Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
وَاَقْسَمُوْا بِاللّـٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِـهِـمْ لَئِنْ جَآءَتْـهُـمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِـهَا ۚ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيَاتُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۖ وَمَا يُشْعِـرُكُمْ اَنَّـهَآ اِذَا جَآءَتْ لَا يُؤْمِنُـوْن○َ
سورت الانعام مکی آیت(109)
ترجمہ ۔
اور وہ اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو اس پر ضرور ایمان لائیں گے، ان سے کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ کے ہاں ہیں، اور تمہیں کیا خبر ہے کہ جب نشانیاں آئیں گی تو یہ لوگ ایمان لے ہی آئیں گے○۔
وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَـهُـمْ وَاَبْصَارَهُـمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُـوْا بِهٓ ٖ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُـمْ فِىْ طُغْيَانِـهِـمْ يَعْمَهُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر(110)۔
ترجمہ ۔
اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔○
تشریح و تفسیر ۔
مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مشرکین کے حربے۔
صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک و شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور و شور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم مسلمان بھی ہو جائیں گے ۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اللہ تعالی چاہے تو دکھائے نہ چاہے تو نہ دکھائے ۔
ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسی علیہ السلام ایک پھتر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود علیہ السلام نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تو آپ بھی ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں جو ہم کہیں گے تو ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان لیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟
انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو اللہ کی قسم سب آپ کو سچا ماننے لگیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کلام سے امید بندھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اللہ تعالی سے دعا شروع کر دی۔
وہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا
سنیے اگر آپ چاہیں تو اللہ اس صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے گا لیکن اگر اس کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب انہیں فنا کر دے گا ۔
اب تو اللہ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے کہ ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اللہ تعالی میں صفا کو سونے کا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب شواہد بہت ہیں اسی پر آیتیں((و لکن اکثرھم یجھلون))تک نازل ہوئیں ۔
یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شواہد بہت ہیں چنانچہ قرآن مجید میں اور جگہ فرمایا ہے((و ما منعنا ان نرسل بالایات الا ان کذب بھا الاولون))((بنی اسرائیل))
یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیزیں مانع ہیں کہ ان کے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلایا ۔
((انھا))کی دوسری قرات((انھا))الف ڈیر والا))بھی ہے اور((لا یومنون))کی دوسری قرات((لا تومنون))ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ہے؟؟
ممکن ہے کہ تمہارے طلب کردہ معجزے کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے کہ یہ مشرکین تمہاری لائی ہوئی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد بھی بے ایمان کی رہیں گے ۔
اس صورت میں((انھا))الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی((یشعرکم))کا معمول ہو کر اور((لا یومنون ))کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت سورت اعراف((الا تسجدوا اذا امرتک))میں اور سورت الانبیاء((و حرام علی قریتہ اھلکنھا انھم لا یرجعون))میں تو مطلب یہ وتا ہے کہ اے مومنوں تمہارے پاس اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟؟اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ((انھا))معنی میں(( لعلھا ))کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرات((انھا الف زبر سے))کے بدلے((لعلھا))ہی ہے ۔
عرب محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ۔
امام ابن جریر رح اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ۔
اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔
ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ۔
روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی
بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے اللہ تعالی ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟
اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے؟
اسی لئے اس نے بتلا دیا ہے ایسا ہو گا فرماتا ہے سورت فاطر((و لا ینبئک مثل خبیر))۔
اللہ تعالی جو کامل خبر اور کون دے سکتا ہے؟
اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں گے ۔
لیکن اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا دئیے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے ۔
اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ہرگز نہ چھوڑیں گے،یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لیے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کے لیے کوئی خالی جگہ ہی نہیں ۔
پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔
بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
سورت الانعام مکی آیت(109)
ترجمہ ۔
اور وہ اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو اس پر ضرور ایمان لائیں گے، ان سے کہہ دو کہ نشانیاں تو اللہ کے ہاں ہیں، اور تمہیں کیا خبر ہے کہ جب نشانیاں آئیں گی تو یہ لوگ ایمان لے ہی آئیں گے○۔
وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَـهُـمْ وَاَبْصَارَهُـمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُـوْا بِهٓ ٖ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُـمْ فِىْ طُغْيَانِـهِـمْ يَعْمَهُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر(110)۔
ترجمہ ۔
اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔○
تشریح و تفسیر ۔
مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مشرکین کے حربے۔
صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک و شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور و شور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم مسلمان بھی ہو جائیں گے ۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اللہ تعالی چاہے تو دکھائے نہ چاہے تو نہ دکھائے ۔
ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسی علیہ السلام ایک پھتر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلتے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود علیہ السلام نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تو آپ بھی ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں جو ہم کہیں گے تو ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان لیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟
انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو اللہ کی قسم سب آپ کو سچا ماننے لگیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کلام سے امید بندھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اللہ تعالی سے دعا شروع کر دی۔
وہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا
سنیے اگر آپ چاہیں تو اللہ اس صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے گا لیکن اگر اس کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب انہیں فنا کر دے گا ۔
اب تو اللہ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے کہ ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اللہ تعالی میں صفا کو سونے کا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب شواہد بہت ہیں اسی پر آیتیں((و لکن اکثرھم یجھلون))تک نازل ہوئیں ۔
یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شواہد بہت ہیں چنانچہ قرآن مجید میں اور جگہ فرمایا ہے((و ما منعنا ان نرسل بالایات الا ان کذب بھا الاولون))((بنی اسرائیل))
یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیزیں مانع ہیں کہ ان کے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلایا ۔
((انھا))کی دوسری قرات((انھا))الف ڈیر والا))بھی ہے اور((لا یومنون))کی دوسری قرات((لا تومنون))ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ہے؟؟
ممکن ہے کہ تمہارے طلب کردہ معجزے کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے کہ یہ مشرکین تمہاری لائی ہوئی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد بھی بے ایمان کی رہیں گے ۔
اس صورت میں((انھا))الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی((یشعرکم))کا معمول ہو کر اور((لا یومنون ))کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت سورت اعراف((الا تسجدوا اذا امرتک))میں اور سورت الانبیاء((و حرام علی قریتہ اھلکنھا انھم لا یرجعون))میں تو مطلب یہ وتا ہے کہ اے مومنوں تمہارے پاس اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟؟اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ((انھا))معنی میں(( لعلھا ))کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرات((انھا الف زبر سے))کے بدلے((لعلھا))ہی ہے ۔
عرب محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ۔
امام ابن جریر رح اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ۔
اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔
ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ۔
روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی
بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے اللہ تعالی ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟
اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے؟
اسی لئے اس نے بتلا دیا ہے ایسا ہو گا فرماتا ہے سورت فاطر((و لا ینبئک مثل خبیر))۔
اللہ تعالی جو کامل خبر اور کون دے سکتا ہے؟
اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں گے ۔
لیکن اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا دئیے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے ۔
اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے ہرگز نہ چھوڑیں گے،یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لیے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کے لیے کوئی خالی جگہ ہی نہیں ۔
پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔
بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے ۔
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔