میرے مطالعے کے مطابق تقلید کے شرک کے درجے تک پہنچنے کی تین صورتیں جوعلماء نے بیان کی ہیں وہ یہ ہیں:
١-مقلد کا اپنے مذھب کی حمایت کیلئے کتاب و سنت میں تحریف کرنا-
٢-اپنے امام کو معصوم عن الخطا سمجھنا-
٣-اپنے امام کے قول کو کتاب و سنت سے بہتر سمجھنا-
انصاف کے ساتھ یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا یہ شروط مخالفین میں پائی جاتی ہیں ؟ کیا اپنی صلاحیتوں کی کمی یا صلاحیتوں کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مقلد اپنے مفتی یا مذھب کے آئمہ کی بات مان لے اور ہماری دلیل کو قبول نہ کرے، ساتھ وہ مفتی یا امام سے اجتھاد میں غلطی ہوجانے کا قائل بھی ہو، تو ہم اسے مشرک کہہ سکتے ہیں ؟
انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ شرائط مخالفین میں بحیثیت مجموعی اگرچہ موجود نہیں۔ لیکن بہرحال ، عملی طور پر کئی علمائے کرام کی تحریروں سے اس کا ثبوت بھی مل جاتا ہے۔ مثلاً، آپ ہی انصاف کیجئے کہ:
کوئی آیت یا حدیث ہمارے فقہاء کے اقوال کے مخالف ہوئی تو اس آیت یا حدیث کی تاویل کی جائے گی وغیرہ، جیسی بات بطور اصول بیان کرنا، کیا اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا سمجھنے جیسا ہی نہیں؟
حق اور انصاف تو یہ ہو کہ کتاب و سنت کے دلائل فلاں مسئلہ میں امام شافعی کے موافق ہیں، اور اس اقرار پر بھی، لیکن ہم پر ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب ہے، کہہ کر مخالف مسئلہ پر عمل کرنا۔ کیا امام کے قول کو کتاب و سنت سے بہتر سمجھنے کی دلیل نہیں؟
کتاب و سنت میں تحریف فقط لفظی نہیں ہوتی، معنوی بھی ہوتی ہے۔ معنوی تحریف کی مثالیں تو ڈھونڈنے جائیے تو اس بحر بیکراں کے احاطہ کے لئے تو سفینہ درکار ہوگا۔ چلئے معنوی تحریف کے الزامات تو ہر فریق دوسرے پر لگاتا ہی رہتا ہے۔ لفظی تحریف کی مثالیں بھی کچھ کم نہیں۔ اس کے لئے
"قرآن و حدیث میں تحریف" از ابو جابر عبداللہ دامانوی ، کتاب کا مطالعہ کیجئے، جس میں اسکین حوالہ جات کے ساتھ احناف کی جانب سے کتب احادیث میں لفظی تحریف کے ثبوت اکٹھے کئے گئے ہیں۔
یہ سب کرنے والے اگرچہ چند علماء ہیں، لیکن اصل مسئلہ وہی کہ ، دیگر علماء بھی ایسی باتوں پر بجائے اس کے کہ، ان چند شخصیات کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کریں، ان غلطیوں کے ناجائز دفاع میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی اعتراف ہے کہ فریق مخالف میں، خصوصاً دیوبندیوں میں ، اکثریت سلجھے ہوئے، اونچی علمی قامت رکھنے والے مخلص علماء کی ہے۔ اور انہوں نے دین کی خدمت بھی بلا شک و شبہ بہت سرانجام دی ہے۔ لیکن ایسے حضرات کا، اپنے ہم مسلک علماء کی جانب سے کھلی کھلی تحریفات پر خاموش رہنا بھی ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔
موجودہ دھاگے کے موضوع کے تعلق سے میرا ماننا تو یہ ہے کہ تقلید کی اقسام میں تقلید جامد کی تردید میں علمائے اہلحدیث اور علمائے احناف کا موقف کم و بیش ایک سا ہے۔ اصل مسئلہ فقط اس کے عملی انطباق میں ہے۔
اہلحدیث علماء اس کے قائل ہیں کہ احناف تقلید جامد اور درج بالا اوصاف کے حامل مقلدین ہیں۔
اور حنفی علماء قولاً تو اس کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن عملاً صورتحال ایسی ہے کہ ان میں سے کئی ایک خود اس میں مبتلا ہیں۔ ، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اہلحدیث علماء کا علی الاطلاق تمام حنفیوں کو تقلید بمعنی شرک میں مبتلا سمجھنا اور باور کروانا بھی غلط ہے۔
اور حنفی علماء کا اس سے کلیتاً انکار بھی درست نہیں۔
جس عالم نے جو غلطی کی ہے، اس کی تردید اسی عالم تک رہنی چاہئے، نا کہ اسے پوری جماعت تک متعدی کر دیا جائے۔
مثلاً ختم نبوت کے تعلق سے ایک حنفی عالم کی ایک متنازعہ تحریر مشہور ہے۔ اس کی بنیار پر اہلحدیث جذباتی نوجوان احناف کو بحیثیت مجموعی ہی ختم نبوت کا منکر قرار دے دیتے ہیں۔ یہ رویہ سخت متشددانہ ہے اور اس کی ہر سطح پر تردید کی جانی ضروری ہے۔
لیکن اگر حنفی علماء ، اپنے مسلک کے کسی عالم کی واقعی غلطی کا بھی دفاع کرتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہلحدیث علماء بھی ان غلطیوں کو آشکارا نہ کریں۔ ایسا کرنا بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ بس اسے دیگر علمائے کرام یا پوری جماعت تک متعدی نہ کریں۔