• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تواتر کا مفہوم اور ثبوتِ قرآن کا ضابطہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ایسی خبر جو محتف بالقرائن ہو جمہور محدثین اور جمہور علماء اُصول کے نزدیک علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس بارے میں النکت علی ابن الصلاح وغیرہ میں وضاحتاً لکھا ہے کہ اہل الحدیث کے ہاں ایسی خبر متواتر حدیث کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے یابالفاظ دیگر ایسی خبر سے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے متاخرین کی اصطلاحات میں اگرچہ تواتر توقرار نہیں دیا جاتا ،کیونکہ تواتر اسنادی کے لئے کم ازکم چار افراد کا ہر طبقے میں پایا جانا ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود یہ قسم تواتر کی طرح ہے، کیونکہ قرائن سے اسے ایسی قوت بخش دیتے ہیں کہ یہ قطعیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اہل الحدیث کے ہاں یہ قرائن کافی قسم کے ہوتے ہیں جن کی تفصیل کتب مصطلح میں موجود ہے ان میں سے ایک قرینہ جیسے تقریباً تمام فقہی مکاتب فکر کے ہاںمقبولیت حاصل ہے یہ ہے کہ ایسی صحیح روایت جس کی صحت پر جمیع اہل فن کا اتفاق ہو جائے ، جسے اصطلاحات میں تلقی بالقبول کہتے ہیں تو یہ اتفاق اسے قطعیت کے مقام پر فائز کر دیتا ہے صحیحین کو دیگر کئی قرائن کے ساتھ صرف اسی ایک قرینہ نے امت کے ہاں قطعیت کے مقام کر دیا ہے عام طور پر علماء احناف خبر واحد کی بنا پر واجب اور فرض میں ، حرام اور مکروہ تحریمی میں اور تخصیص عام اور تقیید اطلاق وغیرہ کی مباحث میں جمہور سے مختلف ہیں اور اس کی وجہ وہ یہی قرار دیتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہوتی جبکہ خبر متواتر علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے جب کہ ذیل کی سطور میں چند وضاحتیں کی جار ہی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے نزدیک اس کی تین اَقسام ہیں:
(١) وہ خبر جس کی تخریج شیخین نے بالاتفاق کی ہو اوروہ حد تواتر کو نہ پہنچی ہو ۔
(٢) وہ خبر جو مشہور ہو اور اس کے کئی طرق ہوں اور سب طرق ضعف وعلل سے محفوظ ہوں۔
(٣) وہ خبر جسے اَئمہ ،حفاظ اور متقنین نے بیان کیا ہو اوروہ غریب نہ ہو اور دوسری جگہ فرماتے ہیں،ایسی خبر جسے اَئمہ حدیث نے بیان کیا ہو اور اُمت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہوا ہو۔تلقی بالقبولکے بارے میں کہتے ہیں کہ بلاشک کسی خبر کے صحیح ہونے پر اجماع اُمت،قرائن محتفہ اور مجرد کثرت ِ طرق سے حاصل ہونے والے علم سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔(نزہۃ النظر :۵۱،النکت:۱؍۳۷۸)
٭شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ایسی خبر واحد جس کو’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو علم یقینی کافائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور احناف مالکیہ، شوافع اوراصحاب احمد کا قول ہے۔ اکثر اشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیساکہ استاذ اسفر ائینی رحمہ اللہ اور ابن فورک رحمہ اللہ وغیرہ ہیں۔(فتاوی ابن تیمیۃ:۱۸؍۴۱)
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا جات کے مدلول میں چار یا اس سے زائد رواۃ کی کثرت بھی شامل ہے جسے عموماً تواتر الإسناد کہتے ہیں اور چار سے کم رواۃ میں پائے جانے والی صفات کی قوت بھی شامل ہے جسے اصطلاح محدثین میں خبر واحد محتف بالقرائن کہتے ہیں ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جھوٹ کا احتمال تین یا اس سے کم رواۃ میں ختم ہو جاتا ہے تو محدثین کے بالاتفاق ایسی شے بھی علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے اس مثال میں ہم صحیح بخاری کے سلسلۃ الذہب کو پیش کر سکتے ہیں سلسلۃ الذہب سے مراد سونے کی وہ سند ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ اپنے استاد احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اور وہ نقل کریں امام شافعی رحمہ اللہ سے اور وہ نقل کریں اپنے استاد امام مالک رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کرین نافع رحمہ اللہ ، یا سالم رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کریں ابن عمررضی اللہ عنہما سے ۔ اس سند میں موجود تمام افراد کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب حاصل ہیت اور ہر ہر آدمی اپنی ثقاہت میں متعدد ثقہ راویوں کے برابر قوت رکھتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’متواتر کی اصطلاح سے اصل مقصود علم یقینی کا حصول ہے جبکہ بعض لوگ متواتر اس کو کہتے ہیں جس کو ایک بہت بڑی تعداد نے نقل کیا ہو اورعلم یقینی صرف ان کی کثرت تعداد کی بنیاد پر حاصل ہو رہاہو ۔ان کا یہ کہنا کہ ایک مخصوص تعداد جب ایک واقعہ میں علم یقین کا فائدہ دیتی ہے تو وہ تعداد ہر واقعہ میں علم یقین کا فائدہ دے گی اور یہ قول ضعیف ہے۔ صحیح قول جمہور علماء کا ہے جس کے مطابق بعض اوقات علم یقینی مخبرین کی تعداد سے حاصل ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات مخبرین کی (اعلی)دینی صفات اور ضبط سے حاصل ہوتاہے اسی طرح بعض اوقات خبر کے ساتھ کچھ ایسے قرائن ملے ہوئے ہوتے ہیں کہ جن کی موجودگی میں علم یقینی حاصل ہو رہا ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ایک گروہ کو ایک خبر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اوردوسرے کو نہیں ہوتاہے۔‘‘(فتاوی ابن تیمیۃ:۴؍۴۷)
٭حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ان لوگوں کے رد میں جو خبر واحدمختف بالقرائن کو مفید علم یقینی نہیں سمجھتے، فرماتے ہیں:
’’ایسی خبر جس کی اُمت نے تصدیق کی ہو اوراپنے رد عمل کے ذریعے سے اسے قبولیت سے نوازا ہو تو وہ خبر جمہور علماء سلف وخلف کے نزدیک مفیدعلم یقینی ہوتی ہے یہ وہ موقف ہے جسے اُصول فقہ کے جمہور مصنفین نے ذکر کیاہے۔ جیسے احناف میں سے شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ نے،مالکیہ میں قاضی ابویعلی رحمہ اللہ اورابوالخطاب رحمہ اللہ نے، اشاعرہ میں سے اکثر اہل کلام کی بھی یہی رائے ہے،جیسے ابواسحاق اسفرائینی ،ابوبکر بن فورک،ابومنصور تمیمی ابن سمعانی ،ابوہاشم جبائی اورابوعبد اللہ بصری رحمہم اللہ وغیرہ۔
فرماتے ہیں کہ یہ تمام محدثین کامذہب ہے اورابن الصلاح رحمہ اللہ نے المدخل إلی علوم الحدیث میں جوکچھ بیان کیا ہے اس کابھی یہی مفہوم ہے انہوں نے یہ استنباطاً ذکرکیا ہے کہ جس میں مذکورہ اَئمہ ان سے موافقت رکھتے ہیں اوراس میں ان لوگوں نے مخالفت اختیار کی ہے جن کا خیال یہ ہے کہ جمہور،ابن الصلاح رحمہ اللہ کی رائے کے خلاف ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ)ان لوگوں نے مخالفین جیسے ابوبکرباقلانی غزالی رحمہ اللہ،ابن عقیل رحمہ اللہ وغیرہ کی تصانیف کے علاوہ دوسری کتب سے واقفیت حاصل نہیں کی، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خبر واحد مطلقاً مفید علم نہیں ہے اور اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ مجرد خبر واحد مفید علم نہیں ہے۔ (بلکہ وہ خبر واحد جو محتف بالقرائن ہوگی وہ علم یقینی کا فائدہ دے گی)‘‘(النکت:۱؍۳۷۴،۳۷۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
٭مشہور اُصولی ملا جیون رحمہ اللہ کا بھی یہی نقطئہ نظر ہے ۔(نورالأنوار:۳؍۲۲۰)
٭ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ نے اس بارے میں تین مذاہب بیان کیے ہیں:
(١) خبر واحد مطلق طورپر قطعیت کا فائدہ دیتی ہے اگرچہ اس کوشیخین نے تخریج نہ بھی کیا ہو۔یہ ابن طاہر مقدسی رحمہ اللہ کا نقطئہ نظرہے۔
(٢) صحیحین میں یا دونوں میں سے کسی ایک میں تخریج کی گئی ہوتوخبر واحد قطعیت کا فائدہ دیتی ہے یہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا نقطئہ نظر ہے۔
(٣) ایسی خبر واحد جوصحیحین میں ہو ، یا مشہور ہو جس کے کئی طرق ہوں اور وہ سبب علل سے پاک ہو یا وہ خبرجومسلسل بالائمہ ہو،قطعیت کا فائدہ دیتی ہے۔یہ نقطئہ نظر ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا ہے۔(قواعد التحدیث:۸۹)
دوسرے اورتیسرے مذہب کے مطابق ایسی خبر واحد جومحتف بالقرائن ہو وہ علم قطعی ویقینی کافائدہ دیتی ہے۔
متاخر حنفی محدث انور شاہ کاشمیر ی رحمہ اللہ بھی اس نقطئہ نظر کے حامل ہیں کہ خبر واحد محتف بالقرائن علم قطعی کافائدہ دیتی ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’حاصلہ أنہ یفید القطع إذا احتف بالقرائن کخبر الصحیحین علی الصحیح‘‘(فیض الباري:۴؍۵۰۶)
’’ماحاصل یہ ہے کہ ایسی خبر واحد جو محتف بالقرائن ہے وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے جیساکہ صحیح قول کے مطابق صحیحین کی خبرہوتی ہے۔‘‘
مذکورہ بالاتصریح سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ چند سطحی نظر فقہاء کے بالمقابل جلیل القدر فقہاء ومحدثین نے خبر واحدمحتف بالقرائن کی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو استدلال میں وہ مقام دیا ہے جو متواتر کو دیا جاتا ہے یعنی اس کو تواتر کی قبیل سے شمار کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تواتر کے مفہوم میں صحیح مؤقف
یہ بات ذہن نشین رہے کہ تواتر کے مفہوم کو سمجھنے سے پہلے تدوین واِصطلاح کا معنی ومفہوم سمجھنا ازحد ضروری ہے، کیونکہ اس کا مفہوم تواتر کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
تدوین کے معنی درج کرنے ،قلمبند کرنے اورترتیب دینے کے ہیں یعنی بکھری ہوئی چیزوں کو ایک دیوان میں جمع کردینے کا نام تدوین ہے۔دیوان فارسی لفظ سے معرب بنایا گیا ہے جس کا معنی کاپی اور دفتر کے ہیں۔ مختلف صحف کو ایک کتاب میںجمع کرنا بھی تدوین سے ہے۔ اسی طرح تدوین،تصنیف وتالیف کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبد الکریم زیدان رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’اب تک دستور یہی رہا ہے کہ کوئی چیزپہلے وجود میں آتی ہے بعد میں مدوّن ہوتی ہے۔ تدوین اس کے وجود کو بتلاتی ہے ،خود اس کو وجود نہیں بخشتی ۔جیسے علم نحو اورمنطق میں ہوا ہے۔ عرب اپنے کلام میں فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دیتے تھے اورنحو کی اسی قسم کے دوسرے قاعدے علم نحو کی باقاعدہ تدوین سے پہلے جاری وساری تھے اسی طرح منطق کی تدوین اوراس کے قاعدوں کی باقاعدہ ترتیب سے پہلے بھی عقلاء آپس میں مباحثے کرتے تھے اوربدیہیات سے استدلال کرتے تھے۔‘‘ (الوجیز فی أصول الفقہ:۱؍۳۷)
لفظ اصطلاح کا مادہ ’صلح‘ ہے یعنی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ اہل علم یا اہل فن کی اس بات پر صلح ہوگئی ہے کہ آئندہ جب وہ یہ لفظ استعمال کریں گے تو اس لفظ سے ان کی مراد کوئی مخصوص تصور ہوگا۔مثلاً علماء نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ جب وہ ’کتاب اللہ‘ بولیں گے تواس سے مراد ان کے نزدیک قرآن مجید ہوگا۔ اِصطلاح کو علامتی نام یعنیcodifieationبھی کہا جاتا ہے یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ تدوین مٹتے یا ناپید ہوتے ہوئے تصورات کو محفو ظ کرنے اور دوبارہ اُجاگر کرنے کی غرض سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرونِ اَولی میں تدوین کی زیادہ ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔جتنی بعد کے زمانوں میں پیش آئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
جیساکہ پیچھے گذر چکا ہے کہ اصطلاحات پہلے سے موجود تصورات کو علامتی نام دے کر(بذریعہ کتابت) محفوظ کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ اہل فن نے اس تصور اورمنہج کو جوکہ قرونِ اولی اورسلف اول میں تحقیقِ خبر کے حوالے سے ان کے اتفاقی تعامل کی صورت میں موجود تھا،الفاظ کا جامہ پہنا کر اِصطلاحات کی زبان میں بیان کردیا۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کتاب وسنت اور ان کے فہم کے حوالے سے سلف صالحین کی متفقہ تعامل کی روشنی میں جو شے ألم نشرح ہے وہ یہ ہے کہ تحقیق روایت کا اصلی منہج صرف یہی ہے کہ کسی بھی روایت کی صحت وضعف کے مابین امتیاز کرنے کے کچھ ضابطے بروئے کار لاکر قبولیت یا رد کا فیصلہ کر لیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ فن حدیث کا اصل موضوع ،خبر مقبول اور مردود کی بحث ہے جو کہ عموماً خبر واحد کے ضمن میں زیر بحث آتی ہے۔رہی خبر متواتر تو یہ فن حدیث کا مستقل موضوع نہیں ہے۔
الغرض تحقیق روایت کا وہ منہج جو کتاب وسنت اوراسلاف کے مسلمہ تعامل کی روشنی میں سامنے آیا ہے اس کے بنیادی تصورات،راوی کاکردار(اصطلاحاً عدالت)، روایت کو محفوظ طریقے سے نقل کرنے کی صلاحیت (اصطلاحاً ضبط واتقان) اوراتصال سند وغیرہا ہیں۔کسی روایت کا قطعی ہونا یا کثرتِ رواۃ سے مروی ہونا ہر دو بحث ،فن حدیث میں تحقیق کا اصل معیار نہیں تاہم عمل تحقیق میں اضافی معاون کی حیثیت ضرور رکھتی ہیں۔مثلاً کسی روایت کے کم از کم ثابت ہونے کے لئے اس کا قبولیت حدیث کے معیار پر اترنا ضروری ہے جس میں روایت کا متواتر ہونا یا قطعی الثبوت ہونا کسی طورپر لازم شرط کے طور پر داخل نہیں ہے۔چنانچہ اس پس منظر میں توکسی روایت کے قبولیت ورد کا اصل معیار تواتر احادیث یاقطعیت وظنیت کو بنانا نہ کتاب وسنت کی روسے صحیح ہے اور نہ ہی سلف صالحین کے تعامل ومسلمہ آراء کے مطابق ہے،جنہیں بعد ازاں فن حدیث کی صورت میں مدوّن کر دیاگیا ہے۔فن حدیث کی رو سے قبولیت ورد کی اصل بحث تقسیم الخبر إلی المتواتر والآحاد کو بنانا ایک غلط رویہ ہے جس کے نہ سلف اول قائل تھے اورنہ ہی اَئمہ تدوین۔البتہ قطعیت کے ثبوت کے قرائن بشمول تواتر اِصطلاحی (تواتر عددی)کے مقبول روایت میں اِضافی طور پر قوت پیدا ضرورکرتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس پہلو سے غور کیا جائے توتواتر کی تعریف میں عدد کی تعیین وعدم تعیین کا موقف ہویا قطعی الثبوت کو متواتر کہنے کا موقف،ہر ایک میں ظاہری اختلاف سے قطع نظر اس بات پر تمام اہل فن متفق ہیں کہ مثلاً ایک غریب صحیح روایت پر رواۃ کی عددی کثرت کی کوئی نسبت بھی ہو (چاہے عزیز یا مشہور ہی کیوں نہ ہو)بہر حال اضافی طور پر ثبوت کی قوت میں ضرور اِضافہ کرتی ہیں۔
اب رہا مسئلہ تواتر کے حوالے سے اہل فن کے اس اختلاف کا کہ تواتر سے مراد کیا ہے تو اس مسئلے میں ہم یہ ذکر کرنا چاہیں گے کہ تدوین اور علوم کی ضابطہ بندی واِصطلاحات سازی یا بالفاظ دیگر علوم کی فنی اَسالیب میں منتقل کرنے کی نوعیتوں سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اِصطلاحات میں بسا اَوقات اہل فن کے ہاں متعدد اَسالیب ایک ہی تصور کو بیان کرنے کے لئے اختیار کر لئے جاتے ہیں جیساکہ مشہور مقولہ ہے’’لا مناقشۃ فی الإصلاح‘‘ چنانچہ عام اہل فن کا تواتر اسنادی کی فنی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر اتفاق ہے کہ وہی قطعیت جو تواتر سے حاصل ہوتی ہے قرائن سے مقرون خبر واحد سے بھی حاصل ہو جائے گی۔چنانچہ عام کتب فن میں ثبوت روایت میں علم قطعی کے حصول کے دوضابطے موجود ہیں:
(١)متواتر (٢)خبر واحدمحتف بالقرائن
اس کے بالمقابل وہ اہل علم جوعلم قطعی والی روایت ہی کو متواتر کہہ کر بیان کرتے ہیں ان کا اپنا ایک خاص اُسلوب ہے کہ ان کے ہاں ’’الخبر الواحد المحتف بالقرائن‘‘ بھی متواتر ہی کہلائی جائے گی،لیکن مذکورہ دونوں اَقوال باہم متضاد نہیں بلکہ ان میں صرف اِصطلاح کا فرق پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام وہ اہل علم جومتواتر اس روایت کوکہتے ہیں کہ جو علم قطعی کا فائدہ دے وہ بھی متواتر کی پہلی تعریف(یعنی عدد کثیر کے لحاظ سے)کا انکار نہیں کرتے۔جبکہ عام اہل فن دوسری تعریف (یعنی علم قطعی کے لحاظ سے)کا باقاعدہ اقرار تو نہیں کرتے، لیکن اسے حقیقت تواتر میں بھرپور طور پر شامل کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رہا تواتر کی تعریف میں کسی عدد کا تعین کرنا تویہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کی تعریف میں متواتر روایت اس حیثیت سے زیر بحث ہوتی ہے کہ مقبول روایت میں قوت کا اِضافہ کرتی ہے ورنہ عدد کی تعیین سے تواتر کی تعریف کرنا تواترکی حقیقت سے عدم آشنائی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تواتر کی حقیقت یہ ہے کہ ثبوت روایت میں امکان خطامستحیل قرار پائے۔ برابر ہے کہ عددی کثرت سے ہو(جیسے عددی تواتر کہتے ہیں)یا مقبول صحیح روایت مقرون بالقرائن سے ہو(جیسے قطعی تواتر کہتے ہیں)
عام تعریف تواتر میں فنی تعریف کی توشاید جامعیت پائی جائے، لیکن تصور تواتر یا حقیقت تواتر کی جامعیت بہر حال نہیں کیوں کہ تصور تواتر اس تعریف سے خارج میں بھی موجود ہے لہٰذا اس لحاظ سے تواتر کی تعریف ثانی یعنی’’ما أفاد القطع فہومتواتر‘‘ حقیقت تواتر اورتصور تواتر کی بہترین عکاسی ہے جبکہ پہلی تعریف میں تدوین کے عمومی اَسالیب اور دیگر تصورات کی طرح تواتر کی بھی ایک فنی تعریف مقرر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس فنی تعریف کا قطعی لازمہ یہ نہیں کہ حقیقت تواتر صرف صیغۂ تواتر کی حد تک محدود ہے بلکہ اصل شے تعریف متواتر میں بھی قطعیت ہے چنانچہ اسے ہر حال میں مدنظر رکھنا چاہیے۔
حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ محدثین میں تصور تواتر تو موجود تھا مگر انہوں نے عددی تواتر کے ساتھ اس تصور کو معلق نہیں کیا جیسا کہ عام اہل فن اور بعض اہل اُصول نے کیا ہے وہ اس لیے کہ ذخیرئہ اَحادیث میں مکمل تلاش وبسیار کے بعد ایک ہی ایسی مثال ملتی ہے جو عددی تواتر پر پوری اتر تی ہے۔ اور وہ حدیث’’مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ‘‘ہے لہٰذا تواتر کو عددی تواتر کے خاص نام جو کہ خاص مفہوم پر دلالت کرتا ہے سے متعلق کرنا بہر صورت ٹھیک نہیں ہے،کیونکہ متقدم محدثین میں تصور تواتر اورحقیقت تواتر توضرور موجود تھا مگر وہ اس خاص نام اور خاص مفہوم میں موجود نہیں تھا جس کو عام اہل فن اوربعض اہل اُصول نے بیان کیا ہے۔(التقیید والإیضاح:ص۲۲۵،۲۲۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ثبوتِ قرآن کا ضابطہ
ثبوتِ قرآن کی وضاحت سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ علماء اُصول ثبوتِ قرآن کے لیے متواتر کی شرط لگاتے ہیں جبکہ متاخرین علماء واَئمہ فن قراء ۃ نے ثبوت قرآن کے لیے صرف صحت سند اور قبولیت عامہ کی شرط عائد کی ہے۔ اگر متواتر سے مراد علماء اصول کے نزدیک اسنادی تواتر ہے تو پھر قرآن کا ثبوت ایسے تواتر سے ممکن نہیں۔ اگر اس تواتر سے مراد حصولِ علم قطعی ویقینی ہے تو پھر اس اعتبار سے قرآن بعض اوقات خبر واحد المحتف بالقرائن سے بھی ثابت ہوجاتا ہے،کیونکہ ایسی خبر واحد جو محتف بالقرائن ہو وہ استدلال میں تواتر سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہے اور تواتر کی اصطلاحی تعریف کے ضمن میں ذکر کردہ دوسرے گروہ نے اسی خبر واحد کو تواتر سے تعبیر کیاہے۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
پس منظر
امام القراء ابو الخیر ابن الجزری رحمہ اللہ نے اس پس منظر کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
’’جب ضبط کا اہتمام کم ہوگیا،دورِ رسالت کا فی پیچھے رہ گیا اورقریب تھا کہ حق باطل کے ساتھ ملتبس ہو جاتا تو اس وقت اُمت کے مایہ ناز علماء اورعلم وفن میں یکتائے روزگار اَئمہ اٹھے ۔انہوں نے حق کو واضح کیا،حروف اور قراء ات مشہورہ اورشاذہ کے درمیان امتیاز کے لئے واضح اُصول اوراَرکان قائم کرکے ان کو ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے الگ کردیا۔‘‘ (النشر فی القراء ات العشر:۱؍۹)
 
Top