اس بات کا بیان کہ توحیدِ ربوبیت توحیدِ الوہیت کو مستلزم ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی بھی اللہ تعالی کے لیے توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتا ہے ، اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ، کوئی رزق دینے والا نہیں ، کوئی کائنات میں تدبیر اور تصرف کرنے والا نہیں ، اس پر یہ بات لازم ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا بھی اقرار کرے کہ کسی بھی قسم کی عبادت کا حقدار اللہ تعالی کے سوا کوئی اور نہیں ، اور یہی توحید الوہیت ہے۔
الوہیت در حقیقت عبادت ہے ، الہٰ کا مطلب ہے : معبود ، لہذا اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہ پکارا جائے ، کسی سے مدد نہ مانگی جائے ، کسی پر توکل نہ کیا جائے ، کسی کے لیے قربانیاں اور ذبح نہ کیا جائے اورنہ ہی نذرونیازکی جائیں ، اور ہر قسم کی عبادت اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے نہ کی جائیں۔ لہذا توحیدِ ربوبیت در حقیقت توحیدِ الوہیت کے وجوب کی دلیل ہے ، اسی لیے غالباًاللہ تعالی توحیدِ الوہیت کے منکرین پر ان کا توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرنا بطور حجت قائم کرتے ہیں ، مثلاً اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرۃ: 21-22)
﴿ اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا ، یہی تمہارا بچاؤ ہے (یا تاکہ تمہیں تقوی حاصل ہو)* جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسا کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی ، خبردار! باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ﴾
پس اللہ تعالی نے توحیدِ الوہیت کا حکم دیا جوکہ اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے ، اور ان پر توحیدِ ربوبیت یعنی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو پیدا کرنا ، آسمان اور زمین کواور جو کچھ ان میں ہے سب کو پیدا کرنا ، ہوائوں کو مسخر کرنا ، بارش برسانا ،نباتات اور پودے اگانا ، بندوں کے لیے بطورِ رزق پھل نکالنا سے حجت قائم کی، چناچہ بندوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ جنہیں وہ شریک ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے مذکورہ افعال یا ان کے علاوہ جو ہیں میں سے کچھ نہیں کیا ہے ۔ پس توحیدِ ربوبیت سےاستدلال کرتے ہوئے توحیدِ الوہیت کا اثبات کرنا فطری طریقہ ہےکیونکہ انسان کا سب سے پہلے تعلق اس کے پیدا کرنے والے سے اور اس کے فائدے اور نقصانات کے ماخذ سے ہوتا ہے ، اس کے بعد وہ دیگر دوسرے ذرائع کی طرف منتقل ہوتا ہے جو اسے اس سے قریب کردیں ، اور اسے راضی کردیں ، اور دونوں کے درمیان مضبوط تعلق قائم ہوجائے ، لہذا توحیدِ ربوبیت در حقیقت دروازہ ہے توحید الوہیت کا ، اسی لیے اللہ تعالی نے مشرکین پر اسی طریقہ سے حجت قائم کی ہے ، اور اسی طریقہ سے حجت قائم کرنے کا اپنے رسول (ﷺ) کو بھی حکم فرمایا ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ﴾ (المؤمنون: 84-89)
﴿ پوچھئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں ؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو ؟ * فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی ، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے * دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے ؟ * وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ، کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ * پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا ، اگر تم جانتے ہو تو بتلادو ؟ * یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ، کہہ دیجئے پھر تم کدھر سے جادو کردیے جاتے ہو ؟ ﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ﴾ (الانعام: 102)
﴿ یہ ہے اللہ تعالی تمہارا رب ! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، تو تم اسی کی عبادت کرو ﴾
پس اللہ تعالی نے ربوبیت پر اپنی انفرادیت کے ذریعہ عبادت کے مستحق ہونے پر حجت قائم کی ، اور وہ توحیدِ الوہیت ہی ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات: 56)
﴿ میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ﴾
آیت میں ﴿يَعْبُدُونِ﴾ کا مطلب : (صرف میری عبادت کریں) ہے ، اور بندہ محض توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرنے سے موحد نہیں ہوتا ، یہاں تک کہ وہ توحیدِ الوہیت کا بھی اقرار نہ کرلے اور اس پر عمل کرے ، وگرنہ تومشرکین بھی توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتے تھے اس کے باوجود وہ اسلام میں داخل نہیں تصور کیے گئے ، بلکہ نبی(ﷺ) نے ان سے قتال کیا جبکہ وہ اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ اللہ تعالی ہی خالق، رازق،زندگی اور موت دینے والے ہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾ (الزخرف: 87)
﴿ اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے ﴾
﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ﴾ (الزخرف: 9)
﴿ اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ ) نے ہی پیدا کیا ہے ﴾
﴿قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ﴾ (یونس: 31)
﴿ آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ "اللہ "﴾
اس بات کا ذکر قرآن کریم میں بہت جگہ ہوا ہے ، لہذا جس نے یہ دعوی کیا کہ توحید کا مطلب اللہ تعالی کے وجود کا اقرار کرنا ہے ، یا اس بات کا اقرار کہ اللہ تعالی خالق ہیں اور کائنات میں تدبیر کرتے ہیں ، اور بس اسی پر اکتفاء کیا ، تو در حقیقت اسےاس توحید کی حقیقت کا علم ہی نہیں ہوا جس کی دعوت رسولوں نے دی ، اس لیے کہ اس نے لازم کو چھوڑ کر صرف ملزوم پر اکتفا کیا ، یا صرف دلیل پر اکتفا کیا اور یہ دلیل جس پر دلالت کر رہی تھی (مدلول ) اسے چھوڑ دیا ۔
اور الوہیت کے خصائص میں ہے : ہر اعتبار سے کمال ِمطلق ، جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی نقص نہ ہو ،جواس بات کا متقاضی ہے کہ ساری عبادت اکیلے اس ہی کے لیے کی جائے ، اس ہی کے لیے تعظیم اور اجلال ہو ، خشیت اور دعاء ہو ، امید، رجوع وانابت، توکل،استعانت واستغاثہ، انتہائی عاجزی کے ساتھ انتہائی محبت ہو ، یہ سب عقلاً اور شرعاً اور فطرتاً اس بات کا تقاضا کر رہی ہیں کہ یہ سب صرف ایک اللہ کے لیے ہونا چاہیے جبکہ عقل، شریعت اور فطرت اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے ہو ۔
Last edited by a moderator: