• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تنازع

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تنازع

ملعون وضعی قانون کو اس قانون کے مقام پر رکھنا جسے روح الامین (جبرئیل علیہ السلام) نے سیدنا محمد رسول اللہ ا کے دل پر واضح عربی زبان میں نازل فرمایا ہے تاکہ آپ ا ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں، یہ کفر اکبر، واضح اور ظاہر کفر ہے۔
الشیخ رحمہ اللہ نے اپنی عبارت کی ابتداء ہی اس اختلاف کی نشاندہی سے کی ہے جو مسئلہ تحکیم کے بارہ میں ہے کہ وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو گا یا نہیں یعنی شیخ رحمہ اللہ نے اصل الاصول سے ابتدا کی ہے اور یہ دعوت کے میدان میں فقہ و حکمت کے کمال کی دلیل ہے کہ داعی جب کسی ایسے حکم کے بارے میں بات کرتا ہے جس میں تفصیل ہو تو ابتدا اصل عام اور قاعدہ کلیہ سے کرے، پھر اس میں سے مخصوص احکام کا ذکر کرے جو اس اصل قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ ہوں یا اس قاعدہ کے تحت نہ آتے ہوں۔
شیخ رحمہ اللہ نے جو بات کی ہے کہ یہ واضح اور کفر اکبر ہے، یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اس میں شک کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور اسی ضمن میں اس کی فروعات آتی ہیں۔ وہ قانون جسے انسان اپنی اھواء و خواہشات کے مطابق اللہ تعالیٰ پر بہتان و اِفتراء باندھتے ہوئے بنائے، کیسے ممکن ہے کہ اسے اس قانون کی جگہ دے دی جائے جسے روح الامین جبرئیل علیہ السلام سیدنا محمد رسول اللہ ا پر لے کر نازل ہوئے ہیں؟۔ کوئی مومن اس بات کو کبھی پسند نہیں کر سکتا۔

شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کسی تنازع کے وقت وضعی قانون کی طرف لوٹنا اللہ تعالیٰ کے اس قول کی دیدہ دانستہ مخالفت ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا(النساء:59)
پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اُسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔
اور اپنے اختلافات میں نبی اکرم ا کو اپنا حاکم نہ بنانے والوں کے ایمان کی اللہ تعالیٰ نے نفی کے متعدد صیغوں اور قسم کے ساتھ نفی کی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (النسآء:65)
سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ (ا) کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلے آپ (ا) ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی یا ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی جو اپنے اختلافات میں نبی اکرم ا کو حاکم نہ مانیں دو اُمور سے تاکید کرتے ہوئے نفی کی ہے، ایک یہ کہ حرفِ نفی کی تکرار ہے جو کہ آیت مبارکہ کے شروع میں ’’لا‘‘ ہے۔ پہلے {فَلَا وَ رَبِّکَ} کہ تیرے رب کی قسم نہیں۔ پھر {لَا یُؤْمِنُوْنَ}وہ لوگ مومن نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ حلفیہ بات کی جو کہ {وَ رَبِّکَ} (تیرے رب کی قسم) ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف رسول اکرم ا سے فیصلہ کرانے کی طرف مائل ہونے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اس فرمان:

ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ (النسآء:65)
یعنی: پھر جو فیصلے آپ (ا) ان میں کر دیں، ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی یا ناخوشی نہ پائیں۔
کے ساتھ اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ اسے برضاء و رغبت کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرنے کا حکم دیا۔
الحرج سے مراد تنگی ہے۔ بلکہ وسعت قلبی ضروری اور بے چینی و اضطراب سے محفوظ ہونا بھی ضروری ہے۔
’’حرج‘‘ سے مراد تنگی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے: ’’ارض حرجۃ‘‘ یعنی تنگ جگہ اور ’’مکان حرج‘‘ یعنی تنگ مکان۔

بلکہ اس فیصلہ سے ان کے دل فراخ اور سینے کھل جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کر کے خوش محسوس کریں۔ اور قلق و اضطراب سے محفوظ ہونے سے مراد ہے کہ رسول اکرم ا کے فیصلے سے ان میں کسی قسم کی بے چینی اور اضطراب نہ ہو۔

اور اللہ تعالیٰ نے یہاں ان دو امور پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ وہ رسول اکرم ا کو اپنا حاکم بنائیں اور آپ ا کے فیصلے سے کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں، نہیں۔

بلکہ ایک تیسری چیز بھی ان دونوں کے ساتھ بیان کی اور وہ ’’تسلیما‘‘ ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مکمل تابعداری ہے کہ نفس و خواہش کے ادنیٰ سے شائبہ کو بھی چھوڑ دیں اور حق کے حکم کو تسلیم کر لیں، مکمل تسلیم کرنا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں اسکی مصدر مؤکد سے تاکید کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول {وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا } (اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں) میں ’’تسلیما‘‘ مصدر مؤکد ہے اور مصدر مؤکد لانے کا فائدہ یہ ہے کہ صرف تسلیم کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ مطلق تسلیم کرنا ضروری ہے۔
ذرا پہلی آیت مبارکہ پر غور کریںجو کہ فرمانِ الٰہی ہے:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا(النساء:59)
پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اُسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’مدارج السالکین‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ آیت مبارکہ دین کے تین مراتب پر مشتمل ہے اور دین کے تین مراتب کا حدیث جبرائیل میں بیان ہوا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ آپ ا سے فیصلہ کروانے اور آپ ا کی ہدایت اور شریعت کی اتباع اور پیروی کی نسبت سے دین کے تین مراتب کو بیان کرتی ہے اور وہ تین مراتب مرتبۃ الاسلام، مقام الاسلام اور مقام التحکیم ہیں۔ جو رسول اکرم ا کو اپنا حاکم نہیں مانتا ہے، وہ مسلم و مومن نہیں ہے۔ دوسرا درجہ: اگر وہ آپ ا کو حاکم تو مان لے لیکن آپ ا کے فیصلے سے دل میں تنگی محسوس کرے اور اسے مکمل تسلیم نہ کرے تو وہ بھی مومن نہیں ہے۔ اس سے ایمان اس وقت تک دور ہوجاتا ہے جب تک اس میں (ایمان کا) دوسرا درجہ نہ آجائے، اور وہ یہ کہ اگرچہ وہ آپ ا کو حاکم مان کر کافر ہونے سے تو بچ گیا ہے لیکن ابھی تک اس کے سینے سے نبی اکرم ا کے فیصلے سے تنگی ختم نہیں ہوئی، اس لئے وہ مومنین کے زمرے میں شمار نہیں ہو گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں انہی لوگوں کی تعریف کی ہے اور انہی لوگوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جو صفت ِ ایمان سے متصف ہوں جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(المؤمنون: 1)
یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا
مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں۔ (الحجرات:15)۔

اور
وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍاِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(العصر:1-3)
زمانے کی قسم۔ بیشک (بالیقین) انسان سر تا سر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
پس کسی قسم کی تنگی نہ ہونا، ایمان ہونے کی علامت ہے۔ اور (تیسرا درجہ) اگر کوئی انسان آپ ا کو حاکم بھی مان لے اور آپ کے فیصلے سے دل میں تنگی بھی (بظاہر) نہ ہو، لیکن تسلیم کی انتہا کو ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ یعنی اس طرح تسلیم نہ کرے جیسے تسلیم کرنے کا حق ہے تو ایسا شخص مسلم اور مومن تو ہے، لیکن اسے ابھی احسان کے مرتبہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے جو کہ بلند ترین درجہ اور مقام ہے۔ اور یہی تقاضا ہے {وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} کا کہ بغیر کسی اعتراض کے قبول کرے۔کہ جب اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رسول ا کا کوئی فرمان آجائے تو یہی عین حق اور بالکل درست اور صواب ہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور تنازع نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہے کہ عقل، رائے، فلاں شیخ یا مذہب یوں کہتا ہے۔ نہ تو قول اللہ اور قول الرسول کی مخالفت ہو نہ اس میں تردد اور شک ہو بلکہ مکمل تسلیم ہو۔ پس یہ آیت مبارکہ دین کے ان تین مراتب کو مشتمل ہے (اور اس کی اساس یہ ہے کہ جو آدمی رسول اللہ ا کو حاکم نہیں مانتا وہ آدمی اگرچہ بزعم خود دعویٰ کرے وہ مسلم نہیں ہے۔

پہلی آیت کے مفہوم پر غور کرو جو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۵۹ۧ
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ا) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اُسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔(النساء:59)۔
غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے لفظ ’’شَیْئٍ‘‘ کو نکرہ لفظ استعمال کیا ہے (نکرہ عام ہوتا ہے یعنی ہر چیز اس کے ضمن میں آجاتی ہے جبکہ معرفہ خاص ہوتا ہے) اور یہ نکرہ آیت مبارکہ میں لفظ ’’شَیْئٍ‘‘ ہے جو ’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ ‘‘ میں پائی جانے والی شرط کے ضمن میں ہے جوکہ عموم کا فائدہ دیتی ہے۔ یعنی جھگڑا جہاں بھی ہو، جس چیز میں بھی ہو اور کسی بھی جنس اور مقدار میں ہو یعنی چھوٹی چیز میں ہو یا بڑی چیز میں ہو، فیصلہ کے لئے صرف اور صرف اللہ اور اللہ کے رسول ا کی طرف ہی رجوع کرنا ہو گا۔ پھر غور فرمائیے کہ اسے کس طرح اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے۔

اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ (النساء:59)
اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔
لفظ ’’شَیْئٍ‘‘ میں علماء لغت کے نزدیک بہت زیادہ عموم پایا جاتا ہے کیونکہ ہر چیز پر اس کا اطلاق ممکن ہے۔ اور یہ مکمل طور پر عموم کا فائدہ دیتا ہے کیونکہ یہ شرط کے ضمن (سیاق) میں نکرہ آیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’شَیْئٍ‘‘ کا اطلاق اللہ تبارک و تعالیٰ پر بھی ممکن ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَہَادَۃً۝۰ۭ قُلِ اللہُ۝۰ۣۙ شَہِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝۰ۣ
آپ (ا)! کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے؟ آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے (الانعام:19)
تو اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر بھی ’’شَیْئٍ‘‘ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے لیکن وہ کیسی چیز ہے؟ وہ بزرگ و برتر ذات ہے، ہر چیز سے بڑی ذات ہے۔ جیسا کہ شعر ہے:

رأیت اﷲ اکبر کل شئ محاولۃ واکثرھم جنودا
اور اسی طرح ادنی سے ادنی اور حقیر ترین چیز پر بھی ممکن ہے کہ ’’شَیْئٍ‘‘ کا اطلاق کیا جائے۔
تو قضیۃ الکبریٰ اس میں یہ ہے کہ اگر دو اشخاص کا کسی بہت بڑی مملکت کے بارے میںجھگڑا یا تنازع پیدا ہو جائے تو ہم یہی کہیں گے کہ فیصلہ اس چیز میں ہے۔ اور اسی طرح اگر دو اشخاص میں ایک روپے یا چوتھائی روپے میں تنازع ہو جائے تو پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ان دونوں نے اس چیز میں جھگڑا یا تنازع کیا یا فیصلہ کرانا چاہا۔
تو یہاں یہ چیز واضح ہو گئی کہ جس چیز میں بھی تمہارا نزاع ہو، اور نزاع کیسا بھی کیوں نہ ہو، چاہے یہ تنازع اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں ہو یا ایمان کے بارے میں، تقدیر کے بارے میں ہو یا عقیدہ کے اُمور میں، فقہی احکام میں سے کسی حکم کے بارے میں ہو یا حقوق، قصاص و دیت اور اموال وغیرہ میں ہو۔ تو ہر جنس اور نوع کے فیصلے تحاکم کے وجوب میں داخل ہیں۔ اور متنازع فیہ چیز کو اللہ اور اللہ کے رسول ا کی طرف لوٹانا فرض ہے کیونکہ یہ سب کلمہ ’’شَیْئٍ‘‘ کے ضمن میں آتے ہیں۔ جو اللہ کے فرمان ’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ ‘‘ میں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر دوسری آیت مبارکہ میں یوں ارشاد فرمایا ہے:

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْہِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُہٗٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبِّيْ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ۝۰ۤۖ وَاِلَيْہِ اُنِيْبُ۝۱۰(الشوری:10)
اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے، یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں۔
یعنی جس میں بھی اختلاف ہو۔ اور پہلی آیت کی طرح اس میں بھی شرط پائی جاتی ہے اور وہ ’’وَمَا اخْتَلَفْتُمْ‘‘ میں ’’مَا‘‘ شرطیہ ہے۔ اور اس میں ایک اور اضافی چیز بھی ہے جو کہ عموم میں زیادتی کی تاکید پر دلالت کرتی ہے اور وہ حرفِ جار ’’من‘‘ کا ’’شئ‘‘ کا اس سے پہلے ذکر کرنا ہے۔ پس اس شرط کا حکم ہر قسم کے نزاع کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا اور اسی سے فیصلہ کرانا ہے، کیونکہ کوئی چیز بھی اس سے خارج نہیں ہے۔ اسے (یعنی اپنے تنازعات کو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف لوٹانے کو) اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کے لئے شرط قرار دیا گیا ہے۔ آیت مبارکہ:
’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِ ذَالِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَأْوِیْلاً ‘‘ (النسآء:59)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان کو اس شرط کے ساتھ مشروط قرار دیا کہ اپنے تنازعات کو اللہ اور رسول اکرم ا کی طرف لوٹایا جائے، اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۶۰ (النسآء:60)
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے، اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے۔
تو ایمان کا دعویٰ صرف گمان کی حد تک ہے۔ حقیقت میں وہ مؤمن نہیں ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا

وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ(المائد� �:43)
ترجمہ: اور یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:

مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ (المائدۃ:41)
لوگوں میں سے (ایسے) لوگ (بھی ہیں) جو زبانی تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل ایمان والے نہیں ہیں۔
 
Top