ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
تواتر کا مفہوم اور ثبوتِ قرآن کا ضابطہ
محمد آصف ہارون
زیر نظر مضمون کو مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے فاضل رکن محمد آصف ہارون﷾ نے قراء ات متواترہ کے تواتر کے سلسلہ میں تحریر کیا ہے، جس میں انہوں نے جہاں ’ خبرمتواتر‘ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے وہیں اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ تواتر کی تعریف کے ضمن میں موجود اِختلاف کا تعلق تدوین میں تصورات کی فنی ضابطہ بندی میں اصطلاحات کے فرق سے ہے، جو کہ حقیقی اختلاف شمار نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کسی حدیث کے قبولیت وردّ کا اصل معیار عددی اکثریت یا اقلیت نہیں، بلکہ راوی کاکردار، ضبط اور اتصال سند وغیرہ ہے، چنانچہ معتزلہ اور بعض متاخر اُصولیوں کا اِن بنیادی شرعی معیارات سے قطع نظر روایت کو افراد کی کثرت وقلت( تواتر واحاد) کے معیارات پرپرکھنا سلف صالحین کے متفقہ تعامل سے انحراف ہے۔ موصوف نے بعض معاصر اہل علم کے برخلاف یہ رائے بھی پرزور پیش کی ہے کہ تواتر و آحاد کی تقسیم محدثین کرام کے فن ہی کا حصہ ہے اور امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے بعد سے عصر حاضر تک تمام محدثین عظام نے بالاتفاق اس اصطلاح کو اپنی فن ِمصطلح کی کتب میں پیش کرکے قبول فرمایا ہے۔ اُن کی رائے میں محققین کے ہاں چونکہ تواتر اسنادی کااصطلاحی تصور عملاًموجود نہیں، اس سے بعض لوگ اس مغالطہ کا شکار ہوئے ہیں کہ خبر متواتر کا تصور شائد فن ِحدیث میں اجنبی ہے، حالانکہ تواتر کا لفظ محدثین کرام کے ہاں عددی وسندی تواتر کے علاوہ دیگر معانی میں عام مستعمل ہے، یہی وجہ ہے کہ قراء ات عشرہ تواتر اسنادی کے علاوہ دیگر اقسام ِتواتر پر پورا اترنے کی و جہ ہی سے’ متواترہ‘ کہلائی جاتی ہیں۔ (ادارہ)