• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحیدِ ربوبیت توحیدِ الوہیت کو مستلزم ہے

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
اس بات کا بیان کہ توحیدِ ربوبیت توحیدِ الوہیت کو مستلزم ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی بھی اللہ تعالی کے لیے توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتا ہے ، اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ، کوئی رزق دینے والا نہیں ، کوئی کائنات میں تدبیر اور تصرف کرنے والا نہیں ، اس پر یہ بات لازم ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا بھی اقرار کرے کہ کسی بھی قسم کی عبادت کا حقدار اللہ تعالی کے سوا کوئی اور نہیں ، اور یہی توحید الوہیت ہے۔

الوہیت در حقیقت عبادت ہے ، الہٰ کا مطلب ہے : معبود ، لہذا اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہ پکارا جائے ، کسی سے مدد نہ مانگی جائے ، کسی پر توکل نہ کیا جائے ، کسی کے لیے قربانیاں اور ذبح نہ کیا جائے اورنہ ہی نذرونیازکی جائیں ، اور ہر قسم کی عبادت اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے نہ کی جائیں۔ لہذا توحیدِ ربوبیت در حقیقت توحیدِ الوہیت کے وجوب کی دلیل ہے ، اسی لیے غالباًاللہ تعالی توحیدِ الوہیت کے منکرین پر ان کا توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرنا بطور حجت قائم کرتے ہیں ، مثلاً اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرۃ: 21-22)
﴿ اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا ، یہی تمہارا بچاؤ ہے (یا تاکہ تمہیں تقوی حاصل ہو)* جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسا کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی ، خبردار! باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ﴾
پس اللہ تعالی نے توحیدِ الوہیت کا حکم دیا جوکہ اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے ، اور ان پر توحیدِ ربوبیت یعنی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو پیدا کرنا ، آسمان اور زمین کواور جو کچھ ان میں ہے سب کو پیدا کرنا ، ہوائوں کو مسخر کرنا ، بارش برسانا ،نباتات اور پودے اگانا ، بندوں کے لیے بطورِ رزق پھل نکالنا سے حجت قائم کی، چناچہ بندوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ جنہیں وہ شریک ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے مذکورہ افعال یا ان کے علاوہ جو ہیں میں سے کچھ نہیں کیا ہے ۔ پس توحیدِ ربوبیت سےاستدلال کرتے ہوئے توحیدِ الوہیت کا اثبات کرنا فطری طریقہ ہےکیونکہ انسان کا سب سے پہلے تعلق اس کے پیدا کرنے والے سے اور اس کے فائدے اور نقصانات کے ماخذ سے ہوتا ہے ، اس کے بعد وہ دیگر دوسرے ذرائع کی طرف منتقل ہوتا ہے جو اسے اس سے قریب کردیں ، اور اسے راضی کردیں ، اور دونوں کے درمیان مضبوط تعلق قائم ہوجائے ، لہذا توحیدِ ربوبیت در حقیقت دروازہ ہے توحید الوہیت کا ، اسی لیے اللہ تعالی نے مشرکین پر اسی طریقہ سے حجت قائم کی ہے ، اور اسی طریقہ سے حجت قائم کرنے کا اپنے رسول (ﷺ) کو بھی حکم فرمایا ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ﴾ (المؤمنون: 84-89)
﴿ پوچھئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں ؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو ؟ * فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی ، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے * دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے ؟ * وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ، کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ * پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا ، اگر تم جانتے ہو تو بتلادو ؟ * یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے ، کہہ دیجئے پھر تم کدھر سے جادو کردیے جاتے ہو ؟ ﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ﴾ (الانعام: 102)
﴿ یہ ہے اللہ تعالی تمہارا رب ! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، تو تم اسی کی عبادت کرو ﴾
پس اللہ تعالی نے ربوبیت پر اپنی انفرادیت کے ذریعہ عبادت کے مستحق ہونے پر حجت قائم کی ، اور وہ توحیدِ الوہیت ہی ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو پیدا فرمایا ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات: 56)
﴿ میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ﴾
آیت میں ﴿يَعْبُدُونِ﴾ کا مطلب : (صرف میری عبادت کریں) ہے ، اور بندہ محض توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرنے سے موحد نہیں ہوتا ، یہاں تک کہ وہ توحیدِ الوہیت کا بھی اقرار نہ کرلے اور اس پر عمل کرے ، وگرنہ تومشرکین بھی توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتے تھے اس کے باوجود وہ اسلام میں داخل نہیں تصور کیے گئے ، بلکہ نبی(ﷺ) نے ان سے قتال کیا جبکہ وہ اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ اللہ تعالی ہی خالق، رازق،زندگی اور موت دینے والے ہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾ (الزخرف: 87)
﴿ اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے ﴾
﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ﴾ (الزخرف: 9)
﴿ اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ ) نے ہی پیدا کیا ہے ﴾
﴿قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ﴾ (یونس: 31)
﴿ آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ "اللہ "﴾
اس بات کا ذکر قرآن کریم میں بہت جگہ ہوا ہے ، لہذا جس نے یہ دعوی کیا کہ توحید کا مطلب اللہ تعالی کے وجود کا اقرار کرنا ہے ، یا اس بات کا اقرار کہ اللہ تعالی خالق ہیں اور کائنات میں تدبیر کرتے ہیں ، اور بس اسی پر اکتفاء کیا ، تو در حقیقت اسےاس توحید کی حقیقت کا علم ہی نہیں ہوا جس کی دعوت رسولوں نے دی ، اس لیے کہ اس نے لازم کو چھوڑ کر صرف ملزوم پر اکتفا کیا ، یا صرف دلیل پر اکتفا کیا اور یہ دلیل جس پر دلالت کر رہی تھی (مدلول ) اسے چھوڑ دیا ۔
اور الوہیت کے خصائص میں ہے : ہر اعتبار سے کمال ِمطلق ، جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی نقص نہ ہو ،جواس بات کا متقاضی ہے کہ ساری عبادت اکیلے اس ہی کے لیے کی جائے ، اس ہی کے لیے تعظیم اور اجلال ہو ، خشیت اور دعاء ہو ، امید، رجوع وانابت، توکل،استعانت واستغاثہ، انتہائی عاجزی کے ساتھ انتہائی محبت ہو ، یہ سب عقلاً اور شرعاً اور فطرتاً اس بات کا تقاضا کر رہی ہیں کہ یہ سب صرف ایک اللہ کے لیے ہونا چاہیے جبکہ عقل، شریعت اور فطرت اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے ہو ۔
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
توحید کی قسمیں

تحریر : عنایت اللہ سنابلی
-----------------------
اللہ تبارک وتعالیٰ ہی اپنی تمام مخلوقات پر الوہیت اور عبودیت کا حقدار ہے، چنانچہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کے لیے ساری عبادتیں کرنا اور پورے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دینا ہی تو حید الوہیت ہے۔
اور یہی کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ کا معنی و مفہوم ہے ، اور یہ توحید، توحید کی تمام قسموں کو شامل اور مستلزم ہے۔
(دیکھئے: تیسیر العزیز الحمید للشیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب: ص74/ القول السدید للسعدی: ص17/بیان حقیقة التوحید للشیخ صالح الفوزان: ص20)

توحید کی دو قسمیں ہیں:
1- توحید خبری علمی اعتقادی:
(دیکھئے:مدارج السالکین لابن القیم: 3/449)
یہ تو حید معرفت اور اثبات ہے، اور یہی توحید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات بھی ہے۔ یہ ذات باری تعالیٰ ، اس کی صفات، اس کے افعال، اس کے اسماء، اس کی اپنی مشیت کے مطابق اپنے بندوں سے اپنی کتابوں کے ذریعہ کلام کرنے کی حقیقت کے اثبات کا نام ہے، اور اس کی قضاء وقدر اور اس کی حکمت کے عموم کو ثابت کرنے اور اس کی ذات کو ان تمام عیوب و نقائص سے مبرا ومنزہ کرنے کا نام ہے جو اس کے شایان شان نہیں۔

2- تو حید طلبی قصدی ارادی:
یہ طلب اور قصد میں توحید ہے ،اور اسی کا نام توحید الوہیت یا عبادت ہے۔(دیکھئے: اجتماع الجیوش الاسلامیة علی غزو المعطلة والجھمیةلابن القیم: 2/94/معارج القبول لحافظ الحکمي: 1/98/فتح المجید لعبد الرحمن بن حسن: ص17)

تفصیلی طور پر توحید کی مندرجہ ذیل تین قسمیں ہو جاتی ہیں:
پہلی قسم:توحید ربوبیت
توحید ربوبیت اس بات کے پختہ اعتقاد کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی رب ہے جو تنہا تخلیق، بادشاہت، روزی اور تدبیر کائنات کا مالک ہے جس نے اپنی تمام مخلوقات کی پرورش نعمتوں سے کی ہے ، اور اپنی مخلوق کے چیدہ وبرگزیدہ افراد یعنی انبیاء علیہم الصلاة والسلام اور ان کے سچے پیروکاروں کی پرورش صحیح عقائد، اچھے اخلاق، نفع بخش علوم اور اعمال صالحہ کے ذریعہ کی ہے، اور دلوں اور ثمرآور روحوں کی یہ نفع بخش تربیت دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی کے لیے ہے۔

دوسری قسم: تو حید اسماء وصفات
تو حید اسماء و صفات اس بات کے پختہ اعتقاد کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر پہلو سے مطلق کمال سے متصف ہے، بایں طور کہ اللہ تعالیٰ نے جن اسماء وصفات کو اپنے لیے ثابت کیا ہے یا جنھیں اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کے لیے ثابت کیا ہے انھیں ان کے معانی اور ان سے متعلق کتاب وسنت میں وارد احکام سمیت اللہ تعالیٰ کے جلال وعظمت کے شایان شان اس طرح ثابت کیا جائے کہ نہ کسی صفت کی نفی لازم آئے ، نہ اس کا معنی معطل ہو ، نہ اس میں تحریف کی جائے، نہ مخلوق کی صفت سے تشبیہ دی جائے، اور نہ ہی اس کی کیفیت بیان کی جائے، اور ان تمام نقائص وعیوب کی اللہ کی ذات سے نفی کی جائے جن کی اللہ نے اپنی ذات سے یا اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کی ذات سے نفی کی ہو، اور ہر اس چیز کی اللہ کی ذات سے نفی کی جائے جو اللہ کے کمال کے منافی ہو۔
تو حید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کی ہے، جیسے سورئہ حدید کے ابتدا میں ، سورئہ طٰہ میں، سورئہ حشر کے اخیر میں، سورئہ آل عمران کے اخیر میں اور مکمل سورئہ اخلاص میں وغیرہ
( دیکھئے: فتح المجید، ص:17 ، والقول السدید فيمقاصد التوحید لعبد الرحمن السعدي، ص:14تا17، ومعارج القبول، 1/99)

تیسری قسم: توحید الوہیت (تو حید عبادت)
تو حید الوہیت کو تو حید عبادت بھی کہا جاتا ہے۔ توحید عبادت علم، عمل اور اعتراف کے ساتھ اس بات کے پختہ عقیدہ کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات پر الوہیت اور عبادت کا حقدار ہے، اور تمام عبادتوں کا تنہا مستحق اللہ تعالیٰ کو سمجھنا، نیز اللہ تعالیٰ کے لیے پورے دین کو خالص کردینا ، توحید الوہیت تو حید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات دونوں کو شامل و مستلزم ہے، کیونکہ الوہیت ہی وہ صفت ہے جو تمام اوصاف کمال اور اوصاف ربوبیت وعظمت کو عام ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی اور لائق پرستش ہے، اس لیے کہ وہی جلال وعظمت کی خوبیوں کا مالک ہے ، اور اس لیے بھی کہ اسی نے اپنی مخلوقات پر ہر طرح کے انعامات ونوازشات نچھاور کیے ہیں۔
چنانچہ اوصاف کمال میں اللہ تعالیٰ کی یکتائی اورصفت ربوبیت میں اس کی انفرادیت سے لازم آتا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہ ہو۔
توحید الوہیت ہی شروع سے اخیر تک تمام رسولوں کی دعوت کا مقصود اصیل تھا، اور توحید کی اس قسم کا بیان سورئہ ﴿قُلْ یَاْ أَیُّھَا الْکَاْفِرُوْنَ﴾ میں
اور درج ذیل فرمان باری تعالیٰ میں ہوا ہے:
﴿ قُلْ یَاْ أَھْلَ الْکِتَاْبِ تَعَاْلَوْا إِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَاْءٍ بَیْنَنَاْ وَبَیْنَکُمْ أَلَّاْ نَعْبُدَ إِلَّاْ اللّٰہَ وَلَاْ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَّلَاْ یَتَّخِذَ بَعْضُنَاْ بَعْضاً أَرْبَاْباً مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْھَدُوْا بِأَنَّاْ مُسْلِمُوْنَ﴾(سورة آل عمران: 64)
آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب(یہود ونصاریٰ)!اس انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کریں، اور نہ اللہ کو چھوڑ کر ہم میں کا بعض بعض کو رب بنائے ، اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔
اسی طرح سورئہ سجدہ کے شروع واخیر میں ، اور سورئہ غافر کے شروع ، درمیان اور اخیر میں، اور سورئہ اعراف کے شروع اور اخیر میں، اور قرآن کریم کی اکثر سورتوں میں توحید الوہیت کا بیان ہوا ہے۔
قرآن کریم کی ہر سورت میں توحید کی قسموں کا بیان ہوا ہے، قرآن کریم ازاول تا آخر تو حید کی قسموں ہی کے بیان پر مشتمل ہے؛ کیونکہ قرآن کریم یا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ، اس کے اسماء وصفات، اس کے افعال اور اس کے اقوال کی خبر دیتا ہے، اور یہی توحید علمی خبری اعتقادی یعنی” تو حید ربوبیت اور توحید اسماء وصفات“ ہے، اور یا تو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے اور دیگر معبودان با طلہ سے رشتہ توڑنے کی دعوت دیتا ہے اور یہی تو حید ارادی طلبی یعنی ”تو حید الوہیت “ ہے، اور یا تو قرآن کریم امر ونہی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے وجوب کے بیان پر مشتمل ہے، اوریہ ساری چیزیں توحید کے حقوق اور تتمہ میں شامل ہیں، اور یا تو قرآن کریم اہل توحید کے اعزاز واکرام اور انھیں دنیا میں عطا ہونے والی نصرت وتائید اور آخرت میں عطا ہونے والی عزت افزائی کی خبر دیتا ہے ،اور یہ توحید کا ثمرہ ہے، اور یا تو قرآن کریم اہل شرک اور انھیں دنیا میں دی جانے والی سزاؤں اور آخرت میں ہونے والے عذاب کی خبر دیتا ہے،اور یہ توحید کے حکم سے خارج ہونے والے کا انجام ہے، الغرض قرآن کریم مکمل طور پر تو حید ، اس کے حقوق اور اس کے ثمرات اور شرک اور اہل شرک اور ان کے انجام کے بیان پرمشتمل ہے۔
(دیکھئے: مدارج السالکین لابن القیم، 3/450، وفتح المجید، ص:17-18 ، والقول السدید، ص:16 ، ومعارج القبول، 1/98)

توحید کے فوائد اور ثمرات:
تو حید کے بڑے عظیم فضائل، لائق تعریف ثمرات اور بہترین نتائج ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
۱- دنیا وآخرت کی بھلائی توحید کے فضائل وثمرات میں سے ہے۔
۲- توحید دنیا و آخرت کی مصیبتوں اور بلاؤں سے نجات کا سب سے عظیم سبب ہے، اللہ تعالیٰ توحید کے ذریعہ دنیا و آخرت کی مصیبتیں ٹالتا ہے اور نعمتیں اور بھلائیاں کھولتا ہے۔
۳- توحید خالص سے دنیا وآخرت میں مکمل امن وسلامتی پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَاْنَھُمْ بِظُلْمٍ أُولٰئِکَ لَھُمُ الْأَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ﴾ (سورة انعام:82)
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کیا ایسے ہی لوگوں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔
۴-صاحب توحید (موحد یا توحید پرست) مکمل ہدایت اور ہر اجر وغنیمت کی توفیق سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

۵- اللہ تعالیٰ توحید کے ذریعہ گناہوں کی مغفرت فرماتا اور خطاؤں کو مٹاتا ہے،
چنانچہ حدیث قدسی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ :
﴿یا ابن آدم إنک لو أتیتني بقراب الأرض خطایا ثم لقیتني لا تشرک بي شےئاً لأتیتک بقرابھا مغفرة﴾
( ترمذي، کتاب الدعوات، باب فضل التوبة والاستغفار، 5/548، حدیث نمبر(3540)، اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترمذي (3/176) اور سلسلة الأحادیث الصحیحة (حدیث نمبر:127، 128) میں صحیح قرار دیا ہے۔)
اے آدم کے بیٹے ! اگر تو میرے پاس زمین بھر گناہ لے کر آئے اور پھر تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا ہو، تو میں تیرے پاس زمین (کی وسعتوں)بھر بخشش لے کر آؤں گا۔

۶- توحید کی بدولت موحد کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرماتا ہے، چنانچہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿من شھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، وأن محمداً عبدہ ورسولہ ، وأن عیسیٰ عبد اللہ ورسولہ وکلمتہ ألقاھا إلی مریم و روح منہ ، وأن الجنة حق، وأن النار حق ، أدخلہ اللہ الجنة علی ما کان من العمل﴾
(متفق علیہ: بخاری، کتاب الأنبیاء، باب قولہ تعالیٰ:﴿یا أھل الکتاب لا تغلوا في دینکم﴾ 4/168، حدیث نمبر(3252) ، ومسلم، کتاب الایمان ، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دسخل الجنة قطعاً، 1/57،حدیث نمبر۔28)
جس نے اس بات کی گواہی دی کہ کوئی حقیقی معبود نہیں سوائے اللہ واحدکے، اس کا کوئی شرک نہیں، اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے، اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے حضرت مریم علیہاالسلام کی طرف ڈالا تھا، اور اس کی طرف سے روح ہیں، اور یہ کہ جنت حق ہے، اور یہ کہ جہنم حق ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا خواہ جیسا بھی عمل ہو۔
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:﴿من مات لا یشرک باللہ شےئاً دخل الجنة﴾( مسلم، کتاب الایمان، باب من مات لا یشرک باللہ شیئاً دخل الجنة، 1/94، حدیث نمبر(93)۔
جو شخص اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
۷- توحید جب دل میں راسخ اور پیوست ہوجاتی ہے تو موحد کو جہنم میں داخل ہونے سے بالکلیہ روک دیتی ہے، چنانچہ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
﴿․․․فإن اللہ حرم علی النار من قال: لا إلہ إلا اللہ ، یبتغي بذلک وجہ اللہ﴾
(بخاری،کتاب الصلاة، باب المساجد في البیوت، 1/126، حدیث نمبر(425) ، ومسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب الرخصة في التخلف عن الجماعة بعذر، 1/455-456، حدیث نمبر(33)۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو آگ پر حرا م کر دیا ہے جو کہے” لا الہ الا اللہ“ اور وہ اس سے اللہ کی رضا کا خواہاں ہو۔ (یعنی خلوص نیت سے کہے)
۸- اگر بندے کے دل میں رائی کے ادنیٰ دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو وہ اسے جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہنے سے مانع ہوگا
(دیکھئے: صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ:﴿لما خلقت بیدي﴾، حدیث نمبر(7410)، وصحیح مسلم، کتاب الایمان، باب معرفة طریق الروٴیة، 1/170، حدیث نمبر(183، 193)۔
۹- اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کا سب سے عظیم سبب توحید ہی ہے، اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت پانے والا سب سے خوش بخت شخص وہ ہے جس نے خلوص دل یا خلوص نیت سے ” لا الہ الا اللہ “ پڑھا ہو۔
(بخاری، کتاب العلم، باب الحرص علی الحدیث ، 1/37، حدیث نمبر (99)
10- تمام ظاہری وباطنی اعمال واقوال کی قبولیت ، کمال اور ان پر اجر وثواب کا مرتب ہونا توحید پر موقوف ہے، چنانچہ جس قدر اللہ کے لیے توحید اور خلوص وللٰہیت قوی اور مضبوط تر ہوگا اسی قدر یہ اعمال واقوال بھی مکمل اور تام ہوں گے۔
11- توحید بندے پر نیکیوں کی انجام دہی اور برائیوں کے ترک کو سہل اور آسان بنا دیتی ہے اور اسے مصائب میں تسلی بخشتی ہے ، چنانچہ موحدپر جو اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی توحید میں مخلص ہو ‘نیکیوں کی انجام دہی آسان ہوتی ہے ، کیونکہ اسے اپنے رب کی رضا اور ثواب کی امید ہوتی ہے، اسی طرح اس کے لیے ان معاصی اور گناہوں کو ترک کرنا آسان ہوتا ہے جنھیں انجام دینے کے لیے اس کا نفس آمادہ ہوتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی ناراضگی اور سزا کا خوف ہوتا ہے۔
12- تو حید جب دل میں مکمل ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ موحد کے لیے ایمان کو محبوب بنا دیتا ہے اور اسے اس کے دل میں مزین و آراستہ کر دیتا ہے ، اور اس کے نزدیک کفر، فسق اور نافرمانی کو ناپسندیدہ اور مبغوض کر دیتا ہے، اور اسے ہدایت یافتہ لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما دیتا ہے۔
13- تو حید بندے کے لیے ناپسندیدہ چیزیں ہلکی اور سہل بناتی ہے اور اس پر آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو آسان کردیتی ہے ، چنانچہ بندہ اپنے دل میں توحید کے کمال و رسوخ کے اعتبار سے تکالیف ومصائب کو شرح صدر، اطمینان قلب اور اللہ کی کڑوی تقدیروں پر تسلیم ورضا کا ثبوت دیتے ہوئے قبول کرتا ہے۔ تو حید انشراح صدر کے عظیم ترین اسباب میں سے ہے۔
14- توحید بندے کو مخلوق کی غلامی ، ان سے لو لگانے، ان سے ڈرنے اور امید وابستہ کرنے اور ان کی خاطر عمل کرنے کی قید وبند سے آزاد کرتی ہے۔
اور یہی حقیقی عزت اور عظیم شرف ہے، اور اسی سے بندہ اللہ کا عبادت گزار ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی سے امید کرتا ہے نہ اس کے علاوہ کسی سے خوف کھاتا ہے، اور اسی سے اس کی فلاح وکامیابی کی تکمیل ہوتی ہے۔
15-تو حید جب بندے کے دل میں مکمل ہوجا تی ہے اور مکمل اخلاص و للٰہیت کے ساتھ دل میں راسخ ہو جاتی ہے تو بندے کا تھوڑا عمل بھی زیادہ ہوجاتا ہے، اور اس کے نیک اعمال واقوال بلا حساب گنا در گنا ہو جاتے ہیں۔
16- اللہ تبارک وتعالیٰ نے موحدین کے لیے دنیا میں فتح وکامرانی ، نصرت وتائید، عزت وشرف،ہدایت یابی، نیکیوں کی توفیق، اصلاح احوال اور اعمال و اقوال میں استقامت وراستی کی ضمانت لی ہے۔
17- اللہ عز وجل مومنین وموحدین کا دنیا و آخرت کے شرور وفتن سے بچاؤ اور دفاع کرتا ہے اور ان پر پاکیزہ زندگی،اپنی ذات سے حصول اطمینان اور اپنی یاد سے محبت وانسیت کے حصول کا احسان فرماتا ہے۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ان باتوں کے شواہد(دلائل) کتاب وسنت میں بکثرت ہیں جو معروف ہیں، واللہ اعلم“
( القول السدید في مقاصد التوحید، ص:25)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:”اور دلوں کو سرور اور لذت تامہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی پسندیدہ چیزوں کے ذریعہ اس سے قریب ہوکر ہی حاصل ہو سکتی ہے، اور اللہ کی محبت اللہ کے علاوہ ہر محبوب سے اعراض کر کے ہی مکمل ہو سکتی ہے، اور یہی کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ کی حقیقت ہے۔(مجموع الفتاوی، 28/32)
 
Top