آپ احمق ہیں ..یا مجرم ؟
.
غصہ نہ کیجئے گا ، حقیقت یہی ہے کہ اگر آپ دل سے یوں سمجھتے ہیں تو آپ واقعی کم عقل ہیں ، احمق ہیں ، بے وقوف ہیں اور کیا کہوں تہذیب ہاتھ روکے ہے ورنہ آپ کے سر پر ایک ہاتھ بھی جڑ دوں -
آپ دانش ور ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں خارجی ہے ، فلاں دہشت گرد ہے اور جو ان میں شامل ہو جاتا ہے وہ اصل میں ہی گمراہ ہے تو اوپر لکھی صفات کے آپ حامل ہیں -
خان شیخون میں پرسوں اترسوں جو کیمیائی بم کا حملہ ہوا اس میں ایک شخص کا قصہ سنیے پہلے , پھر آپ کی دانش وری کی پرتیں اترتی ہیں -
یہ عبد الحمید یوسف ہے , خان شیخون کا یہ آدمی جس کی آپ تصویر دیکھ رہے ہیں - اس نے اپنے دو جڑواں بچوں کی لاشیں اٹھائی ہوئی ہیں .. جن کی عمر محض نو ماہ تھی ، آیا اور احمد ...دونوں کیسے پیارے لگ رہے ہیں جیسے کوئی ادھ کھلا پھول کہ جس پر بہار آنے کو تھی کہ کوئی مسل کے توڑ گیا ...لیکن کہانی اتنی ہی نہیں ..
عبد الحمید یوسف کے محلے کے بیچ میں جب بم پھٹا تو اس کے خاندان کے کافی لوگ وہاں موجود تھے ... پھر وہ لاشیں اٹھاتا گیا ..پہلے تو نام لے لے کے پکارا ، ادھر ادھر دوڑا . کسی کو تڑپتا پایا اور کسی کو جان بلب ...پھر اس نے نام لینا چھوڑ کے گنتی شروع کر دی
..اب وہ گن رہا تھا ..ایک ، دو ، تین ، چار ، پانچ ...........
اور پھر وہ گنتا گیا .... اس کے خاندان کے ، اس کے ماں جائے ، اس کے بچپن کے ساتھی ، اس کے خون کے رشتے ، جن کے ساتھ کھیلا اور کچھ کی محبتوں میں پل کر جوان ہوا ... سب ہی تو تھے ان میں ... اس کے خاندان کے بائیس افراد جان کی بازی ہار چکے تھے ..
وہ اٹھاتا گیا .. گنتا گیا اور قبروں میں اتارتا گیا -
شام ہو چکی تھی .... اس کے اندر کا انسان کب کا ٹھنڈا ٹھار ہو چکا تھا ، آنسو کب کے تھم چکے تھے .... جب وہ بائیس لاشوں کو زمین کے اندر اتار کے فارغ ہوا تو خود بھی تئیسویں لاش بن چکا تھا -
اور اب یہ تئیسویں لاش کچھ روز میں جسم پر خود کش جیکٹ باندھے گی یا بندوق تھامے گی .... اور آپ ، میں ہم سب مل کر اسے انسانیت کا دشمن قرار دیں گے ، اس پر فتوے جڑیں گے -
مفکرین اور دانش ور صاحبان ! یہ دہشت گردی ، یہ خوارج ، خود کش حملے ، اس ظلم کا منتقی نتیجہ ہے جو امریکہ ، روس اور اس کے حواری ایران نے ارض شام و عراق میں بپا کیا ...آسمانوں سے آپ آگ کی بارش کریں ... علاقوں کے علاقے تورا بورا بنا دیں .. خاندان کے خاندان ناحق قتل کر دیں ...عفت مآب بہنوں کی عزتوں کو آپ کے غنڈے برباد کر دیں .. ماؤں کے بچے مار دیں .... پر سکون آبادیوں کو اپنی مہذب دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیں ...اور پھر جب اس کے رد عمل میں کوئی کھڑا ہو جائے ...اس پر دہشت گرد کے فتوے جڑیں -
آپ کے دانش ور ٹاک شو میں بیٹھ کر دہشت گردی کی جڑیں ڈھونڈیں ..کچھ ضرورت سے زیادہ "سمجھ ڈار " اس کو ابن تیمیہ کی کتابوں میں تلاش کریں اور مغرب کے ان مظالم پر مجرمانہ پردہ ڈالنے کی کوشش کریں ...تو جان لیجئے ان سے زیادہ نہ کوئی بے وقوف ہے اور نہ مجرم -
"مجرم " میں نے اس لیے لکھا کہ جانتے بوجھتے جب کوئی دہشت گردی کے حقیقی اسباب کو زیر بحث لانے کی بجایے ...جھوٹ بول کے ، جھوٹی تصویر کشی کرتا ہے تو چاہے وہ کوئی مغرب کا پروردہ دیسی دانش ور ہو یا .گوری چمڑی والا سوٹ پہنے اندر کی بدبو کو انسانایت نامی پرفیوم سے چھپائے دانش ور یا جبہ و عمامہ سجائے کوئی باریش فتوی باز ...جی ہاں مجرم ہی ہو گا ..خان شیخون کے ان شہیدوں کا
..ابوبکر قدوسی