کو بدر میں شکست ہوئی اور ان کے شکست خوردہ اصحاب مکہ واپس گئے۔ ادھر سے ابو سفیان بھی اپنا تجارتی قافلہ لے کر وہاں پہنچ چکے تھے تو کچھ لوگ، جن کے باپ، بیٹے یا بھائی اس جنگ میں مارے گئے تھے، ابو سفیان اور جن کا تجارت سامان میں حصہ تھا، ان کے پاس گئے اور ان سے استدعا کی وہ اس مال کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے استعمال کریں۔ مسلمانوں نے ہمیں بڑا نقصان پہنچایا ہے اس لئے ان سے انتقامی جنگ ضروری ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس آیت میں انہی لوگوں یا اسی قسم کا کردار اپنانے والوں کے بارے میں فرمایا کہ بیشک یہ لوگ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لئے اپنا مال خرچ کرلیں لیکن ان کے حصے میں سوائے حسرت اور مغلوبیت کے کچھ نہیں آئے گا اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
 
Top