ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
تماثل اجسام و جواہر منفردہ
جو لوگ کہتے ہیں کہ اجسام جواہر منفردہ سے مرکب ہیں، ان کا یہ قول مشہور ہے کہ جواہر متماثل ہیں۔ بلکہ مسلمانوں میں سے اکثر کہتے ہیں کہ اجسام بھی متماثل ہیں، کیونکہ وہ جوہر متماثلہ سے مرکب ہیں اور اگر ان میں اختلاف ہے تو وہ اختلاف اعراض کی وجہ سے ہے اور یہ صفات چونکہ عارض ہیں لازم نہیں ہیں، اس لئے وہ تماثل کی نفی نہیں کرسکتیں، تماثل کی تعریف یہ ہے کہ دوتماثل اشیاء میں سے کسی ایک کے متعلق جو بات جائز ہو وہ دوسری کے متعلق بھی جائز ہو، ایک کے لئے جو چیز واجب ہو، وہ دوسری کے لئے بھی واجب ہو۔ اورایک پر جو چیز ممتنع ہو وہ دوسری پر بھی ممتنع ہو۔ اب چونکہ اجسام جواہر سے بنے ہیں، اس لئے اگر ایک جسم کے لئے کوئی حکم ثابت ہو جائے تو لوگ تماثل کی بناء پر کہتے ہیں کہ یہ حکم جمیع اجسام کے لئے ثابت ہے۔
اکثر عقلاء اس سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بعض بلند پایہ اور بلند خصال اصحاب نے ان دلیلوں کا ابطال بھی کیا ہے جو تماثل کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ چنانچہ رازی اور آمدی وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی نسبت متعدد مقامات پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی جا چکی ہے۔
اشعری نے کتاب ''الابانہ '' میں تماثل اجسام کے قول کو معتزلہ اجسام کے قول کو معتزلہ کے ان اقوال میں شمار کیا ہے جوان کے نزدیک غلط ہیں۔ یہ لوگ جہمیہ با قدرہ کے اصول پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض مشیئت سے دو متماثل اجسام میں سے ایک کو بعض اعراض سے مختص کرتا ہے اور دوسرے کو نہیں کرتا۔ جنسوں کا بدل جانا محال ہے۔ کوئی جسم عرضًا وجنسًا دوسری جنس میں منقلب نہیں ہو سکتا، اگر یہ کہیں کہ اجسام مخلوق ہیں اور مخلوق دوسری جنس سے منقلب ہوتی ہے تو جنسوں کا انقلاب لازم آتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچہ جو رحم سے پیدا ہوتا ہے، میوہ جو درخت سے حاصل ہوتا ہے، اور آگ جو چقماق سے نکلتی ہے، یہ سب چیزیں جواہر ہیں جو اس مادہ میں موجود تھے جن سے یہ چیزیں پیدا ہوئیں۔ اور یہ جواہر بعینہٖ باقی ہیں۔ صرف اجتماع، افتراق، حرکت اور سکون سے ان کی صفات میں تغیر پیدا ہو گیا ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اجسام جواہر منفردہ سے مرکب ہیں، ان کا یہ قول مشہور ہے کہ جواہر متماثل ہیں۔ بلکہ مسلمانوں میں سے اکثر کہتے ہیں کہ اجسام بھی متماثل ہیں، کیونکہ وہ جوہر متماثلہ سے مرکب ہیں اور اگر ان میں اختلاف ہے تو وہ اختلاف اعراض کی وجہ سے ہے اور یہ صفات چونکہ عارض ہیں لازم نہیں ہیں، اس لئے وہ تماثل کی نفی نہیں کرسکتیں، تماثل کی تعریف یہ ہے کہ دوتماثل اشیاء میں سے کسی ایک کے متعلق جو بات جائز ہو وہ دوسری کے متعلق بھی جائز ہو، ایک کے لئے جو چیز واجب ہو، وہ دوسری کے لئے بھی واجب ہو۔ اورایک پر جو چیز ممتنع ہو وہ دوسری پر بھی ممتنع ہو۔ اب چونکہ اجسام جواہر سے بنے ہیں، اس لئے اگر ایک جسم کے لئے کوئی حکم ثابت ہو جائے تو لوگ تماثل کی بناء پر کہتے ہیں کہ یہ حکم جمیع اجسام کے لئے ثابت ہے۔
اکثر عقلاء اس سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بعض بلند پایہ اور بلند خصال اصحاب نے ان دلیلوں کا ابطال بھی کیا ہے جو تماثل کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ چنانچہ رازی اور آمدی وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی نسبت متعدد مقامات پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی جا چکی ہے۔
اشعری نے کتاب ''الابانہ '' میں تماثل اجسام کے قول کو معتزلہ اجسام کے قول کو معتزلہ کے ان اقوال میں شمار کیا ہے جوان کے نزدیک غلط ہیں۔ یہ لوگ جہمیہ با قدرہ کے اصول پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض مشیئت سے دو متماثل اجسام میں سے ایک کو بعض اعراض سے مختص کرتا ہے اور دوسرے کو نہیں کرتا۔ جنسوں کا بدل جانا محال ہے۔ کوئی جسم عرضًا وجنسًا دوسری جنس میں منقلب نہیں ہو سکتا، اگر یہ کہیں کہ اجسام مخلوق ہیں اور مخلوق دوسری جنس سے منقلب ہوتی ہے تو جنسوں کا انقلاب لازم آتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچہ جو رحم سے پیدا ہوتا ہے، میوہ جو درخت سے حاصل ہوتا ہے، اور آگ جو چقماق سے نکلتی ہے، یہ سب چیزیں جواہر ہیں جو اس مادہ میں موجود تھے جن سے یہ چیزیں پیدا ہوئیں۔ اور یہ جواہر بعینہٖ باقی ہیں۔ صرف اجتماع، افتراق، حرکت اور سکون سے ان کی صفات میں تغیر پیدا ہو گیا ہے۔