مسئلہ اتناسادہ اورآسان نہیں جتناکہ بناکر پیش کیاجاتاہے۔
ایک توکسی چیز کے حضورپاک تک صحیح نسبت کا مسئلہ ہے اس میں محدثین اورفقہاء کے اپنے اجتہادات ہیں ۔ محدثین کا راویوں کے ضبط کی بابت فیصلہ کرنا عموما ان کی روایت کے جانچ پڑتال سے ہوتاہے اس میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ایک ہی راوی کے سلسلہ میں ائمہ جرح وتعدیل مختلف البیان ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرابڑامرحلہ متن سے ثابت ہونے والی بات کاہے۔یہ اول الذکر سے بھی زیادہ پیچیدہ مسئلہ ہے۔ عبارت النص ،دلالۃ النص ،اشارۃ النص اقتضاء النص ،عام ،خاص،مطلق،مقید،امر،وجوب ،استحباب،مباح،جواز اوراس قسم کے سینکڑوں مسائل جو کتب اصول فقہ میں مفصل طورپر مذکور ہیں۔ اس کی چھان بین کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے اوریہیں پر ہمیں مجتہدین حضرات کی ضرورت پڑتی ہے۔
کچھ حدیثیں ایسی بھی ہیں جوکہ سنداصحیح ہیں لیکن ان پر کسی بھی فقیہہ نے عمل نہیں کیا ہے۔مثلاوہ صحیح حدیث کہ شرابی چوتھی مرتبہ شراب پئے تواسے قتل کردو ۔
اس کے سلسلے میں علامہ خطابی کہتے ہیں
وقال الخطابي : قد يرد الأمر بالوعيد ولا يراد به الفعل ، وإنما يقصد به الردع والتحذير . وقد يحتمل أن يكون القتل في الخامسة واجبا ثم نسخ بحصول الإجماع من الأمة على أنه لا يقتل انتهى . وحكى المنذري : عن بعض أهل العلم أنه قال : أجمع المسلمون على وجوب الحد في الخمر ، وأجمعوا على أنه لا يقتل إذا تكرر منه إلا طائفة شاذة قالت : يقتل بعد حده أربع مرات للحديث وهو عند الكافة منسوخ . ا هـ .
اب یہ نازک امور کون سمجھے گا۔ کیاہرشخص جوعربی عبارت پرھنے اوراس کامطلب سمجھنے کی صلاحیت رکھتاہے وہ اسکی لیاقت رکھتاہے۔بعضے جاہلین کہتے پھرتے ہیں کہ صحیحین،ترمذی،نسائی اورابودائود ایک مسلمان کیلئے کافی ہے اوراس میں حدیث پڑھ کر عمل کرے اورجہاں حدیث میں اختلاف ہو تووہ ہرایک حدیث پر باری باری عمل کرے۔
اس جاہل کویہ نہیں معلوم کہ اس طرح امت میں کتنی بڑی مصیبت واقع ہوجائے گی۔
میری عبارت مین دوچیزیں بڑی اہم ہیں۔ ایک تویہ کہ نفس حدیث کا ثبوت حضورپاک کی جانب ہونا۔
اصول حدیث میں بھی محدثین کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔کچھ لوگ مرسل کو حجت مانتے ہیں کچھ لوگ نہیں مانتے ۔اب جومرسل کوحجت مانتے ہیں وہ اسے حدیث رسول مانتے ہیں اوراسی حیثیت سے عمل کرتے ہیں۔ اورجولوگ حجت نہیں مانتے وہ ان پر عمل نہیں کرتے۔
مرسل تک محدود نہیں ہے بعض متکلم فیہ روات میں محدثین کااختلاف ہے بعض اسے حجت نہیں مانتے اوربعض مانتے ہیں ایک مثال لیں عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ ۔حضرت ابن قیم اسے حجت مانتے ہیں اوراس راوی کی روایت کااعتبار نہ کرنے والوں کو انہوں نے فقہ سے خالی قراردے دیاہے چنانچہ وہ اس سلسلے میں ابن حزم اورابوحاتم البستی پر پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ان سے انہی حضرات نے استدلال نہیں کیاہے جوفقہ سے خالی ہیں انکے الفاظ میں من لم یتحمل اعباء الفقہ جنہوں نے فقہ کی گراں باریوں کاذمہ نہیں لیاہے۔
اس کے علاوہ اوربھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں طوالت کے خوف سے نظرانداز کرتاہوں
دوسری چیز یہ ہے کہ متن سے ثابت کیاہورہاہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ حضورپاک کی مشہور حدیث ہے جس میں سود کو چھ چیزوں کے ادلے بدلے میں متعین کیاگیاہے۔ اس کی علت اورلم ہرمجتہد نے الگ الگ بیان کی ہے۔ اس لم اورعلت کوکون سمجھے گا۔ عربی کاحرف شناس یااردو کے ترجمہ کی بنیاد پر تیار ہونے والا مجتہد !
یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ویسے رفع الملام ابن تیمیہ کی اورالانصاف فی بیان سبب الاختلاف بھی پڑھ لیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی بشرطیکہ ذہنی افق اوردائرہ تھوڑاوسیع ہو۔
علماء ہردور میں فقہی اورفروعاتی مسائل میں اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن کسی نے یہ نہیں کہاکہ ہم حدیث پر عمل کررہے ہیں اورتم غیرحدیث پر عمل کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں امام احمد بن حنبل کا وہ جملہ اسحاق بن راہویہ کے سلسلے میں مشہور ہے کہ ہماراان سے کچھ باتوں میں اختلاف ہے لیکن لوگ ہمیشہ سے ان مسائل میں اختلاف کرتے رہے ہیں۔
یہ صرف دورحاضر کے کچھ لوگوں کی ذہنی اپج ہے کہ وہ خود کو مدعی عمل بالحدیث سمجھتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں ان کاخیال ہوتاہے کہ وہ حدیث پر عمل نہیں کرتے ۔
ایسے حضرات کو چاہئے کہ وہ ائمہ مجہتدین کے اجتہادات اوران کی کتابوں کوغوروفکر سے پڑھیں۔ ذہنی افق اوردائرہ تھوڑاوسیع رکھیں۔
پھرانشاء اللہ انکو دکھنے لگے لگاکہ امت کابیشتر طبقہ حدیث پر ہی عمل کررہاہے خواہ وہ حدیث اس کے مزعومہ فہم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
یہ کچھ سطریں جلدبازی میں لکھی گئی ہیں۔ انشاء اللہ تفصیلی طورپر پھرکبھی لکھوں گا۔
ویسے یہ لنک بھی کارآمد ہے۔
مخالفت حدیث:واقعیت اورحقیقت - پاکستان کی آواز - پاکستان کے فورمز
اوریہ لنک بھی
اختلاف امتی رحمۃ کاایک جائزہ - پاکستان کی آواز - پاکستان کے فورمز