"اگر کوئی ضعیف روایت اپنے سے قوی روایات کی مخالف ہو تو ان سے حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت سلب ہو جائے گی" کا اصول مان بھی لیا جائے تو پوچھنا ہے کہ یہاں پر مخالفت کا مفہوم کیا ہے؟ کیا کسی چیز کا کسی صحیح روایت میں منقول نہ ہونا، مخالفت ہوتی ہے؟ اگر بات یہ ہو تو پھر یہ پورا حسن لغیرہ والا فلسفہ ہی بیکار۔ اور اگر مخالفت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز ضعیف روایت میں بیان ہوئی ہے اس کے خلاف صحیح بات کسی صحیح روایت میں بیان ہوئی ہے تو عرض ہے کہ تلک الغرانیق والے قصے میں جو بات بیان ہوئی ہے اس کے خلاف کون سی صحیح روایت موجود ہے؟ عرض ہے کہ کوئی ایک صحیح روایت بھی موجود نہیں جس میں صراحتآ اس قصے کے خلاف کچھ منقول ہو۔ لہٰذا جو لوگ اس واقعے کو حسن لغیرہ کے فلسفے کے خلاف پیش کرتے ہیں بالکل ٹھیک پیش کرتے ہیں۔
اس کا دوسرا تناظر یہ سمجھیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ جیسے محدث بھی اس واقعے کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ حسن لغیرہ کے جو اصول ہیں ان پر یہ روایت صحیح ہے۔ اس کو حسن لغیرہ سے نکالنے کے لئے من چاہے اصولوں کا سہارا لینا بالکل غلط اور محض مطلب براری ہے۔ اس طرز پر تو عرض ہے کہ کوئی صحیح روایت بھی قبول نہیں کی جاتی جو اپنی سے صحیح کے خلاف ہو، اس میں حسن لغیرہ کی کیا تخصیص۔۔۔۔؟
مزید عرض یہ ہے کہ حسن لغیرہ کے قائلین محض ہر جگہ مطلب براری کے لئے الگ الگ تخصیصات بیان کرتے پھرتے ہیں ورنہ پندہ شعبان کے فضیلت پر جو روایات ہیں ان کے خلاف کون سی روایات موجود ہیں کہ ان کو بھی حسن لغیرہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ غرض یہ کوئی اصول نہیں محض مطلب کے لئے چند الفاظ کا سہارا ہے، جسے کہیں کسی طریقے سے تو کہیں کسی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔
اقتباس شدہ عبارت کا خلاصہ دو باتیں ہیں :
پہلی بات :
تلک الغرانیق والے قصے کے حوالے سے اعتراض کہ اس کی متعدد ضعیف سندیں حسن لغیرہ کے درجے کو کیوں نہیں پہنچتیں ؟
تو اس کا جواب قدرے وضاحت کے ساتھ مقالات اثریہ میں موجود ہے جس کا ما حصل یہ ہے کہ جس طرح ثقہ روات پر مشتمل ہر سند پر صحت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا اسی طرح بظاہر حسن لغیرہ نظر آنے والی تمام اسانید کو تسلیم نہیں کیاجاسکتا ۔
جس طرح بعض ثقات کی بعض روایات کو رد کرنے سے ان کی تمام روایات کا رد کرنا لازم نہیں آتا اسی طرح بعض ضعیف احادیث کو حسن لغیرہ نہ ماننے سے بعض دیگر کا رد لازم نہیں ۔
کیونکہ قواعد علوم الحدیث دو جمع دو برابر چار کی طرح نہیں ہیں ۔ بلکہ قرائن کا بڑا عمل دخل ہے ۔
دوسری بات :
حسن لغیرہ کو حجت قرار دینے والوں کے عمل کو محض مطلب براری قرار دینا میرے خیال سے جسارت ہے ۔
کیونکہ حسن لغیرہ کی حجیت جمہور اہل علم کا موقف ہے جیساکہ بعض معاصرین نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کے یہ جمہور کا موقف نہیں پھر بھی حجیت کے قائلین میں ایسے جلیل القدر آئمہ کے نام موجود ہیں جن کو اس الزام سے متہم نہیں کیا جاسکتا ۔ واللہ أعلم ۔