[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شاہ اسماعیل دہلوی اپنی مشہورکتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
احمد سعید کاظمی بریلوی سمیت دوسرے بہت سے بریلوی علماء و اکابرین کا کہنا ہے کہ
تقویۃ الایمان کی اس عبارت میں شاہ صاحب نے ہرگز بھی توہین یا گستاخی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ جو لوگ چھوٹی یا بڑی مخلوق کے عمومی الفاظ کو انبیاء و اولیاء اور فرشتوں کے ساتھ خاص کرتے یا نسبت دیتے ہیں وہ گستاخی و توہین کے مرتکب ہیں۔ عمومی الفاظ کو خاص کر کے توہین کا مفہوم اخذ کرنا سخت نا انصافی اور باطل و مردود ہے۔
شاہ صاحب نے انبیاء و اولیاء و ملائکہ کی نسبت ذلیل لفظ کی طرف نہیں کی بلکہ عمومی طور پر ہر چھوٹی بڑی مخلوق کو اللہ کی شان کے سامنے ذلیل قرار دیا ہے۔ عمومی طور پر تمام مخلوق کو ذلیل کہنا الگ بات ہے اور خاص انبیاء یا اولیاء کی طرف (نعوذ باللہ) ذلت کو منسوب کرنا الگ بات ہے اور یہ اصول خود بریلوی علماء کو بھی تسلیم ہے۔
بریلوی علماء و اکابرین ،تقویۃ الایمان کی اس عمومی عبارت کو خاص کرتے ہوئے جس طرح ایک باطل مفہوم کے تحت گستاخانہ و توہین آمیز باور کرواتے آئے ہیں اس طریقے پر تو خود بریلوی علماء و اکابرین اپنی بہت سی باتوں اور عبارتوں کے سبب گستاخ قرار پاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱)بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے ایک آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:
عمومی الفاظ کو خاص بنا کر گستاخانہ مطلب اخذ کرنا جیسا کہ تقویۃ الایمان کی عبارت میں بریلوی علماء و اکابرین کا وطیرہ ہے، اس کی بنیاد پر اس آیت کے ترجمہ کا مطلب یہ بنے گا کہ اللہ کے سوا جن جن کو پوجا جاتا ہے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ بھی شامل ہیں جہنم کا۔۔۔۔(نعوذ باللہ و من ذالک)۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمومی الفاظ کو انبیاء و اولیاء کی جانب منسوب کرنا خود سب سے بڑی گمراہی اور ان معزز ہستیوں کی شدید توہین ہے۔
۲)احمد رضا خان بریلوی نے کہا:
اگر احمد رضا خان بریلوی کے اس عمومی ملفوظ کو خاص کرتے ہوئے مندرجہ بالا گستاخانہ مفہوم نکالنا صحیح نہیں تو تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل کی عبارت کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیوں۔۔۔؟
۳)احمد رضا خان بریلوی نے ایک شعر یوں کہا:
’’اونچے اونچوں کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کا ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب شیخ عبدالقادر جیلانی کا قدم ان اونچے اونچوں کے سر وں سے بھی اعلیٰ کہنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
انصاف سے فیصلہ کیجیے کہ جو باطل مفہوم تقویۃ الایمان کی عبارت کابریلوی علماء و اکابرین پیش کرتے آئے ہیں کیا اسی طرح پھریہ شعر گستاخی و توہین کے اعتبار سے زیادہ سنگین نہیں؟
۴)بریلویوں کے تسلیم شدہ ولی وبزرگ سلطان المشائخ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا:
’’اس عبارت کے عموم کے اندر تمام فرشتے بھی داخل ہیں کیونکہ وہ بھی مخلوق میں شامل ہیں۔‘‘ اوراسی طرح ’’ساری مخلوق کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کو شامل ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب انہیں اونٹ کی مینگنی جیساسمجھنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
اگر اس کے جواب میں یہ تسلیم کیاجاتا ہے کہ ’’ایک ہے عمومی طورپر مخلوق کو ذلیل کہنا اور ہے ایک خاص طور پر کسی شخصیت کا نام لے کر اسے ذلیل کہنا تو عموم اور تخصیص کے اندر فرق واضح ہے۔‘‘ تو پھر آج تک بریلوی علماء و اکابرین تقویۃ الایمان کی عمومی عبارت کو انبیاء و اولیاء کی طرف منسوب کر کے کیوں گستاخانہ اور توہین آمیز مطلب پہناتے رہے ہیں؟ کیا بریلوی علماء و اکابرین کے اس طرزِ عمل کی روشنی میں سب سے پہلے خود احمد رضا خان بریلوی اور دوسرے تسلیم شدہ بریلوی بزرگ گستاخ قرار نہیں پاتے؟
۵)شیخ عبدالقادر جیلانی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
ایک اور جگہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے لکھا:
شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب اس قول کی وضاحت و تاویل میں احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
فائدہ :۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کے قدم سے متعلق بریلوی علماء و اکابرین نے کیسے کیسے کفریہ و گستاخانہ عقائد گھڑ رکھے ہیں، اس پر ایک ضمنی حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔ قرآن پاک (سورۃ القلم:آیت۴۲) میں کشف ساق کا ذکر ہے۔جس کی تشریح حدیث میں یوں آئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد و عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔۔۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ ن و القلم)
اس کے مقابلے میں ابوکلیم صدیق فانی بریلوی اپنے اعلیٰ حضرت کے ایک شعر کا مفہوم ان کی زبانی یوں بیان کرتے ہیں:
نعوذ باللہ و من ذالک، ایسے گندے اور گھٹیا ،صریح کفریہ و گستاخانہ عقائد و نظریات رکھنے والے لوگ کس منہ سے عمومی عبارات کو بنیاد بنا کر دوسروں کو گستاخ قرار دیتے ہیں۔
اس ساری بحث و دلائل سے یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے کہ عمومی الفاظ کوخصوصی معنی دے کر توہین و گستاخی کا مفہوم اخذ کرنا انتہائی مذموم اور باطل ہے بلکہ سوائے لوگوں کو دھوکہ دینے اور ان کے دینی جذبات سے کھیلنے کے کچھ بھی نہیں۔
مگر یہ بات طے شدہ اور مسلم ہے کہ اگر انبیاء کا نام لے کر یا خاص ان کی طرف ذلت کو منسوب کیا جائے تو یہ یقیناً ان کی شدیدگستاخی اور توہین ہے۔اب اس طے شدہ اور تسلیم شدہ بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خود فیصلہ کیجیے کہ حقیقی گستاخ کون ہے۔۔۔؟
[/JUSTIFY]
تقویۃ الایمان کی ایک عبارت اور حقیقی گستاخ
شاہ اسماعیل دہلوی اپنی مشہورکتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔‘‘
[تقویۃ الایمان:ص۸ بحوالہ الحق المبین از قلم احمد سعید کاظمی بریلوی:ص۷۹]
شاہ اسماعیل دہلوی کی یہ عبارت دیکھنے کے لیے ملاحظہ کریں مزید بریلوی کتب: مناظرہ جھنگ(ص۱۵۶)،عباراتِ اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ(حصہ اول: ص۱۰۳۔۱۰۴)۔بریلوی اعتراض
’’ہر چھوٹی اور بڑی مخلوق کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کا ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب انہیں بارگاہِ خداوندی میں معاذ اللہ چوہڑے چمار سے زیادہ ذلیل کہنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
[الحق المبین:ص۸۰]
اسی طرح غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے تقویہ الایمان کی عبارت پیش کرتے ہوئے کہا:’’اس عبارت کے عموم کے اندر تمام فرشتے بھی داخل ہیں کیونکہ وہ بھی مخلوق میں شامل ہیں۔‘‘
[عباراتِ اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، حصہ دوم:ص۳۹۳]
الجواب
شاہ صاحب نے انبیاء و اولیاء و ملائکہ کی نسبت ذلیل لفظ کی طرف نہیں کی بلکہ عمومی طور پر ہر چھوٹی بڑی مخلوق کو اللہ کی شان کے سامنے ذلیل قرار دیا ہے۔ عمومی طور پر تمام مخلوق کو ذلیل کہنا الگ بات ہے اور خاص انبیاء یا اولیاء کی طرف (نعوذ باللہ) ذلت کو منسوب کرنا الگ بات ہے اور یہ اصول خود بریلوی علماء کو بھی تسلیم ہے۔
بریلویوں کا تسلیم شدہ اصول
چنانچہ مشہور بریلوی مناظر و عالم اشرف سیالوی نے کہا:’’ایک ہے عمومی طورپر مخلوق کو ذلیل کہنا اور ہے ایک خاص طور پر کسی شخصیت کا نام لے کر اسے ذلیل کہنا تو عموم اور تخصیص کے اندر فرق واضح ہے۔‘‘
[مناظرہ جھنگ:ص۱۷۲]
انصاف شرط ہے کہ جب خود تسلیم ہے کہ عمومی طور پر مخلوق کو ذلیل کہنے میں اورخاص کسی شخصیت کو ذلیل کہنے میں فرق ہے تو پھر شاہ اسماعیل دہلوی کی عمومی عبارت کو انبیاء و اولیاء یا ملائکہ کی طرف خاص کرکے توہین اخذ کرناصریح دھوکہ دہی اور فریب نہیں تو کیا ہے۔۔۔؟بریلوی علماء و اکابرین ،تقویۃ الایمان کی اس عمومی عبارت کو خاص کرتے ہوئے جس طرح ایک باطل مفہوم کے تحت گستاخانہ و توہین آمیز باور کرواتے آئے ہیں اس طریقے پر تو خود بریلوی علماء و اکابرین اپنی بہت سی باتوں اور عبارتوں کے سبب گستاخ قرار پاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱)بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے ایک آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:
’’بیشک تم اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پوجتے ہوسب جہنم کے ایندھن ہو‘‘
[کنز الایمان،سورۃ الانبیاء:آیت ۹۸]
اس آیت کے بریلوی ترجمہ سے صاف ظاہر ہے کہ کفارو مشرکین کے ساتھ ساتھ جن جن کو وہ پوجتے اور عبادت کرتے ہیں وہ بھی جہنم کا ایندھن ہیں۔ یہ بات ثابت و مسلم ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہا السلام کو پوجتے ہوئے اپنا معبود بنا لیاجس پر خود قرآن گواہ ہے(دیکھئے سورۃ المائدہ:آیت ۱۱۶)۔عمومی الفاظ کو خاص بنا کر گستاخانہ مطلب اخذ کرنا جیسا کہ تقویۃ الایمان کی عبارت میں بریلوی علماء و اکابرین کا وطیرہ ہے، اس کی بنیاد پر اس آیت کے ترجمہ کا مطلب یہ بنے گا کہ اللہ کے سوا جن جن کو پوجا جاتا ہے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ بھی شامل ہیں جہنم کا۔۔۔۔(نعوذ باللہ و من ذالک)۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمومی الفاظ کو انبیاء و اولیاء کی جانب منسوب کرنا خود سب سے بڑی گمراہی اور ان معزز ہستیوں کی شدید توہین ہے۔
۲)احمد رضا خان بریلوی نے کہا:
’’لوگ اللہ کے سوا جن جن کو پوجتے ہیں۔ وہ سب جھوٹے ہیں‘‘
[ملفوظات، حصہ اول:ص۸۲،اکبر بک سیلرز لاہور]
خان صاحب بریلوی کا یہ ملفوظ بھی تقویۃ الایمان کی طرز پر گستاخی قرار پاتا ہے۔ لوگ جن جن کو پوجتے ہیں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہا السلام بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اس ملفوظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم علیہا السلام کو بھی جھوٹا قرار دے رکھا ہے(نعوذ باللہ) اور یہ ان کی شدید توہین اور گستاخی ہے۔اگر احمد رضا خان بریلوی کے اس عمومی ملفوظ کو خاص کرتے ہوئے مندرجہ بالا گستاخانہ مفہوم نکالنا صحیح نہیں تو تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل کی عبارت کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیوں۔۔۔؟
۳)احمد رضا خان بریلوی نے ایک شعر یوں کہا:
واہ کیا مرتبہ اے غوث بالا ہے تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
[حدائق بخشش،حصہ اول:ص۸]
اس شعر میں احمد رضا خان بریلوی نے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مراتب کو بیان کرتے ہوئے ان کے قدم کو اونچے اونچوں کے سروں سے بھی اعلیٰ قرار دیا ہے۔ ہرچھوٹی بڑی مخلوق کے عمومی الفاظ میں انبیاء و اولیاء کو شامل کر کے گستاخی اور توہین باور کروایا جاتا ہے تو اس شعر میں تو بات ہی اونچے اونچوں کی ہے۔ ہرچھوٹی بڑی مخلوق میں انبیاء و اولیا شامل ہیں تو اونچے اونچوں کے الفاظ تو دلالت ہی اونچے مرتبوں والے انبیاء و اولیاء اور بالخصوص امام الانبیاء نبی ﷺ پر کرتے ہیں۔کیا بریلوی منطق کے لحاظ سے یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ’’اونچے اونچوں کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کا ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب شیخ عبدالقادر جیلانی کا قدم ان اونچے اونچوں کے سر وں سے بھی اعلیٰ کہنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
انصاف سے فیصلہ کیجیے کہ جو باطل مفہوم تقویۃ الایمان کی عبارت کابریلوی علماء و اکابرین پیش کرتے آئے ہیں کیا اسی طرح پھریہ شعر گستاخی و توہین کے اعتبار سے زیادہ سنگین نہیں؟
۴)بریلویوں کے تسلیم شدہ ولی وبزرگ سلطان المشائخ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا:
’’کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ ساری مخلوق کو اونٹ کی مینگنی جیسا (ہیچ) نہ سمجھے۔‘‘
[فوائد الفواد،جلد سوم آٹھویں مجلس:ص۲۵۱]
جس طرح شاہ صاحب کی عبارت میں چھوٹی بڑی مخلوق کے عمومی الفاظ موجود ہیں اسی طرح اس ملفوظ میں ساری مخلوق کے عمومی الفاظ موجود ہیں جن میں انبیاء و اولیا بھی شامل ہیں۔ یہاں بریلوی غزالیوں کی طرز پر یہ کہنا کیوں درست نہیں کہ’’اس عبارت کے عموم کے اندر تمام فرشتے بھی داخل ہیں کیونکہ وہ بھی مخلوق میں شامل ہیں۔‘‘ اوراسی طرح ’’ساری مخلوق کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کو شامل ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب انہیں اونٹ کی مینگنی جیساسمجھنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
اگر اس کے جواب میں یہ تسلیم کیاجاتا ہے کہ ’’ایک ہے عمومی طورپر مخلوق کو ذلیل کہنا اور ہے ایک خاص طور پر کسی شخصیت کا نام لے کر اسے ذلیل کہنا تو عموم اور تخصیص کے اندر فرق واضح ہے۔‘‘ تو پھر آج تک بریلوی علماء و اکابرین تقویۃ الایمان کی عمومی عبارت کو انبیاء و اولیاء کی طرف منسوب کر کے کیوں گستاخانہ اور توہین آمیز مطلب پہناتے رہے ہیں؟ کیا بریلوی علماء و اکابرین کے اس طرزِ عمل کی روشنی میں سب سے پہلے خود احمد رضا خان بریلوی اور دوسرے تسلیم شدہ بریلوی بزرگ گستاخ قرار نہیں پاتے؟
۵)شیخ عبدالقادر جیلانی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’قدمی ھذاعلی رقبۃکل ولی اللہ(میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔ت)‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۸ص۳۶۳]
تقویۃ الایمان کی عبارت میں تو ’’ہر مخلوق چھوٹا ہو یا بڑا ‘‘کے عمومی الفاظ موجود ہیں جبکہ احمد رضا بریلوی کے تسلیم شدہ اس قول میں ’’ہر ولی اللہ‘‘ کے صریح الفاظ ہیں۔ ’’ہر ولی اللہ‘‘ کے الفاظ تمام صحابہ کرامؓ و تابعین عظامؒ بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کو بھی شامل ہیں کیونکہ تمام انبیاء نبوت کے ساتھ ساتھ بالاولیٰ ولایت سے بھی سرفراز ہوتے ہیں بلکہ بریلویوں کے ہاں تو انبیاء کی ولایت ان کی نبوت سے بھی افضل مانی جاتی ہے۔ چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے کہا:’’نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے۔۔۔۔‘‘
[ملفوظات،حصہ سوم:ص۲۹۳، فرید بک سٹال لاہور]
تنبیہ: یاد رہے کہ بریلویوں کے ہی تسلیم شدہ بزرگ و امام ربانی شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کے نزدیک نبی کی ولایت کو اس کی نبوت سے افضل ماننے کا نظریہ بیہودہ (مکتوبات امام ربانی: دفتر اول مکتوب95) اور ایسا نظریہ رکھنے والا نبوت کے کمالات سے جاہل (مکتوبات امام ربانی: دفتر اول مکتوب251) ہے۔ایک اور جگہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے لکھا:
’’اولیاء کا اطلاق ۔۔۔۔ہر محبوب خدا، تو انبیاء بلکہ ملائکہ کو بھی شامل‘‘
[فتاویٰ رضویہ: ج۱۰ص۸۱۰]
جب یہ تسلیم ہے کہ اولیاء کا اطلاق ہر محبوب خدا، انبیاء بلکہ ملائکہ پر بھی ہوتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ ’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘ بریلوی اصول پر کیوں گستاخی و توہین نہیں؟ ’’ہر مخلوق چھوٹا ہو یا بڑا‘‘ کے عمومی الفاظ میں بڑی مخلو ق کو صراحت بتانا، پھر گستاخی گستاخی کا شور مچانا اور ’’ہر ولی اللہ ‘‘ کے صریح الفاظ میں بلا دلیل مستثنیات ماننا، انتہا درجے کی نا انصافی اور ظلم نہیں تو کیا ہے؟ اپنی اس دوغلی پالیسی سے توبہ اور رجوع کرنے کی بجائے ڈھٹائی سے باطل تاویلات پر ڈٹے رہنا دوسروں کی بجائے خود کو ہی دھوکہ دینا ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب اس قول کی وضاحت و تاویل میں احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’اس لفظ(اولیاء) کا تیسرا اطلاق اخص اور ہے جس میں صحابہ بلکہ تابعین کو بھی شامل نہیں رکھتے کہ وہ اسمائے خاصہ سے ممتاز ہیں۔۔۔۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ: ج۱۰ص۸۱۱]
گویا احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کے قول ’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘ میں صحابہ و تابعین اس لیے شامل نہیں کہ یہ حضرات صحابہ و تابعین کے خاص ناموں سے ممتاز ہیں۔ اس رضا خانی اصول پرتو تقویہ الایمان کی عبارت بالاولیٰ گستاخی و توہین سے مبرا قرار پاتی ہے کیونکہ جب ہرولی کے اطلاق میں صحابہ و تابعین شامل نہ سمجھے گئے کہ یہ حضرات الگ خاص ناموں سے ممتاز ہیں تو ہر بڑی مخلوق کے اطلاق میں بھی انبیاء و اولیاء و ملائکہ شامل نہیں کہ یہ الگ خاص ناموں سے ممتاز ہیں، والحمد للہ۔فائدہ :۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کے قدم سے متعلق بریلوی علماء و اکابرین نے کیسے کیسے کفریہ و گستاخانہ عقائد گھڑ رکھے ہیں، اس پر ایک ضمنی حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔ قرآن پاک (سورۃ القلم:آیت۴۲) میں کشف ساق کا ذکر ہے۔جس کی تشریح حدیث میں یوں آئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد و عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔۔۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ ن و القلم)
اس کے مقابلے میں ابوکلیم صدیق فانی بریلوی اپنے اعلیٰ حضرت کے ایک شعر کا مفہوم ان کی زبانی یوں بیان کرتے ہیں:
’’امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:اے غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ قیامت کے دن آپ کے قدم پاک کی تجلی کو دیکھ کر بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ تجلی الٰہی ہے سجدے میں گر پڑے اور دہشت زدہ ہوگئے حالانکہ یہ تجلی الٰہی نہ تھی بلکہ قدم غوث الثقلین(یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے قدم) کے نور کا کرشمہ تھا۔‘‘
[آئینہ اہلسنت:ص۳۰۱]
یہ کتاب ’’آئینہ اہلسنت‘‘ مشہور و معروف بریلوی عالم ڈاکٹر مفتی اشرف آصف جلالی کے ’’حسب الارشاد‘‘ لکھی گئی ہے۔نعوذ باللہ و من ذالک، ایسے گندے اور گھٹیا ،صریح کفریہ و گستاخانہ عقائد و نظریات رکھنے والے لوگ کس منہ سے عمومی عبارات کو بنیاد بنا کر دوسروں کو گستاخ قرار دیتے ہیں۔
نتیجہ و حاصل
مگر یہ بات طے شدہ اور مسلم ہے کہ اگر انبیاء کا نام لے کر یا خاص ان کی طرف ذلت کو منسوب کیا جائے تو یہ یقیناً ان کی شدیدگستاخی اور توہین ہے۔اب اس طے شدہ اور تسلیم شدہ بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خود فیصلہ کیجیے کہ حقیقی گستاخ کون ہے۔۔۔؟
[/JUSTIFY]