• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لِيَمِيزَ اللَّـهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْ‌كُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾
تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے (١) اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے، پس ان سب کو اکٹھا ڈھیر کر دے پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں۔
٣٧۔١ یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہو گی کہ اہل سعادت کو اہل شقاوت سے الگ کر دیا جائےگا، جیسا کہ فرمایا ﴿وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ﴾ [يس:59] ”اے گناہ گارو! آج الگ ہو جاؤ“، یعنی نیک لوگوں سے اور مجرموں یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اکھٹا کر کے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس کا تعلق دنیا سے ہے اور لام تعلیل کے لیے ہے۔ یعنی کافر اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے جو مال خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منافق کو مخلص سے علیحدہ کر دے۔ اس اعتبار سے آیت کے معنی ہوں گے، کفار کے ذریعے سے ہم تمہاری آزمائش کریں گے، وہ تم سے لڑیں گے اور ہم انہیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے تاکہ خبیث، طیب سے ممتاز ہو جائے۔ پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا یعنی سب کو جمع کر دے گا۔ (ابن کثیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ‌ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ ﴿٣٨﴾
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آ جائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیئے جائیں گے (١) اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے۔ (٢)
٣٨۔١ باز آ جانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے، جس طرح حدیث میں بھی ہے (جس نے اسلام قبول کر کے نیکی کا راستہ اپنا لیا، اس سے اس کے گناہوں کی باز پرس نہیں ہو گی جو اس نے جاہلیت میں کیے ہوں گے اور جس نےاسلام لا کر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلے پچھلے سب عملوں کا مؤاخذہ ہو گا۔ (صحيح بخاری، كتاب استتابة المرتدين- وصحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية) ایک اور حدیث میں ہے [الإسْلامُ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ] (مسند أحمد ۔ جلد 4، ص 199) ”اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے“۔
٣٨۔٢ یعنی اگر وہ اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو جلد یا بدیر عذاب الہی کے مورد بن کر رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٣٩﴾
اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ نہ رہے۔ (١) اور دین اللہ ہی کا ہو جائے، (٢) پھر اگر باز آ جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتا ہے۔ (٣)
٣٩۔١ فتنہ سے مراد شرک ہے۔ یعنی اس وقت تک جہاد جاری رکھو، جب تک شرک کا خاتمہ نہ ہو جائے۔
٣٩۔٢ یعنی اللہ کی توحید کا پھریرا پرچاردانگ عالم میں لہرا جائے۔
٣٩۔ ٣ یعنی تمہارے لیے ان کا ظاہری اسلام ہی کافی ہے، باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دو، کیونکہ اس کو ظاہر و باطن ہر چیز کا علم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ‌ ﴿٤٠﴾
اور اگر روگردانی کریں (١) تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے، (٢) وہ بہت اچھا کارساز ہے اور بہت اچھا مددگار ہے۔
٤٠۔١ یعنی اسلام قبول نہ کریں اور اپنے کفر اور تمہاری مخالفت پر مصر رہیں۔
٤٠۔ ٢ یعنی تمہارے دشمنوں پر تمہارا مددگار اور تمہارا حامی و محافظ ہے۔
٤٠۔ ٣ پس کامیاب بھی وہی ہو گا جس کا مولیٰ اللہ ہو، اور غالب بھی وہی ہو گا جس کا مددگار وہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پارہ 10
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْ‌قَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿٤١﴾
جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو (١) اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، (٢) اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا ہے، (٣) جو دن حق و باطل کی جدائی کا تھا (٤) جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں۔ (۵) اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
٤١۔١ غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے، کافروں پر لڑائی میں فتح و غلبہ حاصل ہونے کے بعد، حاصل ہو۔ پہلی امتوں میں اس کے لیے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کر ڈالتی۔ لیکن امت مسلمہ کے لیے یہ مال غنیمت حلال کر دیا گیا اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعے یا جزیہ و خراج سے وصول ہو، اسے فَيْءٌ کہا جاتا ہے۔ کبھی غنیمت کو فَيْءٌ سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔ ”مِنْ شَيْءٍ“ سے مراد جو کچھ بھی ہو یعنی تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی، سب کو جمع کر کے اس کی تقسیم حسب ضابطہ کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
٤١۔٢ اللہ کا لفظ تو بطور تبرک، نیز اس لیے بھی ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے۔ مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کر کے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں بھی پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کے پھر پانچ حصے کیے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی ہے۔ ”وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ“ (سنن النسائي- وصححه الألباني في صحيح النسائي: 3858 ۔ ومسند أحمد جلد: 5، ص،319) یعنی میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے گا۔
٤١۔٣ اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی (معجزات وغیرہ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔
٤١۔٤ بدر کی جنگ 2 ہجری 17 رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح وغلبہ دے کر واضح کر دیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر و شرک باطل ہے۔
٤١۔۵ یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّ‌كْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَـٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرً‌ا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾
جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے (١) اور قافلہ تم سے نیچے تھا۔ (٢) اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے۔ (٣) لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو، دلیل پر (یعنی یقین جان کر) ہلاک ہو اور جو زندہ رہے، وہ بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زندہ رہے۔ (٤) بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
٤٢۔١ دنیا، دُنُوٌّ سے ہے بمعنی قریب- مراد ہے وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے نسبتاً دور تھا۔
٤٢۔٢ اس سے مراد وہ تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان رضی الله عنہ کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لیے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔
٤٢۔٣ یعنی اگر جنگ کے لیے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کے بغیر ہی پسپائی اختیار کر لیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا، اس لیے ایسے اسباب پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہو جائیں۔
٤٢۔٤ یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کر چکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو وہ بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِذْ يُرِ‌يكَهُمُ اللَّـهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا ۖ وَلَوْ أَرَ‌اكَهُمْ كَثِيرً‌ا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ‌ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌ ﴿٤٣﴾
جب کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی، اگر ان کی زیادتی دکھاتا تو تم بزدل ہو جاتے اور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا، وہ دلوں کے بھیدوں سے خوب آگاہ ہے۔ (١)
٤٣۔١ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں کافروں کی تعداد تھوڑی دکھائی اور وہی تعداد آپ نے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمائی، جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اگر اس کے برعکس کافروں کی تعداد دکھائی جاتی تو صحابہ میں پست ہمتی پیدا ہونے اور باہمی اختلاف کا اندیشہ تھا۔ لیکن اللہ نے ان دونوں باتوں سے بچا لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ يُرِ‌يكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرً‌ا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ ﴿٤٤﴾
جبکہ اس نے بوقت ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں کم دکھائے (١) تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو کرنا ہی تھا (٢) اور سب کام اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں۔
٤٤۔١ تاکہ وہ کافر بھی تم سے خوف کھا کر پیچھے نہ ہٹیں۔ پہلا واقعہ خواب کا تھا اور یہ دکھلانا عین قتال کے وقت تھا، جیسا کہ الفاظ قرآنی سے واضح ہے۔ تاہم یہ معاملہ ابتداء میں تھا۔ لیکن جب باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی تو پھر کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت 13 سے معلوم ہوتا ہے۔ بعد میں زیادہ دکھانے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ کثرت دیکھ کر ان کے اندر مسلمانوں کا خوف اور دہشت بیٹھ جائے، جس سے ان کے اندر بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو، اس کے برعکس پہلے کم دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ لڑنے سے گریز نہ کریں۔
٤٤۔٢ اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا، وہ پورا ہو جائے۔ اس لیے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دیئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَثِيرً‌ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٤٥﴾
اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کی یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ (١)
٤٥۔١ اب مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں جن کو دشمن سے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات ثبات قدمی اور استقلال ہے، کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف اور تحیز کی وہ دونوں صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کیونکہ بعض دفعہ ثبات قدمی کے لیے بھی تحرف یا تحیز ناگزیر ہوتا ہے۔ دوسری ہدایت، اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرت ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا نہ ہو، بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِ‌يحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُ‌وا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿٤٦﴾
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہار رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (١)
٤٦۔١ تیسری ہدایت، اللہ اور رسول کی اطاعت، ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کتنی سخت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس لیے ایک مسلمان کے لیے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی بھی نافرمانی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی ہدایت کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو، اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ اور پانچویں ہدایت کہ صبر کرو! یعنی جنگ میں کتنی بھی شدت آ جائے اور تمہیں کتنے بھی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا: ”لوگو! دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو! تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہو جائے تو صبر کرو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔“ (صحيح بخاری- كتاب الجهاد- باب كان النبي ﷺ إذا لم يقاتل أول النهار أخر القتال حتى تزول الشمس)
 
Top