• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توبہ کی فضیلت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن​
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 02 ربیع الاول 1435 کا خطبہ جمعہ بعنوان " توبہ کی فضیلت" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کتاب وسنت کی روشنی میں تو بہ اور اسکے فضائل پر گفتگو کی۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، جو نہایت رحم کرنے والا، اور توبہ قبول کرنے والا ہے، جو گناہوں کو بخشتااور توبہ قبول کرتا ہے، وہ سخت سزا دینے والا ہے، جو بادشاہ، غالب، اور بہت زیادہ عنائت کرنے والا ہے،میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری بیان کرتے ہوئے اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں،اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، اپنی طرف جسے چاہے کھینچ لیتا ہے، اور جو اسکی طرف رجوع کرے اسی کو ہدایت سے نوازتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے افضل ترین کتاب کیساتھ بھیجا، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، آپکی اولاد اور صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتیں اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو!اللہ سے ڈرو! اس لئے کہ تقوی الہی کامیابی و کامرانی ہے، سعادت اور فلاح ہے۔
اللہ کے بندو!
یہ جان لو کہ بندے کیلئے کمال درجہ اللہ رب العالمین کے سامنے عاجزی اور انکساری میں ہے، اور اسکے لئے ذلت اور رسوائی اللہ تعالی کے سامنے تکبر و سرکشی اور اسکے اوامر و نواہی سے سر گردانی میں ہے، جو کہ اللہ تعالی کے ہاں بُری چیزوں کو پسند، اور پسندیدہ چیزوں کو بُرا جاننے سے ہوگی، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ جو شخص عزت چاہتا ہے تو عزت تو تمام تر اللہ ہی کے لئے ہے۔ پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور صالح عمل انہیں اوپر اٹھاتا ہے اور جو لوگ بری چالیں چلتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے، اور ان کی چال ہی برباد ہونے والی ہے۔ [فاطر: 10]اور اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے: ''مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ [غافر: 60]
عبادت کی تمام تر اقسام سے ہی اللہ تعالی کیلئے عاجزی ، انکساری، محبت کا اظہار ہوگا، اور ان عبادات میں سے ایک عظیم عبادت "توبہ "ہے،بلکہ بڑی توبہ سب سے افضل عبادت ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کفر سے توبہ لے، چنانچہ اللہ تعالی نے ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایاکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا: وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ اور اے قوم! اپنے پروردگار سے معافی مانگو، پھر اسی کے آگے توبہ کرو وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید اضافہ کرے گا تم مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو'' [هود: 52]پھر اسی طرح منافقوں کو بھی اللہ تعالی نے توبہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ اگر یہ(منافق) توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر یہ اعراض کریں تو اللہ انہیں دنیا میں بھی دردناک عذاب دے گا اور آخرت میں بھی۔ اور ان کے لئے روئے زمین پر کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگا [التوبة: 74]
اور تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے توبہ کرنا مکلفین پر واجب ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے مؤمنو! سب کے سب اللہ کیلئے توبہ کرو، تا کہ تم فلاح پا سکو[النور: 31]، پھر ایک جگہ سب مسلمانوں کو ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا اے ایمان والو! اللہ کیلئے سچی توبہ کرو[التحريم: 8]
اور توبہ کا یہ مطلب ہے کہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا جائے، اور چاہے اپنے گناہوں کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو سب سے توبہ کرنی ضروری ہے، اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے میں جو کمی آئے اس سے بھی توبہ کرے، ایک مسلمان کی زندگی میں اللہ کے ذکر میں آنے والی غفلت سے بھی توبہ کرے، چنانچہ اغر مُزَنِی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! اللہ سے توبہ کرو، اور اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، میں ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں) مسلم
اہل علم کہتے ہیں کہ اگر گناہ بندے اور اللہ سے تعلق رکھتا ہے تو پھر توبہ نصوح کیلئے تین شرائط ہیں: 1- گناہ چھوڑ دے، 2- اس گناہ پر پشیمان ہو، 3- اور ہمیشہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرے، اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اسکا حق واپس کرنا ہوگا، جیسے مال وغیرہ، اور اگر غیبت کی ہے تو متعلقہ شخص سے معافی مانگ لے ، اگر تو وہ معاف کردے تو اسکا اجر اللہ تعالی دے گا۔
اللہ تعالی نے توبہ کیلئے خوب ترغیب دلائی ، اورشرائط کی موجودگی میں اسکی قبولیت کا بھی وعدہ کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقینا بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔ [طه: 82]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ دن اور رات کی ہر گھڑی توبہ کرنے کا وقت ہے، چنانچہ ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اپنے ہاتھ رات کے وقت پھیلا تا ہے تا کہ دن کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرلے، اور دن کے وقت اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرلے، یہ معاملہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا) مسلم
اللہ کا کرم فضل، اور سخی پن اپنے بندوں کیلئے کتنا وسیع ہے! اس کی مخلوق دن رات اسکی نافرمانیاں کرتی ہے، لیکن پھر بھی وہ ان کے ساتھ بردباری کا معاملہ فرماتا ہے، فورا ً انہیں عذاب سے دوچار نہیں کرتا، بلکہ انہیں رزق اور عافیت سے نوازتا ہے، اور ان پر ظاہری نعمتوں کی بارش فرماتا ہے، پھر انہیں حاصل شدہ سستی اور کوتاہی پر توبہ کی دعوت دیتا ہے، بلکہ اس پر انہیں مغفرت اور ثواب کا بھی وعدہ دیتا ہے۔
اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر بہت خوش ہوتا ہے، اور اگر اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے ، توبہ کرلے تو وعدہ الہی ضرور پا لے گا، ایسا شخص دنیا میں اچھی زندگی اور آخرت میں بہترین ثواب حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہوجائے گا۔
اور اگر مہلت کے وقت میں امیدوں اور خواہشات کے دھوکے میں آکر توبہ نہ کی؛ تو اللہ تعالی اسے اپنے کرتوت کی سزا دے گا، وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا [الكهف: 49] ایسے شخص میں کوئی خیر کی کرن نہیں ہے جو ارحم الراحمین کے رحم کے باوجود ہلاک ہوگیا۔
اے مسلمان! کیا جاننا چاہو گے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کیلئے توبہ کیوں پسند کرتا ہے؟ اور اسکی کیا حکمتیں ہیں؟اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر اتنا خوش کیوں ہوتا ہے؟
جی ہاں! اللہ تعالی کے اپنے بندے کی توبہ پر خوش ہونے کی حکمتوں میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ اُسکی عظیم صفات پر دلالت کرتے ہیں، اور ان اسمائے حسنی کا تقاضا ہے کہ ان کے اثرات کائنات پر واضح انداز میں مرتب ہوں، چنانچہ اللہ تعالی کا نام "الرحمن" اور "الرحیم "اللہ عز وجل کے رحمت کے ساتھ اُسکی شان کیمطابق متصف ہونے پر دلالت کرتے ہیں،اور اسکا تقاضا ہے کہ کوئی ایسی مخلوق موجود ہو جس پر اللہ کا رحم ہو۔
اسی طرح اللہ تعالی کا نام "الخالق" مخلوقات کو از سرِ نو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے پر دلالت کرتا ہےجسکا مطلب ہے کہ وہ مخلوقات کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔
اور اللہ تعالی کا نام "التوّاب" اللہ تعالی کے ہر بار توبہ قبول کرنے پر دلالت کرتا ہے؛چاہے کتنی ہی بار توبہ کی جائے، اور اس نام کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالی کچھ ایسے گناہ گاروں کو پیدا کرے جو اس سے توبہ مانگیں، اور اللہ تعالی انکی توبہ قبول فرمائے۔
اور اللہ تعالی کے باقی اسمائے حسنی بھی اسی طرح ہیں، ان ناموں میں سے ہر نام اللہ تعالی کی عظیم ذات پر دلالت کیساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عظیم صفات پر بھی دلالت کرتا ہے، اور ان ناموں کا تقاضا ہے کہ کائنات پر اسکے واضح اثرات بھی مرتب ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اب اللہ کی اس رحمت کے نتائج پر غور کیجئے کہ وہ کیسے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے۔ یقینا وہی مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہی ہر ایک چیز پر قادر ہے [الروم: 50]
مطلب یہ ہے کہ گناہ گار کی توبہ قبول کرنا، اللہ تعالی کے نام "التواب" کا تقاضا ہے، پھر توبہ کرنے والے کو ملنے والا ثواب قبولیت کا نتیجہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کی) برائیوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتا ہے [الشورى: 25]
قبولیتِ توبہ کی حکمتوں میں یہ بھی ہے کہ، اللہ تعالی بذاتہٖ خود احسان کرنے والا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی بھلائی کبھی ختم نہیں ہوسکتی، چنانچہ جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت کرتے ہوئے توبہ کی وہ اُسے دنیا اور آخرت میں اسکا اجر عنائت فرماتا ہے، اور جو توبہ نہ کرے پھر بھی دنیا میں اسکے ساتھ اچھا سلوک فرماتا ہے لیکن آخرت میں اسکے برے اعمال کی سزا دیتا ہے، وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ اور تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا[فصلت: 46]
بندے کی توبہ قبول کرنے کی یہ بھی حکمت ہے کہ اللہ تعالی کی جانب سے معافی اور رحمت سزا دینے کی طاقت کے باوجود گناہگاروں کو بھی مل سکے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ: (بے شک اللہ تعالی نے اپنے پاس عرش پر ایک تحریر لکھی ہے: "میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے") اور بھی حکمتیں ہیں جن میں سے ہم چند ایک ہی جانتے ہیں۔
کچھ گناہوں سے توبہ کرنا بھی درست ہے، لیکن جن گناہوں سے توبہ نہیں کی ان پر مؤاخذہ ہوگا، توبہ کا دروازہ کُھلا ہے، بند نہیں ہوگا، اور سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک کسی بندے اور توبہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی، لیکن جب سورج مغرب سے طلوع ہو گیا، تو اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، اور اس لمحے کے بعد کسی کا ایمان لانا مفید ثابت نہ ہوگا، چنانچہ زر بن حبیش ، صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: (اللہ تعالی نے توبہ کیلئے مغرب کی جانب ایک دروازہ کھولا ہے، جسکی چوڑائی ستر سال ہے، یہ اسوقت تک بند نہیں ہوگا جب تک مغرب سے سورج طلوع نہ ہوجائے) نسائی، ابن ماجہ اور ترمذی نے اسے روایت کیا ہے، اور اسے صحیح قرار دیا۔
اللہ تعالی نے توبہ کرنے پر بہت بڑے ثواب ، اور اچھے انجام کا وعدہ کیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (ایسے مؤمن جو ) توبہ کرنے والے ،عبادت گزار، حمد کرنے والے، روزہ دار، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک کام کا حکم دینے والے برے کام سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں، ایسے مؤمنوں کو آپ خوشخبری دے دیجئے [التوبة: 112]
اسی طرح ایک اور جگہ وعدہ کیا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرو، یقینی بات ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں۔ اس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گے: ''اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے'' [التحريم: 8].
پھر ایک اور مقام پر وعدہ فرمایا: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پاکے رہے گا۔ [68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کردیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا[69] ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان: 68- 70]
اس آیت کی تفسیر میں کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ : "گناہ کی جگہ توبہ رکھ دی جاتی ہے، پھر اللہ تعالی انہیں ہر گناہ کے متعلق ندامت، اور آئندہ گناہ نہ کرنے کے صلے میں نیکی عنائت فرماتا ہے"
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب بندہ اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ کو تمہارے اس آدمی سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو ویران علاقے میں اپنی سواری کیساتھ ہو، اور اسکی سواری کھانے پینے اورزادِ رہ کے ساتھ بھاگ جائے، اور وہ تلاش کے باوجود مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے لیٹ جائے، وہ ابھی سویا ہوا ہو کہ اسکی سواری اسکے پاس آکر کھڑی ہوجائے، اور وہ اسکی مہار پکڑ کر فرط خوشی میں آکر کہے: "یا اللہ! توں میرا بندہ! اور میں تیرا اللہ!"خوشی کی شدت سے غلطی کر بیٹھے) مسلم
ابن آدم کیلئے مسرت و شادمانی کا وہ لمحہ ہوتا ہے، جس میں اللہ تعالی اسکی توبہ قبول کرے، کیونکہ توبہ کے بِنا وہ مردہ کی طرح تھا، اور توبہ کی وجہ سے وہ زندہ ہوگیا، چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے گناہ کی توبہ نازل فرمائی ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب گھر سے نکلا، لوگ مجھے جوق در جوق ملنے لگے، سب مجھے توبہ کی مبارک باد دیتے، اور مجھے کہتے: "اللہ تعالی نے تمہاری توبہ قبول کرلی، مبارک ہو" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا، آپکے چہرہ انور کی سلوٹیں چمک رہیں تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تو آپکا چہرہ چاند کی طرح لگتا، پھر آپ نے مجھے فرمایا: (جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے، اب تک آج جیسا بہتر دن تمہاری زندگی میں نہیں آیا) بخاری ، مسلم
توبہ ایک عالی مقام عبادت ہے، انبیاء، رسول، اللہ کے مقرب بندے، اور سب نیک لوگوں نے توبہ کی ہے، انہوں نے توبہ اپنی عادت بنا لی تھی، اور اسکی حقیقت کو عملی نمونہ میں پیش کیا، چنانچہ اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار پر مہربانی کی جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت اس کا ساتھ دیا تھا اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچلے تھے۔ پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا کیونکہ اللہ مسلمانوں پر بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [التوبة: 117]
ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں فرمایا: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے ایک جماعت پیدا کر جو تیری فرمانبردار ہو، اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتلا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے [البقرة: 128]
پھر موسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا: فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ پھر جب ہوش آیا تو (موسی نے)کہا: "(اللہ )توں پاک ہے، میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں، اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں"[الأعراف: 143]
ایک مسلمان کو توبہ کی ہر حالت میں ضرورت ہوتی ہے، چاہے ثابت قدم ہو یا گناہوں کا شکار ہو، نیکیوں میں مشغول ہو یا گناہوں میں لت پت ہو۔
امتِ اسلامیہ!
میں آپ تمام اور اپنے آپ کو توبہ ، اور کتاب و سنت کا التزام، اور بدعات، خرافات، اور کبیرہ گناہوں سے بچنے نصیحت کرتا ہوں؛ تا کہ اللہ تبارک و تعالی تمہاری اسلام دشمن قوتوں کے مکرو فریب سے حفاظت فرمائے، اور گناہوں کے برے نتائج سے محفوظ رکھے؛ اس لئے کہ دشمنانِ اسلام کو مسلمانوں کے خلاف اسی وقت موقع ملا ، جب مسلمانوں میں سچی توبہ نا پید ہوگئی، امت اسلامیہ میں اختلاف بھی اسی وجہ سے پیدا ہوا، کیونکہ ان میں توبہ کا مفہوم اور طریقہ مختلف ہوگیا۔
اللہ تبارک و تعالی سے توبہ مانگو، اور کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے ماخذ بناؤ، فہمِ قرآن وسنت کیلئے صحابہ کرام، تابعین، اور تبع تابعین کے نقشِ قدم پر چلو، اللہ تعالی تمہارے اعمال کو بھی درست کردے گا، اور دنیا و آخرت بھی سنوار دےگا۔
فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ اور اپنے پروردگار سے معافی مانگو اور اس کے حضور توبہ کرو، وہ ایک خاص مدت تک تمہیں اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا اور اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں [هود: 3]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں جو غالب، بخشنے والا، بردباد، اور قدر دان ہے،وہ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید سب جانتا ہے، میں اپنے رب کی تعریف، اور شکر بجا لاتا ہوں، میں اسی سے توبہ اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اسی کی طرف سب معاملات لوٹ کر جائیں گے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے بندے اور رسول ہیں ،جو ہر نیک عمل کرنے کیلئے سب سے آگے ہوتے تھے، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، تمام صحابہ کرام ، اور آل پر اپنی رحمت اور سلامتی نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو اللہ سے ڈرو؛ رضائے الہی اور جنت پالو گے، اسکی پکڑ اور ناراضگی سے بچ جاؤ گے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ چنانچہ جو شخص توبہ کرے، اور ایمان کی حالت میں نیک اعمال کرے تو یقینی بات ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے گا[القصص: 67] فرمانِ نبوی ہے: (جب تک موت کا غرغرہ نہ شروع ہوجائے، اللہ تعالی تمہاری توبہ قبول کریگا)
اے مسلمانو! ہر گناہ سے توبہ کرنے میں جلدی کرو، خلوت میں گناہ ہو تو وہیں پر توبہ کرو، جلوت میں ہوتو تب بھی وہیں معافی مانگ لو، گناہ ہو یا عبادت ہو ہمیشہ اللہ سے معافی چاہو، فرمان باری تعالی ہے: وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (54) وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ (56) أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (57) أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کا حکم مان لو، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہیں کہیں سے مدد بھی نہ مل سکے[54] اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوا ہے اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرو پیشتر اس کے کہ اچانک تم پر عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو [55] (کہیں ایسا نہ ہو کہ اس وقت) کوئی کہنے لگے: "افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا" [56] یا یوں کہے کہ: "اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں پرہیز گاروں سے ہوتا" [57] یا جب عذاب دیکھے تو کہنے لگے:"مجھے ایک اور موقعہ مل جائے تو میں نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں" [الزمر: 54- 58]
اپنے آپکو دنیاوی، نفسانی اور شیطانی امیدوں سے بچا کر رکھنا، مہلت کی امید پر توبہ میں تاخیر مت کرنا، کہ مرنے سے پہلے توبہ کرلونگا، اس لئے کہ موت نے آنن فانن آجانا ہے، کتنے ہی لوگ ہیں –اللہ کی پناہ-جنہیں توبہ کرنے کا موقع نہیں ملا، کیونکہ انہوں نے موت کیلئے تیاری ہی نہیں کی، خواہشات ، اور امیدیں ان پر غالب آگئیں، اور آخر کار انہیں اللہ کے وعدے نے انتہائی بری حالت میں آن پکڑا، اور انہیں بد ترین انجام کی طرف دھکیل دیا۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں حقوق اللہ ، اور حقوق العباد سے متعلق متعدد گناہوں کے بعد جا کر کہیں توبہ کی توفیق ملی، اور نیک خواتین و حضرات میں شامل ہوگئے، انکی سوانح عمری غافل دلوں کو خوابِ غفلت سے اٹھا سکتی ہے، صراطِ مستقیم کو چاہنے والے اور اس پر گامزن افراد انکے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں۔
اللہ کےبندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم وبارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد.
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما ، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما ، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل کردے ، یا رب العالمین!
یا اللہ! اپنے دین، اور قرآن کو غالب فرما، یا اللہ! اپنے دین، قرآن اور سنت نبوی کو غالب فرما، یا اللہ! اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہر جگہ اور ہر مقام پر غالب فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! بدعات کو مٹا دے، یا اللہ بدعات کو مٹا دے، یا اللہ! ہمارے سربراہ اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متصادم بدعات کو ذلیل و رسوا کردے، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سیرتِ نبوی، اور سنتِ نبوی کی اتباع کا سوال کرتے ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں حق اپنی اصلی حالت میں دیکھا دے اور پھر اسکی اتباع کرنے کی توفیق عنائت فرما، اور ہمیں باطل بھی بتلا دے اور پھر اس سے بچنے کی توفیق بھی عنائت فرما، یا اللہ! ہمارے لئے حق کو دھندلا مت کرنا کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں۔
یا اللہ! ہمیں اپنے نفس اور ہمارے گناہوں کے شر سے بچا لے، یا اللہ! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین، یااللہ! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے ، خلوت و جلوت کے اور جنہیں توں ہم سے بہتر جانتا ہے سارے کے سارے گناہ معاف فرما دے،یا اللہ توں ہی آگے کرنے والا ہے، اورتو ں ہی مؤخر کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔
ہم تجھ سے جنت اور اسکے قریب کرنے والے تمام اقوال و افعال کی توفیق مانگتے ہیں، اور جہنم و اسکے قریب کرنے والے تمام اقوال و افعال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے وطنوں کو امن وامان والا بنادے، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرمادے، یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی اپنی مرضی کے مطابق راہنمائی فرما، اور اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا رب العالمین! ہر خیر کے کام میں اسکی مدد فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! اسکے ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور اسکی اپنی مرضی کے مطابق راہنمائی فرما، اور اسکے بھی تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! ہمارے ملک کو ہر شراور برائی سے محفوظ فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے معاملات آسان فرمادے، یا اللہ! ہم تجھ سے ہر جگہ اور ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کا سوال کرتے ہیں، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کی مدد فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! جو بھوکے ہیں انکے کھانے کا بندوبست فرما، جن کے پاس کپڑے نہیں انہیں کپڑ ے مہیا فرما، یا اللہ! جلاوطنوں کو پر امن رہائش عطا فرما، یاا للہ! انکی گھبراہٹ کو دور فرما، انکے عیوب کی پردہ پوشی فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! انکے رزق میں آسانی پیدا فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! مظلوم مسلمانوں کی ظالموں کیخلاف مدد فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر ظلم اور زیادتی کرنے والوں کو ظلم و زیادتی سے روک دے، یا اللہ! ہم تجھ ہی سے سوال کرتے ہیں کہ جنہوں نے اِنہیں جلا وطن کیا، ان پر ظلم ڈھایا، انکے دلوں پر دہشت طاری کی، اُن سے توں انتقام لے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں پر اپنا رحم فرما، یا رب العالمین ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی نصیب فرما اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما [البقرة: 201]
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

لنک
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
زر بن حبیش ، صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: (اللہ تعالی نے توبہ کیلئے مغرب کی جانب ایک دروازہ کھولا ہے، جسکی چوڑائی ستر سال ہے، یہ اسوقت تک بند نہیں ہوگا جب تک مغرب سے سورج طلوع نہ ہوجائے) نسائی، ابن ماجہ اور ترمذی نے اسے روایت کیا ہے، اور اسے صحیح قرار دیا۔
سنن الترمذی کی ایک طویل روایت کا آخری حصہ یہ ہے :
فما زال يحدثنا حتى ذكر بابا من قبل المغرب مسيرة سبعين عاما عرضه، ‏‏‏‏‏‏او يسير الراكب في عرضه اربعين او سبعين عاما، ‏‏‏‏‏‏قال سفيان:‏‏‏‏ قبل الشام، ‏‏‏‏‏‏خلقه الله يوم خلق السموات والارض مفتوحا يعني للتوبة، ‏‏‏‏‏‏لا يغلق حتى تطلع الشمس منه ". قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.
(یعنی زر بن حبیش کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت (مغرب کی طرف) میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہو گیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہو گی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا،
سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے
 
Top