- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط:11
عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی تیسری اصل: باعتبار حقیقت تمام صفات الہیہ کا ایک ہی حکم ہے
• حقیقت اور مقتضیات کے اعتبار سے اللہ تعالی کی ساری صفتوں کا ایک ہی حکم ہے، کیونکہ ہر ذات صفت کو مستلزم ہے، اور ہر ذات کی صفت اسی کے لائق و مناسب ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالی کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ تمام صفتوں کو اس کے لئے ثابت کرنا ضروری ہے، انواع صفات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا، اسی لئے شیخ الإسلام ابن تيميہ - رحمه الله- نے فرمایا کہ:" القول في بعض الصفات كالقول في البعض الآخر".( التدمرية،ص:31)
• اس اصل کے ذریعہ عقیدہ اشاعرہ وماتردیہ، اور معتزلہ سے عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کی تمییز ہوتی ہے، اسی اصل کے ذریعہ آئمہ سلف نے مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا ہے، اور خصوصا شیخ الاسلام ابن تیمیہ، اور امام ابن القیم - رحمهما الله - نے تردید مخالفین میں اس اصل کی خوب شرح کی ہے۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:31-42، الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة،ص:220-230)
▪ صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا موقف
انہوں نے صفات الہیہ کی حقیقت و مقتضیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اثبات میں کوئی فرق نہیں کیا، چاہے ان کی نوعیت ذاتیہ ہو یا فعلیہ، لہذا جو کتاب و سنت میں ثابت ہیں ان کو ثابت کیا، اور جن کی نفی آئی ہے ان کی نفی کی، ساتھ ہی ان کے ضد کمال کو بھی ثابت کیا، اور یہی صفات کے باب میں ان کا اصول رہا ہے، اور اسی اصل کے ذریعہ اہل السنہ والجماعہ نے منہج اشاعرہ وماتریدیہ، اور معتزلہ کی تردید کی ہے.
▪ صفات کے باب میں اشاعرہ کا موقف
☆ اشاعرہ کی دو قسمیں ہیں :
• متقدمین : جن میں ابو الحسن اشعری، ابو بکر باقلانی، ابو بکر ابن فورک وغیرھم شامل ہیں
• متاخرین : جن میں ابو المعالی جوینی، رازی، آمدی وغیرھم شامل ہیں۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمية:4/147-48، منهاج السنة:2/223-224)
☆ صفات کے باب میں متقدمین اشاعرہ کا موقف :
انہوں نے منجملہ صفات خبریہ کو ثابت کیا، اس کے لئے نص کو اصل اور عقل کو تابع قرار دیا، لیکن اس کے پس پردہ ایسی باطل تاویلیں کیں کہ وہ نفی صفات تک پہونچ گئے، جہاں تک صفات اختیاریہ کی بات ہے تو انہوں نے دلیل " حلول حوادث " سے ان کا انکار کیا۔
(مجموع الفتاوى لابن تيمية :4/147، 6/520 ونشأة الأشعرية وتطورها،ص:320)
☆ صفات كے باب میں متاخرین اشاعرہ کا موقف :
انہوں نے صرف سات صفات کو ثابت کیا،جو مندرجہ ذیل ہیں:
1- القدرة
2-الإرادة
3- العلم
4-الحياة
5- السمع
6-البصر
7- الكلام
(مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/359-360)
• صرف سات صفات کو ثابت کرنے کی وجہ :
ان کا دعوی ہے کہ عقل صرف ان ہی سات صفات پر دلالت کرتی ہے، اسی لئے صرف ان سات صفات کو ثابت کیا، باقی تمام صفات کا انکار کیا۔
( شرح العقيدة التدمرية لابن عثيمين،ص:118)
• صفات سبعہ کے علاوہ صفات خبریہ کے ساتھ ان کا طریقہ تعامل :
صفات سبعہ کے علاوہ دیگر صفات خبریہ کے سلسلے میں متاخرین کا دو گروہ ہے:
• پہلا گروہ : جنہوں نے صفات خبریہ کا انکار کیا، اور اس کے لئے انہوں نے دو طریقوں کو اپنایا:
• تاویل
یا
• تفویض
دوسرا گروہ : انہوں نے توقف اختیار کیا، جیسے رازی اور آمدی وغیرھما۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں مجموع الفتاوى لابن تيمية:4/147-148، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء الصفات:94)
• انکار صفات اختیاریہ پر یہ متاخرین اشاعرہ متقدمین اشاعرہ کے ساتھ متفق ہیں، لہذا انہوں نے بھی منجملہ تمام صفات اختیاریہ کا انکار کیا۔
( تفصیل کے لئے دیکھیں مجموع الفتاوى لابن تيمية:5/410، 12/366، موقف ابن تيمية من الأشاعرة:2/931)
☆ خلاصہ :
1- اثبات صفات عقلیہ سبعہ پر متقدمین و متاخرین اشاعرہ متفق ہیں۔
2- انکار صفات اختیاریہ پر متقدمین و متاخرین اشاعرہ متفق ہیں۔
3- صفات سبعہ کے علاوہ صفات خبریہ میں متقدمین و متاخرین کا موقف مختلف ہے۔
▪ صفات کے باب میں معتزلہ کا موقف
منجملہ تمام صفات کا انہوں نے انکار کیا، اور اس کے لئے دو طریقوں کو اپنایا:
پہلا طریقہ : جس پر معتزلہ کی اغلبیت ہے، ان کا کہنا ہے کہ :" إن الله عالم، قادر ،حي بذاته، لا بعلم ولا قدرة ولا حياة......"
(شرح الأصول الخمسة،ص:151)
اسماء کو ثابت کیا مگر صفات کا انکار کیا۔
دوسرا طریقہ : جسے بعض معتزلہ نے اختیار کیا، ان کا کہنا ہے کہ:" إن الله عالم بعلم وعلمه ذاته............"
( شرح الأصول الخمسة،ص: 183)
مقصد انکار صفات ہی ہے، مگر سیاق ذرا مختلف ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں والنفي في صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:560، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص:102-103)
نوٹ :
اگلی قسط میں ان شاء الله اس اصل کی روشنی میں منہج اشاعرہ وماتریدیہ، اور معتزلہ کی تردید مجملا پیش کی جائے گی، ساتھ ہی اس اصل کے چند مستلزمات بھی پیش کئے جائیں گے- بإذن الله تعالى -
جاری ہے
قسط:11
عبید اللہ الباقي
منہج اثبات صفات کی تیسری اصل: باعتبار حقیقت تمام صفات الہیہ کا ایک ہی حکم ہے
• حقیقت اور مقتضیات کے اعتبار سے اللہ تعالی کی ساری صفتوں کا ایک ہی حکم ہے، کیونکہ ہر ذات صفت کو مستلزم ہے، اور ہر ذات کی صفت اسی کے لائق و مناسب ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالی کی صفات خواہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ تمام صفتوں کو اس کے لئے ثابت کرنا ضروری ہے، انواع صفات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا، اسی لئے شیخ الإسلام ابن تيميہ - رحمه الله- نے فرمایا کہ:" القول في بعض الصفات كالقول في البعض الآخر".( التدمرية،ص:31)
• اس اصل کے ذریعہ عقیدہ اشاعرہ وماتردیہ، اور معتزلہ سے عقیدہ اہل السنہ والجماعہ کی تمییز ہوتی ہے، اسی اصل کے ذریعہ آئمہ سلف نے مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا ہے، اور خصوصا شیخ الاسلام ابن تیمیہ، اور امام ابن القیم - رحمهما الله - نے تردید مخالفین میں اس اصل کی خوب شرح کی ہے۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریں التدمرية،ص:31-42، الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة،ص:220-230)
▪ صفات کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا موقف
انہوں نے صفات الہیہ کی حقیقت و مقتضیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اثبات میں کوئی فرق نہیں کیا، چاہے ان کی نوعیت ذاتیہ ہو یا فعلیہ، لہذا جو کتاب و سنت میں ثابت ہیں ان کو ثابت کیا، اور جن کی نفی آئی ہے ان کی نفی کی، ساتھ ہی ان کے ضد کمال کو بھی ثابت کیا، اور یہی صفات کے باب میں ان کا اصول رہا ہے، اور اسی اصل کے ذریعہ اہل السنہ والجماعہ نے منہج اشاعرہ وماتریدیہ، اور معتزلہ کی تردید کی ہے.
▪ صفات کے باب میں اشاعرہ کا موقف
☆ اشاعرہ کی دو قسمیں ہیں :
• متقدمین : جن میں ابو الحسن اشعری، ابو بکر باقلانی، ابو بکر ابن فورک وغیرھم شامل ہیں
• متاخرین : جن میں ابو المعالی جوینی، رازی، آمدی وغیرھم شامل ہیں۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمية:4/147-48، منهاج السنة:2/223-224)
☆ صفات کے باب میں متقدمین اشاعرہ کا موقف :
انہوں نے منجملہ صفات خبریہ کو ثابت کیا، اس کے لئے نص کو اصل اور عقل کو تابع قرار دیا، لیکن اس کے پس پردہ ایسی باطل تاویلیں کیں کہ وہ نفی صفات تک پہونچ گئے، جہاں تک صفات اختیاریہ کی بات ہے تو انہوں نے دلیل " حلول حوادث " سے ان کا انکار کیا۔
(مجموع الفتاوى لابن تيمية :4/147، 6/520 ونشأة الأشعرية وتطورها،ص:320)
☆ صفات كے باب میں متاخرین اشاعرہ کا موقف :
انہوں نے صرف سات صفات کو ثابت کیا،جو مندرجہ ذیل ہیں:
1- القدرة
2-الإرادة
3- العلم
4-الحياة
5- السمع
6-البصر
7- الكلام
(مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/359-360)
• صرف سات صفات کو ثابت کرنے کی وجہ :
ان کا دعوی ہے کہ عقل صرف ان ہی سات صفات پر دلالت کرتی ہے، اسی لئے صرف ان سات صفات کو ثابت کیا، باقی تمام صفات کا انکار کیا۔
( شرح العقيدة التدمرية لابن عثيمين،ص:118)
• صفات سبعہ کے علاوہ صفات خبریہ کے ساتھ ان کا طریقہ تعامل :
صفات سبعہ کے علاوہ دیگر صفات خبریہ کے سلسلے میں متاخرین کا دو گروہ ہے:
• پہلا گروہ : جنہوں نے صفات خبریہ کا انکار کیا، اور اس کے لئے انہوں نے دو طریقوں کو اپنایا:
• تاویل
یا
• تفویض
دوسرا گروہ : انہوں نے توقف اختیار کیا، جیسے رازی اور آمدی وغیرھما۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں مجموع الفتاوى لابن تيمية:4/147-148، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء الصفات:94)
• انکار صفات اختیاریہ پر یہ متاخرین اشاعرہ متقدمین اشاعرہ کے ساتھ متفق ہیں، لہذا انہوں نے بھی منجملہ تمام صفات اختیاریہ کا انکار کیا۔
( تفصیل کے لئے دیکھیں مجموع الفتاوى لابن تيمية:5/410، 12/366، موقف ابن تيمية من الأشاعرة:2/931)
☆ خلاصہ :
1- اثبات صفات عقلیہ سبعہ پر متقدمین و متاخرین اشاعرہ متفق ہیں۔
2- انکار صفات اختیاریہ پر متقدمین و متاخرین اشاعرہ متفق ہیں۔
3- صفات سبعہ کے علاوہ صفات خبریہ میں متقدمین و متاخرین کا موقف مختلف ہے۔
▪ صفات کے باب میں معتزلہ کا موقف
منجملہ تمام صفات کا انہوں نے انکار کیا، اور اس کے لئے دو طریقوں کو اپنایا:
پہلا طریقہ : جس پر معتزلہ کی اغلبیت ہے، ان کا کہنا ہے کہ :" إن الله عالم، قادر ،حي بذاته، لا بعلم ولا قدرة ولا حياة......"
(شرح الأصول الخمسة،ص:151)
اسماء کو ثابت کیا مگر صفات کا انکار کیا۔
دوسرا طریقہ : جسے بعض معتزلہ نے اختیار کیا، ان کا کہنا ہے کہ:" إن الله عالم بعلم وعلمه ذاته............"
( شرح الأصول الخمسة،ص: 183)
مقصد انکار صفات ہی ہے، مگر سیاق ذرا مختلف ہے۔
( تفصیل کے لئے رجوع کریں والنفي في صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:560، ومواقف الطوائف من توحيد الأسماء والصفات،ص:102-103)
نوٹ :
اگلی قسط میں ان شاء الله اس اصل کی روشنی میں منہج اشاعرہ وماتریدیہ، اور معتزلہ کی تردید مجملا پیش کی جائے گی، ساتھ ہی اس اصل کے چند مستلزمات بھی پیش کئے جائیں گے- بإذن الله تعالى -
جاری ہے