• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام فرقے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں طبیعت ذیادہ خراب ہو تو قرآن سے رجوع کریں

شمولیت
ستمبر 03، 2020
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
تو قصہ کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ایک عجیب طوفان بدتمیزی پھیل چکا تھا ،علم کے نام پر جہالت ،توحید کے نام پر شرک،سنت کے نام پر بدعت کی ترویج کی جارہی تھی، تمام مسالک ایک دوسرے کے دست و گریباں تھے، سب ایک دوسرے پر کفر شرک اور مرتد اور تو قادیانی ہونے کا بھی الزام دہر رہے تھے،بریلوی مکتبہ فکر کا یہ کہنا تھا کہ وہی بس حب رسول ﷺ کے پہرہ دار ہیں جبکہ دوسری طرف دیوبند اور اہل الحدیث ایک دوسرے سے اگے نکلنے کے لیئے کھبی گاڑیوں کے پیچھے اور کھبی چوک چوراہوں پہ میں نوکر صحابہ دا لکھواتے نظر آ رہے تھے اور اہل تشیع تو اپنے علاوہ ساروں کو ناصبی کہنے پر تلے تھے۔

کتابوں کے نام مستند کتب کی جگہ قصے کہانیوں والی کتابوں کی تفسیر اور تشریح بیان ہو رہی تھی، من مرضی کے قرآن سے مطالب نکال کر زبردستی مفسرین کرام پر تھوپے جارہے تھے،اور تو نبی کریمﷺ کی طرف جھوٹی احادیث منسوب بھی کی جارہی تھیں۔اس سب میں پھنسا ایک عام اور سادہ مسلمان کر بھی کیا سکتا تھا،کیونکہ اہل جہل اپنے آپ کو اہل دانش اور اپنے بزرگوں کو ولی اللہ کہلانے پر بضد تھے۔اس صورت حال میں ایک عام مسلمان کے پاس بس دو راستے بچتے تھے،یا تو وہ ان مباحثوں سے خود کو الگ کر کے بے راہ روی کا شکار ہو جائیں

جیسے کہ آج کل کی نوجوان نسل کے ساتھ ہو رہا ہے یا پھر انہی میں سے کسی ایک مسلک میں داخل ہو کر دوسروں پر فتوں کی بھر مار کر دی جائے۔لیکن یہ ایک ایسا ظلم تھا جو امت مسلمہ کو ناصرف بیچ سے کاٹ رہا تھا اور نفرتوں کے بیچ بو رہا تھا بلکہ ہر فرقے اور مسلک

کا وکھرا(الگ) ہی جہان تھا۔اس ظلم کو بھی تو آخر ذوال آنا تھا سو آیا۔اسی طرح میں بھی تذبذب کا شکار تھا اور پریشان بھی کہ آخر یہ

ہو کیا گیا کیوں سب ایک دوسرے کے اتنے مخالف ،آخر ان میں سچا کون سا فرقہ ہے ،پھر میں نے قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا

اور ہر مولوی،عالم،مفتی ،شیخ،پیر،سنی بریلوی،اہلحدیث،شیعہ کو سننا شروع کیا اور سب کے حوالے بھی کراس چیک کرنے لگا۔ میرے لیئے یہ بات بہت حیران کن اور چشم کشا ثابت ہوئی کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ لوگ جو ہمارے لیئے رول ماڈل بنے ہوئے ہیں تو یہ کھبی بھی

اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کھبی بھی جھوٹ منسوب نہیں کر سکتے ، میرا یہ سمجھنا بھی غلط ثابت ہوا ،جیسے سورۃ جن میں آتا

ہے ناں:

سورۃ الجن آیت نمبر ۵

اور ہمیں خیال تھا کہ انسان اور جن اللہ پر ہرگز جھوٹ نہ بولیں گے۔

اور مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ لوگ تو بس اپنے فرقے کو ہی کل جہان سمجھتے ہیں،یہاں خالی مسجدیں نہیں بٹی ہوئی،یہاں پر قرآن کی آیات

بھی بٹی ہوئی ہیں،کوئی اگر قرآن سے توحید سے بیان کرے تو دھکے مار کر محفل سے نکال دیتے ہیں ،اگر کوئی شان صحابہ بیان کرے تو

اس پر ناصبی ہونے کے الزامات لگتے ہیں،اگر کوئی اہل بیت کی شان بیان کرے تو رافضی شیعہ ہونے کا الزام لگا کر اسے لوگوں کے سامنے تذلیل کیا جاتاہے۔



مجھے معلوم ہوا کہ یہاں صحابہ اور اہل بیت کو بھی تقسیم کر لیا گیا ہے،کچھ لوگ کچھ صحابہ کو مانتے ہیں اور کچھ لوگ کچھ اہل بیت کو

کیونکہ ان کے فرقہ پرست نظریاتی بتوں نے کچھ ایسی ہی تعلیم ان کو دی۔



مجھے معلوم ہوا کہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی کچھ لوگ آئمہ فقہ کو بانٹ کر بیٹھیں ہیں اور کچھ لوگ آئمہ محدثین کو۔جو امام فقہ ہمیں

پسند ہے بس وہی حق پر، جو محدث میری نظر میں بہتر ہے وہی حق پر ۔اور اس طرح اس بٹوارے کے چکر نے اندھی تقلید کو جنم

دیا جس نے تحقیق اور تدبر کرنے والے مسلمانوں کی بھیڑ بکری بنا کر رکھ دیا۔جب میں مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ اب نبی اکرم

ﷺ کی بات وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو صحابہ کرام دیا کرتے تھے، اب کہ بزرگوں کی باتیں ذیادہ موثر ہیں ان کے واقعات اور دیو

مالائی کہانیاں قرآن و حدیث کے فہم سے بھی ذیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔نبی اکرم ﷺ کے بارے میں اگر کوئی اپنا کچھ کہ جائے تو

معاف چاہے اس کی گستاخی آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہو، لیکن اگر کسی سے غلطی سے کوئی ایسا لفظ نکل جائے جو بے ادبی میں شمار

ہو اور وہ شخص معافی بھی مانگ لے تب بھی اس کی کوئی معافی نہیں کیونکہ وہ دوسرے فرقے کا ہے۔

سورۃ ال عمران آیت نمبر ۱۰۳

اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو

سورۃ المومنون آیت نمبر ۵۳

پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہونے والے ہیں



جو حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے جیسا یہود و نصاریٰ کا تھا کہ

سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۱۳


اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ ٹھیک راہ پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی راہِ حق پر نہیں ہیں حالانکہ وہ سب کتاب پڑھتے ہیں



اب اگر کوئی بھائی ہمارا یہ آکر کہے کہ بھائی یہ آیت تو اہل کتاب کے بارے میں ہے تو میرے بھائی اس بات کا جواب بھی حدیث

مبارکہ میں موجودہے:

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " تم ضرور ان لوگوں کے طریقوں پر بالشت بر بالشت اور ہاتھ بر ہاتھ چلتے جاؤ گے جو تم سے پہلے تھے ( بعینہ ان کے طریقے اختیار کرو گے ، ان سے ذرہ برابر آگے پیچھے نہ ہو گے ) حتی کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں گھسے تو تم بھی ان کے پیچھے گھسو گے ۔ " ہم نے عرض کی : اللہ کے رسول! کیا یہود اور نصاریٰ ( کے پیچھے چلیں گے؟ ) آپ نے فرمایا : " تو ( اور ) کن کے؟ صحیح مسلم ۶۷۸۱



فرقہ پرست لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ بس وہی حق پر ہیں جیسے قرآن میں آتا ہے:

سورۃ الکہف آیت نمبر ۱۰۴

وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھو گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔



اللہ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور ہمارا نام مسلم رکھا جیسا قرآن میں آتا ہے:

سورۃ الحج آیت نمبر ۷۸

اس (اللہ تعالیٰ ) نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ، اس سے پہلے اورا س ( قرآن) میں بھی ۔''



اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرقہ پرست طبقے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے

سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۵۹

جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی جماعتیں بن گئے تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہی انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے برخلاف آج کلمہ گُوافراد نے خود کو بے شمار فرقوں میں تقسیم کر لیا ہےجن کی پہچان حنفی ، مالکی ، شافعی ،حنبلی، شیعہ ،اہلحدیث ، دیوبندی ،بوہری ، پرویزی اور نہ جانے کیا کیا ہے ، انہوں نے قرآن کے خلاف عقائد اپنا کر اور سنت ِ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں اعمال ، بدعات و رسومات کو دین بنا کر اللہ کے قہر و غضب کو بھڑکایا ہے۔ اب جہنم کی آگے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان فرقوں اورگروہوں سے فوری طور پر تعلق ختم کرکے یکسو مسلم بن جائیں اور اس کی وابستگی مسلمانوں ہی کی جماعت سے ہو کسی مسلک اور فرقہ سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہو ۔



وما علینا الا البلغ المبین​
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
پھر تو آپ کو بٹ، جٹ، ارائیں، ڈوگر، کھوکھر، کسی بھی ذات سے تعلق بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ نفرتیں بڑھتی ہیں۔
خود کو سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو بھی نہیں کہنا چاہیے۔
یہاں تک کہ پاکستانی، ہندوستانی، افغانی کی تقسیم بھی نہیں ہونی چاہیے۔

اختلافات موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تمام چیزوں کو یکسر چھوڑ ہی دیا جائے۔ دنیا میں اس وقت بہت سارے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کسی مسلک سے تعلق نہیں رکھتے۔ ہم خود قرآن اور حدیث کا مطالعہ کریں گے۔ تفاسیر، احادیث اور اقوال صحابہ کو چھوڑ کے جب ایسے لوگ دین کوسمجھیں گے تو تھوڑے نہیں تو سینکڑوں نئے فرقے ضرور وجود میں آئیں گے۔
 
شمولیت
ستمبر 03، 2020
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
محترم بھائی!
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے کوئی بھی بات خود سے نہیں نکالی جو باتیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں اور کچھ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں اس مضمون کو تحریر کیا ہے،باقی آپ میری بات سے اختلاف رکھنے کا حق رکھتے ہیں ،تو جو نقطے آپ نے اٹھائے ہیں ان پر زرا نظر بھی ڈال لیتے ہیں۔
پہلا نقطہ کے جٹ ارائیں وغیرہ بھی مت کہیں:
اللہ سبحان وتعالیٰ نے یہ تمام برادریاں اور قومیں اس لیئے بنائیں ہیں تاکہ ہماری پہچان ہو سکے ،اور یہ اللہ نے بنائی ہیں اور اللہ کی بنائی ہوئی شے اور بندے کی بنائی ہوئی شے میں خدارا کچھ تو فرق رکھیں۔ اللہ سبحان وتعالیٰ اگر کچھ بناتے ہیں تو اس میں کچھ نہ کچھ مصلحت اور کچھ نہ کچھ حکمت ضرور مضمر ہوتی ہے جو جلد یا بدیر ہماری سمجھ میں آتی ہے ۔ان قوموں اور برادریوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے آئیں دیکھتے ہیں:
سورۃ الحجرات آیت 13
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔1 یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے
اب رہی بات اختلاف کی تو ،
اگر بات اختلاف تک رہتی تو کسی کو کوئی مضائقہ نہیں تھا دراصل اس بنیاد پر ان فرقہ پرست لوگوں تکفیر شروع کر دی اب زرا مجھے بتائیں کہ جو لوگ میلاد کرتے ہیں وہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور پر نور میں یہ نہیں ہوتا تھا اور اسے بدعت حسنہ کہتے ہیں مانتے بھی ہیں اور کرتے بھی۔لیکن جو نہیں کرتے ان کے لیئے ایک شعر وضع کیا ہوا ہے کہ
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

اب زرا سو چیئے کہ یہ لوگ اپنے فرقے کی تقلید میں اس قدر متشدد ہو چکے ہیں کہ نہ پوچھیئے اس لیئے مجبورا یہ تحریر لکھنا پڑی تاکہ لوگوں کے سامنے قرآن و حدیث کا فہم لایا جا سکے ۔ ہمارا کام محض پہنچانا ہے کوئی مانتا ہے مانے ، نہیں مانتا نہ مانے کوئی زبردستی نہیں ہے۔اللہ مجھے اور آپ کو ہدایت عطا کرے اور دین متین پر چلنے کی توفیق عطا کرے ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 
Top