- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :1
: عبيد الله الباقي
أسماء وصفات کی لغوی تعریف
☆ اسم کی لغوی تعریف
▪ لغویوں کے نزدیک :
جو مسمی(ذات) پر دلالت کرتا ہے وہ: اسم ہے۔
▪ نحویوں کے نزدیک :
جو ایسا معنی پر دلالت کرے جس کے ساتھ کوئی زمانہ مقترن نہ ہو وہ: اسم ہے۔
(شرح ابن عقيل:1/15، والتعريفات للجرجاني،ص:28، و المعجم الوسيط:1/452)
☆ صفت کی لغوی تعریف :
• صفت: یہ "صفات" کا مفرد ہے، اس میں "تاء"در اصل "واو" کے عوض میں آیا ہوا ہے، کیونکہ اس کی اصل " وصف" ہے۔
• صفت: یہ ایسا معنی پر دلالت کرتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہو۔
ابن فارس نے کہا:" واو، اور صاد، اور فاء ایک ایسی اصل ہے جس سےکسی چیز کی تزئین کاری مراد ہوتی ہے"۔
(معجم مقاييس اللغة لابن فارس:6/115، و لسان العرب:9/356)۔
☆ نعت کی لغوی تعریف :
نعت سے مراد وصف ہے.
ابن حجر نے کہا:" نعوت نعت کی جمع ہے، کہا جاتا ہے: نعت فلانا نعتا، مثل وصفه وصفا زنة ومعنى".
( فتح الباري لابن حجر: 11/382)
اسم، صفت، اور نعت میں فرق
☆ "صفت" اور "وصف" میں فرق :
1- لفظ" صفت " یہ " وَصَفَ " کا مصدر ہے، جیسے لفظ "وَصْفٌ" کی جمع" اوصاف" ہے، لہذا کہتے ہیں:" وصف، صفةً، وصْفاً" جس کا ایک ہی معنی ہے۔
بنا بریں اللہ کی صفات کے بارے میں کہا جائے گا: وہ صفات بھی ہیں اور اوصاف بھی ہیں ۔
2- " صفت " کسی چیز کی لازمی آرائش کا نام ہے، جبکہ " وصف " تزئین کاری کا نام ہے۔
(لسان العرب لابن منظور: 9/356، والمفردات للراغب الأصفهاني،ص:525)
اس بنا پر " صفت " سے مراد: وہ معنی ہے جو موصوف کے ساتھ قائم ہو.
جبکہ" وصف" سے مراد: بیان کرنے والے کا قول" موصوف کے ساتھ وہ صفت قائم ہے یا نہیں " ہے۔
لہذا اس بنیاد پر اللہ کی صفات پر " اوصاف " کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بسا اوقات " وصف " کا اطلاق باطل بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ مشرکین کو وعید سناتے ہوئے فرمایا:{سيجزيهم وصفهم}[سورة الأنعام:139]
3- " وصف " یہ مطلقا بولا جاتا ہے، جبکہ " صفت " اضافت اور قید کے ساتھ بولا جاتا ہے، جیسے " السمع " یہ وصف ہے، اور " سمع اللہ " یہ صفت ہے۔
♧ صحیح
یہ ہے کہ : دونوں میں سے ہر ایک کا اطلاق کبھی بلا قید و اضافت، اور کبھی اضافت و قید کے ساتھ ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ - فرماتے ہیں کہ :" ......اور محققین کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان دونوں لفظوں سے میں ہر کا اطلاق کبھی قول ہر ہوتا ہے، تو کبھی معنی پر ہوتا ہے، اور قرآن و سنت نے علم، قدرت وغیرھا معانی کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے"۔
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ:6/340- 641)
☆ صفت اور نعت میں فرق :
صفت اور نعت میں کوئی فرق نہیں ہے، ان میں سے ہر کا استعمال ایک دوسرے کی جگہ پر ہوتا ہے، نحویوں کا اسی پر اتفاق ہے، چنانچہ اہل کوفہ " نعت " کہتے ہیں، جبکہ اہل بصرہ " صفت " کہتے ہیں، اور یہ لوگ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔
( الفروق في اللغة للعسكري،ص:22)
اسی لئے آئمہ سلف نے اس لفظ " نعت " کا اطلاق اللہ کی صفات پر کیا ہے، جیسے امام بخاری- رحمہ اللہ- نے اپنی صحیح میں ایک باب " باب مايذكر في الذات و النعوت وأسماء الله " کے نام پر باندھا ہے، اور اسی طرح امام نسائی- رحمہ اللہ- نے اللہ کے أسماء وصفات پر ایک کتاب تصنیف کی، جس کا نام رکھا" النعوت ".
☆ اسم اور صفت میں فرق :
" اسم " ذات پر دلالت کرتا ہے، جبکہ" صفت " اس معنی پر دلالت کرتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
اسم و صفت کے درمیان پایا جانے والا یہ فرق صرف مخلوقات کے ساتھ خاص ہے، اللہ کے أسماء وصفات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ اللہ سارے أسماء، ایک ہی ساتھ أسماء اور صفات ہیں، لہذا وہ اعلام بھی ہیں اور اوصاف بھی ہیں۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریںأدلة صفات الله ووجوه دلالتها وأحكامها، للدكتور محمد بن عبد الرحمن الجهني،ص:16-28، و النفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة لمحمد أزرقي،ص:49- 58 )
صفت کی اصطلاحی تعریف
1- وہ معانی اور نعوت ہیں جو ذات کے ساتھ قائم ہیں، اور یہ اللہ کے حق میں نعوت جلال، و جمال، اور عظمت و کمال ہیں، جیسے قدرت، ارادہ، علم، اور حکمت ہے۔
( الصفات الإلهية ،ص:84)
2- وہ صفات ہیں جو ذات الہیہ کے ساتھ قائم ہیں، جو اسے غیروں سے الگ کر دیں، اور وہ کتاب وسنت کی نصوص میں وارد ہوں۔
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات،ص:31)
توحيد الأسماء والصفات کی تعریف
1- بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ان (تمام أسماء حسنى، اور صفات عليا) پر ايمان ركھنا جن سےاللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود کو متصف کیا ہے، یا اللہ تعالی کو اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے متصف کیا ہے۔
( العقيدة الواسطية،ص:2)
2- ان تمام أسماء حسنى، اور صفات عليا پر ايمان ركھنا جن سےاللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود کو متصف کیا ہے، یا اللہ تعالی کو اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے متصف کیا ہے، اور انہیں اللہ کے لائق طریقے ہی سے ثابت کرنا ہے۔
(أعلام السنة المنشورة،للشيخ حافظ الحكمي،ص:56)
3- اللہ - عز وجل - کو اس کے نام وصفات میں ایک ماننا۔
( القول المفيد،ص:13)
جاری ہے
قسط :1
: عبيد الله الباقي
أسماء وصفات کی لغوی تعریف
☆ اسم کی لغوی تعریف
▪ لغویوں کے نزدیک :
جو مسمی(ذات) پر دلالت کرتا ہے وہ: اسم ہے۔
▪ نحویوں کے نزدیک :
جو ایسا معنی پر دلالت کرے جس کے ساتھ کوئی زمانہ مقترن نہ ہو وہ: اسم ہے۔
(شرح ابن عقيل:1/15، والتعريفات للجرجاني،ص:28، و المعجم الوسيط:1/452)
☆ صفت کی لغوی تعریف :
• صفت: یہ "صفات" کا مفرد ہے، اس میں "تاء"در اصل "واو" کے عوض میں آیا ہوا ہے، کیونکہ اس کی اصل " وصف" ہے۔
• صفت: یہ ایسا معنی پر دلالت کرتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہو۔
ابن فارس نے کہا:" واو، اور صاد، اور فاء ایک ایسی اصل ہے جس سےکسی چیز کی تزئین کاری مراد ہوتی ہے"۔
(معجم مقاييس اللغة لابن فارس:6/115، و لسان العرب:9/356)۔
☆ نعت کی لغوی تعریف :
نعت سے مراد وصف ہے.
ابن حجر نے کہا:" نعوت نعت کی جمع ہے، کہا جاتا ہے: نعت فلانا نعتا، مثل وصفه وصفا زنة ومعنى".
( فتح الباري لابن حجر: 11/382)
اسم، صفت، اور نعت میں فرق
☆ "صفت" اور "وصف" میں فرق :
1- لفظ" صفت " یہ " وَصَفَ " کا مصدر ہے، جیسے لفظ "وَصْفٌ" کی جمع" اوصاف" ہے، لہذا کہتے ہیں:" وصف، صفةً، وصْفاً" جس کا ایک ہی معنی ہے۔
بنا بریں اللہ کی صفات کے بارے میں کہا جائے گا: وہ صفات بھی ہیں اور اوصاف بھی ہیں ۔
2- " صفت " کسی چیز کی لازمی آرائش کا نام ہے، جبکہ " وصف " تزئین کاری کا نام ہے۔
(لسان العرب لابن منظور: 9/356، والمفردات للراغب الأصفهاني،ص:525)
اس بنا پر " صفت " سے مراد: وہ معنی ہے جو موصوف کے ساتھ قائم ہو.
جبکہ" وصف" سے مراد: بیان کرنے والے کا قول" موصوف کے ساتھ وہ صفت قائم ہے یا نہیں " ہے۔
لہذا اس بنیاد پر اللہ کی صفات پر " اوصاف " کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بسا اوقات " وصف " کا اطلاق باطل بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ مشرکین کو وعید سناتے ہوئے فرمایا:{سيجزيهم وصفهم}[سورة الأنعام:139]
3- " وصف " یہ مطلقا بولا جاتا ہے، جبکہ " صفت " اضافت اور قید کے ساتھ بولا جاتا ہے، جیسے " السمع " یہ وصف ہے، اور " سمع اللہ " یہ صفت ہے۔
♧ صحیح
یہ ہے کہ : دونوں میں سے ہر ایک کا اطلاق کبھی بلا قید و اضافت، اور کبھی اضافت و قید کے ساتھ ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ- رحمہ اللہ - فرماتے ہیں کہ :" ......اور محققین کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان دونوں لفظوں سے میں ہر کا اطلاق کبھی قول ہر ہوتا ہے، تو کبھی معنی پر ہوتا ہے، اور قرآن و سنت نے علم، قدرت وغیرھا معانی کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے"۔
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ:6/340- 641)
☆ صفت اور نعت میں فرق :
صفت اور نعت میں کوئی فرق نہیں ہے، ان میں سے ہر کا استعمال ایک دوسرے کی جگہ پر ہوتا ہے، نحویوں کا اسی پر اتفاق ہے، چنانچہ اہل کوفہ " نعت " کہتے ہیں، جبکہ اہل بصرہ " صفت " کہتے ہیں، اور یہ لوگ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔
( الفروق في اللغة للعسكري،ص:22)
اسی لئے آئمہ سلف نے اس لفظ " نعت " کا اطلاق اللہ کی صفات پر کیا ہے، جیسے امام بخاری- رحمہ اللہ- نے اپنی صحیح میں ایک باب " باب مايذكر في الذات و النعوت وأسماء الله " کے نام پر باندھا ہے، اور اسی طرح امام نسائی- رحمہ اللہ- نے اللہ کے أسماء وصفات پر ایک کتاب تصنیف کی، جس کا نام رکھا" النعوت ".
☆ اسم اور صفت میں فرق :
" اسم " ذات پر دلالت کرتا ہے، جبکہ" صفت " اس معنی پر دلالت کرتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
اسم و صفت کے درمیان پایا جانے والا یہ فرق صرف مخلوقات کے ساتھ خاص ہے، اللہ کے أسماء وصفات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ اللہ سارے أسماء، ایک ہی ساتھ أسماء اور صفات ہیں، لہذا وہ اعلام بھی ہیں اور اوصاف بھی ہیں۔
(تفصیل کے لئے رجوع کریںأدلة صفات الله ووجوه دلالتها وأحكامها، للدكتور محمد بن عبد الرحمن الجهني،ص:16-28، و النفي في باب صفات الله عزوجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة لمحمد أزرقي،ص:49- 58 )
صفت کی اصطلاحی تعریف
1- وہ معانی اور نعوت ہیں جو ذات کے ساتھ قائم ہیں، اور یہ اللہ کے حق میں نعوت جلال، و جمال، اور عظمت و کمال ہیں، جیسے قدرت، ارادہ، علم، اور حکمت ہے۔
( الصفات الإلهية ،ص:84)
2- وہ صفات ہیں جو ذات الہیہ کے ساتھ قائم ہیں، جو اسے غیروں سے الگ کر دیں، اور وہ کتاب وسنت کی نصوص میں وارد ہوں۔
( معتقد أهل السنة والجماعة في توحيد الأسماء والصفات،ص:31)
توحيد الأسماء والصفات کی تعریف
1- بغیر تحریف و تعطیل، اور بغیر تکییف و تمثیل کے ان (تمام أسماء حسنى، اور صفات عليا) پر ايمان ركھنا جن سےاللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود کو متصف کیا ہے، یا اللہ تعالی کو اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے متصف کیا ہے۔
( العقيدة الواسطية،ص:2)
2- ان تمام أسماء حسنى، اور صفات عليا پر ايمان ركھنا جن سےاللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود کو متصف کیا ہے، یا اللہ تعالی کو اس کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے متصف کیا ہے، اور انہیں اللہ کے لائق طریقے ہی سے ثابت کرنا ہے۔
(أعلام السنة المنشورة،للشيخ حافظ الحكمي،ص:56)
3- اللہ - عز وجل - کو اس کے نام وصفات میں ایک ماننا۔
( القول المفيد،ص:13)
جاری ہے
Last edited: