• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اسماء و صفات از شیخ عبید اللہ باقی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:11
✍ عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی تیسری اصل: باعتبار حقیقت تمام صفات الہیہ کا ایک ہی حکم ہے
• حقیقت اور مقتضیات کے اعتبار سے اللہ تعالی کی ساری صفتوں کا ایک ہی حکم ہے، کیونکہ ہر ذات صفت کو مستلزم ہے، اور ہر ذات کی صفت اسی کے لائق و مناسب ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالی کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ تمام صفتوں کو اس کے لئے ثابت کرنا ضروری ہے، انواع صفات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا، اسی لئے شیخ الإسلام ابن تيميہ - رحمه الله- نے فرمایا کہ:" القول في بعض الصفات كالقول في البعض الآخر".( التدمرية،ص:31)

• اس اصل کے ذریعہ عقیدہ اشاعرہ وماتردیہ، اور معتزلہ سے عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کی تمییز ہوتی ہے، اسی اصل کے ذریعہ آئمہ سلف نے مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا ہے، اور خصوصا شیخ الاسلام ابن تیمیہ، اور امام ابن القیم - رحمهما الله - نے تردید مخالفین میں اس اصل کی خوب شرح کی ہے۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:31-42، الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة،ص:220-230)

▪ صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا موقف
انہوں نے صفات الہیہ کی حقیقت و مقتضیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اثبات میں کوئی فرق نہیں کیا، چاہے ان کی نوعیت ذاتیہ ہو یا فعلیہ، لہذا جو کتاب و سنت میں ثابت ہیں ان کو ثابت کیا، اور جن کی نفی آئی ہے ان کی نفی کی، ساتھ ہی ان کے ضد کمال کو بھی ثابت کیا، اور یہی صفات کے باب میں ان کا اصول رہا ہے، اور اسی اصل کے ذریعہ اہل السنہ والجماعہ نے منہج اشاعرہ وماتریدیہ، اور معتزلہ کی تردید کی ہے.

▪ صفات کے باب میں اشاعرہ کا موقف
☆ اشاعرہ کی دو قسمیں ہیں :
• متقدمین : جن میں ابو الحسن اشعری، ابو بکر باقلانی، ابو بکر ابن فورک وغیرھم شامل ہیں
• متاخرین : جن میں ابو المعالی جوینی، رازی، آمدی وغیرھم شامل ہیں۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمية:4/147-48، منهاج السنة:2/223-224)

☆ صفات کے باب میں متقدمین اشاعرہ کا موقف :
انہوں نے منجملہ صفات خبریہ کو ثابت کیا، اس کے لئے نص کو اصل اور عقل کو تابع قرار دیا، لیکن اس کے پس پردہ ایسی باطل تاویلیں کیں کہ وہ نفی صفات تک پہونچ گئے، جہاں تک صفات اختیاریہ کی بات ہے تو انہوں نے دلیل " حلول حوادث " سے ان کا انکار کیا۔
(مجموع الفتاوى لابن تيمية :4/147، 6/520 ونشأة الأشعرية وتطورها،ص:320)

☆ صفات كے باب میں متاخرین اشاعرہ کا موقف :
انہوں نے صرف سات صفات کو ثابت کیا،جو مندرجہ ذیل ہیں:
1- القدرة
2-الإرادة
3- العلم
4-الحياة
5- السمع
6-البصر
7- الكلام
(مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/359-360)

• صرف سات صفات کو ثابت کرنے کی وجہ :
ان کا دعوی ہے کہ عقل صرف ان ہی سات صفات پر دلالت کرتی ہے، اسی لئے صرف ان سات صفات کو ثابت کیا، باقی تمام صفات کا انکار کیا۔
( شرح العقيدة التدمرية لابن عثيمين،ص:118)

• صفات سبعہ کے علاوہ صفات خبریہ کے ساتھ ان کا طریقہ تعامل :
صفات سبعہ کے علاوہ دیگر صفات خبریہ کے سلسلے میں متاخرین کا دو گروہ ہے:
• پہلا گروہ : جنہوں نے صفات خبریہ کا انکار کیا، اور اس کے لئے انہوں نے دو طریقوں کو اپنایا:
• تاویل
یا
• تفویض
دوسرا گروہ : انہوں نے توقف اختیار کیا، جیسے رازی اور آمدی وغیرھما۔

( تفصیل کے لئے رجوع کریں مجموع الفتاوى لابن تيمية:4/147-148، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء الصفات:94)

• انکار صفات اختیاریہ پر یہ متاخرین اشاعرہ متقدمین اشاعرہ کے ساتھ متفق ہیں، لہذا انہوں نے بھی منجملہ تمام صفات اختیاریہ کا انکار کیا۔
( تفصیل کے لئے دیکھیں مجموع الفتاوى لابن تيمية:5/410، 12/366، موقف ابن تيمية من الأشاعرة:2/931)

☆ خلاصہ :
1- اثبات صفات عقلیہ سبعہ پر متقدمین و متاخرین اشاعرہ متفق ہیں۔
2- انکار صفات اختیاریہ پر متقدمین و متاخرین اشاعرہ متفق ہیں۔
3- صفات سبعہ کے علاوہ صفات خبریہ میں متقدمین و متاخرین کا موقف مختلف ہے۔

▪ صفات کے باب میں معتزلہ کا موقف
منجملہ تمام صفات کا انہوں نے انکار کیا، اور اس کے لئے دو طریقوں کو اپنایا:
پہلا طریقہ : جس پر معتزلہ کی اغلبیت ہے، ان کا کہنا ہے کہ :" إن الله عالم، قادر ،حي بذاته، لا بعلم ولا قدرة ولا حياة......"
(شرح الأصول الخمسة،ص:151)
اسماء کو ثابت کیا مگر صفات کا انکار کیا۔
دوسرا طریقہ : جسے بعض معتزلہ نے اختیار کیا، ان کا کہنا ہے کہ:" إن الله عالم بعلم وعلمه ذاته............"
( شرح الأصول الخمسة،ص: 183)
مقصد انکار صفات ہی ہے، مگر سیاق ذرا مختلف ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں والنفي في صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:560، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص:102-103)

نوٹ :
اگلی قسط میں ان شاء الله اس اصل کی روشنی میں منہج اشاعرہ وماتریدیہ، اور معتزلہ کی تردید مجملا پیش کی جائے گی، ساتھ ہی اس اصل کے چند مستلزمات بھی پیش کئے جائیں گے- بإذن الله تعالى -

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:12
✍ عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی تیسری اصل: باعتبار حقیقت تمام صفات الہیہ کا ایک ہی حکم ہے
• حقیقت اور مقتضیات کے اعتبار سے اللہ تعالی کی ساری صفتوں کا ایک ہی حکم ہے، لہذا اللہ تعالی کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ بلا کسی تفریق کے تمام صفات کو اس کے لئے ثابت کرنا ضروری ہے.
اہل السنہ والجماعہ نے اسی اصل کو مد نظر رکھتے ہوئے اثبات صفات میں کوئی فرق نہیں کیا، جو کتاب و سنت میں ثابت ہیں ان کو ثابت کیا، اور جن کی نفی آئی ہے ان کی نفی کی، ساتھ ہی ان کے ضد کمال کو بھی ثابت کیا، اور صفات کے باب میں یہی ان کا منہج رہا ہے.
مگر اشاعرہ نے صفات ذاتیہ اور فعلیہ میں فرق کیا، چانچہ متقدمین اشاعرہ نے صفات خبریہ کو ثابت کیا، اور صفات اختیاریہ کا انکار کیا، جبکہ متاخرین اشاعرہ نے صرف سات صفات 《قدرة، علم، إرداة، حياة، سمع، بصر، كلام》کو ثابت کیا، باقی تمام صفات کا انکار کیا.
جہاں تک معتزلہ کی بات ہے تو انہوں نے منجملہ تمام صفات کا انکار کیا، اور محض علمیت کے طور پر اسماء کو ثابت کیا ہے.

▪ منہج اشاعرہ کی مجمل تردید
☆ شبہ :
• اشاعرہ کا کہنا ہے کہ: حوادث زمانہ " صفت قدرة، إرادة، اور علم " کو مستلزم ہے، اور یہ تینوں صفات " صفت حياة " کو مستلزم ہے، اور یہ چاروں صفات " صفت سمع، بصر، اور کلام " کو مستلزم ہے، کیونکہ یہ تینوں صفات " خصائص رب " میں سے ہیں۔
اس عقلی دلیل سے اشاعرہ صرف ان سات صفات کو ثابت کرتے ہیں۔

• جواب :
1- کسی دلیلِ معین کے نہ ہو نے کی وجہ سے مدلولِ معین کی نفی نہیں لازم آتی ہے، لہذا اگر کوئی چیز عقلی دلیل سے ثابت نہیں ہوتی ہے تو ضروری نہیں کہ اس کی کوئی اور دلیل نہ ہو، جیسے: نماز، یہ عقلی دلیل سے ثابت نہیں ہے، مگر شرعی دلیل سے ثابت ہے، فرمایا کہ:{ وأقيموا الصلاة.....}[سورة البقرة:43].
بنا بریں اگر کوئی اشعری یہ گمان رکھتا ہے کہ صفات سبعہ کے علاوہ کسی اور صفت پر عقلی دلیل دلالت نہیں کرتی ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دیگر صفات کے ثبوت پر کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔
2- اگر ان سات صفات کے علاوہ دیگر صفات کے اثبات پر کوئی عقلی دلیل دلالت نہیں کرتی ہے تو ان کی نفی بھی نہیں کرتی ہے، کیونکہ جس طرح اثبات کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے اسی طرح نفی کے لئے بھی دلیل کا ہونا ضروری ہے۔
3- اشاعرہ " صفت ارادہ " کو ثابت کرتے ہیں۔
اگر خالق کا ارادہ ہے تو مخلوق کا بھی ارادہ ہے.
اگر وہ یہ کہیں کہ: خالق کا ارادہ اس کے لائق ہے۔
تو کہا جائے گا کہ: مخلوق کا ارادہ بھی مخلوق ہی کے لائق ہے۔
اسی طرح " صفت محبت، رضا، غضب، اور حکمت " وغیرہ تمام صفات میں یہی طریقہ اپنایا جائے گا، اس حجت کے ساتھ { ليس كمثله شيء وهو السميع البصیر }[سورة الشورى:11] کہ خالق اور مخلوق کی صفات میں فرق ہے، ان میں کوئی تشبیہ کی گنجائش نہیں۔
لہذا جس طرح مخلوق کی صفات کا حکم الگ ہے، اسی طرح خالق کی صفات کا حکم بھی مختلف ہے، اس کی تمام صفات باعتبار حقیقت ایک ہیں، ان میں فرق نہیں کیا جائے گا۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية لابن تيمية،ص:31-42، شرح العقيدة التدمرية لابن عثيمين،ص:112-128)

▪ منہج معتزلہ کی مجمل تردید
☆ شبہ :
•صفات کے باب میں ان کہنا ہے کہ ذات و صفت دونوں الگ الگ چیز ہے، لہذا انہوں نے " تعدد قدماء، حلول حوادث، تشبیہ، اور تجسیم " جیسے خود ساختہ عقلی و فلسفی دلائل کی بنیاد پر جسمیت اور اور لوازم تشبیہ کا دعوی کیا، اور نتیجتا تمام صفات کا انکار کیا، اور جہاں تک اسماء کی بات ہے تو محض علمیت کے طور پر اللہ کے ناموں کو ثابت کیا۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں شرح الأصول الخمسة،ص: 85-86، مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/147-48، والملل والنحل:1/38- 44، وشرح المقاصد:5/83، والنفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:560-567)

• جواب :
1- اثبات اسماء اور اثبات صفات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، لہذا اگر وہ اسماء کو ثابت کرتے ہیں تو صفات کو بھی ثابت کرنا ضروری ہے۔
2- اگر ان کا دعوی ہے کہ اثبات صفات سے تشبیہ لازم آتی ہے، تو اثبات اسماء سے بھی تشبیہ لازم آئے گی، اور نہیں تو دونوں کا حکم ایک ہوگا، کیونکہ دونوں کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:33-42، وشرح العقيدة التدمرية، 129-230)

▪ اس اصل کے چند مستلزمات :
1- جس نے بعض صفات کو ثابت کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ دیگر صفات کو بھی ثابت کرے، کیونکہ اللہ کی ساری صفتوں کا حکم حقیقت کے اعتبار سے ایک ہے۔
2- دلیل معین کے نہ ہو نے سے مدلوم معین کی نفی لازم نہیں آتی ہے، لہذا اگر عقلی دلیل صرف ان ہی سات صفات پر دلالت کرتی ہے تو ضروری نہیں کہ باقی صفات کے اثبات کے لئے کوئی اور دلیل نہ ہو، بلکہ دلائل شرعیہ سے وہ بھی ثابت ہیں۔
3- اثبات اسماء و صفات کا حکم ایک ہی ہے، لہذا اگر اثبات اسماء سے تمثیل لازم نہیں آتی ہے تو اثبات صفات میں بھی تمثیل لازم نہیں آئے گی۔
4- اگر کوئی محض عقلی دلیل کی بنیاد پر سات صفات کے علاوہ دیگر صفات کا انکار کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ انکار صفات کے لئے دلیل پیش کرے، کیونکہ جس طرح اثبات کے لئے دلیل ضروری ہے، اسی طرح نفی کے لئے بھی دلیل ضروری ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:31-42، والرد على المنطقيين، ص:100، ومجموع الفتاوى لابن تيمية:13/298-300، و درء تعارض العقل والنقل:4/59-60، والنفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة و المعطلة،ص:653-658)

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:13
✍ عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی چوتھی اصل: ذات الہی سے تعلق کے اعتبار سے صفات الہیہ متنوع ہیں .
•تمام صفات الہیہ اللہ کی ذات مقدسہ کے ساتھ قائم ہیں، اور اس تعلق کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں:
• صفات ذاتیہ
• صفات فعلیہ
(الكواشف الجلية،ص:429، شرح القواعد المثلى لابن عثيمين،ص:168-169)

• صفات کی یہ دونوں قسمیں ازلی اور ابدی ہیں، اللہ کے لائق ہیں، ان سے اللہ تعالی متصف تھا، اب بھی ہے، اور ہمیشہ رہےگا۔
(شرح العقيدة الطحاوية،ص:127)

▪ ضابطہ صفات ذاتیہ
صفات ذاتیہ وہ: صفات ہیں جو ذات الہی سے کبھی الگ نہ ہوں۔
مثال : چہرا، ہاتھ، اور آنکھ وغیرہ۔
(الكواشف الجلية،ص:429، النفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:102)

▪ ضابطہ صفات فعلیہ
صفات فعلیہ وہ: صفات ہیں جو ذات الہی سے الگ ہو سکتی ہیں، یا جن کا تعلق اللہ کی مشیئت و قدرت سے ہوتا ہے۔
مثال : آنا، نازل ہونا، پیدا کرنا وغیرہ۔
(والتعريفات للجرجاني،ص:133،النفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:102 )

▪ صفات ذاتیہ اور فعلیہ میں فرق :
1- صفات ذاتیہ اللہ کی ذات سے الگ نہیں ہوتی ہیں، جبکہ صفات فعلیہ اللہ کی ذات سے اس طرح الگ ہو سکتی ہیں کہ جب اللہ تعالٰی چاہے کرے گا، اور نہ چاہے تو وہ نہیں بھی کر سکتا ہے۔

2- صفات ذاتیہ ہوں یا فعلیہ دونوں کے ساتھ اللہ تعالی ازل سے متصف ہے، اور ہمیشہ رہے گا، لہذا صفات فعلیہ جنس کے اعتبار سے قدیم ہیں، مگر افراد کے اعتبار سے متجدد اور حادث ہیں۔

3- صفات ذاتیہ مشیئت و ارادہ سے متعلق نہیں ہیں جبکہ صفات فعلیہ مشیئت و ارادہ سے متعلق ہیں۔
( مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں شرح العقيدة الطحاوية،ص:127، و الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها، ص:66، وصفات رب العالمين،ص 87- 330، و المطالب المفيدة في مسائل العقيدة:1/188)

▪ صفات فعلیہ کی دو قسمیں ہیں :
1- صفات فعلیہ متعدیہ وہ : صفات ہیں جن میں بلا حرف جر مفعول ہو۔
مثال : خلق، رزق، ھدی وغیرھا۔

2- صفات فعلیہ لازمہ وہ :صفات ہیں جن میں حرف جر کے ساتھ مفعول ہو، یا پھر سرے سے مفعول نہ ہو۔
مثال : الاستواء، المجيء، والنزول وغيرها.
•صفات فعلیہ کی ان دونوں قسم کا ذکر ایک ہی آیت کریمہ میں آیا ہے{هوالذي خلق السموات والأرض في ستة أيام ثم استوى على العرش}[سورة الحديد:4]
• خلق : فعل متعدی
• استوی : فعل لازم ۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة،ص:449، والصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:66-67، القواعد والضوابط السلفية في أسماء وصفات رب البرية،ص:190-191، و المطالب المفيدة في مسائل العقيدة:1-186-187)

▪ صفات ذاتیہ اور فعلیہ میں مختلف فرقوں کا موقف
1- اہل السنہ والجماعہ
اہل السنہ والجماعہ تمام صفات کو ثابت کرتے ہیں،خواہ وہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ، اللہ ان کے ساتھ ازل سے متصف ہے، اور ہمیشہ رہے گا، البتہ صفات فعلیہ کے افراد متجدد اور حادث ہیں۔
( مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/149، 520، 525، و الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:67)

2- معتزلہ
انہوں نے ذات و صفات میں فرق کیا، تمام صفات کا انکار کیا، اور دلیل" حلول حوادث و اعراض " کی بنیاد پر صفات فعلیہ کا انکار کیا۔
لہذا ان کے نزدیک صفات چاہے ذاتیہ ہوں یا فعلیہ وہ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہو سکتی ہیں، یہ لوگ اللہ کی طرف صفات کی اضافت محض ملک و تشریف کے اعتبار سے یا پھر صرف وصف ( جس کا کوئی معنی نہ ہو) کے اعتبار سے کرتے ہیں۔
( مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/147-18، 520-521، ومنهاج السنة:1/423، و الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:67)

3- كلابیہ اور متقدمین اشاعرہ :
انہوں نے صفات ذاتیہ کو ثابت کیا، اور صفات اختیاریہ کا انکار کیا۔
(مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/520، ومنهاج السنة:1/423-424، والصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:68)

4- ماتریدیہ اور متاخرین اشاعرہ :
انہوں نے سات صفات( قدرة، إرادة، علم، حياة، سمع، بصر، كلام ) كے علاوہ تمام صفات کا انکار کیا، باقلانی اور امام الحرمین نےاس میں صفت" ادراک " کا اضافہ کیا ہے، جبکہ ماتریدیہ نے صفت" تکوین " کا اضافہ کیا ہے۔
(تحفة المريد، ص:75-76، وإشارات المرام،ص:107، والصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،67-68)

5- کرامیہ
انہوں نے صفات ذاتیہ کو ثابت کیا، اور جہاں تک صفات فعلیہ کی بات ہے تو ان کا کہنا ہے کہ اللہ کے ساتھ یہ واقع ہونے کے بعد قائم ہوئی ہیں، لہذا ان کے نزدیک اللہ تعالٰی پہلے صفات فعلیہ سے متصف نہیں تھا، حدوث افعال کے بعد ان سے متصف ہوا ۔
( مجم6 الفتاوى لابن تيمية:6/524-525، والصفات الإلهية تعريفها وأقسامها، ص:68، 106)

☆ خلاصہ :
• اہل السنہ والجماعہ نے تمام صفات کو ثابت کیا، صفات فعلیہ میں جنس و افراد کے اعتبار سے فرق کیا، لہذا ان کے نزدیک صفات فعلیہ کی جنس قدیم ہے، جبکہ ان کے افراد متجدد اور حادث ہیں۔
• کرامیہ نے صفات ذاتیہ کو ثابت کیا مگر صفات فعلیہ کی جنس و افراد میں فرق نہیں کیا ، لہذا ان کے یہاں صفات فعلیہ صرف حادثہ ہیں۔
• اہل السنہ والجماعہ کے علاوہ تمام فرقوں( جہمیہ، معتزلہ، کلابیہ، اشاعرہ، ماتریدیہ ) نے کسی نے کسی طریقے سے صفات فعلیہ کا انکار کیا ۔
• جہمیہ اور معتزلہ نے صفات فعلیہ کے ساتھ صفات ذاتیہ کا بھی انکار کیا۔

▪ اس اصل کے چند مستلزمات :
1- جب ساری صفات اللہ کی شایان شان کے عین موافق ہیں تو ان کے اثبات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
2- تمام صفتوں کے ساتھ اللہ تعالی ازل سے قائم ہے، اور ہمیشہ رہے گا۔
3- صفات فعلیہ جنس کے اعتبار سے قدیم ہیں، کیونکہ وہ اللہ کے ساتھ قائم ہیں، اور ان کے افراد جیسے نازل ہونا، آنا، بات کرنا وغیرہ یہ متجدد اور حادث ہیں، کیونکہ ان کا تعلق اللہ کی مشیئت اور ارادہ سے ہے۔
4- تمام گمراہ فرقوں کے یہاں صفات فعلیہ کے انکار کی بنیادی وجہ جنس اور افراد میں عدم تفریق ، اور دلیل حلول حوادث و اعراض ہے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:14
✍ عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی پانچویں اصل: کلی معانی میں اشتراک کی وجہ سے وجودی اختصاص میں تماثل لازم نہیں آتا ہے .
• صفت ہر وجود کا خاصہ ہے، بغیر صفت کے وجود کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے، اور ہر وجود کی صفت اس کے لائق و مناسب ہوتی ہے، کچھ ایسے اختصاصات ہوتے ہیں جن کی بنا پر وجود خاص کو دیگر تمام وجودوں سے نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
• دنیا میں پائے جانے والے وجودوں سے دو چیزوں کا تعلق ہوتا ہے:
• عام معانی : جو تمام وجودوں کو شامل ہوتے ہیں، جنہیں " قدر مشترک " بھی کہا جاتا ہے۔
مثال : لفظ وجود؛ یہ دنیا میں پائے جانے والے ہر وجود کو شامل ہے۔
• خاص معانی : جو ہر خاص وجود کے ساتھ اسی کے اعتبار سے شامل ہوتے ہیں، جنہیں " قدر ممیز و فارق " بھی کہا جاتا ہے۔
مثال : انسان کا وجود، اور ہاتھی کا وجود؛ دونوں کے وجود میں فرق واضح ہے ۔

خلاصہ :
ہر وجودِ خاص عام معانی میں وجودِ عام کے ساتھ مشترک ہوتا ہے، مگر خاص معانی میں ان ہی کے ساتھ وجود خاص مختص ہوتا ہے، اور ان خاص معانی کی بنا پر دیگر وجودوں کے مقابل میں اس کی نمایاں پہچان ہوتی ہے۔

نوٹ :
عام معانی محض ایک قسم کے ذہنی تصورات ہیں، کیونکہ خارجی وجود کے کچھ ایسے خصائص ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر غیروں سے اس کی تمییز ہوتی ہے۔

☆ قدر مشترک کے مسائل
• قدر مشترک کا معنی :
قدر مشترک سے مراد : دنیا میں پائے جانے والے موجودات کے درمیان ایسا کلی معنی ہے جسے انسانی عقل اخذ کرتی ہے۔
امام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ - فرماتے ہیں کہ:" قدر مشترک کسی اسم مطلق کا مسمی ہے، اور یہ مسمی در حقیقت ایک ایسا کلی معنی ہے جو صرف ذہنوں میں ہوتا ہے"۔

• قدر مشترک کی حقیقت :
یہ تصوراتی اور عقلی مسئلہ ہے، کوئی وجودی اور حسی مسئلہ نہیں ہے، اس بنا پر کسی خاص وصف یا چیز کے ذہنی تصور ہی کا نام" قدر مشترک " ہے۔
لوگ اس قدر مشترک کے ادراک میں مصیب اور مخطی بھی ہوتے ہیں، چنانچہ اہل السنہ والجماعہ " قدر مشترک " کی فہم میں مصیب ہوئے، جبکہ اہل تعطیل و تشبیہ اس مسئلہ کی گہرائی کو سمجھنے اور حق تک پہونچنے میں قاصر رہے۔

• قدر مشترک کی اہمیت :
قدرمشترک کی اہمیت کسی ذی عقل وشعور پر مخفی نہیں ہو سکتی ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ ہر دو موجود چیزوں کے درمیان قدر مشترک پائی جاتی ہے، اور ان کے خصائص انہیں ایک دوسرے سے الگ کردیتے ہیں۔
اور اسی قدر مشترک سے مسائلِ اسماء و صفات کا بخوبی ادراک ہوتا ہے، لہذا ہر اس شخص کے لئے توحید الأسماء والصفات کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے، جو مسائلِ قدر مشترک پر گرفت رکھتا ہے ۔

• قدر مشترک اور توحید الأسماء والصفات کے درمیان علاقہ :
قدر مشترک کو سمجھے بغیر توحید الأسماء والصفات کو سمجھنا ممکن نہیں ہے، اس باب میں کوئی بھی انسان زلل اور لغزشوں سے اسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے، جب پہلے مسائلِ قدر مشترک کو سمجھے، ان پر نگاہ رکھے، اور انہیں اثباتِ اسماء و صفات پر ملحوظ خاطر بھی رکھے۔
لہذا صفات کے باب میں داخل ہونے سے پہلے تین امور کو سامنے رکھنا ضروری ہے:
• کلی معنی ؛ جسے قدر مشترک کہتے ہیں، اور اس کا تصور صرف ذہن میں ہوتا ہے۔
• وہ معنی جو ذات الہی کے ساتھ قائم ہے ؛ لہذا یہ معنی اللہ کے لئے خاص ہے، اس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی ہے۔
• وہ معنی جو کسی مخلوق کے ساتھ قائم ہے ؛ لہذا یہ معنی مخلوق کے لئے خاص ہے، اسے اللہ کی ذات کے لئے ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بنا بریں اللہ کے اسماء و صفات اور مخلوقات کے اسماء و صفات کے درمیان پائی جانے والی قدر مشترک در اصل لفظِ عام کا ایک مسمی ہے، جس کا اطلاق ذہنی طور پر خالق و مخلوق دونوں پر ہوتا ہے، مثلا: صفت حياة ؛ خالق ومخلوق دونوں کے لئے ثابت ہے، مگر دونوں کی زندگی کی حقیقت مختلف ہے، اللہ جسے کبھی بھی موت، زوال یا فنا لاحق نہیں ہو سکتا ہے، مگر مخلوق جس کی موت ایک نہ ایک دن طئے ہے، اور یہی قانون تمام صفات میں نافذ ہوگا.
لہذا جو بھی صفت خالق و مخلوق کے لئے ثابت ہے اسے اسی کے لائق ثابت کیا جائے گا، اور خالق و مخلوق کی صفات میں تشبیہ ہرگز لازم نہیں آئے گی۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية، 21- 22، ومجموع الفتاوى لابن تيمية: 5/251، الإيضاح في أصول الدين، ص:182، والقدر المشترك في معاني الصفات بين أهل السنة والجماعة ومخالفيهم، ص:35-37)

نوٹ: اس مبحث کا فکرہ دکتور سلطان عمیری کے دروس صوتیہ سے مستفاد ہے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:15
✍ عبیداللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی پانچویں اصل: کلی معانی میں اشتراک کی وجہ سے وجودی اختصاص میں تماثل لازم نہیں آتا ہے ۔
• یہ اصل عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے، کوئی بھی ذی ہوش اور باشعور انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ یہ ایک قضیہ مسلمہ ہے؛ جو ہر دو مختلف چیزوں کو شامل ہے، اور ان میں صاحب بصیرت ہی فرق کر سکتا ہے ۔

• یہ ایک ایسی اصل ہے جس کی گہرائی تک اکثر لوگ نہیں پہونچ سکے، عقلی و فسلفی اصولوں کے تحت تاویلات باطلہ میں الجھ کر رہ گئے، اہل السنہ والجماعہ ہی ایک واحد جماعت ہے جس نے مسائلِ قدر مشترک کی باریکیوں کو خوب سمجھا، اس کی تہہ تک پہونچے، اس کی حقیقت کو پرکھا، اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے میں کامیاب ہوئے، جبکہ اہل تعطیل و تشبیہ اس اصل کی عدم فہمی کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔
• اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر بعض اسماء و صفات کو اپنے لئے اور انسانوں کے لئے بھی ثابت کیا ہے۔
لہذا ان اسماء کی اضافت جب اللہ کی طرف کی جائے تو وہ اللہ کے ساتھ خاص ہوں گے، ان میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا ہے، اور جب ان کی اضافت مخلوقات کی طرف کی جائے، تو وہ ان کے ساتھ خاص ہوں گے۔

• یہ معلوم ہو کہ کسی اسم میں اتفاق سے مخلوق کے ساتھ خالق کی مماثلت لازم نہیں آتی ہے، بلکہ یہ اتفاق محض اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں مسمی کے درمیان قدر مشترک ہے، اور یہ بھی واضح رہے کہ قدر ممیز و فارق قدر مشترک سے برتر ہے ۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:5، ومجموع الفتاوى لابن تيمية:5/202)

• قدر مشترک کے اثبات سے تشبیہ یا تمثیل لازم نہیں آتی ہے، لہذا بعض اسماء و صفات میں دو مسمی کے اتفاق سے استلزام تشبیہ و تمثیل کا دعوی باطل ہے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی صورت میں خالق و مخلوق کی صفات ان ہی کے اعتبار سے قائم ہوتی ہیں.
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:39-40، والتحفة المهدية، ص:272)

☆ قدر مشترک کے دلائل
▪ دلائل شرعیہ
• قرآن كريم :
1- اللہ کا ارشاد گرامی ہے:{الله لا إله هو الحي القيوم }[سورة البقره:255] اور فرمایا:{يخرج الحي من الميت}[سورة الأنعام:95]
پہلی آیت کریمہ میں اللہ نے اسم" الحي " کو اپنے لئے ثابت کیا ہے، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں انسان کے لئے اس نام کو ثابت کیا ہے۔

2- اللہ کا ارشاد گرامی ہے:{إن الله کان سميعا بصيرا}[سورة النساء:58] اور فرمایا:{إنا خلقنا الإنسان من نطفة أمشاج نبتليه فجعلناه سميعا بصيرا}[سورة الإنسان:2]
پہلی آیت کریمہ میں اپنے لئے اسم" السمیع اور البصیر " کو ثابت کیا ہے، اور دوسری آیت کریمہ میں انسان کے لئے ثابت کیا ہے۔

3- اللہ کا فرمان ہے:{إن الله بالناس لرؤوف رحيم}[سورة البقرة:143 ] اور فرمایا:{ لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنين رؤوف رحيم}[سورة التوبة:128]
یہاں بھی پہلی آیت کریمہ میں اللہ نے اپنے لئے اسم " الرؤوف اور الرحيم " کو ثابت کیا ہے، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- کے لئے ان ناموں کو ثابت کیا ہے۔

• یہ کچھ ایسے ناموں کی مثال ہے جنہیں خالق اور مخلوق دونوں کے لئے ثابت کیا گیا ہے، خالق اور مخلوق کےناموں میں اتفاق کی وجہ سےتمثیل یا تشبیہ لازم نہیں آتی ہے، یہ اسماء لفظا ومعنی متفق ضرور ہیں، مگر ان کے حقائق اور مقتضیات میں بڑا فرق ہے، جسے ہر عقلمند انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے۔

4- اللہ نے اپنے لئے صفت" علم " کو ثابت کیا ہے:{ولا يحيطون بشئ من علمه}[سورةالبقرة:255] اور انسان کے لئے بھی اسے ثابت کیا ہے:{وما أوتيتم من العلم إلا قليلا}[سورة الإسراء:85].

5- اللہ تعالی نے اپنے لئے اور انسان کے لئے بھی صفت" مشیئت " کو ثابت کیا ہے:{لمن شاء منكم أن يستقيم، وما تشاؤون إلا أن يشاء الله رب العالمين}[سورة التكوير:29].

• خالق اور مخلوق کی بعض صفات لفظا ومعنى ضرور مشترک ہیں، مگر ان کی حقیقت وكیفیت مختلف ہے، اس قدر مشترک کو سمجھنا باریک بینی کا کام ہے، لہذا جس نے اس فرق کو نہیں سمجھا وہ گمراہ ہوا، اور جس نے اس کی گہرائی کو سمجھا وہ راہ یاب ہوا۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:21- 30)

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط: 16
✍ عبيد الله الباقي
اثبات منہج صفات کی پانچویں اصل: کلی معانی میں اشتراک کی وجہ سے وجودی اختصاص میں تماثل لازم نہیں آتا ہے ۔
☆ قدر مشترک کے دلائل
▪ سنت نبوی
1- صفت" رحمت" اللہ کے لئے اور بندوں کے لئے بھی ثابت ہے، اس پر حدیث نبوی دلالت کرتی ہے :"قدم على النبي- صلى الله عليه وسلم - سبي، فإذا امرأة من السبي قد تحلب ثديها، إذا وجدت صبيا في السبي، أخذته، فألصقته ببطنها وأرضعته، فقال لنا النبي- صلى الله عليه وسلم- :" أترون هذه طارحة ولدها في النار؟" قلنا: لا، وهي تقدر على أن لا تطرحه، فقال:" لله أرحم بعباده من هذه بولدها".(صحيح البخاري[5999]، صحيح مسلم[2754].
نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- کے پاس کچھ قیدی آئے، قیدیوں میں ایک عورت تھی، جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے اسے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا، اور اس کو دودھ پلانے لگی، ہم سے حضور اکرم - صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا کہ:" تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟" ہم نے عرض کیا کہ:نہیں، جب تک اس کے اندر قدرت ہے، اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈال سکتی ہے، تو نبی اکرم- صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا کہ:" اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے"۔
• اس حدیث سے واضح ہے کہ اللہ تعالی صفت " رحمت" متصف ہے، اور انسان کے اندر بھی صفت رحمت ہوتی ہے، مگر خالق اور مخلوق کی رحمتوں میں کتنا فرق ہے، اس حدیث سے صاف ظاہر ہے، بے شک اللہ کی صفت رحمت اس کے لائق ہے، اور انسان کی رحمت یقینا اس کے مناسب ہے، خالق اور مخلوق کی صفت رحمت میں قدر مشترک ضرور ہے، مگر قدر ممیز اسے فرق کر دیتی ہے۔

2- اللہ تبارک و تعالی کے لئے صفت "غیرت" ثابت ہے، جبکہ انسان کی بھی غیرت ہوا کرتی ہے، اس پر حدیث نبوی دلالت کرتی ہے، نبی- صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا:"إن الله يغار وإن المؤمن يغار، وغيرة الله أن يأتي المؤمن ما حرم عليه"(صحيح البخاري[5223]، وصحيح مسلم[2761]).
اللہ کو غیرت آتی ہے، اور مومن کو بھی غیرت آتی ہے، اور اللہ کی غیرت کا مطلب یہ ہے کہ مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے۔

• اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ صفت "غیرت" سے متصف ہے، اور یہ اس کے شایان شان ہے، مشیئت الہی سے متعلق ہے، اور پامال حرمت کے وقت اللہ کو غیرت آتی ہے۔
اور مومن کی غیرت اس کے معاملات میں غیروں کی دخل اندازی سے مشتعل ہوتی ہے۔
لہذا اس سے واضح ہوا کہ خالق اور مخلوق کی صفت" غیرت" میں قدر مشترک ہے، مگر دونوں کی یہ صفت ان کے لائق اور مناسب ہے۔
ایسی بہت ساری احادیث نبویہ ہیں جن میں صفات الہیہ ثابت ہیں، اور وہ صفات انسانوں کے اندر بھی پائی جاتی ہیں، اس لئے اس طرح کی تمام صفات میں یہی کہا جائے گا" ان میں قدر مشترک ہے، مگر خصائص ذاتیہ کی بنا پر صفات موصوف کے عین موافق ہوتی ہیں "۔

"قدر مشترک" دلائل شرعیہ کے ساتھ عقلی دلیل سے بھی ثابت ہے۔
▪ عقلی دلیل
• تماثلِ صفات و افعال تماثلِ ذات کو متضمن ہے، لہذا اللہ تعالی کا کوئی نظیر یا مثیل نہیں، وہ اپنی ذات، عبادت، افعال، اور اسماء و صفات بلکہ ہر اعتبار سے اکیلا اور تنہا ہے۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ ہر دو موجود شئی کے درمیان " قدر مشترک " کا پایا جانا ضروری ہے، مگر ان میں پائی جانے والی" قدر ممیز " سے ہر ایک کی تمییز ہوتی ہے، چنانچہ خالق اپنی صفات اور کمال مطلق میں متمیز ہے، جبکہ بندوں کا نقص و ضعف ہی اس کی اصل پہچان ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں شرح حديث النزول،ص: 73-84).
مثال: لفظ" انسان " یہ لفظ مطلق ہے، اگر کسی سے کسی انسان کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ یقینا تعیین شخص کا طلب گار ہوگا، کیونکہ دنیا میں متعین طور پر ہی کسی کا نام " انسان " ہو سکتا ہے، بنا بریں لفظ" انسان " کا تصور صرف ذہن ہی میں ہو سکتا ہے، اگر خارج میں اس کی تلاش مطلوب ہو تو اس کی تعیین ضروری ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص: 128، و الصفدية:1/100، ومجموع الفتاوى لابن تيمية:6/206).

• قرآن و حدیث میں بہت سارے ایسے اسماء و صفات کا ذکر آیا ہے، جن میں بعض اسماء و صفات جیسے: سمیع، بصیر، رؤوف، رحم، غيرت، رحمت، فرحت، ہاتھ وغیرہ بندوں کے لئے بھی ثابت ہیں، لہذا منجملہ اسماء و صفات کی دو قسمیں ہیں:
1- جو اللہ کے ساتھ قائم ہیں، اور انہیں کسی بھی صورت میں بندوں کے لئے ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے، جیسے: الإله، رب العالمين وغیرہ۔
2- جو خالق اور مخلوق دونوں کے لئے ثابت کیے جا سکتے ہیں، جیسے: سمیع ، بصیر، اور رحمت و فرحت وغیرہ، لہذا اس طرح کے اسماء و صفات میں خالق اور مخلوق اپنی اپنی خصوصیت کے اعتبار سے متمیز ہیں۔

• دوسری قسم سے تماثل لازم نہیں آتا ہے کیونکہ معنی عام کا اطلاق خالق اور مخلوق دونوں پر ہوتا ہے، مگر ہر موجود اپنی ذات، افعال اور صفات میں دوسرے وجود کے مقابلے میں متمیز ہے، ہر موجود کے پاس کچھ ایسے خصائص ہیں جن کی بنیاد پر اس کی ایک الگ پہچان ہوتی ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:39- 40، 128، و مجموع الفتاوى لابن تيمية:2/62-63، ومنهاج السنة:2/596-598)۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط: 17
✍ عبید اللہ الباقي
اثبات منہج صفات کی پانچویں اصل: کلی معانی میں اشتراک کی وجہ سے وجودی اختصاص میں تماثل لازم نہیں آتا ہے ۔

☆ قدر مشترک میں مختلف فرقوں کا موقف
▪ اہل السنہ والجماعہ
قرآن و سنت میں خالق و مخلوق کے لئے جو اسماء وصفات ثابت ہیں، ان میں" قدر مشترک " پائی جاتی ہے، مگر " قدر ممیز " کے ذریعہ ان کے درمیان تمیز ہو جاتی ہے.
• قدر مشترک و ممیز کی اصطلاح کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ اس اصل کی اصالت یا مفہوم آئمہ سلف کے یہاں متداول تھا، جسے امام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ- نے حالات اور تقاضے کے اعتبار سے خوب مفصل بیان کر کے مخالفین کو دندان شکن جواب دیا ہے۔

▪ قدر مشترک پر آئمہ کرام کے چند اقوال :
1- امام عبد الرحمن بن القاسم المالکی (متوفی 191ھ) - رحمہ اللہ - نے کہا:" إن الله ضحك، وذلك لأن الضحك، والنزول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ليس على جهة ما يكون من عباده " ( التمهيد:7/152)
اللہ تعالی ہنستا ہے، اور اس کی ہنسی، نزول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب صفتیں اس طرح سے نہیں ہیں جس طرح بندوں کی ہوا کرتی ہیں۔

• امام ابن القاسم- رحمہ اللہ - نے ان تمام صفات فعلیہ کو ثابت کیا ہے، یہ صفات بندوں کی صفات کے ساتھ اسماء میں متشابہ ہیں، مگر ان کی حقیقت مختلف ہے، بنا بریں انہوں نے ان صفات کے اثبات میں کوئی حرج نہیں سمجھا ہے۔

2- امام أحمد بن حنبل (متوفی 241ھ) - رحمہ اللہ- نے جہمیہ کی تردید میں فرمایا:"............... والجوارح إذ شهدت على الكفار، فقالوا:{لم شهدتم علينا قالوا أنطقنا الله الذي أنطق كل شيء}[سورة فصلت:21] أترها أنها نطقت بجوف وفم ولسان؟ ولكن الله أنطقها كيف يشاء، كذلك الله تكلم كيف شاء من غير أن يقول بجوف ولا فم ولا شفتين ولا لسان "( الرد على الجهمية الزنادقة،ص:136-137)
جب جوارح کفار کے خلاف گواہی دیں گے تو وہ کہیں گے:" ہمارے خلاف تم کیوں گواہی دے رہے ہو؟ تو وہ جواب میں کہیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی دی ہے جس نے تمام چیزوں کو قوت گویائی دی تھی" تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ پیٹ، منہ اور زبان سے بولیں گے، نہیں بلکہ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ جس طرح چاہے بلوا سکتا ہے، ایسے ہی وہ جس طرح چاہے پیٹ، منہ، ہونٹوں، اور زبان کے ساتھ بولے بغیر ہی بول سکتا ہے".

• امام احمد- رحمہ اللہ- کے اس کلام سے صاف واضح ہے کہ اسماء میں توافق سے مسمیات میں توافق لازم نہیں آتا ہے، اللہ کے اور بندوں کی صفات کے درمیان ضرور قدر مشترک ہے، مگر محض تساویِ اسماء سے تماثل حقیقت لازم نہیں آتا ہے۔

3- امام عثمان بن سعيد الدارمي (متوفى 280ھ) - رحمہ اللہ - نے فرمایا:" إنما نصفه- أي الله تعالى- بالأسماء لا بالتكييف، ولا بالتشبيه، كما يقال: إنه ملك كريم، عليم، حكيم، حليم، رحيم، لطيف، مؤمن، عزيز، جبار، متكبر، وقد يجوز أن يدعى البشر ببعض هذه الأسماء، وإن كانت مخالفة لصفاتهم، فالأسماء فيها متفقة، والتشبيه والكيفية متفرقة ......."
(نقض عثمان بن سعيد الدارمي على المريسي الجهمي العنيد،ص:129).
ہم اسماء سے اللہ تعالی کی صفت بیان کرتے ہیں، (اور اس باب کو) نہ تکییف سے اور نہ ہی تشبیہ سے( بیان کرتے ہیں)، جیسے کہا جاتاہے کہ :" وہ ملِک، کریم، علیم، حکیم، حلیم، رحیم، لطیف، مومن، عزیز، جبار، متکبر ہے، ان ناموں میں سے بعض ناموں سے انسانوں کو بلایا جا سکتاہے، اور اگر چہ یہ نام ان کی صفات کے مخالف ہیں، لہذا یہ اسماء متفق ہیں، مگر تشبیہ اور کیفیت متفرق ہے".

• امام دارمی- رحمہ اللہ - کے اس قول سے بالکل واضح ہے کہ اسماء میں اتفاق ہو سکتا ہے، مگر ان کی حقیقت مختلف ہوتی ہے، اور اس کی سب سے عظیم مثال جنت ہے، وہاں کی چیزوں کے بہت سارے نام دنیا میں موجود ہیں، مگر ان میں کتنا فرق ہے وہ تو صرف رب جانتا ہے۔

4 - امام محمد بن إسحاق بن حزيمہ ( متوفی311ھ) - رحمہ اللہ - نے فرمایا كہ :" نقول: إن وجه الله القديم لا يزال باقيا، فنفى عنه الهلاك والفناء، ونقول:إن لبني آدم وجوها كتب عليها الهلاك.................وكل من فهم عن الله خطابه يعلم أن هذه الأسامي التي هي لله تعالى أسامي، بين الله ذلك في كتابه، وعلى لسان نبيه- صلى الله عليه وسلم- مما قد أوقع تلك الأسامي على بعض المخلوقين، ليس معنى تشبيه الخالق بالمخلوق، لأن الأسامي قد تتفق وتختلف المعاني ".
( كتاب التوحيد،ص:53-80).
ہم کہتے ہیں کہ اللہ کا قدیم چہرہ ہمیشہ باقی رہےگا، وہ کبھی بھی ہلاک و فنا نہیں ہو سکتا ہے، جبکہ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ انسانوں کے چہروں کا ہلاک ہونا طئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جو بھی خطاب الہی کی فہم رکھتا ہے اسے پتہ ہے کہ یہ نام اللہ کے نام ہیں جسے اللہ نے اپنی کتاب یا اپنے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- کی زبانی بیان کیا ہے، جن میں سے ان ناموں کو بعض مخلوق کے لئے ثابت کیا ہے اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے خالق اور مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آئے گی، کیونکہ کبھی کبھار نام متفق ہوتے ہیں، اور ان کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔

• امام ابن خزیمہ کی یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دو موجود شیئ میں بعض اسماء متفق ہوتے ہیں، مگر ان کے مسمیات مختلف ہوتے ہیں، لہذا قرآن و سنت میں خالق و مخلوق کے لئے ثابت شدہ اسماء صرف لفظاً و معنیً متفق ہیں، اور ان کی حقیقت مسمی کے اعتبار سے مختلف ہے۔

5- امام أبو الحسن اشعری (متوفی324ھ) - رحمہ اللہ - نے کہا:" ألا ترى أن وصف الباري عزوجل بأنه موجود، ووصف الإنسان بذلك لا يوجب تشابها بينهما، وإن كانا قد اتفقا في حقيقة الموجود، ولو تشابها بذاك لوجب تشابه السواد والأبيض بكونهما موجودين، فلما لم يجب بذاك بينهما تشابه، وإن كانا قد اتفقا في حقيقة الموجود "(رسالة إلى أهل الثغور، ص:213-214)
کیا تم یہ نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ موجود ہے، اور انسان بھی موجود ہے، اور دونوں حقیقتِ موجود میں متفق ہونے کے باوجود ان کے درمیان تشابہ نہیں ہے، اگر اس سے تشابہ ہوتا تو کالا اور گورا میں تشابہ لازم آتا کیونکہ دونوں موجود ہیں، مگر حقیقتِ موجود میں تشابہ کے باجود ان کے درمیان تشابہ نہیں ہے۔

• امام اشعری کا یہ قول اس بات دلالت کرتا ہے کہ اسماء میں اتفاق کی وجہ سے مسمی کی حقیقت میں اتفاق لازم نہیں آتا ہے، خصائص ذات کی بنیاد پر ہر ایک کی حقیقت مختلف ہوتی ہے۔

6 - امام محمد بن اسحاق بن مندہ (متوفی 395ھ) - رحمہ اللہ - نے فرمایا کہ:" ۔۔۔۔۔۔وأن أسامي الخلق وصفاتهم وافقتها في الاسم وباينتها في جميع المعاني بحدوث خلقه وفنائهم، وأزلية الخالق وبقائه، وبما أظهر من صفاته ومع استدراك كيفيتها فقال عزوجل:{ليس كمثله شيء وهو السميع البصير }[سورة الشورى:11]
اور مخلوقین کے نام وصفات اسم میں متفق ہیں، مگر تمام معانی میں مختلف ہیں، کیونکہ وہ صفت حدوث و فناء سے متصف ہیں، جبکہ خالق کی صفت ازلی اور باقی رہنے والی ہے، مزید برآیں یہ کہ اس کی صفات تو ( لفظا و معنی) ظاہر ہیں، مگر ان کی کیفیت مجہول ہے، چنانچہ اللہ نے فرمایا " اس کی طرح کوئی چیز (ذات) نہیں ہے، اور سننے اور دیکھنے والا ہے.

• امام ابن مندہ کا یہ قول بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بعض صفات نام میں متفق ہو سکتے ہیں مگر ان کی حقیقت مختلف ہوتی ہے۔

7- شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( متوفی 728ھ) - رحمہ اللہ - نے فرمایا کہ:.... ولهذا سمى الله نفسه بأسماء، وسمى نفسه بصفات، فكانت تلك الأسماء مختصة به إذا أضيفت إليه، لا يشاركه فيها غيره، وسمى بعض مخلوقاته بأسماء مختصة بهم مضافة بھم، توافق الأسماء إذا قطعت الإضافة والتخصيص، ولم يلزم من اتفاق الاسمين تماثل مسماها ....."( التدمرية،ص:5)
اور اسی لئے اللہ نے خود کو چند ناموں سے نام دیا ہے، اور کچھ صفات سے متصف کیا ہے، اور یہ نام اس کے ساتھ خاص ہیں جب ان کی نسبت اس کی طرف کی جائے،ان اسماء میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ہو سکتاہے، اور اپنی مخلوقات کو چند ایسے ناموں سے نام دیا ہے؛ جو ان کے ساتھ خاص ہیں،ان کی طرف منسوب ہیں، جب اضافت و تخصیص نہیں ہوتی ہے تو اسماء متفق ہوتے ہیں، اور دو ناموں کے اتفاق سے مسمی کا تماثل لازم نہیں آتا ہے۔

خلاصہ :
• اللہ تعالی نے موجودات کے اندر دو چیزوں کو ودیعت کیا ہے:
1- متشابھات
2- متغیرات
متشابھات میں " قدر مشترک " پائی جاتی ہے، جبکہ متغیرات میں چند مخلتف خصائص کی بنیاد پر ہر ایک کی الگ الگ پہچان ہوتی ہے۔

• دنیا میں پائے جانے والے ہر دو وجود چند چیزوں میں مشترک ہوتے ہیں، تو کچھ چیزوں میں مختلف ہوتے ہیں، لہذا ہر وہ اسم یا صفت جسے اللہ نے اپنے اور بندوں کے لئے ثابت کیا ہے اس میں دو امور کا التزام کرنا ضروری ہے:
1- خالق اور مخلوق کے لئے اس اسم یا صفت کے لفظ و معنی کو ثابت کرنا ہے، اور اس طرح کے نام و صفت میں " قدر مشترک " ہے۔
2- اس اسم یا صفت میں خالق و مخلوق کی کیفیت و حقیقت مختلف ہوتی ہے،جس کی تمیز " قدر ممیز " کے ذریعہ ہوتی ہے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:18
✍ عبید اللہ الباقي
اثبات منہج صفات کی پانچویں اصل: کلی معانی میں اشتراک کی وجہ سے وجودی اختصاص میں تماثل لازم نہیں آتا ہے ۔

☆ قدر مشترک میں مختلف فرقوں کا موقف
▪ قدر مشترک میں اہل تعطیل کا موقف
¤ فلاسفہ :
جو فلاسفہ اسلام کی طرف منسوب ہیں، انہوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر صفات الہی کا انکار کیا ہے،ان کے یہاں وجود الہی محض ایک ذہنی تصور ہے، جس سے اللہ کی تشبیہ ممتنعات، معدومات، اور جمادات سے بھی لازم آتی ہے.

• قدر مشترک کے مسئلے میں ان کی رائے کی تشخیص کرنا مشکل امر ہے، مگر بعض آئمہ فلاسفہ کے اقوال سے ان کی آراء کی جھلک نظر آتی ہے۔
چنانچہ کندی نے کہا:" - اس کے نزدیک اللہ - نہ عنصر ہے،نہ جنس ہے،نہ نوع ہے،اور نہ ہی فرد ہے،بلکہ وہ مطلقا اکیلا ہے۔۔۔"( موسوعة الفلسفة:2/303).
فارابي نے کہا کہ:" وہ اپنے جوہر کے ساتھ اپنے سوا دوسروں سے مبائن اور الگ تھلگ ہے"( آراء أهل المدينة الفاضلة للفارابي،ص:45).
اور ابن سینا نے کہا کہ:" واجب الوجود ہی صرف اکیلا ہے، جو کسی اور کے ساتھ مشارک نہیں ہو سکتا ہے، نہ جنس میں اور نہ نوع میں ۔۔"(الإشارات التنبيهات:3/213).

• آئمہ فلاسفہ کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ فلاسفہ خالق اور مخلوق کے درمیان پائی جانے والی قدر مشترک کا انکار کرتے ہیں، اور " دلیل ترکیب " کی بنا پر تمام صفات الہی کا کلی طور پر انکار کیا، جس سے وجود الہی کا انکار لازم آتا ہے.

¤ جہمیہ
انہوں نے تمام اسماء و صفات کا انکار کیا ہے۔

• چنانچہ جہم بن صفوان نے ایک جگہ کہا کہ :" اللہ کو شئی نہیں کہا جا سکتا ہے، کیونکہ شئی یہ مخلوق ہے جس کی کوئی مثال ہو"(مقالات الإسلاميين،ص:146)۔
اور یہ بھی کہا کہ:" باری کی ایسی صفت بیان نہیں کی جا سکتی ہے جس سے اس کی مخلوق کی صفت بیان کی جاتی ہو، کیونکہ یہ تشبیہ کو متقاضی ہے"(الملل والنحل:1/68)۔

• لہذا اس کے اقوال کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ جہمیہ نے خالق و مخلوق کے درمیان پائی جانے والی قدر مشترک کا سرے سے انکار کیا ہے، اور دعوی " دلیل تشبیہ و تجسیم " کی بنیاد پر صفت" قدرة، اور خلق " کے علاوہ تمام صفات الہی کا انکار کیا ہے۔

¤ معتزلہ
معتزلہ نے در اصل فلاسفہ اور جمہیہ سے اپنے اصولوں کو اخذ کیا ہے، لہذا کبھی فلاسفہ کے راستے پر چلتے ہیں تو کبھی جہمیہ کے منہج کو اپناتے ہیں، انہوں نے اسماءکو محض علمیت کی بنا پر ثابت کیا ہے،اور باقی تمام صفات کا انکار کیا ہے.

• معتزلہ نے بھی خالق و مخلوق کے درمیان پائی جانے والی قدر مشترک کا انکار کیا ہے، جیسا کہ ابو موسى المردار نے کہا کہ:" جس نے بھی کہا کہ اللہ کو کسی بھی طرح آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، تو وہ اللہ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینے والا ہے، اور مُشَّبِہ کافر ہے"(الانتصار:1/129)۔
اور قاضی عبد الجبار نے کہا کہ:" إثبات رؤیت سے اس کا حدوث، یا ایک طرح کا حدوث لازم آئے گا، پھر اس سے مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آئے گی"(شرح الأصول الخمسة،ص:276)۔

• آئمہ معتزلہ کے اقوال کے سیاق سے یہی پتہ چلتا ہے کہ معتزلہ نے بھی قدر مشترک کا انکار کیا ہے، اور دلیل " تشبیہ، وتجسیم، وحلول حوادث " کی بنیاد پر صفت" علم، قدرة، اور إدراك"(بعض معتزلہ کے نزدیک) کے علاوہ تمام صفات الہیہ کا انکار کیا ہے۔

¤ اشاعرہ و وماتردیہ
انہوں نے اسماء و صفات کے باب میں بعض اصولوں کو معطلہ سے اخذ کیا ہے،اور بعض اصولوں کو اہل السنہ والجماعہ سے حاصل کیا ہے، اسی لئے بعض علماء نے ان کا نام ملفقہ رکھا ہے۔

• اشاعرہ نے بھی قدر مشترک کا انکار کیا ہے، جیساکہ جوینی نے کہا کہ:۔۔۔۔۔۔ رب تعالی کسی حادث کا مشابہ نہیں ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی حادث اس کے مشابہ ہو سکتا ہے"(الإرشاد، ص:340)، اور یہ بھی کہا کہ:" ہر وہ دو چیز جن کے درمیان مماثلت ہے، ان کے درمیان کسی بھی طرح سے اختلاف نہیں پایا جا سکتا ہے"(الشامل،ص:186)۔
اسی طرح باقلانی نے کہا کہ:"۔۔۔۔۔یہ جائز ہی نہیں کہ مخلوقات کو پیدا کرنے والا ان کے مشابِہ ہو...."(تفصیل کے لئے رجوع کریں التمهيد،ص:24-25).

• ماتریدیہ کا موقف مضطرب ہے، کبھی قدر مشترک کو ثابت کرتے ہیں تو کبھی اس کا انکار کرتے ہیں، چنانچہ امام ماتریدی نے ایک جگہ کہا کہ:"۔۔۔۔۔۔اسماء میں موافقت سے تشابہ لازم نہیں آتا ہے ۔۔۔۔۔"( تفصيل كے لیے رجوع کریں التوحيد،ص: 24-25)، تو دوسری جگہ کہا کہ:" ۔۔۔۔۔اللہ کے کلام اور مخلوق کے کلام میں اختلاف ہے، مخلوق کا کسی بھی درجے کا کلام ہو، وہ اللہ کے کلام تک نہیں پہونچ سکتا ہے، لہذا جو اس سے اللہ کے کلام کا اندازہ لگائے گا وہ غافل ہے۔۔۔۔۔۔۔"(تفصیل کے رجوع کریں التوحيد،ص:94)۔

• آئمہ اشاعرہ و وماتردیہ کے اقوال کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں دلیل" حلول حوادث، تشبیہ، تجسیم، اور ترکیب " کی بنیاد پر سات یا آٹھ صفات کے علاوہ باقی تمام صفات کا انکار کیا ہے، اور اس کے لئے سب سے اہم سبب یہی" قدر مشترک " ہے، شبہ تشبیہ کی بناء پر عقلی اصولوں کو اپنایا، پھر یہ نفی صفات تک پہونچ گئے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:19
✍ عبيد الله الباقي
اثبات منہج صفات کی پانچویں اصل: کلی معانی میں اشتراک کی وجہ سے وجودی اختصاص میں تماثل لازم نہیں آتا ہے ۔
☆ قدر مشترک میں مختلف فرقوں کا موقف
▪ قدر مشترک میں اہل تشبیہ کا موقف
¤ رافضہ
• متقدمین اور متاخرین رافضہ اس باب میں متناقض ہیں، متقدمین نے " تشبیہ و تجسیم " میں غلو کیا ہے، جبکہ متاخرین نے" نفی وتعطیل " میں غلو سے کام لیا ہے۔
• آئمہ رافضہ کے اقوال تعطیل و تمثیل کے درمیان ہی گھومتے ہیں، لہذا متقدمین تجسیم کے قائل ہیں، اور جبکہ متاخرین نے منہج تعطیل کو اپنایا ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں منهاج السنة:2/242-243، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص:118)
▪ قدر مشترک پر علماء رافضہ کے چند اقوال :
1- بیان بن سمعان نے کہا کہ:" اللہ انسان کی صورت میں ہے۔۔۔۔۔۔۔"(منهاج السنة:2/503)۔
2- داود جواربي نے کہا کہ:"اللہ جسم ہے، اور اس کی لاش ہے، اور وہ انسان کی صورت میں ہے جس کا گوشت، خون،بال، اور ہڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے"(مقالات الإسلاميين:1/209)۔

• علماء رافضہ کے اقوال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اللہ کو مخلوق کے ساتھ مشابہ قرار دیا ہے، اور اس بنیاد پر خالق و مخلوق کے درمیان پائی جانے والی قدر مشترک کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا انکار کیا ہے۔

¤ غلاة صوفیہ
• وجود الہی اور اس کی حقیقت کو لے کر صوفیہ کی مختلف آراء ہیں، چنانچہ کسی نے کہا کہ:" جو بھی چیز اچھی ہو وہی ہمارا رب ہے " تو کسی نے کہا کہ:" اللہ کے اعضاء و جوارح ہیں ۔۔۔۔" جب کہ ان میں بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ:" اللہ کو کسی خاص صورت میں نہیں بلکہ مختلف صورتوں میں مطلق طور پر دیکھا جا سکتا ہے "۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریں مقالات الإسلامين،ص:288-299، منهاج السنة:2/622-625، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص:121-125).

▪ قدر مشترک پر علماء صوفیہ کے چند اقوال:
1- حلاج نے کہا کہ:" میرے اور میرے رب کے درمیان دو صفتوں کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے:ہمارا وجود اسی سے ہے،اور ہمارا قوام و بقا اسی سے حاصل ہے "(الطواسين، ص:198)۔
2- ابن عربي نے کہا کہ:" پاک ہے وہ ذات جس نے تمام چیزوں کو ظاہر کیا اور خود وہی وہ سب ہیں"(الفتوحات المكية:2/604)۔

• مذكوہ منقولات سے واضح ہے کہ صوفیہ اللہ کی ذات کو لے کر مختلف آراء رکھتے ہیں، خالق و مخلوق کے لئے ثابت شدہ صفات میں پائی جانے والی قدر مشترک میں غلو سے کام لیا، چنانچہ خالق کے لئے مخلوق کی صفات کو ثابت کیا، جس سے نہ صرف تشبیہ میں مبتلا ہوئے، بلکہ نفی و تعطیل میں بھی واقع ہوئے۔

جاری ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط: 20
✍ عبيد الله الباقي
اثبات منہج صفات کی چھٹی اصل: ذات الہی کے ساتھ قائم صفات کی تقسیم اجتھادی امر ہے ۔
• صفات الہیہ کی تقسیم اجتھادی امر ہے، کیونکہ اس کا تعلق باب اخبار سے ہے، اور واضح رہے کہ باب اخبار توقیفی نہیں ہے، بنا بریں صفات الہیہ کی متعدد قسمیں ہیں۔

▪ اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک صفات کے اقسام
¤ ہمارے علم کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- وہ صفات جو ہمیں معلوم ہیں
2- وہ صفات جو ہمیں معلوم نہیں ہیں۔

¤ نصوص میں ورود کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- صفات ثبوتیہ : وہ صفات جنہیں اللہ یا اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کیا ہے۔
2- صفات منفیہ : وہ صفات جن کی نفی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔

¤ اللہ کے تعلق کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- صفات ذاتیہ : وہ صفات جو ذات الہی سے الگ نہ ہوں۔
2- صفات فعلیہ : وہ صفات جن کا تعلق اللہ کی مشیئت و ارادہ سے ہو۔

¤ آثار کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- صفات متعدیہ : وہ صفات جو بلا حرف جر کے مفعول کی طرف متعدی ہوں۔
2- صفات لازمہ : وہ صفات جو حرف جر کے ساتھ مفعول کی طرف متعدی ہوں۔

¤ دلائلِ ثبوت کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- صفات شرعیہ عقلیہ : وہ صفات جن کے اثبات میں دلیل شرعی، دلیل عقلی، اور دلیل فطری شریک ہوں۔
2- صفات خبریہ : وہ صفات جو صرف دلیل سمعی و خبری ہی سے ثابت ہوں۔

¤ طبیعت و حقیقت کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- صفات جلال وجبروت : وہ صفات جو دلوں میں اللہ کا خوف و تعظیم پیدا کرے۔
2- صفات جمال و احسان : وہ صفات جو دلوں میں نرمی، محبت، اورکرم وغیرہ جیسا نیک جذبہ قائم کرے۔

¤ اشتراک و اختصاص کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں :
1- وہ صفات جن سے صرف اللہ ہی متصف ہے۔
2- وہ صفات جن سے انسان بھی متصف ہو سکتا ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:57- 72)

▪ جن لوگوں نے تمام صفات ثبوتیہ کا انکار کیا ہے، ان کے نزدیک صفات کے اقسام
• جنہوں نے تمام صفات ثبوتیہ کا انکار کیا ہے ، وہ فلاسفہ، جمہیہ، معتزلہ، زیدیہ، رافضہ، نجاریہ، ضراریہ، اباضیہ، وابن حزم وغیرھم ہیں۔
• ان کے نزدیک صفات ثبوتیہ کی کوئی قسم نہیں ہے، البتہ صفات سلبیہ کی تین قسمیں ہیں:
1- صفات سلبیہ محضہ۔
2- صفات اضافیہ محضہ۔
3- صفات سلبیہ اضافیہ۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریں الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:75-78)

▪ جن لوگوں نے بعض صفات کا انکار کیا ہے، اور بعض کو ثابت کیا ہے، ان کے نزدیک صفات کے اقسام ۔
• یہ کلابیہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں، جنہیں صفاتیہ بھی کہا جاتا ہے۔
☆ کلابیہ اور متقدمین اشاعرہ کے نزدیک صفات کے اقسام
¤ ذات الہی کے ساتھ تعلق کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں:
1- صفات ذاتیہ ۔
2- صفات فعلیہ ۔
¤ دلائل ثبوت کے اعتبار سے صفات کی دو قسمیں ہیں:
1- صفات عقلیہ۔
2- صفات سمعیہ۔
☆ متاخرین اشاعرہ اور ماتریدیہ کے نزدیک صفات کے اقسام
ان کے نزدیک صفات کے چار اقسام ہیں:
1- صفات المعاني.
2- صفات المعنوية.
3- صفات السلبية.
4- صفات النفسية.
(تفصیل کے لئے رجوع کریں الصفات الإلهية تعريفها وأقسامها،ص:79)

جاری ہے
 
Top