میرے علم کے مطابق یہ روایت بخاری شریف میں تین جگہ آئی ہے انہی تین مقامات (دیگر کتب حدیث میں اور بھی بہت جگہ یہ حدیث مروی ہے) کا مطالعہ کر لیا جائے تو سب اشکال رفع ہو جائیں گے ۔ ملاحظہ فرمائیں
أول :
حدثنا محمد بن سلام، قال: أخبرنا وكيع، عن سفيان، عن مطرف، عن الشعبي، عن أبي جحيفة، قال: قلت لعلي بن أبي طالب: هل عندكم كتاب؟ قال: " لا، إلا كتاب الله، أو فهم أعطيه رجل مسلم، أو ما في هذه الصحيفة. قال: قلت: فما في هذه الصحيفة؟ قال: العقل، وفكاك الأسير، ولا يقتل مسلم بكافر " ( حدیث نمبر ١١١ )
اس حدیث کے مطابق
ابو جحیفہ کا سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی بھی کتاب ( لکھی ہوئی چیز ) ہے ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب ہے کہ ہمارےپاس تین چیزیں ہیں (١) کتاب اللہ (٢) کتاب اللہ کا فہم ( ٣) ایک صحیفہ جس میں دیت ، قیدیوں کو چھڑانا ، مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرنا جیسے مسائل ہیں ۔
دوم :
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا مطرف، أن عامرا، حدثهم عن أبي جحيفة رضي الله عنه، قال: قلت لعلي رضي الله عنه: هل عندكم شيء من الوحي إلا ما في كتاب الله؟ قال: «لا والذي فلق الحبة، وبرأ النسمة، ما أعلمه إلا فهما يعطيه الله رجلا في القرآن، وما في هذه الصحيفة»، قلت: وما في الصحيفة؟ قال: «العقل، وفكاك الأسير، وأن لا يقتل مسلم بكافر» ( حدیث نمبر ٣٠٤٧ )
اس حدیث کے مطابق
ابو جحیفہ کا سوال : کیا آپ کے پاس کتاب اللہ کے سوا وحی میں سے کچھ ہے ؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب : میرے علم کے مطابق یہ چیزیں ہیں (١) کتاب اللہ کا فہم (٢) ایک صحیفہ جس میں دیت ، قیدیوں کو چھڑانا ، مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرنا جیسے مسائل ہیں ۔
سوم :
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا مطرف، أن عامرا، حدثهم، عن أبي جحيفة، قال: قلت لعلي: ح حدثنا صدقة بن الفضل، أخبرنا ابن عيينة، حدثنا مطرف، سمعت الشعبي، يحدث قال: سمعت أبا جحيفة، قال: سألت عليا رضي الله عنه هل عندكم شيء مما ليس في القرآن؟، وقال ابن عيينة مرة: ما ليس عند الناس؟ فقال: «والذي فلق الحبة وبرأ النسمة ما عندنا إلا ما في القرآن إلا فهما يعطى رجل في كتابه، وما في الصحيفة» قلت: وما في الصحيفة؟ قال: «العقل، وفكاك الأسير، وأن لا يقتل مسلم بكافر» ( حدیث نمبر ٦٩١٥ )
اس حدیث کے مطابق
ابو جحیفہ کا سوال : قرآن میں موجود اشیاء کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چیز ہے ( حدیث کے ایک راوی ابن عیینہ نے بعض دفعہ وضاحت کی ہے ایسی چیز جو دیگر لوگوں کے پاس نہ ہو )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب : ہمارے پاس وہی ہے (١) جو کچھ قرآن میں ہے اور (٢) قرآن کا فہم اور(٣) ایک صحیفہ جس میں دیت ، قیدیوں کو چھڑانا ، مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرنا جیسے مسائل ہیں ۔
ایک بنیادی اصول :
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کسی بھی حدیث کے فہم صحیح کے لیے اس کے دیگر طرق کو اکٹھا کرنا بعض دفعہ مفید اور بعض دفعہ از بس ضروری ہے ۔ اور یہ تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے اور ویسے بھی کسی بھی واقعہ کو سمجھنے کے لیے ایسا کرنا تقاضا عقل ہے لہذا کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اب ہم دیکھتے ہیں ابو جحیفہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قصے سے کیا ثابت ہوتا ہے
(١) ابو جحیفہ نے وحی کے بارے میں پوچھا تھا ۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا جو وحی کے متعلق تھا ورنہ ممکن ہے ان کے پاس وحی کے علاوہ بھی کوئی چیز موجود ہو مثلا انساب اور اشعار وغیرہ ۔
(٢) سوال میں مطالبہ لکھی ہوئی چیز کا تھا ۔۔۔۔ لہذا حضرت علی نے وہی کچھ بتایا جو ان کے پاس لکھا ہوا موجود تھا حالانکہ اس کے علاوہ ان کو سینکڑوں احادیث یاد تھیں وہ چونکہ لکھی ہوئی نہیں تھیں اس لیے انہوں نےان کاتذکرہ نہین کیا ۔
(٣) سوال قرآن کے علاوہ لکھی ہوئی چیزوں کے بارے میں تھا ۔۔۔ اس لیے حضرت علی نے فرمایا کہ قرآن کے سوا ہمارےپاس دو چیزیں ہیں ۔ اگر کسی روایت میں (قرآن کے سوا ) والے الفاظ نہیں ہیں تو وہ بھی اسی پر محمول کیے جائیں گے ۔
(٤) یہ معلومات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تھیں ۔۔۔ لہذا اس سے لیے لازم نہیں آتا کہ حضرت علی کے علاوہ دیگر صحابہ کے پاس لکھی ہوئی دیگر چیزیں نہ ہوں ۔۔۔ اور ایسا ہے بھی چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور حضرت ابو ہریرۃ وغیرہما رضی اللہ عنہم اجمعین کے صحیفے موجود تھے ۔
اس مختصر سی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ ابو جحیفہ اور حضرت علی کےمذکورہ قصے سے منکرین حدیث کی تائید نہیں بلکہ تردید ہوتی ہے کیونکہ وہ
اولا :صحیفہ علی میں موجود تمام کی تمام احادیث کا انکار کرتے ہیں جیسا کہ دیگر تمام احادیث کا انکار کرتے ہیں ۔
ثانیا :خود حضرت علی کی اس حدیث سے استدلال کرنے کا بھی ان کو کوئی حق نہیں کیونکہ یہ بھی تو کتب احادیث کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے قرآن کی کسی آیت میں یہ قصہ مذکور نہیں ہے ۔ اگر اس حدیث کو قابل استدلال سمجھتے ہیں تو ان کو دیگر ذخیرہ احادیث کوبھی ماننا پڑے گا کیونکہ دونوں کا ہم تک پہنچنے کا ذریعے بالکل ایک ہی ہے ۔
ثالثا :اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی ( حدیث رسول ) ہے لیکن منکرین حدیث قرآن کے علاوہ وحی ( حدیث رسول ) کا انکار کرتے ہیں ۔