• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید(مطلق و شخصی) اور اتباع سے متعلق ہمارا مؤقف کیا ہونا چاہیئے ؟

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
اس دھاگے کی ابتداء کے دو بنیادی مقاصد ہیں:

١-ناچیز سمجھتا ہے کہ مسئلہ تقلید میں کچھ ابحاث دونوں طرف کی غیر ضروری متشددانہ روش کا نتیجہ ہیں- مثلا ہماری طرف سے لفظ تقلید ہی کو مبغوض ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش اور تقلید شخصی کو شرک قرار دینا- ھند و پاک کے حنفیہ کا یہ کہنا کہ تقلید شخصی پر اجماع ہوچکا اور اھلحدیث گویا عامی کے اجتھاد کرنے کے قائل ہیں-
٢-اس فورم پر اس موضوع پر کافی بات ہوچکی ہے- لیکن بدیہی، آسان اور سنجیدہ بحث کے بجائے پیچیدہ تعریفات کے حدود و اربعہ کی تعیین اور ان کے بے محل حوالوں اورطعن و تشنیع کا مظاہرہ ذیادہ دیکھنے میں آیا- احباب سے گزارش ہے کہ اس دھاگے میں ایسی لاحاصل سعی سے گریز فرمائیں-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولانا امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی کتاب حقیقۃ التقلید وأقسام المقلدین بھی مجموعی حوالے سے اچھی کتا ب ہے ۔ نیٹ پر پی ڈی ایف میں موجود ہے شاید فورم پر بھی ہو ۔
مقلدین کی طرف سے مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت بھی اس سلسلے میں ایک سلجھی ہوئی عالمانہ تحریر ہے ۔ لیکن اس کتاب کوپڑھنےکے بعد مولانا عبد الرحمن معلمی یمانی رحمہ اللہ کی بات ذہن میں آجاتی ہے جو انہوں نے علامہ کوثری کی تأنیب الخطیب میں احناف کے بے جا دفاع کے بارے میں کہی تھی جس کا خلاصہ یا مفہوم یہ ہے کہ
جب ایک صاحب علم اور وسیع المطالعہ شخص ، مذہب کی بھول بھلیوں سے واقف اور اس کا بے جا دفاع کرنے والا باوجود سر دھڑ کی بازی لگانے کے اس کا دفاع نہیں کر سکا تو تسلیم کر لینا چاہیے کہ واقعتا یہ ناممکن کو ممکن بنانے کے سلسلے میں سعی لا حا صل ہے ۔
علامہ کوثری اور مولانا تقی عثمانی میں باوجود اتفاق مذہب کے کیا کیا اختلاف ہے یہ دونوں کی کتب کا مطالعہ کرنےوالے حضرات بخوبی جانتے ہوں گے ۔
جملہ معترضہ کے بعد اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔
مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب اول تا آخر دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ نقص یا کمی جو ہر مقلد میں پایا جاتا اس سے وہ بھی نہیں بچ سکے ۔ کہ جب تقلید کے اثبات کی باری آتی ہے تو تقلید مطلق کے دلائل دیتے ہیں اسی طرح زندوں لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں ۔ لیکن آخر میں جا کر بات مردوں تک لے جاتے ہیں اور وہ بھی صرف ایک شخص پر ۔ بہر صورت زندوں مردوں کا تو کوئی فرق نہیں لیکن یہ بات واقعتا عجیب ہے کہ تقلید کے جواز میں اور اس کی مذمت کے جواب میں ایسی مثالیں یا وضاحتیں پیش کی جاتی ہیں جن میں تقلید شخصی کا رد ہوتا ہے لیکن بعد میں حنفی بننے کے لیے ان سب باتوں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔
اگر کسی بھائی کے پاس وقت ہو تو بار بار جا ہلوں سے گفتگو کی بجائے مولانا صاحب کی کتاب مذکور کا تنقیدی جائزہ لے کر پیش کرتے رہیں کیونکہ اس میں احقاق حق اور ابطال باطل کے ساتھ ساتھ مولانا کے صالح انداز نگارش اور علمی متانت و سنجیدگی سے مستفید ہونے کا بھی موقعہ ملتا رہے گا ۔

تقلید مطلق یا شخصی (یا دیگر جدید و قدیم اصطلاحات جمیعہ ) اور اتباع ۔۔۔ اس سلسلے میں تعریفات اور اطلاقات میں اختلاف و اتفاق کی گنجائش موجود ہی نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر موجود ہے لیکن میرے خیال سے ان نظری بحثوں کا صحیح عملی نتیجہ وہی ہے جس میں قرآن وسنت کی بالا دستی ہو ۔ اقوال رجال کو پرکھنے کا معیار کتاب و سنت ہوں ۔ اس سے ہٹ کر جو بھی نتیجہ نکلے گا اس کو مغالطہ یا زیادہ سے زیادہ علمی مغالطہ کی حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر مانا نہیں جا سکتا ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اگر ایک مجتہد۔۔۔
کسی بھی مسئلے پر۔۔۔
فتوٰی قرآن وحدیث کی نصوص پر صادر کرتا ہے تو۔۔۔
وہ کہاں سے حنفی مجتہد ہوا؟؟؟۔۔۔
اختلاف تو شروع ہی یہاں سے ہوتا کے۔۔۔
مجتہد بھی امام کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔
عامی کی یہاں بات نہیں ہورہی۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس پر میرے خیال سے دوسرے تھریڈ میں کچھ گفتگو ہوچکی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ائمہ کرام نے جس تقلید کی مذمت کی ہے وہ تقلید شخصی ہے۔
تقلید شخصی کیاہے کسی ایک شخص کی ہریر بات کو مانناخواہ وہ صحیح کہے یاغلط ۔ اس کی علماء نے عمومی طورپر مذمت کی ہے۔
لیکن کیافی الواقع جو تقلید رائج ہے وہ تقلید شخصی ہے۔
باوجود اہل حدیث سے حنفی ہونے کے میراواسطہ ابھی تک کسی ایک ایسے حنفی سے نہیں ہوا جواس کا قائل ہو کہ وہ ہرہرمسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے کا پابند ہے۔
اگرکسی اورشخص کو کوئی ایساحنفی ملاتو براہ کرم کوٹ کریں۔
یہ تقلید شخصی ہے ہی نہیں یہ تقلید حکمی ہے یعنی ایک مکتب فکر کی تقلید ۔ اس میں کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ دلائل کے لحاظ سے مکتب فکر سے وابستہ افراد کی تقلید کی جاتی ہے۔
کسی ایک مکتبہ فکر کی پیروی شعروادب فلسفہ اوردنیا کے تمام علوم میں رائج ہے۔ ہرشخص کسی نہ کسی ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھتاہے۔
تواگردنیا کے کچھ لوگ فقہیات میں کسی ایک مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں تواس کو تقلید شخصی کہناکیسے درست ہوگا!

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تقلید جو رائج ہے وہ تقلید عام یعنی مطلق اورتقلید شخصی کے درمیان ایک معتدل شاہراہ ہے۔
نہ تقلید عام جیسی وسعت کہ پوری دنیا میں جس کی رائے موافق ہو اختیار کرلو
اورنہ تقلید شخصی جیسی تنگی کہ صرف ایک شخص کی تمام آراء کے سامنے فکر ونظر کو سپرد کرو
یہ ان دونوں کے درمیان ایک معتدل راہ ہے اوراسی میں انشاء اللہ خیرہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل علم کیلئے اجتہاد فی المسائل کو کبھی برانہیں سمجھاگیابشرطیکہ وہ اس کے اہل ہوں
شاہ ولی اللہ نے بہت سارے مسائل میں احناف سے ہٹ کر اپنی رائے رکھی اس کو کوبھی کسی دیوبندی عالم نے برانہیں سمجھا
اسی طرح ان کے اخلاف واحفاد میں امام ابوحنیفہ سے ہٹ کر الگ رائے رکھنے والے تھے لیکن اس پر نکیر نہیں ہوئی
اصل چیز جوبنائے اختلاف ہے وہ یہ کہ ہرعام وخاص کو ترک تقلید کی دعوت دی جائے
حالانکہ تقلید توایسی چیز ہے کہ بسااوقات مجتہدین کو بھی اس سے مفر نہیں ہوتا امام شافعی کہتے ہیں کہ قلت ھذا تقلیدا لعطاء بن ابی رباح کہ میں نے اس مسئلے میں ایساجوکہاہے تو وہ عطاء بن ابی رباح کی تقلید میں کہاہے
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
مولانا امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کی کتاب حقیقۃ التقلید وأقسام المقلدین بھی مجموعی حوالے سے اچھی کتا ب ہے ۔ نیٹ پر پی ڈی ایف میں موجود ہے شاید فورم پر بھی ہو ۔
یہ کتاب نامکمل اپلوڈ ہوئی ہے-

مقلدین کی طرف سے مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت بھی اس سلسلے میں ایک سلجھی ہوئی عالمانہ تحریر ہے ۔
تقی عثمانی حفظہ اللہ کا مضمون جب ان کے ماہنامہ البلاغ میں چھپا تھا تب ہی شیخ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی طرف سے اس کے اہم حصوں کا جواب دے دیا گیا تھا جو شیخ کی کتاب تحریک آذادئ فکر میں شامل ہے- میری معلومات کے مطابق فریق مخالف کی طرف سے اس موضوع پر اردو میں لکھی جانے والی سب سے جامع شیخ سرفاز خان صفدر کی کتاب الکلام المفید فی اثبات التقلید ہے-

تقلید مطلق یا شخصی (یا دیگر جدید و قدیم اصطلاحات جمیعہ ) اور اتباع ۔۔۔ اس سلسلے میں تعریفات اور اطلاقات میں اختلاف و اتفاق کی گنجائش موجود ہی نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر موجود ہے لیکن میرے خیال سے ان نظری بحثوں کا صحیح عملی نتیجہ وہی ہے جس میں قرآن وسنت کی بالا دستی ہو ۔ اقوال رجال کو پرکھنے کا معیار کتاب و سنت ہوں ۔ اس سے ہٹ کر جو بھی نتیجہ نکلے گا اس کو مغالطہ یا زیادہ سے زیادہ علمی مغالطہ کی حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر مانا نہیں جا سکتا ۔
محترم بھائی ! تقلید کا موضوع چونکہ دین کو سمجھنے کے طریقے پر اثرانداذ ہوتا ہے اس لیے یہ انتہائی وسیع موضوع ہے-" قرآن وسنت کی بالا دستی" بلاشبہ اس کی بہت اہم جہت ہے- جسے حنفی بمقابلہ اھل الحدیث کے تناظر میں اھل الحدیث اور اھل الرائے کا اختلاف کہا جائے تو ذیادہ مشہور اور واضح انداذ ہوگا-

لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ اس دھاگے سے مقصود بےاعتدالیوں کا تدارک ہے-




مفتی محمد شفیع جیسے معتدل اور محتاط حنفی کی طرف سے تقلید شخصی پر اجماع کا دعوی (اوپر دیےگئے اسکین میں دوسراپیرا ملاظہ فرمائیں) اور ہمارا عام طور سے اسے مطلقا شرک قرار دینا بے اعتدالی کا نمونہ ہی تو ہے-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ تقلید جو رائج ہے وہ تقلید عام یعنی مطلق اورتقلید شخصی کے درمیان ایک معتدل شاہراہ ہے۔
نہ تقلید عام جیسی وسعت کہ پوری دنیا میں جس کی رائے موافق ہو اختیار کرلو
اورنہ تقلید شخصی جیسی تنگی کہ صرف ایک شخص کی تمام آراء کے سامنے فکر ونظر کو سپرد کرو
یہ ان دونوں کے درمیان ایک معتدل راہ ہے اوراسی میں انشاء اللہ خیرہے۔
مجھے سنجیدگی سے یہ جاننے کی خواہش ہے کہ آیا یہ تقلید عقائد میں بھی کی جانی چاہئے یا نہیں؟َ
اگر تقلید شخصی یا تقلید حکمی کے اتنے ہی فوائد ہیں اور یہ معتدل شاہراہ ہے تو پھر فقط فرعی مسائل ہی میں کیوں؟
معذرت، اگر یہ اس موضوع کی حدود سے خارج بحث ہے تو Hasan، خضر حیات اور جمشید برادران سے گزارش ہے کہ نئے دھاگے میں اس موضوع پر بھی کچھ بات چیت کر لی جائے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تقی عثمانی حفظہ اللہ کا مضمون جب ان کے ماہنامہ البلاغ میں چھپا تھا تب ہی شیخ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی طرف سے اس کے اہم حصوں کا جواب دے دیا گیا تھا جو شیخ کی کتاب تحریک آذادئ فکر میں شامل ہے- میری معلومات کے مطابق فریق مخالف کی طرف سے اس موضوع پر اردو میں لکھی جانے والی سب سے جامع شیخ سرفاز خان صفدر کی کتاب الکلام المفید فی اثبات التقلید ہے-
تقلید کی شرعی حیثیت نامی کتاب جب طبع ہوئی تواس میں شیخ اسماعیل سلفی کی آراء کا تنقیدی جائزہ بھی لیاگیاہے۔ یہ کتاب نیٹ پر موجود ہے اوراس کا لنک یہ ہے۔
Taqleed ki Sharai Hesiat (تقلید کی شرعی حیثیت)
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
تقلید کی شرعی حیثیت نامی کتاب جب طبع ہوئی تواس میں شیخ اسماعیل سلفی کی آراء کا تنقیدی جائزہ بھی لیاگیاہے۔ یہ کتاب نیٹ پر موجود ہے اوراس کا لنک یہ ہے۔
اس کتاب کا مکمل مطالعہ کر لینے کے باوجود کہیں یہ دلیل نہیں ملی کہ تقلید شخصی ہی تقلید حکمی ہے۔
بلکہ تقلید شخصی کے تعلق سے جو تقی عثمانی صاحب نے دلائل پیش کئے ہیں وہ دلائل اسی تقلید شخصی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جن پر علمائے اہلحدیث تنقید کرتے رہے ہیں۔ مثلاَ اہل مدینہ کو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی میں مبتلا ثابت کیا گیا ہے۔

اگر کسی حنفی عالم نے تقلید شخصی کو تقلید حکمی کہا ہے اور اس کے دلائل پیش کئے ہیں تو مطالعہ کے لئے کچھ لنکس دیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
راجاصاحب !
اوپر میں نے تقلید شخصی کی جونوعیت پیش کی ہے شاید آپ اس سے متفق ہیں۔
لہذا دیکھنایہ ہے کہ فی الواقع دلائل کے لحاظ سے جوتقلید رائج ہے وہ تقلید شخصی ہے یاتقلید حکمی
آپ کو توشخصیات کے حوالے مانگنے کے بجائے دلائل سے گفتگو کرنی چاہئے۔
ویسے شخصی حوالہ بھی پیش کردوں ۔دارالعلوم دیوبند کے موجودہ شیخ الحدیث مولانا سعید پالن پوری کا بھی موقف یہی ہے کہ موجودہ تقلید شخصی نہیں حکمی ہے۔ ہاں اس کو شروع سے ہی تقلید شخصی کہاگیاہے اس لئے یہی نام زیادہ مشہور ہوگیاہے۔
لیکن ظاہر سی بات ہے کہ لامشاحۃ فی الاصطلاح ۔اصلی چیز تو حقیقت ہے ۔ وہ ہمیں دیکھناہے کہ تقلید شخصی ہے یاتقلید حکمی ہے۔
 
Top