• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تلک الغرانیق والا قصہ (مقالات اثریہ)

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
تلک الغرانیق والے قصہ سے متعلق سیف الاسلام بھائی نے لکھا تھا :
سنا ہے مقالات اثریہ میں اس روایت کو موضوع اور باطل ہونا ثابت کیا گیا ہے یہ کتاب کہاں سے ملے گی تاکہ اس کا بھی مطالعہ کرسکوں اور حقیقت کو سمجھ سکوں ؟
بڑی مہربانی ہوگی ۔
بھائی مکمل کتاب تو ۶۷۲ صٖفحات پر مشتمل ہے،آپ کے حقیقیت کو سمجھنے کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے مقالات اثریہ میں جس مقام پر اس قصہ پر بحث کی گئی ہے،اس کا سکین حاضر ہے۔
تلک الغرانیق۔مقالات اثریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وقاص بھائی جزاک اللہ خیرا ۔
خبیب اثری صاحب کی حسن لغیرہ کے حوالے سے آخری بات کافی وزنی لگتی ہے کہ
مختلف ضعیف روایات اگر اپنے سے قوی روایات کے مخالف ہوں تو ان سے حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت سلب ہو جائے گی ۔
جو شخص اس اصول کو ٹھیک سمجھتا ہے اس کے نزدیک تلک الغرانیق اور عدم رفع الیدین والی روایات کو لے کر حسن لغیرہ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں جگہ یہ شرط مفقود ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
وقاص بھائی جزاک اللہ خیرا ۔
خبیب اثری صاحب کی حسن لغیرہ کے حوالے سے آخری بات کافی وزنی لگتی ہے کہ
مختلف ضعیف روایات اگر اپنے سے قوی روایات کے مخالف ہوں تو ان سے حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت سلب ہو جائے گی ۔
جو شخص اس اصول کو ٹھیک سمجھتا ہے اس کے نزدیک تلک الغرانیق اور عدم رفع الیدین والی روایات کو لے کر حسن لغیرہ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں جگہ یہ شرط مفقود ہے ۔
"اگر کوئی ضعیف روایت اپنے سے قوی روایات کی مخالف ہو تو ان سے حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت سلب ہو جائے گی" کا اصول مان بھی لیا جائے تو پوچھنا ہے کہ یہاں پر مخالفت کا مفہوم کیا ہے؟ کیا کسی چیز کا کسی صحیح روایت میں منقول نہ ہونا، مخالفت ہوتی ہے؟ اگر بات یہ ہو تو پھر یہ پورا حسن لغیرہ والا فلسفہ ہی بیکار۔ اور اگر مخالفت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز ضعیف روایت میں بیان ہوئی ہے اس کے خلاف صحیح بات کسی صحیح روایت میں بیان ہوئی ہے تو عرض ہے کہ تلک الغرانیق والے قصے میں جو بات بیان ہوئی ہے اس کے خلاف کون سی صحیح روایت موجود ہے؟ عرض ہے کہ کوئی ایک صحیح روایت بھی موجود نہیں جس میں صراحتآ اس قصے کے خلاف کچھ منقول ہو۔ لہٰذا جو لوگ اس واقعے کو حسن لغیرہ کے فلسفے کے خلاف پیش کرتے ہیں بالکل ٹھیک پیش کرتے ہیں۔
اس کا دوسرا تناظر یہ سمجھیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ جیسے محدث بھی اس واقعے کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ حسن لغیرہ کے جو اصول ہیں ان پر یہ روایت صحیح ہے۔ اس کو حسن لغیرہ سے نکالنے کے لئے من چاہے اصولوں کا سہارا لینا بالکل غلط اور محض مطلب براری ہے۔ اس طرز پر تو عرض ہے کہ کوئی صحیح روایت بھی قبول نہیں کی جاتی جو اپنی سے صحیح کے خلاف ہو، اس میں حسن لغیرہ کی کیا تخصیص۔۔۔۔؟
مزید عرض یہ ہے کہ حسن لغیرہ کے قائلین محض ہر جگہ مطلب براری کے لئے الگ الگ تخصیصات بیان کرتے پھرتے ہیں ورنہ پندہ شعبان کے فضیلت پر جو روایات ہیں ان کے خلاف کون سی روایات موجود ہیں کہ ان کو بھی حسن لغیرہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ غرض یہ کوئی اصول نہیں محض مطلب کے لئے چند الفاظ کا سہارا ہے، جسے کہیں کسی طریقے سے تو کہیں کسی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
"اگر کوئی ضعیف روایت اپنے سے قوی روایات کی مخالف ہو تو ان سے حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت سلب ہو جائے گی" کا اصول مان بھی لیا جائے تو پوچھنا ہے کہ یہاں پر مخالفت کا مفہوم کیا ہے؟ کیا کسی چیز کا کسی صحیح روایت میں منقول نہ ہونا، مخالفت ہوتی ہے؟ اگر بات یہ ہو تو پھر یہ پورا حسن لغیرہ والا فلسفہ ہی بیکار۔ اور اگر مخالفت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز ضعیف روایت میں بیان ہوئی ہے اس کے خلاف صحیح بات کسی صحیح روایت میں بیان ہوئی ہے تو عرض ہے کہ تلک الغرانیق والے قصے میں جو بات بیان ہوئی ہے اس کے خلاف کون سی صحیح روایت موجود ہے؟ عرض ہے کہ کوئی ایک صحیح روایت بھی موجود نہیں جس میں صراحتآ اس قصے کے خلاف کچھ منقول ہو۔ لہٰذا جو لوگ اس واقعے کو حسن لغیرہ کے فلسفے کے خلاف پیش کرتے ہیں بالکل ٹھیک پیش کرتے ہیں۔
اس کا دوسرا تناظر یہ سمجھیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ جیسے محدث بھی اس واقعے کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ حسن لغیرہ کے جو اصول ہیں ان پر یہ روایت صحیح ہے۔ اس کو حسن لغیرہ سے نکالنے کے لئے من چاہے اصولوں کا سہارا لینا بالکل غلط اور محض مطلب براری ہے۔ اس طرز پر تو عرض ہے کہ کوئی صحیح روایت بھی قبول نہیں کی جاتی جو اپنی سے صحیح کے خلاف ہو، اس میں حسن لغیرہ کی کیا تخصیص۔۔۔۔؟
مزید عرض یہ ہے کہ حسن لغیرہ کے قائلین محض ہر جگہ مطلب براری کے لئے الگ الگ تخصیصات بیان کرتے پھرتے ہیں ورنہ پندہ شعبان کے فضیلت پر جو روایات ہیں ان کے خلاف کون سی روایات موجود ہیں کہ ان کو بھی حسن لغیرہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ غرض یہ کوئی اصول نہیں محض مطلب کے لئے چند الفاظ کا سہارا ہے، جسے کہیں کسی طریقے سے تو کہیں کسی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔


میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں بھائی۔۔۔
ایسے تو مخالفین بہت سے مسائل پر اعتراض کر سکتے ہیں۔۔
کیوں بہت سے ایسے مسائل ہیں جو کثرت سے احادیث میں وارد ہیں ضعیف ہیں اور انکے مقابل صحیح روایت بھی موجود نہیں۔ جسکی ایک مثال آپ نے دی بھی۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
"اگر کوئی ضعیف روایت اپنے سے قوی روایات کی مخالف ہو تو ان سے حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت سلب ہو جائے گی" کا اصول مان بھی لیا جائے تو پوچھنا ہے کہ یہاں پر مخالفت کا مفہوم کیا ہے؟ کیا کسی چیز کا کسی صحیح روایت میں منقول نہ ہونا، مخالفت ہوتی ہے؟ اگر بات یہ ہو تو پھر یہ پورا حسن لغیرہ والا فلسفہ ہی بیکار۔ اور اگر مخالفت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز ضعیف روایت میں بیان ہوئی ہے اس کے خلاف صحیح بات کسی صحیح روایت میں بیان ہوئی ہے تو عرض ہے کہ تلک الغرانیق والے قصے میں جو بات بیان ہوئی ہے اس کے خلاف کون سی صحیح روایت موجود ہے؟ عرض ہے کہ کوئی ایک صحیح روایت بھی موجود نہیں جس میں صراحتآ اس قصے کے خلاف کچھ منقول ہو۔ لہٰذا جو لوگ اس واقعے کو حسن لغیرہ کے فلسفے کے خلاف پیش کرتے ہیں بالکل ٹھیک پیش کرتے ہیں۔
اس کا دوسرا تناظر یہ سمجھیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ جیسے محدث بھی اس واقعے کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ حسن لغیرہ کے جو اصول ہیں ان پر یہ روایت صحیح ہے۔ اس کو حسن لغیرہ سے نکالنے کے لئے من چاہے اصولوں کا سہارا لینا بالکل غلط اور محض مطلب براری ہے۔ اس طرز پر تو عرض ہے کہ کوئی صحیح روایت بھی قبول نہیں کی جاتی جو اپنی سے صحیح کے خلاف ہو، اس میں حسن لغیرہ کی کیا تخصیص۔۔۔۔؟
مزید عرض یہ ہے کہ حسن لغیرہ کے قائلین محض ہر جگہ مطلب براری کے لئے الگ الگ تخصیصات بیان کرتے پھرتے ہیں ورنہ پندہ شعبان کے فضیلت پر جو روایات ہیں ان کے خلاف کون سی روایات موجود ہیں کہ ان کو بھی حسن لغیرہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ غرض یہ کوئی اصول نہیں محض مطلب کے لئے چند الفاظ کا سہارا ہے، جسے کہیں کسی طریقے سے تو کہیں کسی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔
اقتباس شدہ عبارت کا خلاصہ دو باتیں ہیں :
پہلی بات :
تلک الغرانیق والے قصے کے حوالے سے اعتراض کہ اس کی متعدد ضعیف سندیں حسن لغیرہ کے درجے کو کیوں نہیں پہنچتیں ؟
تو اس کا جواب قدرے وضاحت کے ساتھ مقالات اثریہ میں موجود ہے جس کا ما حصل یہ ہے کہ جس طرح ثقہ روات پر مشتمل ہر سند پر صحت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اسی طرح بظاہر حسن لغیرہ نظر آنے والی تمام اسانید کو تسلیم نہیں کیاجاسکتا ۔
جس طرح بعض ثقات کی بعض روایات کو رد کرنے سے ان کی تمام روایات کا رد کرنا لازم نہیں آتا اسی طرح بعض ضعیف احادیث کو حسن لغیرہ نہ ماننے سے بعض دیگر کا رد لازم نہیں ۔
کیونکہ قواعد علوم الحدیث دو جمع دو برابر چار کی طرح نہیں ہیں ۔ بلکہ قرائن کا بڑا عمل دخل ہے ۔
دوسری بات :
حسن لغیرہ کو حجت قرار دینے والوں کے عمل کو محض مطلب براری قرار دینا میرے خیال سے جسارت ہے ۔
کیونکہ حسن لغیرہ کی حجیت جمہور اہل علم کا موقف ہے جیساکہ بعض معاصرین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کے یہ جمہور کا موقف نہیں پھر بھی حجیت کے قائلین میں ایسے جلیل القدر آئمہ کے نام موجود ہیں جن کو اس الزام سے متہم نہیں کیا جاسکتا ۔ واللہ أعلم ۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اقتباس شدہ عبارت کا خلاصہ دو باتیں ہیں :
پہلی بات :
تلک الغرانیق والے قصے کے حوالے سے اعتراض کہ اس کی متعدد ضعیف سندیں حسن لغیرہ کے درجے کو کیوں نہیں پہنچتیں ؟
تو اس کا جواب قدرے وضاحت کے ساتھ مقالات اثریہ میں موجود ہے جس کا ما حصل یہ ہے کہ جس طرح ثقہ روات پر مشتمل ہر سند پر صحت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اسی طرح بظاہر حسن لغیرہ نظر آنے والی تمام اسانید کو تسلیم نہیں کیاجاسکتا ۔
جس طرح بعض ثقات کی بعض روایات کو رد کرنے سے ان کی تمام روایات کا رد کرنا لازم نہیں آتا اسی طرح بعض ضعیف احادیث کو حسن لغیرہ نہ ماننے سے بعض دیگر کا رد لازم نہیں ۔
کیونکہ قواعد علوم الحدیث دو جمع دو برابر چار کی طرح نہیں ہیں ۔ بلکہ قرائن کا بڑا عمل دخل ہے ۔
دوسری بات :
حسن لغیرہ کو حجت قرار دینے والوں کے عمل کو محض مطلب براری قرار دینا میرے خیال سے جسارت ہے ۔
کیونکہ حسن لغیرہ کی حجیت جمہور اہل علم کا موقف ہے جیساکہ بعض معاصرین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کے یہ جمہور کا موقف نہیں پھر بھی حجیت کے قائلین میں ایسے جلیل القدر آئمہ کے نام موجود ہیں جن کو اس الزام سے متہم نہیں کیا جاسکتا ۔ واللہ أعلم ۔

محترم ان جمہور سے آپ کی کیا مراد ہے؟؟

اور باقی جو آپ نے باتیں کیں محترم اچھا ہو کہ آپ اپنی رائے کی بجائے محدثیں میں سے کسی سے یہ بات ثابت کریں گے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔۔
 
Top