السلام علیکم، کیا یہ دونوں تفسیر اہل السنہ والجماعہ کے منہج و عقیدہ پر ہیں ؟
روح المعانى فى تفسير القرآن العظيم والسبع المثانى (للألوسى)
. التعريف بمؤلف هذا التفسير:
مؤلف هذا التفسير هو: أبو الثناء، شهاب الدين، السيد محمود أفندى الألوسى البغدادى. ولد فى سنة 1217 هـ (سبع عشرة ومائتين بعد الألف من الهجرة النبوية) ،
فى جانب الكرخ من بغداد.
كان رحمه الله شيخ العلماء فى العراق، وآية من آيات الله العظام، ونادرة من نوادر الأيام. جمع كثيراً من العلوم حتى أصبح علاَّمة فى المنقول والمعقول، فهَّامة فى الفروع والأصول، مُحَدِّثاً لا يُجارَى ومُفَسِّراً لكتاب خالد النقشبندى،
ابو الثناء شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی ۔1217ھ کو پیدا ہوئے ، طویل عمر تحصیل علم میں گزاری،مختلف علوم و فنون کو بڑی دلجمعی سے جمع کیا ،اور اپنے دور کے سب سے بڑے عالم ،اور علمائے عراق کے شیخ قرار پائے ۔منقول و معقول ۔اور اصول وفروع کے علامہ تھے؛
علامہ آلوسی کا فقہی مذہب ویسے تو شافعی تھا ،تاہم بغداد میں حکومت کی طرف سے ’‘حنفیہ ’‘ کے مفتی بنائے گئے تو اکثر حنفی فقہ کے مطابق فتوی دیتے تھے۔
تصوف و سلوک میں ’‘ نقشبندی ’‘ تھے ،
ایک فاضل کا کہنا ہے کہ:
وأما إعجابه وتأثره بالصوفية فهذا ظاهرٌ في تفسيره ، وهو ينتصر لهم ، ويرد على من خالفهم ، ويورد كلام جميع طبقاتهم من الغلاة كالشعراني وابن الفارض وغيرهم ،یعنی ان کا ۔۔تصوف و صوفیاء ۔۔صوفیاء کو پسند کرنا،اور ان سے متاثر ہونا انکی تفسیر میں ظاہر ہے،وہ صوفیاء کی حمایت اور انکے مخالفین کارد کرتے ہیں۔۔اور صوفیاء کے جمیع غالی طبقات جیسے ۔۔الشعرانی اور ابن الفارض وغیرہم کا کلام پیش کرتے ہیں ؛
كثيرا ما يمدح ابن عربي ، ويسميه الشيخ الأكبر قدس سره ، وهذا كثير جداً في تفسيره ، ويطلق على غلاة الصوفية القائلين بوحدة الوجود سادتنا ‘‘
عقیدہ وحدۃ الوجود کے بڑے مبلغ ابن عربی الطائی کی مدح و تعریف کرتے ہیں ،اور انہیں ’‘ شیخ اکبر ’‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ،اور وحدۃ الوجود کے کئی دیگر قائلین غالی صوفیوں کو منصب سیادت نوازتے ہیں ،
اور صوفیاء کے مشہور و مخصوص طریقہ ’‘اشاری تفسیر ’‘ بھی استعمال میں لاتے ہیں،مثلاً:
ومن إشاراته ما قاله (1/17 ):
" والباء إما إشارة إلى صفاته التي أظهرتها نقطة الكون ولذلك لما قيل للعارف الشبلي أنت الشبلي؟ فقال أنا النقطة تحت الباء ’‘
’‘ مشہور عارف شبلی کو کہا گیا ،کہ آپ شبلی ہیں ؟انہوں نے کہا :میں (اصل میں ) باء کے نیچے والا نقطہ ہوں ’‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیدہ میں اشعری ہیں ،جس کا اظہار و اقرار مقدمہ تفسیر سے ہی کردیا ،جہاں ،قرآن کے کلام اللہ ہونے کی وضاحت کی
البتہ تفسیر میں کئی مقامات پر اشاعرہ کا رد بھی کیا ہے ؛اور اختصار سے اتنا بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں :
ذكر الشيخ محمد بن عبد الرحمن المغراوي في ( المفسرون بين التأويل والإثبات في آيات الصفات ) أن الألوسي في باب صفات الله كان مترددا بين مذهب السلف والخلف، أحياناً يقرر مذهب السلف ، وأحياناً يقرر مذهب الأشاعرة وينتصر له ... وينقل عن الرازي هذا كثيراً.‘‘ کہ باب صفات میں آلوسی ؒ تذبذب ،وتردد کا شکار ہیں،کبھی سلف کا ساتھ دیتے ہیں تو کبھی خلف (تاویل و تعطیل والے )کا ،کبھی سلف کا مذہب ثابت کرنے پہ آمادہ نظر آتے ہیں ،،،تو کبھی اشاعرہ کا مذہب ثابت کرنے لگتے ہیں، اوراس کیلئے اکثر علامہ رازی کی عبارات نقل کرتے چلے جاتے ہیں‘‘
اور درج ذیل چند چیزیں انکی تفسیر پر غالب ہیں :
-العناية بالصنعة اللفظية.
-العناية أيضا بالتفسير الإشاري الصوفي.
-جمع فيه تفاسير أهل الأثر مع تفاسير المبتدعة الصوفية.
-لا يفرق صاحبه بين العالم المحقق وبين غيره.
-فيه نكاتٌ وطرائف غريبة جداً.