• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورت الانعام آیت نمبر رہ 109 تا 110۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَاَقْسَمُوْا بِاللّـٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِـهِـمْ لَئِنْ جَآءَتْـهُـمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِـهَا ۚ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيَاتُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۖ وَمَا يُشْعِـرُكُمْ اَنَّـهَآ اِذَا جَآءَتْ لَا يُؤْمِنُـوْن○َ
سورت الانعام مکی آیت(109)
ترجمہ ۔
اور وہ اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو اس پر ضرور ایمان لائیں گے، ان سے کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ کے ہاں ہیں، اور تمہیں کیا خبر ہے کہ جب نشانیاں آئیں گی تو یہ لوگ ایمان لے ہی آئیں گے○۔

وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَـهُـمْ وَاَبْصَارَهُـمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُـوْا بِهٓ ٖ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُـمْ فِىْ طُغْيَانِـهِـمْ يَعْمَهُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر(110)۔
ترجمہ ۔
اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔○
تشریح و تفسیر ۔
مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مشرکین کے حربے۔
صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک و شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور و شور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم مسلمان بھی ہو جائیں گے ۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اللہ تعالی چاہے تو دکھائے نہ چاہے تو نہ دکھائے ۔
ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسی علیہ السلام ایک پھتر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود علیہ السلام نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تو آپ بھی ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں جو ہم کہیں گے تو ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان لیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟
انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو اللہ کی قسم سب آپ کو سچا ماننے لگیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کلام سے امید بندھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اللہ تعالی سے دعا شروع کر دی۔
وہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا
سنیے اگر آپ چاہیں تو اللہ اس صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے گا لیکن اگر اس کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب انہیں فنا کر دے گا ۔
اب تو اللہ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے کہ ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اللہ تعالی میں صفا کو سونے کا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب شواہد بہت ہیں اسی پر آیتیں((و لکن اکثرھم یجھلون))تک نازل ہوئیں ۔
یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شواہد بہت ہیں چنانچہ قرآن مجید میں اور جگہ فرمایا ہے((و ما منعنا ان نرسل بالایات الا ان کذب بھا الاولون))((بنی اسرائیل))
یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیزیں مانع ہیں کہ ان کے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلایا ۔
((انھا))کی دوسری قرات((انھا))الف ڈیر والا))بھی ہے اور((لا یومنون))کی دوسری قرات((لا تومنون))ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ہے؟؟
ممکن ہے کہ تمہارے طلب کردہ معجزے کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے کہ یہ مشرکین تمہاری لائی ہوئی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد بھی بے ایمان کی رہیں گے ۔
اس صورت میں((انھا))الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی((یشعرکم))کا معمول ہو کر اور((لا یومنون ))کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت سورت اعراف((الا تسجدوا اذا امرتک))میں اور سورت الانبیاء((و حرام علی قریتہ اھلکنھا انھم لا یرجعون))میں تو مطلب یہ وتا ہے کہ اے مومنوں تمہارے پاس اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟؟اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ((انھا))معنی میں(( لعلھا ))کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرات((انھا الف زبر سے))کے بدلے((لعلھا))ہی ہے ۔
عرب محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ۔
امام ابن جریر رح اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ۔
اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔
ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ۔
روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی
بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے اللہ تعالی ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟
اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے؟
اسی لئے اس نے بتلا دیا ہے ایسا ہو گا فرماتا ہے سورت فاطر((و لا ینبئک مثل خبیر))۔
اللہ تعالی جو کامل خبر اور کون دے سکتا ہے؟
اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں گے ۔
لیکن اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا دئیے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے ۔
اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ہرگز نہ چھوڑیں گے،یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لیے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کے لیے کوئی خالی جگہ ہی نہیں ۔
پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔
بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْـهِـمُ الْمَلَآئِكَـةَ وَكَلَّمَهُـمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْـهِـمْ كُلَّ شَىْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُـوْا لِيُؤْمِنُـوٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّـٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُـمْ يَجْهَلُوْن
سورت الانعام آیت نمبر َ (111)۔
ترجمہ ۔
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیں اور ان سے مردے باتیں بھی کریں اور ان کے سامنے ہم ہر چیز کو زندہ بھی کر دیں تو بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں مگر یہ کہ اللہ چاہے، لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيَاطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِىْ بَعْضُهُـمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُـرُوْرًا ۚ وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ ۖ فَذَرْهُـمْ وَمَا يَفْتَـرُوْنَ
سورت الانعام آیت نمبر(112)۔
ترجمہ ۔
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شرپسند آدمیوں اور جنوں کو دشمن بنایا جو کہ ایک دوسرے کو طمع کی باتیں فریب دینے کے لیے سکھاتے ہیں، اور اگر تیرا رب چاہتا تو یہ کام نہ کرتے، پس تو چھوڑ دے انہیں اور جو جھوٹ وہ بناتے ہیں۔
وَلِـتَصْغٰٓى اِلَيْهِ اَفْئِدَةُ الَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَلِيَـرْضَوْهُ وَلِيَقْتَـرِفُوْا مَا هُـمْ مُّقْتَـرِفُوْنَ سورت المائدہ آیت نمبر(113)۔
ترجمہ ۔
اور تاکہ ان طمع کی ہوئی باتوں کی طرف ان لوگوں کے دل مائل ہوں جنہیں آخرت پر یقین نہیں اور تاکہ وہ لوگ ان باتوں کو پسند کریں اور تاکہ وہ کریں جو (برے کام) وہ کر رہے ہیں۔
تشریح و تفسیر ۔
فرمان ہے کہ یہ کفار جو قسمیں کھا کھا کر تم سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ وہ دیکھ لیتے تو ضرور ایمان لے آتے ۔
یہ غلط کہتے ہیں ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو جانا چاہیے ۔
یہ کہتے ہیں کہ اگر فرشتے اترتے تو ہم مان لیتے لیکن یہ بھی جھوٹ ہے فرشتوں کے آ جانے پر بھی اور ان کے کہہ دینے پر بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ۔
یہ صرف ایمان نہ لانے کے بہانے تراشتے ہیں کہ کبھی کہہ دیتے ہیں اللہ کو لے آ ۔
کبھی کہتے ہیں فرشتوں کو لے آ ۔
کبھی کہتے ہیں اگلے نبیوں جیسے معجزے لے آ ۔
یہ سب حجت بازی اور حیلے بہانے ہیں ۔
دلوں میں تکبر بھرا ہوا ہے زبان سے سرکشی اور برائی ظاہر کرتے ہیں۔
اگر مردے بھی قبروں سے اٹھ کر آ جائیں اور کہہ دیں کہ یہ رسول برحق ہے ان کے دلوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا((قبلا))کی دوسری قرات((قبلا ق زبر والی ))ہے۔
جس کے معنی مقابلہ اور معائینہ کے ہوتے ہیں ۔
ایک قول میں((قبلا ق پیش والا))کے معنی بھی یہی بیان کئے گئے ہیں ۔
ہاں مجاہد رح فرماتے کہ اس کے معنی گروہ گروہ کے ہیں یعنی ان کے سامنے اگر ایک ایک امت آ جاتی اور رسولوں کی صداقت کی گواہی دیتی تو بھی یہ ایمان نہ لاتے مگر یہ اللہ کہ اللہ چاہے اس کے لیے ہدایت کا مالک وہی ہے نہ کہ یہ ۔
وہ جسے چاہے ہدایت دے دے وہ جو کرنا چاہے اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا اور چونکہ وہ حاکم ہے ہر ایک سے باز پرس کر سکتا ہے وہ علیم و حکیم ہے۔
حاکم و غالب و قہار ہے جس طرح کہ سورت یونس کی آیت میں ہے((ان الذین حقت علیھم کلمتہ ربک لا یومنون))یعنی جن لوگوں کے ذمے کلمہ عذاب ثابت ہو گیا ہے وہ تمام تر نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ المناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔
عنوان شیطان انسانوں میں بھی اور جنوں میں بھی۔
ارشاد ہوتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتے ہیں اسی طرح ہر نبی علیھم السلام کے زمانے کے کفار اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں جیسے سورت انعام میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا((ولقد کذبت رسل من قبلک))الخ،
تجھ سے پہلے کے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا گیا انہیں بھی ایذائیں پہنچائی گئیں جس پر انہوں نے صبر کیا اور آیت میں کہا گیا ہے کہ تجھ سے بھی وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور ساتھ ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے ۔
جیسے کہ سورت الفرقان کی آیت((و کذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین))میں کہا گیا ہے ۔ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا ہے ۔
یہی بات ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی چیز جو رسول بھی لے کر آیا اس سے عداوت کی گئی ۔
نبیوں کے دشمن شریر انسان بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی((عدوا))سے بدل((شیاطین الانس والجن))ہے۔
امام ابن جریر رح تو یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان تو جنوں میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بعض انسانوں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں بعض جنات پر ۔
تو یہ مطلب عکرمہ رح دونوں سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنات کے شیاطین ہیں جو انہیں بہکاتے ہیں جیسے انسانوں کے شیطان جو انہیں بہکاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مشورہ دیتے ہیں کہ اسے اس طرح بہکا ۔
صحیح وہی ہے جو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی؟؟صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔یہ حدیث منقطع ہے۔
عربی میں ہر سرکش شریر کو شیطان کہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ رنگ کے کتے کو شیطان فرمایا ہے ۔
تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ کتوں میں شیطان ہے واللہ اعلم ۔
مجاہد فرماتے ہیں کہ کفار جن کفار انسانوں کے کانوں میں صور پھونکتے رہتے ہیں
عکرمہ رح فرماتے ہیں میں مختار بن ابی عبید کے پاس گیا اس نے میری تکریم و عزت کی اور اپنے ہاں رات ٹھہرایا رات کو بھی شاید اپنے ہاں سلاتا لیکن اس نے کہا کہ جاو لوگوں کو کچھ سناو میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا آپ وحی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ ؟
میں نے کہا وحی کی دو قسمیں ہیں ایک اللہ کی طرف سے جیسے فرمان ہے سورہ یوسف میں((بما اوحینا الیک ھذا القرآن ))
اور دوسری وحی شیطانی جیسے فرمان ہے((شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض ))الخ،اتنا سننا تھا کہ لوگ میرے اوپر پل پڑے قریب تھا کہ پکڑ کر مارنا پیٹنا شروع کر دیتے میں نے کہا ارے بھائیو!
یہ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے؟؟
میں نے تو تمہارے سوال کا جواب دیا ہے اور میں تو تمہارا مہمان ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا ۔
مختار ملعون لوگوں سے کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی بہن صفیہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں اور بڑی دین والی تھیں ۔
جب حضرت عبداللہ کو مختار کا یہ قول معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے قرآن مجید میں سورت الانعام میں بتایا گیا ہے((ان الشیطین لیوحون الی اولیاءھم))یعنی شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی لے جاتے ہیں ۔
الغرض ایسے متکبر سرکش جنات و انس آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ بازی سکھاتے ہیں یہ بھی اللہ تعالی کی قضا و قدر اور چاہت و مشیت ہے وہ ان کی وجہ سے اپنے نبیوں کی اولو العزمی اپنے بندوں کو دکھا دیتا ہے ۔
تو ان کی عداوت کا خیال نہ کر ۔
ان کا جھوٹ تجھے کوئی بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا تو اللہ پر بھروسہ رکھ اسی پر توکل کر اور اپنے کام سے اسے سونپ کر بے فکر ہو جا۔
وہ تجھے کافی ہے تیرا مددگار ہے۔
یہ لوگ جو اس طرح کی خرافات کرتے ہیں یہ محض اس لئے کہ بے ایمانوں کے دل اور ان کی نگاہیں اور ان کے کان ان کی طرف جھک جائیں وہ ایسی باتوں کو پسند کریں اس سے خوش ہو جائیں پس ان کی باتیں وہی قبول کرتے ہیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ۔
ایسے واصل جہنم ہونے والے بہکے ہوئے لوگ ہی ان کی فضول اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ کرتے ہیں جو ان کے قابل ہے۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
اَفَـغَيْـرَ اللّـٰهِ اَبْتَغِىْ حَكَمًا وَّهُوَ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّـذِيْنَ اٰتَيْنَاهُـمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّهٝ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُـوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَـرِيْن
سورت الانعام آیت نمبرَ (114)۔ترجمہ ۔
کیا میں اللہ کے سوا اور کسی کو منصف بناؤں حالانکہ اس نے تمہاری طرف ایک واضح کتاب اتاری ہے، اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ ٹھیک تیرے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
سورت الانعام آیت نمبر (115)۔
ترجمہ ۔
اور تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی انتہائی حد تک پہنچی ہوئی ہیں، اس کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِى الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُـمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ
سورت الانعام آیت نمبر (116)۔
ترجمہ ۔
اور اگر تو اکثریت کا کہا مانے گا جو دنیا میں ہیں تو تجھے اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے، وہ تو اپنے خیال پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ سورت الانعام آیت نمبر (117)۔
ترجمہ ۔
تیرا رب خوب جانتا ہے اسے جو اس کی راہ سے ہٹ جاتا ہے، اور سیدھے راستہ پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِـرَ اسْمُ اللّـٰهِ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُـمْ بِاٰيَاتِهٖ مُؤْمِنِيْنَ سورت الانعام آیت نمبر (118)
ترجمہ ۔
سو تم اس (جانور) میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اگر تم اس کے حکموں پر ایمان لانے والے ہو۔
وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِـرَ اسْمُ اللّـٰهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُـمْ اِلَيْهِ ۗ وَاِنَّ كَثِيْـرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآئِـهِـمْ بِغَيْـرِ عِلْمٍ ۗ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ
سورت الانعام آیت نمبر (119)۔
ترجمہ ۔
کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ وہ واضح کر چکا ہے جو کچھ اس نے تم پر حرام کیا ہے ہاں مگر وہ چیز جس کی طرف تم مجبور ہو جاؤ، اور بہت سے لوگ بہکاتے ہیں اپنے خیالات کی بناء پر بے علمی میں، بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
وَذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْـمِ وَبَاطِنَهٝ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَكْسِبُوْنَ الْاِثْـمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُـوْا يَقْتَـرِفُوْنَ سورت الانعام آیت نمبر (120)۔
ترجمہ ۔
تم ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو، بے شک جو لوگ گناہ کرتے ہیں عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔
تشریح و تفسیر ۔
عنوان اللہ کے فیصلے میں تبدیلی نہیں ۔
حکم ہوتا ہے کہ مشرک جو اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کر رہے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ کیا ہم تم میں فیصلہ کرنے والا سوائے اللہ کے میں کسی اور کو تلاش کروں؟ ؟
اسی نے صاف اور کھلے فیصلے کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے یہود و نصاری جو صاحب کتاب ہیں اور جن کے پاس اگلے نبیوں کی بشارتیں ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن کریم جو اللہ کی طرف سے حق شدہ نازل ہوا ہوا ہے تجھے شکی لوگوں میں نہیں ملنا چاہیے ۔
جیسے فرمان باری تعالی ہے سورت الانعام((الخ،یعنی ہم نے جو کچھ وحی تیری طرف اتاری ہے تجھے اس میں شک ہو تو جو لوگ اگلی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان سے پوچھ لے یقین مان تیرے رب کی جانب سے تیری طرف حق اتر چکا ہے پس تو شک کرنے والوں میں نہ ہو ۔
یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا کچھ ضروری نہیں ۔
تیرے رب کی باتیں صداقت میں پوری ہیں ۔
اور اس کا ہر حکم عدل ہے وہ اپنے حکم میں بھی عادل ہے اور فرمایا خبروں میں صادق ہے اور خبر صداقت پر مبنی ہے ۔
جو خبریں اس نے دی ہیں وہ بلا شبہ درست ہیں اور جو حکم فرمایا ہے وہ سراسر عدل ہے اور جس چیز سے روکا وہ یکسر باطل ہے۔
کیوں کہ وہ جس چیز سے روکتا ہے تو وہ برائی والی ہی ہوتی ہے جیسے فرمان ہے سورت اعراف میں((یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر))وہ انہیں بھلی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے منع کرتا ہے الخ۔
کوئی نہیں جو اس کے فرمان کو بدل سکے۔اس کے حکم اٹل ہیں ۔
دنیا میں کیا اور آخرت میں کیا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ۔
اس کا تعاقب کوئی نہیں کر سکتا ۔
وہ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور ان کی حرکات و سکنات کو بخوبی جانتا ہے ۔
ہر عامل کو اس کے برے بھلے عمل کا بدلہ وہ ضرور دے گا۔
عنوان اکثر ایمان لانے والے نہیں ۔
اللہ تعالی اطلاع دیتا ہے کہ اکثر لوگ دنیا میں گمراہ کن ہوتے ہیں ۔
جیسے فرمان ہے((ولقد ضل قبلھم اکثرالاولین))اور جگہ ہے ((و ما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین))((یوسف))
گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ۔
پھر یہ لوگ اپنی گمراہی میں بھی کسی یقین پر نہیں صرف باطل گمان اور بیکار خیالوں کا شکار ہیں اندازے سے باتیں بنا لیتے ہیں ۔
پھر ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں ۔
خیالات کے پیرو ہیں ۔
توہم پرستی میں گرے ہوئے ہیں ۔
یہ سب مشیت الہی ہے وہ گمراہوں کو بھی جانتا ہے اور ان پر گمراہیاں آسان کر دیتا ہے ۔
وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے اور انہیں ہدایت آسان کر دیتا ہے ۔
ہر شخص پر وہی کام آسان ہوتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔
عنوان حلال و حرام ذبیحہ۔
حکم بیان ہو رہا ہے کہ جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے اسے کھا لیا کرو ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا ہو اس کا کھانا مباح نہیں جیسے مشرکین از خود مرا ہوا مردار جانور بتوں اور تھانوں پر ذبح کیا ہوا جانور کھا لیا کرتے تھے ۔
کوئی وجہ نہیں کہ جن حلال جانوروں کو شریعت کے حکم کے مطابق ذبح کیا جائے اس کے کھانے میں حرج سمجھا جائے بالخصوص اس وقت کہ ہر حرام جانور کا بیان کھول کھول کر دیا گیا ہے فَصَّلَ کی دوسری قرات فَصَّلَ ص تشدید کے بنا وہ حرام جانور کھانے ممنوع ہیں سوائے مجبوری اور سخت بے بسی کے اس وقت جو مل جائے اس کے کھانے کی اجازت ہے۔
پھر کافروں کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ مردار جانور کو ان جانوروں کو جن پر اللہ کے سوا دوسروں کے نام لئے گئے ہوں حلال جانتے تھے
یہ لوگ بلا علم صرف خواہش پرستی کر کے دوسروں کو بھی راہ حق سے ہٹا رہے ہیں ۔
ایسوں کی افتراء پردازی دروغ گوئی اور زیادتی کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔
ظاہری اور باطنی گناہوں کو ترک کر دو۔
چھوٹے اور بڑے ظاہر اور پوشیدہ گناہ کو چھوڑ دو۔
نہ کھلی بدکار عورتوں کے ہاں جاو نہ چوری چھپے بدکاریاں کرو۔
کھلم کھلا ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
غرض ہر گناہ سے دور رہو کیوں کہ ہر بدکاری کا برا بدلہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ گناہ کسے کہتے ہیں؟ ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو نہ چاہے کہ کسی کو اس کی اطلاع ہو جائے ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللّـٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٝ لَفِسْقٌ ۗ وَاِنَّ الشَّيَاطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓى اَوْلِيَآئِـهِـمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۖ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُـمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُـوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (121)۔
ترجمہ ۔
اور جس چیز پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس میں سے نہ کھاؤ اور بے شک یہ کھانا گناہ ہے، اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں باتیں ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں، اور اگر تم نے ان کا کہا مانا تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے○
تشریح و تفسیر۔
عنوان اللہ کا نام نہ لیا ہو تو ذبیحہ حرام ہے ۔
یہی آیت ہے کہ جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے،اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں ۔
ایک تو وہی جو مذکور ہوا ۔
خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یہ غلطی سے بھول کر ۔
اس کی دلیل سورت مائدہ کی آیت((فکلوا مما امسکن علیکم واذکروا اسم اللہ علیہ))ہے ۔
یعنی جس شکار کو تمہارے شکاری کتے روک رکھیں تم اسے کھا لو اور اللہ کا نام اس پر لو۔
اس آیت میں اسی کی تاکید کی گئی اور فرمایا کہ یہ کھلی نافرمانی ہے یعنی اس کا کھانا ۔
یا غیر اللہ نام پر ذبح کرنا ۔
حدیث میں بھی شکار اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تو اپنے سدھائے ہوئے کٹے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لیے پکڑ کر روک لے تو اسے کھا لے۔
اور حدیث میں ہے جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا گیا ہو اسے کھا لیا کرو ۔
جنوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تمہارے لئے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے ۔
عید کی قربانی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے قربانی قربانی نہیں کرنی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور ذبح کرے ۔
چند لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھا لو۔
الغرض اس حدیث سے بھی یہ مزہب قوی ہوتا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی یہی سمجھا کہ بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر انہوں نے نہ بھی لیا ہے یا نہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو تا بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہو جائے گا ۔
ورنہ ہر مسلمان پر ظاہرا حسن ظن ہی ہو گا ۔
دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح بسم اللہ کا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گو وہ عمدا ہو یا بھول کر کوئی حرج نہیں ۔
اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فسق ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لیے ذبح کیا ہوا جانور ہے جیسے سورت انعام کی آیت((او فسقا اھل لغیر اللہ بہ))۔
بقول عطا رح ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممانعت کی گئی ۔
اس کا جواب بعض متاخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ((وانہ))میں واو حالیہ ہے۔
تو فسق اسی وقت ہو گا جب غیر اللہ کے نام کا مان دلیل لیں اور یہ واو عطف کا ہو نہیں سکتا ورنہ اس سے جملہ اسمیہ جریہ کا عطف جملہ فعلیہ پر لازم آئے گا ۔
لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے((وان الشیاطین))سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے کہ وہ یقینا عاطفہ جملہ ہے ۔
تو جس اگلے واو کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس جملے کا عطف نا جائز ہو گا اور اس واو کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعوی تھا وہ دوسرے سے باطل ہو جائے گا ۔واللہ اعلم ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مر گیا ہو۔
اس مذہب کی تائید ابو داؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہو سکتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیوں کہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا((ابو داود فی المراسیل))
اس کی مضبوطی دار قطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھا لیا کرو کیوں کہ مسلمان اللہ کے ناموں سے ایک نام ہے ۔
اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہو سکتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے ۔
نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں احتمال تھے آپ نے اجازت دی۔
تو اگر بسم اللہ شرط اور لازم ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحقیق کرنے کا حکم دیتے ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بسم اللہ کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تو ذبیحہ حلال ہے اور قصدا نہیں کہی تو حلال نہیں ۔
ہدایہ میں لکھا ہے کہ امام شافعی رح دے پہلے اسے بات پر اجماع تھا کہ جس ذبیحہ پر عمدا بسم اللہ نہ کہی جائے وہ حرام ہے ۔
اسی لئے امام یوسف اور مشائخ رح نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بیچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہو سکتا کیونکہ اجماع کا خلاف ہے ۔لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے ۔
امام شافعی رح سے پہلے بھی بہت سے! آئمہ اس کے خلاف تھے ۔
چنانچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہ بسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی رح کا ان کے سب ساتھیوں کا ایک روایت میں امام احمد رح کا امام مالک رح کا اور اشہب بن عبد العزیز رح کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابو ھریری رضی اللہ عنہ حضرت عطار بن ابی رباح رح کا اس سے اختلاف ہے ۔
پھر اجماع کا دعوی کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔
واللہ اعلم ۔
امام ابو جعفر بن جریر رح فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے پر ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس بات کی مخالفت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھا لے۔یہ حدیث بہقی میں بھی ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے ۔
اور یہ خطا معقل بن عبیداللہ جزیری کی ہے ۔
ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیدی اسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت کرتے ہیں بقول امام بہقی رح کے یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے ۔
شعبی اور محمد بن سرین اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو۔
ظاہر ہے کہ سلف کراہیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے ۔
واللہ اعلم ۔
ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر رح کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں ۔
امام حسن بصری رح سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت زیادہ پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان میں سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور یہ سب خلط ملط ہو گئے ہیں آپ نے فتوی دیا کہ سب کھا لو۔
پھر محمد بن سرین رح سے یہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاو۔
اس تیسرے مزہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے میری امت سے خطا کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے ۔
لیکن اس میں ضعف پایا جاتا ہے((صحیح ابن ماجہ کتاب الطلاق شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ))
بظاہر دلیلوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مسلمان کی زبان سے جلدی میں یا بھولے سے یا کسی اور وجہ سے نہ نکلے اور ذبح ہو گیا تو وہ حرام نہیں ہوتا واللہ اعلم ۔
عام اہل علم کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض کہتے ہیں اس میں سے اہل کتاب کا ذبیحہ کا استشناء کر لیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے ۔
تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے پھر فرمایا کہ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا اس وقت آپ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ایک تو اللہ کی وحی جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے ۔
شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں ۔
چنانچہ یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے؟؟
کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مر جائے اسے نہ کھائیں؟
اس پر یہ آیت اتری((صحیح ابو داؤد شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے مگر اس میں یہودیوں کا ذکر منکر ہے ))
اور بھی اس طرح کی کئی روایات مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں ہے ۔
پس صحیح یہی ہے کیوں یہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے
میں تھے اور اسی لئے بھی کہ یہودی خود مردار خور نہ تھے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مر گیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا((صحیح ابو داؤد کتاب الضحایا شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ))
مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے دے رہے تھے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی مدد کرتے تھے ۔
اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری ۔
پھر فرمایا آگر تم ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہو جاو گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چنانچہ قرآن مجید میں ہے((اتخذوا احبارھم و رحبانھم اربابا من دون اللہ ))
یعنی انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الہ بنا لیا ہے ۔
ترمذی میں ہے کہ جب حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے ان کی عبادت کبھی نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے((حسن ترمذی کتاب التفسیر القرآن شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے))۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَـهٝ نُـوْرًا يَّمْشِىْ بِه فِى النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُـهٝ فِی الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مّنْـهَا ۚ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِـرِيْنَ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ
سورت الانعام آیت (122)
ترجمہ
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا* *پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا* *اور ہم نے اسے روشنی دی* *کہ اسے لوگوں میں لیے پھرتا ہے* *وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے* *جو اندھیروں میں پڑا ہو* *وہاں سے نکل بھی نہیں سکتا*، *اسی طرح کافروں کی نظر میں* *ان کے کام آراستہ کر دیے گئے ہیں*۔
*تشریح و تفسیر*
*عنوان* *مومن اور کافر کی مثال*
مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا،ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکامات کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے، اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئ ہے،دوسرا وہ جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ؟
اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفادت ہے نور و ظلمت کا فرق ہے ایمان کفر کا فرق ظاہر ہے ۔
اور آیت میں ہے(( *اللہ الذین امنوا*))الخ(( *سورت البقرہ*))
ایمان والوں کا ولی اللہ تعالی ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں ۔
یہ ابدی جہنمی ہیں اور آیت ہے *سورت الملک*((الخ، یعنی خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے؟؟؟
اور آیت میں ہے ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ایک اور جگہ پر فرمان باری تعالی ہے *اندھا اور بینا* *اندھیرا اور روشنی*
*سایہ اور دھوپ* *زندے اور مردے* برابر نہیں ۔
اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا تو تعالی صرف آگاہ کر دینے والا ہے
اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں ۔
اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی ۔
بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار یاسر رضی اللہ عنہما ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابو جہل ہے۔
صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے۔
کافروں کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے ۔
یہ بھی اللہ تعالی کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ۔
مسند کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر آپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہوا ہی ہے((_*صحیح مسند احمد* ))
جسے فرمان ہے اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِىْ كُلِّ قَرْيَةٍ اَكَابِرَ مُجْرِمِيْـهَا لِيَمْكُـرُوْا فِيْـهَا ۖ وَمَا يَمْكُـرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِـمْ وَمَا يَشْعُـرُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (123)
ترجمہ ۔
اور اسی طرح ہر بستی میں ہم نے گناہگاروں کے سردار بنا دیے ہیں تاکہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں، حالانکہ وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں○
وَاِذَا جَآءَتْـهُـمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّـٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِىَ رُسُلُ اللّـٰهِ ۘ اَللّـٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٝ ۗ سَيُصِيْبُ الَّـذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّـٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌ بِمَا كَانُـوْا يَمْكُـرُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (124)۔
ترجمہ ۔
جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہمیں نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے، اللہ بہتر جانتا ہے کہ پیغمبری کا کام کس سے لے، وہ وقت قریب ہے جب یہ مجرم اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے اپنی مکاریوں کی پاداش میں○
تشریح و تفسیر
عنوان سرداروں کی گمراہی تباہی کی علامت ہے
ان آیتوں میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین فرما رہا ہے اور ساتھ ساتھ کفار کوئی بھی ہوشیار کرتا ہے ۔
فرماتا ہے کہ جیسے آپ کی اس بستی میں روسائے کفر موجود ہیں جو دوسروں کو بھی دین حق سے روکتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے زمانے میں اس بستی میں کفر کے ستون اور مرکز رہے ہیں لیکن اخر کار وہ غارت اور تباہ ہوتے ہیںاور نتیجہ ہمیشہ نبیوں کا ہی اچھا رہتا ہے فرمایا کہ ہر نبی علیہ السلام کے دشمن ان کے زمانے کے گنہگار رہھ ہیں اور آیت میں ہے کہ ہم جب کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے رئیسوں کو کچھ احکامات دیتے ہیں جس میں وہ کھلم کھلا ہماری نافرمانی کرتے ہیں الخ۔
پس اطاعت سے گریز کر کے عذابوں میں گر جاتے ہیں ۔
وہاں کے شریر لوگ اوج پر آ جاتے ہیں اور پھر بستی ہلاک ہو جاتی ہے قسمت کا لکھا سامنے آ جاتا ہے ۔
چنانچہ اور آیتوں میں ہیں کہ جہاں کہیں کوئی پیغمبر آیا وہاں کے رئیسوں اور بڑے لوگوں نے جھٹ دے کہہ دیا کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں ۔
مال میں اولاد میں ہم تم سے زیادہ ہیں اور ہم اسے مانتے نہیں کہ ہمیں سزا ہو۔
اور آیت میں ہے کہ ہم نے جس بستی میں جس رسول کو بھیجا وہاں کے بڑے لوگوں نے جواب دیا ہم نے تو جس طریقے پر اپنے بڑوں کو پایا ہم تو اسی پر چلیں گے ۔
مکر سے مراد گمراہی ہے کی طرف بلانا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لوگوں کو پھنسانا ہے جیسے کہ قوم نوح علیہ السلام کے بارے میں سورت یونس میں ہے((ومکروا مکرا کبیرا))قیامت کے دن بھی جبکہ یہ ظالم اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے چھوٹے بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مسلمان ہو جاتے وہ جواب دیں گے ہم نے تمہیں ہدایت سے کب روکا تھا؟ ؟
تم تو خود گنہگار تھے یہ کہیں گے کہ تمہاری دن رات کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے اور تمہاری کفر و شرک کی دعوت نے ہمیں گمراہ کر دیا ۔الخ۔
مکر کے معنی حضرت ثفیان ثوری رح نے ہر جگہ عمل کئے ہوئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ ان کے مکر کا وبال انہیں پر پڑے گا لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ۔
جن لوگوں کو انہوں نے بہکایا ان کا وبال بھی انہیں کے دوش پر ہو گا جیسے فرمان ہے سورت العنکبوت میں((و لیحملن اثقالھم و اثقالا مع اثقالھم))
یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی ڈھوئیں گے۔
جن کو بے علمی کے ساتھ انہوں نے بہکایا تھا ۔
جب کوئی نشان اور دلیل دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جب تک اللہ کا پیغام فرشتے کی معرفت خود ہمیں نہ آئے ہم تو باور کروانے والے نہیں ۔
کہا کرتے تھے کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل ہوتے؟ ؟
اللہ ہمیں اپنا دیدار کیوں نہیں کرواتا؟ ؟
حالانکہ رسالت کی اصلی جگہ اللہ ہی جانتا ہے ۔
ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے رئیس پر یہ قرآن مجید کیوں نہیں اترا؟
جس کے جواب میں اللہ عزوجل نے فرمایا تیرے رب کی رحمت کے تقسیم کرنے والے وہ ہیں۔
پس مکے یا طائف کے کسی رئیس پر قرآن نازل نہ ہونے سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کا ارادہ کرتے تھے اور یہ صرف ضد اور تکبر کی بنا پر تھا ۔
جیسے فرمان ہے کہ تجھے دیکھ تے ہی یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کیا کرتا ہے؟
یہ لوگ ذکر رحمن کے منکر ہیں ۔
کہا کرتے تھے کہ اچھا یہی ہیں جنہیں اللہ نے اپنا رسول بنایا؟
نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسخروں کا مسخرہ پن انہیں پر الٹ پڑا ۔
انہیں ماننا ہی پڑا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریف النفس سچے اور آمین ہیں یہاں تک کہ نبوت سے پہلے قوم کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امین کا خطاب ملا۔
ابو سفیان جیسے ان کافر قریشیوں کے سردار نے بھی دربار ہرقل میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی نسب ہونے اور سچے ہونے کی شہادت دی تھی((صحیح بخاری کتاب بدء الوحی))
جس سے شاہ روم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت طہارت نبوت وغیرہ کو مان لیا تھا مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالی نے اولاد ابراہیم علیہ السلام سے اسمعیل علیہ السلام سے بنو کنانہ کو پسند فرمایا ۔
بنو کنانہ سے قریش کو قریش میں سے بنو ہاشم کو اوربنو ہاشم میں سے مجھے ۔
فرمان ہے کہ یکے بعد دیگرے قرنوں میں سب سے بہتر زمانے میں پیغمبر بنایا گیا
حوالہ جات((صحیح مسلم کتاب الفضائل ۔صحیح بخاری کتاب المناقب ))
حاکم بہقی اور مسند احمد میں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا اور سب سے بہتر دل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا۔
پھر مخلوق کے دلوں پر نظر ڈالی تو سب سے بہتر دل والے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پائے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خاص چیدہ رسول بنایا اور اصحاب رضوان اللہ علیم اجمعین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر بنایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے دین کے دشمنوں کے دشمن ہیں ۔
پس یہ مسلمان جس چیز کو بہتر سمجھیں وہ اللہ واحدہ لا شریک کے نزدیک بھی بہتر ہے اور جسے یہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔((حسن مسند احمد شیخ زبیر علی زئی رح نے اسے حسن کہا ہے ))
ایک باہر کے شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مسجد کے دروازے سے آتا ہوا دیکھکر مرعوب ہو کر لوگوں سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟
لوگوں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ آیت نکل گئی نبوت کی جگہ کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔
پھر فرماتا ہے کہ جو لوگ اس میری عبادت سے جی چراتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ۔
انہیں ان کے ذکر کی سزا اور سخت سزا ملے گی کیوں کہ مکاروں کی چالیں خفیہ اور ہلکی ہوتی ہیں اس کے بدلے میں عذاب اعلانیہ ہوں گے ۔
یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کا پورا بدلہ ہے اس دن ساری چھپی عیاریاں کھل جائیں گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر بد عہد کی رانوں کے پاس قیامت کے دن ایک جھنڈا لہراتا ہو گا اور اعلان ہوتا ہو گا کہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے((صحیح بخاری کتاب الجزیہ۔صحیح مسلم کتاب الجہاد ۔اس کو ابن ماجہ بہقی اور صحیح ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے۔
پس اس دنیا کی پوشیدگی اس طرح قیامت کے دن ظاہر ہو گی اللہ ہمیں بچائے آمین۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
فَمَنْ يُّرِدِ اللّـٰهُ اَنْ يَّـهْدِيَهٝ يَشْرَحْ صَدْرَهٝ لِلْاِسْلَامِ ۖ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّـهٝ يَجْعَلْ صَدْرَهٝ ضَيِّـقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِى السَّمَآءِ ۚ كَذٰلِكَ يَجْعَلُ اللّـٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ○
*سورت الانعام آیت نمبر* *(125)*
*سو جسے اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت دے تو اس کے سینہ کو اسلام کے قبول کرنے کے لیے کھول دیتا ہے، اور جس کے متعلق چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کے سینہ کو بے حد تنگ کر دیتا ہے گو کہ وہ آسمان پر چڑھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر پھٹکار ڈالتا ہے*○
وَهٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيْمًا وقَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُوْنَ○
*سورت الانعام آیت نمبر* *(126)*
*اور یہ تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے، ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے آیتوں کو صاف صاف کر کے بیان کر دیا ہے*○
لَـهُـمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّـهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْن *(127)*
*ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ان کے رب کے ہاں، اور وہ ان کا مددگار ہے ان کے اعمال کے سبب سے*○
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُـمْ جَـمِيْعًاۚ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْـثَرْتُـمْ مِّنَ الْاِنْسِ ۖ وَقَالَ اَوْلِيَآؤُهُـمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَـآ اَجَلَنَا الَّـذِىٓ اَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَآ اِلَّا مَا شَآءَ اللّـٰهُ ۗ اِنَّ رَبَّكَ حَكِـيْـمٌ عَلِيْـمٌ○
*سورت الانعام آیت نمبر* *(128)*
*اور جس دن ان سب کو جمع کرے گا، (فرمائے گا) اے جنوں کی جماعت! تم نے آدمیوں میں سے بہت سے اپنے تابع کر لیے تھے، اور آدمیوں میں سے جو جنوں کے دوست تھے کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے کام نکالا اور ہم اپنی اس معیاد کو آ پہنچے جو تو نے ہمارے واسطے مقرر کی تھی، فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانا آگ ہے اس میں ہمیشہ رہو گے مگر یہ کہ جسے اللہ بچائے، بے شک تیرا رب حکمت والا جاننے والا ہے*○
*تشریح و تفسیر*
*راہ ہدایت کا حصول منشائے الہی سے ہی*
*اللہ کا ارادہ جسے ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیںجیسے فرمان باری تعالی ہے سورہ الزمر میں((افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ))*
*الخ ۔یعنی اللہ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے یا جھکا دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے اور آیت میں فرمایا سورہ الحجرات((ولکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم))الخ،اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کر دی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دار بنا دیا اور کفر فسق اور نا فرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہیت ڈال دی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں* ۔
*ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا ایمان و توحید کی طرف کشادہ ہو جاتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے زیادہ دانا کون سا مومن ہے؟ فرمایا سب سے زیادہ موت یاد رکھنے والا اور سب سے زیادہ موت کے بعد زندگی کے لیے تیاریاں کرنے والا*
*((ضیقا))* کی *قرات((ضیقا))یہ ساکن بھی ہے((حرجا))کی دوسری قرات((حرجا))ر کسری بھی ہے یعنی گنہگار ۔یا دونوں کے ایک ہی معنی یعنی تنگ جو ہدایت کے لیے نہ کھلے اور ایمان میں جگہ نہ پائے۔ایک مرتبہ ایک بادیہ نشین بزرگ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے((حرجہ))کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا یہ آیک درخت ہوتا ہے جس کے پاس نہ چرواہے جاتے ہیں نہ جانور نہ وحشی*
*آپ نے فرمایا سچ کہا ایسا ہی منافق کا دل ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بھلائی جگہ پاتی نہیں۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت تنگ ہوتا ہے خود قرآن میں ہے سورہ الحج((و جعل علیکم فی الدین من حرج))اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے اسے((لا الہ الا اللہ ))کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے جیسے کسی پر آسمان کی چڑھائی مشکل ہو جیسے وہ اس کے بس کی بات نہیں اسی طرح توحید ایمان بھی اس کے قبضے سے باہر ہیں پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے*
*اسی طرح اللہ تعالی نے بے ایمانوں پر شیطان مقرر کر دیتا ہے جو انہیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل تنگ کرتے رہتے ہیں نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اتر آتے ہیں*
*قرآن ہی صراط مستقیم ہے*
*گمراہوں کا طریقہ بیان فرما کر اپنے دین حق کی نسبت فرماتا ہے کہ سیدھی اور صاف رہ جو بے روک اللہ کی طرف پہنچا دے یہی ہے((مستقیما))کا نصب حالیت کی وجہ سے پے ۔پس شرع محمدی کلام باری تعالی ہی راہ راست ہے چند حدیث میں بھی قرآن کی صفت میں کہا گیا ہے اللہ کی سیدھی راہ اللہ کی مضبوطی رسی اور حکمت والا ذکر یہی ہے ۔جنہیں اللہ کی جانب سے عقل و فہم عمل دیا گیا ہے ان کے سامنے تو وضاحت کے ساتھ اللہ آیتیں آ چکیں*
*ان ایمانداروں کے لیے اللہ کے ہاں جنت ہے جسے کہ یہ سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کا گھر انہیں ملے گا ۔وہی سلامتیوں کا مالک اللہ تعالی ہے ان کا کارساز اور ولی دوست ہے حافظ و ناصر موید و مولی ان کا انہیں ملے گا ۔ان کے نیک اعمال کا بدلہ یہ پاک گھر ہو گا جہاں ہمیشگی ہے اور یکسر راحت و اطمینان سرور اور خوشی ہی خوشی پے*
*حشر کے دن جنات سے سوال*
*وہ دن بھی قریب ہے جب اللہ تعالی ان سب کو جمع کرے گا ۔جنات انسان عابد معبود ایک میدان میں کھڑے ہوں گے اس وقت جنات سے ارشاد ہو گا کہ تم نے انسانوں کو خوب بہکایا اور ورغلایا ۔انسانوں کو یاد دلایا جائے گا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شیطان کی بات نہ ماننا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے ۔لیکن تم نے سمجھ سے کام نہ لیا اور شیطانی راگ میں آ گئے ۔اس وقت جنات کے دوست انسان جواب دیں گے کہ ہاں انہوں نے حکم دیا اور ہم نے عمل کیا دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور فائدہ حاصل کرتے رہے جاہلیت کے زمانے میں جو مسافر کہیں اترتا ہے تو کہتا ہے کہ اس وادی کے بڑے جن کی پناہ میں آتا ہوں ۔انسانوں سے جنات کو بھی فائدہ پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ان کے سردار سمجھنے لگے تھے موت کے وقت تک یہی حالت رہی اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اچھا اب تم بھی ان کے ساتھ ہی جہنم میں جاو وہیں ہمیشہ پڑے رہنا۔یہ اسثناء جو ہے وہ راجع ہے برزخ کی طرف بعض کہتے ہیں دنیا کی مدت کی طرف اس کا پورا بیان سورہ ھود کی آیت((خالدین فیھا ما دامت السموات والارض الا ما شاء ربک))الخ،اس تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ ۔اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی کسی کے لیے جنت دوزخ کا فیصلہ نہیں کر سکتا ۔سب مشیت رب پر موقوف ہے*
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَكَذٰلِكَ نُـوَلِّىْ بَعْضَ الظَّالِمِيْنَ بَعْضًا بِمَا كَانُـوْا يَكْسِبُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (129)۔
ترجمہ ۔
اور اسی طرح ہم ملا دیں گے گناہگاروں کو ایک دوسرے کے○ ساتھ ان کے اعمال کے سبب سے۔
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيَاتِىْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَـآءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا ۚ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰٓى اَنْفُسِنَا ۖ وَغَـرَّتْـهُـمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا وَشَهِدُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ اَنَّـهُـمْ كَانُـوْا كَافِـرِيْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (130)
ترجمہ ۔
اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں میرے احکام سناتے تھے اور وہ تمہیں ڈراتے تھے اس دن کی ملاقات سے، کہیں گے ہم اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہیں، اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ دیا ہے اور اپنے اوپر گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔○
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّاَهْلُـهَا غَافِلُوْنَ○ سورت المائدہ آیت نمبر(131)۔
ترجمہ ۔
یہ اس لیے ہوا کہ تیرا رب بستیوں کو ظلم کرنے کے باوجود ہلاک نہیں کیا کرتا اس حال میں کہ وہ بے خبر ہوں○۔
وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْن○َ
سورت الانعام آیت نمبر (132)
ترجمہ ۔
اور ہر ایک کے لیے ان کے عمل کے لحاظ سے درجے ہیں، اور تیرا رب ان کے کاموں سے بے خبر نہیں○۔
تشریح و تفسیر
جیسا مزاج ویسا ساتھی ۔
لوگوں کی دوستیاں اعمال پر ہوتی ہیں مومن کا دل مومن ہی سے لگتا ہے گو وہ کہیں کا ہو اور کیسا ہی ہو اور کافر کافر بھی ایک ہی ہے گو وہ مختلف ممالک اور مختلف ذات پات کے ہوں ۔
ایمان تمناوں اور ظاہر داریوں کا نام نہیں ۔
اس مطلب کے علاوہ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسی طرح یکے بعد دیگرے تمام کفار جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے ۔
مالک بن دینار کہتے ہیں میں نے زبور میں پڑھا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے میں منافقوں سے انتقام منافقوں کے ساتھ ہی لوں گا پھر سب سے ہی انتقام لوں گا ۔
اس کی تصدیق قرآن کی مندرجہ بالا آیت سے بھی ہوتی ہے کہ ہم ولی بنائیں گے بعض ظالموں کو بعض ظالموں کا جن اور ظالم انس۔
پھر آپ نے سورت الزخرف کی اس آیت کی تلاوت کی((و من یعش عن ذکر الرحمن))۔
کی تلاوت کی اور فرمایا کہ ہم سرکش جنوں کو سرکش انسانوں پر مسلط کر دینگے ایک مرفوع حدیث میں ہے جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ اسی کو اسی پر مسلط کر دے گا ۔((علامہ البانی رح نے اسے ضعیف کہا ہے ۔))
مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے جس طرح نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا اسی طرح ظالموں کو بعض کو بعض کا ولی بنا دیتے ہیں اور بعض بعض سے ہلاک ہوتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔
روز قیامت جن و انس سے باز پرس۔
یہ اور سرزش اور ڈانٹ ڈپٹ ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف انسانوں اور جنوں کو ہو گی ان سے سوال ہو گا کہ کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے ۔
یہ یاد رہے کہ رسول کل کے کل انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا ۔
آئمہ سلف کا مذہب خلف کا مذہب یہی ہے جنات میں نیک لوگ اور جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے ہیں ۔
بدی سے روکتےتھے
رسول صرف انسانوں ہی سے آتے رہے ہیں اور ان کی دلیل ایک تو یہ آیت ہے سو یہ تو کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ اس میں صراحت نہیں اور یہ آیت تو بالکل ویسیہی ہے جیسے((مرج البحرین))الخ سے((یخرج منھا اللوءلوءولمرجان))سورت الرحمن ))۔الخ،تک کی آیات صاف ظاہر کرتی ہیں کہ کہ موتی مرجان صرف کھاری پانی کے سمندروں میں نکلتے ہیں میٹھے پانی سے نہیں نکلتے ۔
لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا گیا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے نہیں نکلتے لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے مراد یہی ہے ۔
اسی طرح اس آیت میں مراد جنوں انسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دنوں میں سے ہر ایک میں سے اور رسولوں کے صرف انسان ہی ہونے کی دلیل((انا اوحیناعلیک ))سے((بعد الرسل))سورت النساء ))تک کی آیتیں اور((و جعلنا فی ذریتہ النبوتہ والکتاب))سورت العنکبوت))۔
پس ثابت ہوا کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا انحصار آپ ہی کی اولاد میں رہا ۔
اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انوکھی بات کا قائل ایک بھی نہیں ہے کہ آپ سے پہلے نبی جن ہوتے تھے اور پھر
ان سے نبوت چھین لی گئی ۔
اور آیت اس سے بھی صاف فرمان ہے سورت الفاطر((و ما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیاکلون الطعام و یمشون فی الاسواق))
یعنی تجھ سے پہلے جنتے ہم نے رسول بھیجے سب کھانا کھاتے تھے بازاروں میں آتے جاتے تھے
اور آیت میں ہے اور اس نے یہ مسئلہ بالکل صاف کر دیا ہے فرماتا ہے((و ما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القری))سورت یوسف))
یعنی تجھ سے پہلے ہم نے مردوں کو ہی بھیجا ہے جو شہروں کے ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنے وحی نازل فرمائی تھی ۔چنانچہ جنات کا یہی قول قرآن میں موجود ہےسورت الاحقاف((واذ صرفنا الیک نفرا من الجن))الخ،
جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف پھیرا جو قرآن سنتے رہے جب سن چکے تو واپس اپنی قوم کے پاس آ گئے اور انہیں اگاہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے موسی علیہ السلام کے بعد کی نازل شدہ کتاب سنی جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہ حق دکھاتی ہے اور صراط مستقیم پر رہبری کرتی ہے ۔
پس تم اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی مانو اور اس پر ایمان لاو تا کہ تمہارے گناہوں کو بخشے اور تمہیں المناک عذابوں سے بچائے اللہ کی طرف سے جو پکارنے والا ہے اس کی نہ ماننے والے اللہ کو عاجزنہیں کر سکتے نہ اس کے سوا اپنا کوئی اور کارساز اور والی پا سکتے ہیں بلکہ ایسے لوگ گمراہی میں ہیں ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ اس موقعہپر جنات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت الرحمن پڑھ کر سنائی تھی((ترمذی شریف کتاب التفسیر القرآن ))
جس میں ایک آیت((سنفرغ لکم ایہ الثقلان))سورہ الرحمن ))
الخ ہے۔
یعنی اے جنو انسانوہم صرف تمہاری ہی طرف تمام تر توجہ کرنے کے لیے عنقریب فارغ ہوں گے ۔
پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلا رہے ہو ؟ ؟
الغرض انسانوں اور جنوں کو اس آیت میں نبیوں کے ان میں سے بھیجنے میں بطور خطاب کے شامل کر لیا ہے ورنہ رسول سب انسان ہی ہوتے ہیں ۔
نبیوں کا کام یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں سنائیں اور قیامت کے دن سے ڈرائیں اس سوال کے جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہم نے اقرار کیا تیرے رسول ہمارے پاس آئے تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن بھی متنبہ کر دیا تھا ۔
پھر جناب باری فرماتا ہے انہوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گزاری رسولوں کو جھٹلاتے رہے ۔
معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آرائش پر جان دیتے رہ گئے ۔
شہوت پرستی میں پڑے رہے قیامت کے دن اپنی زبانوں سے اپنے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی۔
صلوات اللہ و سلام علیھم ۔
اللہ ظالم نہیں۔
جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کر دئیے اس لئے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ بستی کے لوگوں کو اپنی منشا معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑے اور اپنا پیغام پہنچائے بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے ۔
فرماتا ہے سورت فاطر((و ان من امتہ الا خلا فیھا نذیر ))۔
یعنی کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی آگاہ کرنے والا نہ آیا ہو اور آیت میں ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اے لوگو اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے بچو اور جگہ ہے ہم نے رسولوں کو بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں کرتے ۔
سورہ تبارک میں ہے جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی تو وہاں کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس آگاہ کرنے والے نہیں آئے تھے؟
وہ کہیں گے آئے تھے ۔اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر رح نے اور بھی بیان کیے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے۔
ہر عامل آپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے ۔
نیک نیکی کا اور بد بدی کا۔
خواہ انسان ہو خواہ جن ہو بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تا کہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ ملے گا ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَرَبُّكَ الْغَنِىُّ ذُو الرَّحْـمَةِ ۚ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَآءُ كَمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرَ (133)۔
ترجمہ ۔
اور تیرا رب بے پروا رحمت والا ہے، اگر وہ چاہے تو تم سب کو اٹھالے اور تمہارے بعد جسے چاہے تمہاری جگہ آباد کر دے جس طرح تمہیں ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے○۔
اِنَّ مَا تُوعَدُوْنَ لَاٰتٍ ۖ وَّمَآ اَنْتُـمْ بِمُعْجِزِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرَ (134)
ترجمہ ۔
بے شک جس چیز کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے، اور تم عاجز نہیں کر سکتے○۔
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّـىْ عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ مَنْ تَكُـوْنُ لَـهٝ عَاقِـبَةُ الـدَّارِ ۗ اِنَّهٝ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ○ سورت الانعام آیت نمبر(135)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو اے لوگو! تم اپنی جگہ پر کام کرتے رہو اور میں بھی کرتا ہوں، عنقریب معلوم کر لو گے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے ہوتا ہے، بے شک ظالم نجات نہیں پاتے○۔
وَجَعَلُوْا لِلّـٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّـٰهِ بِزَعْمِهِـمْ وَهٰذَا لِشُرَكَـآئِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَـآئِـهِـمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّـٰهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلّـٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰى شُرَكَـآئِـهِـمْ ۗ سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ○ سورت الانعام آیت نمبر (136)۔
ترجمہ ۔
اور اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اس کے لیے مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا حصہ ہے اور یہ حصہ ہمارے شریکوں کا ہے، پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہے وہ اللہ کی طرف نہیں جا سکتا، اور جو اللہ کا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے، کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں○۔
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْـرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِـمْ شُرَكَـآؤُهُـمْ لِيُـرْدُوْهُـمْ وَلِيَلْبِـسُوْا عَلَيْـهِـمْ دِيْنَـهُـمْ ۖ وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَا فَـعَلُوْهُ ۖ فَذَرْهُـمْ وَمَا يَفْتَـرُوْنَ○ سورت الانعام آیت (137)۔
ترجمہ ۔
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے خیال میں ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کرنے کو خوشنما بنا دیا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں مبتلا کر دیں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، سو چھوڑ دو انہیں اور اس افتراء کو جو وہ کرتے ہیں○۔
تشریح و تفسیر ۔
پرودگار رحیم و نے نیاز ہے اللہ تعالی اپنی تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، ساری مخلوق اپنے ہر حال میں اسی کی محتاج ہے ۔
وہ بڑی ہی رافت و رحم و کرم اس کی خاص صفتیں ہیں ۔
جیسے فرمان ہے((ان اللہ بالناس لرءوف الرحیم))اللہ تعالی اپنے بندوں کے ساتھ مہربانی اور لطف سے پیش آنے والا ہے تم جو اس کی مخالفت کر رہے ہو تو یاد رکھو کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں ایک آن میں غارت کر سکتا ہے اور تمہارے بعد ایسئ لوگوں کو بسا سکتا ہے جو اس کی اطاعت کریں یہ اس کی قدرت میں ہے تم دیکھ لو اس نے آخر اوروں کے قائم مقام تمہیں بھی کیا ہے ایک قرن کے بعد دوسرا قرن وہی لاتا ہے ۔
ایک کو مار ڈالتا ہے دوسرے کو پیدا کر دیتا ہے لانے لے جانے پر اس کی مکمل قدرت ہے جیسے فرمان ہے اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو فنا کر دے اور دوسروں کو لے آئے وہ تو اس پر قادر ہے فرمان ہے((یا ایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ ))((فاطر))
لوگو تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور نئی مخلوق لے آئے اللہ کے لیے یہ انوکھی بات نہیں ۔
اور فرمان ہے((واللہ الغنی و انتم الفقراء ))((محمد))
اللہ غنی ہے اور تم سب فقیر ہو فرماتا ہے اگر تم نافرمان ہو گئے تو وہ تمہیں بدل کر اور قوم لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔
ذریت سے مراد اصل و نسل ہے۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ قیامت جنت دوزخ کے جو وعدے تم سے کئے جا رہے ہیں وہ یقینا سچے ہیں اور یہ سب کچھ ہونے والا ہے تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے وہ تمہارے اعادے پر قادر ہے ۔
تم گل سڑ کر مٹی ہو جاو گے پھر وہ تمہیں نئی پیدائش میں پیدا کرے گا اس پر عمل کوئی مشکل نہیں ہے ۔
لوگو تم اپنی کرنی کرتے جاو میں اپنے طریقے پر قائم ہوں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا کہ کون ہدایت تھا؟ اور ضلالت پر کون تھا؟
کون نیک کام ایجاد کرتا ہے اور کون گھٹنوں میں سر ڈال کر روتا جیسے فرمایا ہے ایمانو سے کہہ دو تم اپنے شغل میں رہو میں بھی اپنے کام میرا لگا ہوا ہوں۔
تم بھی منتظر رہو ہم بھی انتظار میں ہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام ہو جائے گا کہ انجام کے لحاظ سے کون اچھا ہے؟
یاد رکھو جو وعدے اللہ نے اپنے رسول سے کئے ہیں سب اٹل ہے ۔
چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا وہ نبی جس کا چپہ مخالف تھا جو
وہ نبی جس کا چپہ مخالف تھا جو یکہ اور تنہا تھا جو وطن سے نکال دیا گیا تھا جس کی دشمنی ایک ایک کر کے کرتا تھا اللہ نے اسے غلبہ عطا کیا لاکھوں دلوں پر اس کی حکومت ہو گئی اس کی زندگی میں ہی تمام جزیرہ عرب کا وہ تنہا مالک بن گیا یمن اور بحرین پر بھی اس کے سامنے اس کا جھنڈا لہرانے لگا پھر اس کے جان نشینوں نے دنیا کو کھنگال ڈالا بڑی بڑی سلطنتوں کے منہ پھیر دئیے جہاں گئے غلبہ پایا جدھر رخ کیا فتح حاصل ہوئی یہی اللہ کا وعدہ تھا کہ میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غالب آئیں گے ۔
مجھ سے زیادہ قوت و عزت کسی کی نہیں ۔
فرما دیا تھا کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی مدد فرمائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی الخ۔
رسولوں کی طرف اس نے وحی کی تھی کہ ہم ظالموں کو تہ و بالا کر دیں اور ان کے بعد زمینوں کے سرتاج تمہیں بنا دیں گے کیوں کہ تم مجھ سے اور میرے عذابوں سے ڈرنے والے ہو۔
وہ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ تم میں سے ایمانداروں اور نیک کاروں کو زمین کا سلطان بنا دوں گا جیسے کہ پہلے سے یہ دستور چلا آ رہا ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالی دین میں مضبوطی اور کشائش دے گا جس کے دین سے وہ خوش ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں الخ۔
کفر و شرک پر مشتمل بدعت ۔
مشرکین کی ایک تو ایجاد بدعت جو کفر و شرک کا ایک طریقہ تھی بیان ہو رہی ہے کہ ہر چیز پیدا کی ہوئی تو ہماری ہے پھر اس میں سے نذرانہ کا کچھ حصہ ہمارے نام ٹھہراتے ہیں اور کچھ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا جنہیں وہ ہمارا شریک ٹھہرائے ہوئے ہیں اسی کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے تھے کہ اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا نذرانہ بتوں کے نام والے میں مل گیا وہ تو بتوں کا ہو گیا لیکن اگر بتوں کے ٹھہرائے ہوئے میں سے کچھ اللہ والے میں مل گیا تو اسے جھٹ سے نکال لیتے ہیں، کوئی ذبیحہ اگر بھول کر بھی اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ کسی بری تقسیم کرتے ہیں ۔
اولا تو یہ تقسیم ہی جہالت کی علامت ہے کہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کی ہوئیں اسی کی ملکیت کی پھر ان میں سے دوسرے کے نام کی کسی چیز کو نذر کرنے والے یہ کون ہیں؟
جو اللہ لا شریک ہے انہیں اس کے شریک ٹھہرانے کا کیا مقصد؟ ؟
پھر اس ظلم کو دیکھو اللہ کے حصے میں دے بتوں کو پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ سکے یہ کیسے بد ترین اصول ہیں ۔
ایسی ہی غلطی یہ بھی تھی کہ اللہ کے لئے لڑکیاں اور آپنے لیے بیٹے اور اس کے اور جن لڑکیوں سے تم بیزار ہو وہ اللہ کی ہوں ۔
کیسی بری تقسیم ہے۔
شیطان کی گمراہی ۔
جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لیے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کے نام بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیاطین نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بے وجہ قتل کر دیں ۔
کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟
کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ ۔

اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے۔
یہاں تک کہ یہ بد ترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کےہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ہے ۔
قرآن مجید نے فرمایا کہ ان بے گناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کر دی گئی پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے ۔
لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کرتے ۔
لیکن اس میں بھی اسی کی حکمت ہے۔
اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اس کی باز پرس سےکوئی بچ نہیں سکتا ۔
پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے اور ان کی افتراء پردازی سے علیحدگی اختیار کر لو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَقَالُوْا هٰذِهٓ ٖ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌۖ لَّا يَطْعَمُهَآ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِـمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَاَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُوْنَ اسْـمَ اللّـٰهِ عَلَيْـهَا افْتِـرَآءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيْـهِـمْ بِمَا كَانُـوْا يَفْتَـرُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (138)
ترجمہ ۔
اور کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیت محفوظ ہیں، انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم چاہیں اور کچھ جانور ہیں جن پر سواری حرام کر دی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ سب اللہ پر افتراء ہے، عنقریب اللہ انہیں اس افتراء کی سزا دے گا○۔
وَقَالُوْا مَا فِىْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّـذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓى اَزْوَاجِنَا ۖ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُـمْ فِيْهِ شُرَكَـآءُ ۚ سَيَجْزِيْـهِـمْ وَصْفَهُـمْ ۚ اِنَّهٝ حَكِـيْـمٌ عَلِيْـمٌ ○
سورت الانعام آیت نمبر (139)
ترجمہ ۔
اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے خاص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے، اور جو بچہ مردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں برابر ہیں، اللہ انہیں ان باتوں کی سزا دے گا، بے شک وہ حکمت والا جاننے والا ہے○۔
قَدْ خَسِرَ الَّـذِيْنَ قَتَلُوٓا اَوْلَادَهُـمْ سَفَهًا بِغَيْـرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُـمُ اللّـٰهُ افْتِـرَآءً عَلَى اللّـٰهِ ۚ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُـوْا مُهْتَدِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرَ (140)
ترجمہ ۔
تحقیق خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت اور نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ پر بہتان باندھ کر اس رزق کو حرام کر لیا جو اللہ نے انہیں دیا تھا، بے شک وہ گمراہ ہوئے اور سیدھی راہ پر نہ آئے○۔
عنوانشرکیہ امور شیطانی طرہقے۔
حجر کے معنی احرام کے ہیں ۔
یہ طریقے شیطانی تھے کوئی اللہ کا مقرر کردہ راستہ نہ تھا ۔
اپنے معبودوں کے نام یہ چیزیں کر دیتے تھے ۔
پھر جسے چاہتے ہیں کھلاتے۔جیسے فرمان((قل ارائتم ما انزل اللہ لکم))سورت یونس))۔
الخ، یعنی بتلاو تو یہ اللہ کے دئیے رزق میں سے تم سے جو اپنے طور پر حلال و حرام مقرر کر لیتے ہو اس کا حکم تمہیں اللہ نے دیا ہے یا تم نے خود ہی اللہ پر تراش لیا ہے؟ ؟
دوسری آیت میں صاف فرمایا((ما جعل اللہ من بحیرتہ))سورت المائدہ))الخ،یہ کافروں کی نادانی، افتراء اور جھوٹ ہے ۔
بحیرہ، سائبہ اور حام نام رکھ کر ان جانوروں کو اپنے معبودان باطل کے نام پر داغ دیتے تھے پھر ان سے سواری نہیں لیتے تھے ۔
جب ان کے بچے ہوتے تھے تو انہیں ذبح کرتے تھے حج کے لیے بھی ان جانوروں پر سواری کرنا حرام جانتے تھے ۔
نہ کسی کام میں ان کو لگاتے تھے نہ ان کا دودھ نکالتے تھے پھر ان کاموں کو شرعی کام قرار دیتے تھے اور اللہ کا فرمان جانتے تھے اللہ انہیں ان کے اس کرتوت کا بہتان بازی کا بدلہ دے گا ۔
شرکیہ نذر و نیاز ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جاہلیت میں یہ بھی رواج تھا کہ جن چوپایوں کو وہ اپنے معبودان باطل کے نام کر دیتے تھے ان کا دودھ صرف مرد پیتے تھے جب انہیں بچہ ہوتا اگر نر ہوتا تو صرف مرد ہی کھاتے اگر مادہ ہوتا تو اسے ذبح ہی نہ کرتے اور اگر پیٹ ہی سے مردہ نکلتا تو مرد و عورت سب کھاتے اللہ نے فعل سے بھی روکا ۔
شعبی رح کا قول ہے کہ بحیرہ کا دودھ صرف مرد پیتے اگر وہ مر جاتا تو گوشت مرد و عورت سب کھاتے۔
ان کی ان جھوٹی باتوں کا بدلہ اللہ انہیں دے گا کیوں کہ یہ سب ان کا جھوٹ اللہ پر باندھا ہوا تھا، فلاح و نجات اسی لئے ان سے دور کر دی گئی تھی ۔
یہ اپنی مرضی سے کسی کو حلال کسی کو حرام کر لیتے تھے پھر اسے رب کی طرف منسوب کر دیتے تھے اللہ جیسے حکیم کا کوئی فعل کوئی قول شرع کوئی تقدیر بے حکمت نہیں ہوتی وہ اپنے بندوں کی خیر و شر سے دانا ہے اور انہیں بدلے دینے والا ہے ۔
اولاد کو قتل کرنے والے خسارے میں۔
اولادے کے قاتل اللہ کے حلال کو حرام کرنے والے دونوں جہاں کی بربادی اپنے اوپر لینے والے ۔
دنیا کا گھاٹا تو ظاہر ہے ان کے یہ دونوں کام انہیں نقصان پہنچانے والے ہیں ۔
بے اولاد یہ ہو جائیں گے مال کا ایک حصہ ان کا تباہ ہو جائے گا ۔
رہا آخرت کا نقصان سو چونکہ یہ مفتری ہیں، کذاب ہیں، وہاں کی بد ترین جگہ انہیں ملے گی، عذابوں کی سزاوار یہ ہوں گے جیسے فرمان ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے نجات سے محروم کامیابی سے دور ہیں یہ دنیا میں کچھ فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو ہمارے بس میں آئیں گے پھر تو ہم انہیں سخت تر عذاب چکھائیں گے کیونکہ یہ کافر تھے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر تو اسلام سے پہلے کے عربوں کی بد خصلتی معلوم کرنا چاہے تو سورت الانعام کی ایک سو تیس آیات کے بعد((قد خسر الذین ))الخ،والی آیت پڑھیں ۔((بخاری کتاب مناقب قریش))
 
Top