• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید احادیث میں

شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
351
پوائنٹ
36
پہلی حدیث:- "
و کل بدعة ضلالة" اور ہر بدعت گمراہی ہے
(صحیح مسلم،کتاب الجمعة باب تخفیف الصلاة والخطبة ح۸۶۸ وترقیم دارالسلام ۵۰۰۲) تقلید چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔ دوسری حدیث:-
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے
(صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح :۷۰۳۷) تقلید (قرآن و حدیث کے) دلائل کے بغیر مجتھد کے اقوال کی اندھا دھند پیروی کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کے تقلید علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔
مقلد کے جاہل ہونے پر اجماع 1:- امام ابن قیم رحمہ اللہ" القصیدۃ النونیۃ" میں فرماتے ہیں:
إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان
"علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
2:- امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں
" (تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
3:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ں: لا یقلد الا غبی او عصبی
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
4:- زمحشری فرماتے ہیں:
ان کان للضلال ام فالتقلید امھ
اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی (اطواق الذہب۷۴)
غرض یہ کہ اس طرح کے ان گنت حوالے پیش کیئے جا سکتے ہیں جن میں معتبر عند الفریقین علماء نے تصریح کی ہے کہ مقلد جاہل ہوتا ہے۔ انشاء اللہ مقلدین کی جہالت کی ایک جھلک "تقلید کے نقصانات" میں پیش کی گئی ہے۔
تیسری حدیث:-
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو، عالم کی غلطی ، منافق کا {قرآن لے کر} مجادلہ کرنا اور دنیا جو تمھاری گردنوں کو کاٹے گی۔ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو "فلا تقلدوہ" تب بھی اس کی تقلید نہ کرنا اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے نا امید نہ ہو جاؤ
۔۔۔الخ (المعجم الاوسط جلد ۹ ص۶۲۳، روایت مرسل ہے)
تنبیہ: مقلدین کے نزدیک مرسل روایت بھی حجت ہوتی ہے
چوتھی حدیث:-
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گ
ا"۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ
"اس زات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہو
تا (رواہ امام احمد ۳/۳۸۷ \و امام بہیقی فی شعب الایمان کما فی المشکوة ۱/۳۰ \و فی الدارمی۱/۱۱۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر موسی علیہ السلام جیسے معصوم عن الخطاء نبی کی تابعداری بھی جائز نہیں تو 80 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک امتی کی تابعداری کیسے جائز ہو سکتی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
واللہ اعلم
 

بزمی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 17، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
37
پوائنٹ
9
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔اس فورم سے کافی عرصے سے مستفید ہو رہا ہوں ماشاءاللہ علم کا ذخیرہ ہے ۔۔۔۔ کئی انمول کتب یہاں مہیا ہیں جس کے لئے نہایت ہی مشکور ہوں ۔۔ جزاک اللہ خیر ۔۔
محترم بالا کوٹی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے کافی ساری احادیث مبارکہ جمع فرمادی ۔۔ جس کے لئے جزاک اللہ خیر ۔۔۔۔ لیکن براہ کرم ایک سوال ہے ۔۔ چونکہ میں بھی اپنے آپ کو
مقلدین میں گردانتا ہوں ۔۔ لہذا صرف اتنا بتا دیجئے ۔۔ کہ اجتہاد کیا ہے ؟؟؟؟ آیا کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرما رہے ہوتے ہیں جب انہیں غالبا کسی منطقہ کا گورنر منتخب کیا گیا تھا تو وہا ں بھیجتے وقت پوچھا تھا کہ ۔۔۔ اے علی (رضی اللہ عنہ ) تم وہاں فیصلے کیسے کیا کرو گے ؟؟؟ تو جواب میں علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قران سے ۔۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ۔۔۔۔۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوال کرتے ہیں کہ جب تمھیں ان دونوں میں فیصلہ کرنے کی سہولت نہ ملے تو ؟ تو علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اجتہاد کریں گے ۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سراہتے ہیں ۔۔۔۔
آپ کے مطابق یہ اجتہاد کیا ہے ؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میں کافی دنوں سے ایک بات کے جواب کا رد تلاش کررہا تھا۔۔۔
کے شریعت کے باب میں تقلید جو غالباََ میں نے جمشید بھائی کی کسی تحریر میں پڑھا تھا۔۔۔ کا جواب آپ کی پوسٹ میں پڑھ کر (ابتسامہ)

ان کان للضلال ام فالتقلید امھ
اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی (اطواق الذہب۷۴)
جزاکم اللہ خیراََ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔ تو علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اجتہاد کریں گے ۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سراہتے ہیں ۔۔۔۔
آپ کے مطابق یہ اجتہاد کیا ہے ؟؟؟
آپ کی بات کا جواب دینے سے پہلے۔۔۔
یہ جاننا بےحدضروری ہوگا کے آپ کا اس بارے میں موقف کیا ہے؟؟؟۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام قرطبی یاشاید کسی دوسرے عالم سے یہ قول منسوب ہے کہ ان من برکۃ العلم عزوالقول الی قائلہ کہ علم کی برکت میں سے یہ بھی ہے کہ جس کاقول ہواسی کی جانب منسوب کیاجائے۔بالاکوٹی صاحب تقلید کے تعلق سےجتنی بھی تحریریں پوسٹ کررہے ہیں وہ سب کی سب زبیر علی زئی کی "دین میں تقلید کا مسئلہ" میں بتمام وکمال موجود ہیں۔وہ اس کتاب کاحوالہ کیوں نہیں دے رہے ہیں شاید اس میں ان کی کچھ نفسیاتی الجھنیں اورگرہیں ہوں گی۔ خداانہیں اس سے نجات بخشے۔(آمین)

کل بدعۃ ضلالۃ سے تقلید پر استدلال کرنا بالکل ایساہی ہے جیساکہ ہمارے بریلوی حضرات کچھ آیات واحادیث سے مولود شریف اورگیارہویں شریف کا انعقاد ثابت کردیتے ہیں۔نفس استدلال میں غیرمقلدین میں اوربریلویوں میں کافی مشابہت بھی ہے اورکیوں نہ ہودونوں دیوبندیوں کے خلاف ایک دوسرے کی تحریروں سے استفادہ وافادہ کرتے رہتے ہیں جیساکہ طالب الرحمن نے زلزلہ نامی کتاب سے استفادہ کرکے الدیوبندیہ نامی کتاب لکھی۔
کل بدعۃ ضلالۃ سے اگراستدلال بایں وجہ ہے کہ قرون مشہودلہابالخیر میں تقلید کا وجود نہیں تھا(جوکہ درست نہیں ہے)اس لئے بدعت ہے توخود زبیر علی زئی کاوجود جوچودھوین صدی میں ہواہے وہ مکمل وجود کے ساتھ بدعتی کیوں نہیں؟(ابتسامہ)

بدعت کی حقیقت اورماہیت سمجھنی چاہئے اوراس کے بعد بدعت پر کلام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔یہ نہیں کہ کاتااورلے دوڑے۔بدعت اورسنت کی حقیقت پ سب سے بہترین کتاب امام شاطبی نے لکھی ہے ۔وہ خود کو نہ صرف مقلد کہتے ہیں بلکہ جاہلین کے حق میں مجتہدین کوشارع کا نائب اورقائم مقام قراردیتے ہیں۔کیاان پر یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ کل بدعۃ ضلالۃ میں تقلید شامل ہے یانہیں!

حقیقت یہ ہے کہ زبیر علی زئی اوران کے ہم قماش افراد علماء کی تحریرکماحقہ سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔غیرمقلدین نے حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی ایک آدھی ادھوری عبات کا یہ مطلب سمجھ کر کہ تقلید چوتھی صدی ہجری میں پیداہوئی اس پر بدعت کاحکم لگاناشروع کردیاہے۔مسئلہ تویہ ہے کہ انہوں نے شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کو ہی نہیں سمجھاتوان کی تحریروں کو کیسے سمجھیں گے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے جہاں پر یہ کہاہے کہ تقلید قرون مشہورلہابالخیر کے بعد وقوع پذیر ہوئی تواس سے ان کی مراد تقلید شخصی یاتقلید حکمی ہے یعنی کسی ایک مسلک کی پیروی تیسری صدی ہجری میں رائج ہوئی ۔اس سے پہلے کیاحال تھاوہ حضرت شاہ ولی اللہ کی زبان میں یہ تھاکہ تقلید ہوتی تھی لیکن تقلید مطلق ہواکرتی تھی۔دیکھئے ان کی عبارت۔

اعْلَم أَن النَّاس كَانُوا قبل الْمِائَة الرَّابِعَة غير مُجْمِعِينَ على التَّقْلِيد الْخَالِص لمَذْهَب وَاحِد بِعَيْنِه
(حجۃ اللہ البالغۃ 1/260)
وَإِذا وَقعت لَهُم وَاقعَة استفتوا فِيهَا أَي مفت وجدوا من غير تعْيين مَذْهَب
(المصدرالسابق)
شاید کسی کو یہ عبارت ناکافی نظرآئے اس لئے ایک دوسری تحریر کا بھی حوالہ دے دیتاہوں کہ کیاپتہ کسی زبیر علیٰ زئی کے فقہ واجتہاد پر ایمان لانے والے کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے(ابتسامہ)

ان الناس لم یزالو من زمن الصحابۃ رضی اللہ عنھم الی ان ظھرات المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیرنکیر من احد یعتبر انکارہ ولوکان ذلک باطلالانکروہ۔(عقدالجید ص33)
ائمہ اربعہ کے مذاہب کے ظہور سے پہلے حضرات صحابہ کرام کے زمانہ سے لوگوں کا طریقہ کار یہ تھاکہ وہ علماء کی بلاتعین تقلید کیاکرتے تھے اوراس پر کسی نے بھی- جس کا اعتبار ہو-نکیر نہیں کی۔اوراگریہ امر(تقلید)باطل ہوتا توحضرات صحابہ کرام اورتابعین عظام اس پر نکیر کرتے۔
اوریہ کسی ایک مذہب سے وابستہ ہونے کا سلسلسہ بھی چوتھی صدی میں نہیں شروع ہوابلکہ چوتھی صدی میں تواس نے استحکام پکڑاتھایہ دوسری صدی میں ہی شروع ہوگیاتھا۔
چنانچہ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں
وبعدالمائین ظہرفیھم التمذہب للمجتہدین باعیانھم
مطلب یہ کہ تقلید شخصی کی شروعات تیسری صدی سے قبل ہی شروع ہوئی ۔اب تقلید کے مخالفین کیاکہیں گے اورکل بدعۃ ضلالۃ والے حدیث کے فہم میں اپنے سوء فہم کو کہاں جاکر چھپائیں گے؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فو ی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
تقلید (قرآن و حدیث کے) دلائل کے بغیر مجتھد کے اقوال کی اندھا دھند پیروی کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کے تقلید علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔

پہلی حدیث سے ان کے استدلا کا باطل ہوناثابت ہوایہ دوسری حدیث جس سے تقلید کے عدم جواز پر استدلال کیاہے پہلے سے بھی زیادہ لچرپوچ ہے۔لیکن یہ ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آئے گاجوامام ابوحنیفہ کے خلاف تعصب میں مبتلاہوں کیونکہ تفقہ کے بارے میں امام شافعی نے کہاہے کہ جس کو تفقہ چاہئے وہ امام ابوحنیفہ کا محتاج ہے اوریہ روایت امام شافعی کی توسند صحیح سے ثابت ہے۔

ایک شخص اگرمجتہد ہے تو ادلہ شرعیہ سے مسائل کاجواب دیتاہے۔ایک شخص متبحر فی المذہب ہےتووہ مجتہد کے دلائل میں غوروفکر کرتاہے اورپھر دلائل کی قدروقیمت کودیکھ کر کسی ایک قول کے مطابق جواب دیتاہے۔ایک شخص نہ مجتہد ہے نہ متبحر فی المذہب تووہ مجتہد کے اقوال پر جواب دیتاہے جوشخص اس کو گمراہی کہتاہے وہ خود گمراہ ہے۔

اگرایک شخص کی آنکھیں نہیں ہیں تواس کا علاج یہ ہے کہ وہ آنکھ والوں کے پیچھے چلے۔ایک شخص مجتہد نہیں ہے تووہ مجتہد کی تقلید کرتاہے تووہ گڑھے میں گرنے سے بچ جائے گا۔

ہاں جن لوگوں کااصراریہ ہے کہ آنکھ ہو یانہ ہو لیکن آنکھ والوں پر اعتبار نہ کرو ناک کے سیدھے اپنی رائے سے چلتے رہو توایسے لوگ ضرور گڑھے میں بھی گریں گے اورگمراہ بھی ہوں گے۔اوریہی اس حدیث کا مصداق بھی ہے اوراس کے مصداق وہ لوگ بھی ہیں جو ہرایک ہماوشما کو اجتہاد کی ریوڑی بانٹتے پھرتے ہیں ۔

ابن قیم کہتے ہیں کہ مقلد جاہل ہوتاہے اس کے عالم نہ ہونے پراجماع ہے لیکن امام شاطبی کہتے ہیں کہ میں مقلد ہوں اب وہ جاہل ہی ہوگا جوامام شاطبی کو جاہل سمجھے گا۔

قرطبی کا حوالہ بڑامزیدار ہے۔اوریہ بتاتاہے کہ غیرمقلدین کے نزدیک علمی امانت ودیانت کی کتنی کمی ہے۔آئے ذرااس حوالہ کا پوسٹ مارٹم کرلیں۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں(تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
اب ذرادیکھتے ہیں کہ بات کیاہے؟
امام قرطبی آیت کریمہ
وَإِذا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ (170)
کے تحت فرماتے ہیں کہ اس میں سات مسائل ہیں۔اس کے بعد وہ مسئلہ ثالثہ کے تحت لکھتے ہیں۔
الثَّالِثَةُ- تَعَلَّقَ قَوْمٌ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي ذَمِّ التَّقْلِيدِ لِذَمِّ اللَّهِ تَعَالَى الْكُفَّارَ بِاتِّبَاعِهِمْ لِآبَائِهِمْ فِي الْبَاطِلِ، وَاقْتِدَائِهِمْ بِهِمْ فِي الْكُفْرِ وَالْمَعْصِيَةِ. وَهَذَا فِي الْبَاطِلِ صَحِيحٌ، أَمَّا التَّقْلِيدُ فِي الْحَقِّ فَأَصْلٌ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ، وَعِصْمَةٌ مِنْ عِصَمِ الْمُسْلِمِينَ يَلْجَأُ إِلَيْهَا الْجَاهِلُ الْمُقَصِّرُ عَنْ دَرْكِ النَّظَرِ. وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِهِ فِي مَسَائِلِ الْأُصُولِ عَلَى مَا يَأْتِي، وَأَمَّا جَوَازُهُ فِي مَسَائِلِ الْفُرُوعِ فَصَحِيحٌ.
اس کا ترجمہ بھی کردیاجاتاہے تاکہ پتہ چلے کہ غیرمقلدین علم ودیانت کے کس مقام پر کھڑے ہیں۔
تیسراایک جماعت نے اس آیت سے تقلید کی مذمت پراستدلال کیاہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی اپنے آباء واجداد کی باطل میں پیروی اورکفرومعصیت میں اقتداء پر مذمت کی ہے اوریہ باطل میں صحیح ہے۔بہرحال حق میں تقلید تو یہ اصول دین میں سے ایک اصل ہے اورمسلمانوں کے ڈھالوں میں سے ایک ڈھال ہے جس کی جانب جاہل اورغوروفکر سے عاری شخص پناہ گیر ہوتاہے۔علماء نے اصول میں اس کے جواز میں اختلاف کیاہے جیساکہ آگے ذکر ہوگالیکن فروع میں تقلید کا جواز صحیح ہے۔
آپ سب نے دیکھاکہ قرطبی صاحب کیاکہہ رہے ہیں اورہمارے مہربان ان کو کس موقف کاحامل قراردے رہے ہیں شتان مافرق بینھما۔
1: قرطبی صاحب تقلید کے جواز کے قائل ہیں۔
2: علامہ قرطبی تقلید کو اصول دین مین سے ایک اصل سمجھتے ہیں
3: جاہل اورغوروفکر سے عاری شخص کاوظیفہ ان کے نزدیک محض تقلید ہے

ہمارے مہربان نے جوحوالہ یہاں پر تقلید کی مذمت میں استعمال کیاہے اس کاعربی حوالہ دیکھئے۔
الْخَامِسَةُ- التَّقْلِيدُ لَيْسَ طَرِيقًا لِلْعِلْمِ وَلَا مُوَصِّلًا لَهُ، لَا فِي الْأُصُولِ وَلَا فِي الْفُرُوعِ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ الْعُقَلَاءِ وَالْعُلَمَاءِ، خِلَافًا لِمَا يُحْكَى عَنْ جُهَّالِ الْحَشْوِيَّةِ وَالثَّعْلَبِيَّةِ مِنْ أَنَّهُ طَرِيقٌ إِلَى مَعْرِفَةِ الْحَقِّ، وَأَنَّ ذَلِكَ هُوَ الْوَاجِبُ، وَأَنَّ النَّظَرَ وَالْبَحْثَ حَرَامٌ، وَالِاحْتِجَاجُ عَلَيْهِمْ فِي كُتُبِ الْأُصُولِ.
ہمارے مترجم بالاکوٹی نے ہی ترجمہ میں شاہد ہیر پھیر کیاہے۔ان کا کہنایہ ہے کہ تقلید اصول اورفروع میں علم کا طریقہ نہیں ہے۔یہ جمہورعلماء کا قول ہے۔ہاں کچھ حشویہ اورثعلبیہ فرقہ کے جاہل کہتے ہیں کہ تقلید معرفت حق کا طریقہ ہے۔اوریہی واجب ہے اورغوروفکر اوربحث ومباحثہ حرام ہے کتب اصول میں ان پر مفصل رد موجود ہے۔
اس پورے جملہ میں جوانہوں نے جویہ ترجمہ کیاہے
جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں
پتہ نہیں کس جملہ سے کیاہے۔
غیرمقلدین یہ توسمجھتے ہی ہوں گے کہ حشویہ کن کو کہاجاتاہے اوریہاں پر قرطبی نے حشویہ سے کن کو مراد لیاہے۔لیکن چونکہ اس جملہ کو نقل کرتے اوراس کا ترجمہ کرتے توزداپنے اوپرپڑتی لہذا بعض علماء سے کام نکال لیااورتاثرایساپیش کیاگیاکہ جیسے کہ علماء احناف اس کے قائل ہیں۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
تقلید کے تعلق سے قرطبی مزید کہتے ہیں۔
السَّادِسَةُ- فَرْضُ الْعَامِّيِّ الَّذِي لَا يَشْتَغِلُ بِاسْتِنْبَاطِ الْأَحْكَامِ مِنْ أُصُولِهَا لِعَدَمِ أَهْلِيَّتِهِ فِيمَا لَا يَعْلَمُهُ مِنْ أَمْرِ دِينِهِ وَيَحْتَاجُ إِلَيْهِ أَنْ يَقْصِدَ أَعْلَمَ مَنْ فِي زَمَانِهِ وَبَلَدِهِ فَيَسْأَلُهُ عَنْ نَازِلَتِهِ فَيَمْتَثِلُ فيها فتواه، لقوله تعالى:" فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ «1» "، وَعَلَيْهِ الِاجْتِهَادُ فِي أَعْلَمِ أَهْلِ وَقْتِهِ بِالْبَحْثِ عَنْهُ، حَتَّى يَقَعَ عَلَيْهِ الِاتِّفَاقُ مِنَ الْأَكْثَرِ مِنَ النَّاسِ. وَعَلَى الْعَالِمِ أَيْضًا فَرْضُ أَنْ يُقَلِّدَ عَالِمًا مِثْلَهُ فِي نَازِلَةٍ خَفِيَ عَلَيْهِ فِيهَا وَجْهُ الدَّلِيلِ وَالنَّظَرِ
واضح رہے کہ عالم سے مسئلہ پوچھنے کو قرطبی تقلید ہی سمجھتے ہیں لہذا وہ یہاں پرعامی کاجوفرض بتارہے ہیں کہ اہل علم سے پوچھے اس کو تقلید کا ثبات ہی سمجھناچاہئے۔اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ اس کے متصل ہی کہہ رہے ہیں اگرکسی عالم پر کسی مسئلہ کی دلیل پوشیدہ رہے تووہ دوسرے عالم کی تقلید کرے اوریہ فرض ہے۔

تقلید کی مذمت قرطبی یادیگر علماء نے جہاں بھی کی ہے تو وہ بیشتر اوقات میں اصول میں تقلید کی مذمت ہوتی ہے جیساکہ یہاں خود بھی علامہ قرطبی مسئلہ سابعہ کے تحت کہہ رہے ہیں۔
قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى إِبْطَالِ التَّقْلِيدِ فِي الْعَقَائِدِ. وَذَكَرَ فِيهِ غَيْرُهُ خِلَافًا كَالْقَاضِي أَبِي بَكْرِ بْنِ الْعَرَبِيِّ وَأَبِي عُمَرَ وَعُثْمَانَ بْنِ عِيسَى بْنِ دِرْبَاسٍ الشَّافِعِيِّ. قَالَ ابْنُ دِرْبَاسٍ فِي كِتَابِ" الِانْتِصَارِ" لَهُ: وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ يَجُوزُ التَّقْلِيدُ فِي أَمْرِ التَّوْحِيدِ، وَهُوَ خَطَأٌ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:" إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ «2» ". فَذَمَّهُمْ بِتَقْلِيدِهِمْ آبَاءَهُمْ وَتَرْكِهِمُ اتِّبَاعَ الرُّسُلِ، كَصَنِيعِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ فِي تَقْلِيدِهِمْ كُبَرَاءَهُمْ وَتَرْكِهِمُ اتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دِينِهِ، وَلِأَنَّهُ فَرْضٌ عَلَى كُلِّ مُكَلَّفٍ تَعَلَّمُ أَمْرِ التَّوْحِيدِ وَالْقَطْعُ بِهِ، وَذَلِكَ لَا يَحْصُلُ إِلَّا مِنْ جِهَةِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، كَمَا بَيَّنَّاهُ فِي آيَةِ التَّوْحِيدِ «3» ، وَاللَّهُ يهدي من يريد.

قارئین نے دیکھ لیاکہ علامہ قرطبی کی بات کیاہے اورہمارے مہربان کھینچ تان کر اورحذف واضافہ کرکے اسے کیابنارہے ہیں اللہ ایسے خادمان علم ودین سے محفوظ رکھے۔آمین

:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
لا یقلد الا غبی او عصبی
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
قلت فہم کہئے یاسوء فہم وہ یہاں بھی موجود ہے۔یہ پوراجملہ امام طحاوی کا نہیں ہے امام طحاوی کاجملہ صرف اسی قدر لایقلد الاغبی،آگے اوعصبی کاجملہ قاضی ابوعبید کاہے۔جن سے امام طحاوی کا مسائل پرمناظرہ ہواکرتاتھا۔
وسمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي(لسان المیزان1/280)
کمال یہ ہے کہ حوالہ لسان المیزان کاہے اسی لسان المیزان میں یہ بات موجود ہے کہ یہ جملہ امام طحاوی اورقاضی ابوعبید کا مشترکہ جملہ ہے لیکن پھربھی کمال غباوت سے کام لیتے ہوئے مکمل جملہ امام طحاوی کی جانب منسوب کیاجارہاہے اورہمارے مدعیان عدم تقلید کی "تقلید"ملاحظہ ہو کہ جوکچھ زبیر علی زئی نے لکھ دیاایک بار مراجع اورمصادر کی جانب رجوع کئے بغیر اسی کو دوہراتے چلے جارہے ہیں اورپھر بھی دعویٰ ہے کہ ہم مقلد نہیں ہیں!
جہاں تک زمخشری کے حوالہ کی بات ہے توبطورایک عربی ادیب ان کانام بہت اونچاہے لیکن واضح رہے کہ وہ معتزلی ہیں اورمعتزلہ تقلید کے قائل نہیں تھے اس نسبت سے دیکھیں تو ان میں اورغیرمقلدین میں کافی توافق موجود ہے۔اس پر کمال یہ ہے کہ ہمارے ایک مہربان اسی تھریڈ میں زمخشری کی بات سن کر کہہ رہے ہیں کہ ان کواپنے سوال کا جواب مل گیااچھی بات ہے ۔
غرض یہ کہ اس طرح کے ان گنت حوالے پیش کیئے جا سکتے ہیں جن میں معتبر عند الفریقین علماء نے تصریح کی ہے کہ مقلد جاہل ہوتا ہے۔ انشاء اللہ مقلدین کی جہالت کی ایک جھلک "تقلید کے نقصانات" میں پیش کی گئی ہے۔
سارے حوالوں کایہی حال ہے مارے گھٹنہ پھوٹے سر۔اورکہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا،بھان متی کا کنبہ جوڑا۔سیاق سباق سے کوئی واسطہ نہیں بس کھینچ تان کرتقلید کی مذمت میں فٹ ہوجائے توگوہرمقصود حاصل۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں سے بچو، عالم کی غلطی ، منافق کا {قرآن لے کر} مجادلہ کرنا اور دنیا جو تمھاری گردنوں کو کاٹے گی۔ رہی عالم کی غلطی تو اگر وہ ہدایت پر بھی ہو "فلا تقلدوہ" تب بھی اس کی تقلید نہ کرنا اور اگر وہ پھسل جائے تو اس سے نا امید نہ ہو جاؤ
اس حدیث سےتقلید کی حرمت وکراہت ثابت نہیں ہورہی ہے بلکہ کہاجارہاہے کہ اگرعالم غلطی پر ہوتواس کی تقلید نہ کرو۔لیکن اگرعالم درست ہوتو!پھرکیاکیاجائے۔تقلید کیاجائے یانہ کیاجائے۔اس سے یہ حدیث قطعاخاموش ہے۔
علماء نے اسی حدیث کی روشنی میں یہ کہاہے کہ علماء کی شاذ اورواضح غلطیوں کی پیروی نہیں کی جائے گی اوریہ بات تقریباتمام ہی معتبر ائمہ نے کہی ہے۔
امام اوزاعی کہتے ہیں:من اخذ بنوادرالعلماءخرج من الاسلام(سنن الکبری للبیہقی10/211)
امام سلیمان التیمی کہتے ہیں لواخذت برخصۃ کل عالم اجتمع فیک الشرکلہ(جامع بیان العلم 2/90)
اس کو نقل کرکے حافظ ابن عبدالبرکہتے ہیں :ھذااجماع لااعلم فیہ خلافا۔
ابن رجب نے شرح علل الترمذی(1/410) میں ابراہیم بن ابی عبلہ سے نقل کیاہے
من حمل شاذ العلماء حمل شراکبیرا اورمعاویہ بن قرہ کہتے ہیں ایاک والشاذ من العلم ۔
امام احمد اپنی علل میں امام یحیی بن القطان کے بیٹے محمد سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد کہاکرتے تھے۔
لوان انسانااتبع کل مافی الحدیث من رخصۃ لکان بہ فاسقا(العلل1/219)
عبداللہ بن احمد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یحیی بن القطان سے سناکہ
اگرکوئی شخص ہرمعاملے میں رخصت پرعمل کرے بایں طورپر کہ سماع کے معاملے میں اہل مدینہ کا قول اختیار کرے نبیذ کے معاملے میں اہل کوفہ کااورمتعہ کے معاملے میں اہل مکہ کاتووہ فاسق ہوگا۔(المسودہ لابن تیمیہ/518)
حافظ ابن حجر التلخیص الحبیر میں عبدالرزاق کے واسطے سے معمر سے نقل کرتے ہیں کہ
اگرکوئی کہ شخص غناء کے سننے کے معاملے اورعورتوں سے دبر میں جماع کرنے کے معاملے میں اہل مدینہ اورمتعہ اورصرف کے معاملے میں اہل مکہ اورمسکر کے معاملے میں اہل کوفہ کی رائے اختیار کرے تووہ اللہ کے انتہائی برے بندوں میں سے ہوگا۔(3/187)
نوٹ:یہ تمام اقوال اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء للشیخ العوامہ سے ماخوذ ہین۔مزید تفصیل کیلئے اسی کتاب کی جانب رجوع کیاجائے۔
کہنے کا مطلب یہ ہےکہ عالم کی غلطی سے ایسی غلطی مراد ہے جس کاغلط ہوناہرایک پر عیاں اوربیاں ہو۔اوراسے سننے کے ساتھ دل میں ایک قسم کاتنافر اوروحشت پیداہوا۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب سائل نے حضرت معاذ سے پوچھاکہ ہمیں کیسے پتہ چلے گاکہ عالم کا فلاں قول غلط ہے توفرمایاکہ اس پر حق کا نورنہیں ہوگااوربعض روایات میں ہے کہ اس کوسن تم سوال کروگے اورکہنے لگوگے یہ کون سی بات ہوئی ۔
أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عُمَيْرَةَ - وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - أَخْبَرَهُ قَالَ: كَانَ لَا يَجْلِسُ مَجْلِسًا لِلذِّكْرِ حِينَ يَجْلِسُ إِلَّا قَالَ: «اللَّهُ حَكَمٌ قِسْطٌ هَلَكَ الْمُرْتَابُونَ» ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَوْمًا: " إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ، وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ، وَالرَّجُلُ، وَالْمَرْأَةُ، وَالصَّغِيرُ، وَالْكَبِيرُ، وَالْعَبْدُ، وَالْحُرُّ، فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ: مَا لِلنَّاسِ لَا يَتَّبِعُونِي وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ؟ مَا هُمْ بِمُتَّبِعِيَّ حَتَّى أَبْتَدِعَ لَهُمْ غَيْرَهُ، فَإِيَّاكُمْ وَمَا ابْتُدِعَ، فَإِنَّ مَا ابْتُدِعَ ضَلَالَةٌ، وَأُحَذِّرُكُمْ زَيْغَةَ الْحَكِيمِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلَالَةِ عَلَى لِسَانِ الْحَكِيمِ، وَقَدْ يَقُولُ الْمُنَافِقُ كَلِمَةَ الْحَقِّ "، قَالَ: قُلْتُ لِمُعَاذٍ: مَا يُدْرِينِي رَحِمَكَ اللَّهُ أَنَّ الْحَكِيمَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلَالَةِ وَأَنَّ الْمُنَافِقَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الْحَقِّ؟ قَالَ: «بَلَى، اجْتَنِبْ مِنْ كَلَامِ الْحَكِيمِ الْمُشْتَهِرَاتِ الَّتِي يُقَالُ لَهَا مَا هَذِهِ، وَلَا يُثْنِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ، فَإِنَّهُ لَعَلَّهُ أَنْ يُرَاجِعَ، وَتَلَقَّ الْحَقَّ إِذَا سَمِعْتَهُ فَإِنَّ عَلَى الْحَقِّ نُورًا» ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: قَالَ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَا يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ، مَكَانَ يُثْنِيَنَّكَ، وَقَالَ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، فِي هَذَا: الْمُشَبِّهَاتِ، مَكَانَ الْمُشْتَهِرَاتِ، وَقَالَ: لَا يُثْنِيَنَّكَ كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ بَلَى مَا تَشَابَهَ عَلَيْكَ مِنْ قَوْلِ الْحَكِيمِ حَتَّى تَقُولَ مَا أَرَادَ بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ
(سنن ابی داؤد4/202،الابانۃ الکبری1/307،المستدرک علی الصحیحین4/507،حلیۃ الاولیاء1/233،السنن الکبری10*355،المدخل الی السنن الکبری1/444،)

علماء کرام نے اس حدیث پرہمیشہ عمل کیاہے اورایسے اقوال کو ترک کیاہے جو دلائل کی کسوٹی پر پورے نہ اترتے ہوں۔ امام ابوحنیفہ کے وقف کے مسئلہ کو ترک کردیاگیا۔اوردیگربہت سے مسائل ایسے ہین جس میں فتوی صاحبین کے ول پر ہے آخر یہ سب اسی لئے توہواکہ دلائل کوپرکھنے کے بعد امام صاحب کی جگہ ان کے شاگردوں کے قول پر فتوی دیاگیا۔اوراسی کومعتبر قول قراردیاگیا۔دیگرمسالک کابھی یہی حال ہے۔
لہذا اس حدیث سے استدلال کرناکہ تقلید حرام ہے۔غلط ہے۔

تنبیہ: مقلدین کے نزدیک مرسل روایت بھی حجت ہوتی ہے
زبیر علی زئی کو کم ازکم اتناتومعلوم ہوناچاہئے کہ سنجیدہ مباحث میں الزامی جواب اسی وقت کارآمد ہوتاہے جب کہ فریقین کے نزدیک متفق علیہ دلائل سے اپنی بات ثابت کردی گئی ہو اورپھرمحض دباؤبڑھانے اورفریق کو مزید خاموش کرنے کیلئے الزامی جواب لایاجاتاہے۔یہاں توحال یہ ہے کہ ایک بھی دلیل ایسی پیش نہیں کی گئی جس سے تقلید کی حرمت وکراہت ثابت ہو۔جب زبیرعلی زئی خود مرسل حدیث کو ضعیف مانتے ہیں توکس منہ سے ایسی باتیں پیش کرتے ہیں۔
چوتھی حدیث:
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم یہودیوں سے ایسی دلچسپ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں کیا ہم ان میں سے کچھ تحریری شکل میں لا سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا تم بھی یہود ونصاری کی طرح دین میں حیران ہونے لگے ہو۔ جبکہ میں تمہارے پاس واضح، بے غبار اور صاف شفاف دین لے کر آیا ہوں۔ اگر بالفرض موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر دنیا میں تشریف لے آئیں تو ان کے پاس بھی میری تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ
"اس زات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی زندہ ہو کر تمہارے درمیان تشریف لے آئیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی تابعداری کرو تو صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے، اگر وہ زندہ ہوتے تو میری تابعداری کے سوا ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ ہو
غالب کاایک شعر ہے
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا​

زبیر علی زئی کے استدلال کو دیکھ کر جاٹ اورتیلی کے مکالمہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
ایک جاٹ اورتیلی آپس میں دوست تھے۔ ایک دن مذاق مذاق میں تیلی نے جاٹ سے کہاکہ
جاٹ رے جاٹ تیرے سرپرباٹ
اب یہ کسی حد تک موزوں کلام تھاجاٹ کواس کے جواب کی تلاش ہوئی ۔اس نے بھی کہہ دیا
تیلی رے تیلی تیرے سرپر کولہو
تیلی نے کہاکہ تمہاراکلام موزوں نہیں ہے۔جاٹ نے کہاکہ کلام کی موزونیت مت دیکھ کو کولہو کے بھاراوروزن پر غورکرو۔​
یہاں پر زبیر علی زئی محض صفحات بڑھنے کیلئے کسی بھی طرح حدیث پیش کررہے ہیں چاہے موضوع سے اس کی مطابقت ہو یانہ ہو۔

ابتداء اسلام میں جب لوگ اسلام سے مانوس نہیں تھے تواحادیث کے لکھنے بھی ممانعت تھی۔بعد مین اجازت ملی۔قبروں پرجانامنع کردیاگیاتھابعد میں اجازت ملی۔اسی طرح یہ حدیث ہے کہ حضور نے کس غضب کااظہار کیالیکن بعد مین اجازت ملی کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اورنہ تکذیب کرو اوران سے روایت بیان کرنے میں کوئی حر ج نہیں وغیرہ وغیرہ۔

دوسری بات یہ ہے کہ مجتہد کے اقوال درحقیقت شریعت کی ہی تشریح ہوتے ہیں ۔وہ کتاب وسنت کی ہی توسیع اورشرح ہواکرتی ہے۔کوئی الگ سے نیادین اورنیامذہب نہیں ہوتا۔لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ اس حقیقت سے جاہل ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ائمہ کے اجتہادات الگ سے کچھ ہیں اوراپنی باتوں کو فقہ الکتاب والسنۃ کا نام دے کر خوش ہوتے ہیں۔جب کہ ائمہ حضرات کے اجتہادات ہی درحقیقت فقہ الکتاب والسنہ ہیں۔
امام شافعی اسی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
جمیع ماتقولہ الامۃ شرح للسنۃ وجمیع السنۃ شرح للقرآن(الاتقان للسیوطی 4/24)
ابن حزم ظاہری یوں توبہت متشدد ہیں لیکن ان کے اس قول سے آج کل کے غیرمقلدین عبرت حاصل کریں وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں۔
جمیع مااستنبطہ المجتہدون معدود من الشریعۃ وان خفی دلیلہ علی العوام ومن انکر ذلک فقد نسب الائمۃ الی الخطاء وانھم یشرعون مالم یاذن بہ اللہ وذلک ضلال من قائلہ عن الطریق(المیزان الکبری للشعرانی1/16)
محمد بخیت مطیعی اپنی کتاب "احسن الکلام فیمایتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الاحکام "میں لکھتے ہیں
کل حکم من تلک الاحکام کان ماخوذا من الادلۃ الاربعۃ –الکتاب والسنۃ والاجماع والقیاس-صریحااوراجتہادا علی وجہ صحیح فھوحکم اللہ وشرعہ وہدی محمدالذی امرنااللہ باتباعہ ،لان رای کل مجتہد حیث کان ماخذہ من احدالادلۃ الاربعۃ المذکورۃ شرع اللہ فی حقہ وحق کل من قلدہ(ص6-23)
امام شاطبی اس سلسلے میں کہتے ہیں۔
المفتی قائم فی الامۃ مقام النبیﷺ والدلیل علی ذلک امور
احدہاالنقل الشرعی فی الحدیث ان العلماء ورثۃ الانبیاء
والثانی:انہ نائب عنہ فی تبلیغ الاحکام
والثالث:ان المفتی شارع من وجہ لان مایبلغہ من الشریعۃ امامنقول عن صاحبھا وامامستنبط من المنقول،فالاول :یکون فیہ مبلغا والثانی یکون فیہ قائمامقامہ فی انشاء الاحکام وانشاء الاحکام انماھوللشارع ،فاذاکان للمجتہد انشاء الاحکام بحسب نظرہ واجتہاد فھو من ھذاالوجہ شارع واجب اتباعہ والعمل علی وفق ماقالہ وھذہ ھی الخلافۃ علی التحقیق (الموافقات4/244)


یہ تھوڑے سے نصوص ذکر کئے گئے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیرمقلدین مجتہدین ائمہ کے اقوال کے تعلق سے کس لاعلمی اوربے خبری میں مبتلاہیں اورکس طرح اس کو دین سے الگ کوئی چیز سمجھتے ہیں۔اوردرحقیقت اسی چیز نے اوربدفہمی نے زبیر علی زئی کو یہ حدیث تقلید کی مذمت میں نقل کرنے پر مجبور کیاہے ۔

ورنہ اگرزبیر علی زئی اس سے واقف ہوتے کہ مجتہدین کے اقوال کی اہمیت کیاہے شریعت میں ان کاکیامقام ہے توشاید یہ حدیث تقلید کی مذمت میں پیش کرنے کی جرات بھی نہ کرتے۔لیکن کیاکیجئے جب انسان کسی چیز سے جاہل ہوتاہے تو وہ اس کا دشمن ہوجایاکرتاہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اس حدیث سےتقلید کی حرمت وکراہت ثابت نہیں ہورہی ہے بلکہ کہاجارہاہے کہ اگرعالم غلطی پر ہوتواس کی تقلید نہ کرو۔لیکن اگرعالم درست ہوتو!پھرکیاکیاجائے۔تقلید کیاجائے یانہ کیاجائے۔اس سے یہ حدیث قطعاخاموش ہے۔
1۔ اگر عالم غلطی پر ہو تو اس کی تقلید نہ کرو ۔۔ یہی تو رونا ہم روتے رہتے ہیں۔جمشید بھائی
2۔اگر عالم درست ہو تو ..... شاید آپ کے درست ہونے کامطلب عالم کی کہی گئی بات قرآن وحدیث سے متصادم نہ ہو بلکہ دلائل شرعیہ اس کی تائید کرتے ہوں۔ تو بھائی اس کو تقلید کون کہتا ہے ؟ تقلید تو تب ہوگی جب کسی کی بات ہو بھی قرآن وحدیث کےخلاف لیکن پھر بھی اس کو مانا جارہا ہو (جیسا کہ آج کے حنفی مقلدین کرتے ہیں) کہ یہ بہت بڑا عالم ہے ہوسکتا ہے اس کے پاس کوئی اور دلیل ہو۔ جس کی روشنی میں اس نے جواب دیا ہو۔
3۔ میرےناقص علم کے مطابق آپ کی اس دوسری شق پر کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ یہ بات مختلف فیہ ہے۔ مثلاً عامی کو عالم کہتا ہے کہ رفع الیدین کیا کرو کیونکہ یہ نبی کریمﷺ کی سنت مبارکہ ہے اور یہ سنت واضح، صریح، صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ اب عامی دلیل جانے بغیر عمل شروع کردیتا ہے۔ تو یہ بات تقلید نہیں کہلائے گی۔ کیونکہ بیان مسئلہ قرآن وحدیث کے صریح وصحیح دلائل سے ثابت ہے۔متصادم نہیں۔ لیکن اگر عالم کہتا ہے کہ اس مسئلہ میں حق تو فلاں کے پاس ہے (یا وہ اس طرح کی بات عامی سے چھپا دیتا ہے۔کہ حق کیا ہے؟ یعنی خیانت کے ساتھ آخرت برباد کرتا ہے۔) لیکن ہم کسی اور کے مقلد ہیں۔ اور ہم پر اس کی تقلید واجب ہے۔ یہ وہ اختلافی تقلید ہے جس کا رونا ہم برسوں سے روتے آ رہے ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
82
ری ایکشن اسکور
351
پوائنٹ
36
امام قرطبی یاشاید کسی دوسرے عالم سے یہ قول منسوب ہے کہ ان من برکۃ العلم عزوالقول الی قائلہ کہ علم کی برکت میں سے یہ بھی ہے کہ جس کاقول ہواسی کی جانب منسوب کیاجائے۔بالاکوٹی صاحب تقلید کے تعلق سےجتنی بھی تحریریں پوسٹ کررہے ہیں وہ سب کی سب زبیر علی زئی کی "دین میں تقلید کا مسئلہ" میں بتمام وکمال موجود ہیں۔وہ اس کتاب کاحوالہ کیوں نہیں دے رہے ہیں شاید اس میں ان کی کچھ نفسیاتی الجھنیں اورگرہیں ہوں گی۔ خداانہیں اس سے نجات بخشے۔(آمین)
جمشید بھائی السلام علیکم آپ سے گزارش ہے آپ تقلید کے بارے میں اپنے موقف کو واضح کریں تا کہ اس کے بارے میں ٹھیک سے بات ہو سکے اورہم سب کو حق کی پہچان ہوسکے
اس طرح بات کرنے کا کو ئی فائدہ نہیں کہ میں بھی علماء پر ناقدانہ بحث کروں اور آپ بھی ۔
میں آپ سے امید کرتاہو ں کے آپ اپنے موقف کی اچھی طر ح وضاحت کریں گے
اس میں فابل غور بات یہ ہے کہ جائز تقلید کیاہے ۔ اور اسکی تعریف ۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حق سچ بیان کرنے کی توفیق دے آمین
 
Top