bahut acha post hai. Is asool se kisi ko inkaar nahi hona chahye?
واقعی ہی کسی با شعور شخص کو اس اصول پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
لیکن آپ کو اس اصول پر اعتراض ہے، کیونکہ آپ احادیث مبارکہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
tanazah ki surat main quran ki taraf rojo tu samjh main ata hai lekin faham ka ikhtilaaf kaise rafa hoga? Ittefaq ki kia surat hogi
حدیث مبارکہ سے ۔۔۔ جسے آپ تسلیم نہیں کرتے۔ اور تو اور صحیح بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر بھی آپ کو اعتراض ہے۔
واقعی ہی جو لوگ اصل الاصول چھوڑ دیتے ہیں، پھر وہ اسی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے اور حیران وپریشان پھرتے ہیں کہ ان ہیں حق سجھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
﴿قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّـهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ٧١ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنعام
جس طرح مشرک جب ایک در چھوڑتا ہے تو پھر ہزاروں کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے، اسی طرح منکر حدیث جب حدیث کا انکار کرتا ہے تو پھر تو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ بنیادی ارکان اسلام پر ہی اتفاق نہیں ہو پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رب العٰلمین نے ہماری اصلاح کیلئے قرآن کریم (وحی جلی) نازل فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائی، اسی طرح اس کی وضاحت اور تشریح وتبیین کی ذمہ داری بھی خود اٹھائی ہے، اس کی تبیین کو بھی قرآن کریم کی طرح اللہ رب العزت نے جبریل کے ذریعے نبی کریمﷺ پر وحی فرمایا، جسے اصطلاح میں وحی خفی (احادیث مبارکہ) کہتے ہیں۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ١٦ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ١٧ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة القيامة
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
Sunnat ki taraf rojo ki kia surat hogi aur faisla kaise kiya jayega?
کیا مطلب؟
جس طرح قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، اسی طرح سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ کیونکہ جو نبی کریمﷺ کی اطاعت کرے، اس نے درحقیقت اللہ ہی اطاعت کی ہے۔
﴿ من يطع الرسول فقد أطاع الله ﴾