• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توحید ربوبیت:
اس کا مطلب اس عقیدے پر یقین رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا رب ہے،اس کے سوا کوئی رب نہیں۔رب کے لغوی معنی ہیں،مالک و مدبر(انتظام کرنے والا اور ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے والا)وہ اپنی مخلوقات کا مربی ہے ،کا مطلب ہو گا۔ان کو پیدا کرنے والا بھی وہی اکیلا ہے اور مالک بھی وہی ہےاور ان کے تمام معاملات کی تدبیر بھی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔پس توحید ربوبیت کے معنی ہوں گے کہ یہ اقرار کیا جائے کہ وہی مخلوق کا خالق و مالک ہے،وہی ان کو زندگی عطا کرنے والا اور مارنے والا ہے،وہی ان کا نافع اور ضار ہے،اضطرار اور مصیبت کے وقت وہی دعاؤں کا سننے والا اور فریاد رسی کرنے والا ہے،وہی دینے اور روکنے والا ہے،ساری کائنات اسی کی مخلوق ہے اور اسی کا حکم اس میں نافذ ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿٤٥﴾
ترجمعہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورہ الاعراف ،آیت54)

قرآن کریم میں مذکورہ تمام باتوں کو بڑی وضاحت اور تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ توحید ربوبیت ہی توحید کی دوسری قسموں کے لیے بنیاد و اسا س ہے۔جب یہ مسلم ہے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے اور کائنات کا نظم و تدبیر بھی تمام تر اسی کے اختیار میں ہے،تو اس سے از کود یہ پہلو ثابت ہو جاتا ہے کہ عبادت کا مستحق بھی وہی ہے ،خشوع و خضوع کا اظہار بھی اسی کے سامنے کیا جانا چاہیے ،اسی کے لیے حمد و شکر کیا جانا چاہیے اور وہی دعا و استغاثہ کے لائق ہے۔اسی لیے کہ یہ سب باتیں اسی کے لیے زیبا ہیں جو خلق و امر کا مالک ہے۔بہ الفاط دیگر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ خالق و مالک اور مدبر و متصرف ہی اس بات کے لائق ہے کہ وہ جلال و جمال اور کمال کی صفات سے متصف ہو،اس لیے کہ رب العالمین وہی ہو سکتا ہے جو ان صفات کا مالک ہو ،ورنہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا نہ ہو ،سمیع و بصیر نہ ہو،ہر طرح کی قدرت سے بہرہ ور نہ ہو ،جو چاہے اُسے کرنے کا اختیار رکھنے والا نہ ہواور اپنے اقوال و افعال میں حکیم نہ ہو تو وہ رب نہیں ہو سکتا۔کیونکہ ان صفات سے محروم رب اپنی مخلوقات کا علم نہیں رکھ سکتا اور جو اپنی مخلوقات سے باخبر نہ ہو وہ ان کی حفاظت کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتا ہے ؟اور جو اپنی مخلوقات کی حفاظت نہ کر سکتا ہووہ رب کیونکر ہو سکتا ہے؟
بنا بریں جو لوگ اس بات کا تو اقرار کریں کہ کائنات کا خالق و رب اللہ ہی ہے (یعنی توحید ربوبیت کو تو مانیں)لیکن عبادت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کریں(یعنی توحید الوہیت کو تسلیم نہ کریں)اسی طرح وہ اللہ کی صفات کی نفی کریں،یا ان کو مخوقات کی صفات کے ساتھ تشبیہ دیں یا ان کی دور از کار توجیہہ اور فاسد تاویل کریں(یعنی توحید اسماء و صفات کا انکار کریں)تو اس کا واضح مطلب ہے کہ انہوں نے اس توحید کو نہیں مانا جو انہین دائرہ کفر و شرک سے نکال کر دائرہ ایمان میں لے آئے۔چنانچہ یہ واقع ہے کہ مشرکین مکہ اقرار تو کرتے تھے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے اس کے باوجود اللہ نے ان کو مشرک کہا،کیوں؟اس لیے کہ انہوں نے یہ تو مانا کہ رب ایک ہی ہے ،لیکن یہ نہیں مانا کہ الہ (بھی) ایک ہی ہے،اور اس وجہ سے انہوں نے غیرو کو بھی عباد ت میں شریک کیا۔اس طرح انہوں نے اسماء صفات باری تعالیٰ میں بھی اللہ کو واحد نہیں مانااور اس کی بعض صفات کا انکار کیایا ان جیسی صفات مخلوق میں بھی تسلیم کیں۔اس لیے اللہ نے ان کی بابت فرمایا:
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ﴿٦۰١﴾
ترجمعہ: اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله کو مانتے بھی ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں (سورہ یوسف،آیت 106)

یعنی انہوں نے یہ تو مانا کہ خالق،رازق اور زندگی اور موت دینے والا اللہ ہے،لیکن عبادت وہ غیروں کی بھی کرتے رہے ،یوں وہ اپنے ناقص ایمان کی وجہ سے ایمان باللہ کے با وجود مشرک ہی رہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ توحید ربوبیت کے ساتھ،توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات پر بھی ایمان رکھا جائے اس کے بغیر کوئی شخص بھی مومن اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مشرکین اور توحید ربوبیت

گزشتہ تفصیل سے توحید ربوبیت کا مفہوم تو واضح ہو چکا ہےکہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔توحید کی یہ قسم تمام مشرکین بھی مانتے ہیں اور مانتے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿87﴾
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں (سورہ الزخرف،آیت87)
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتے (سورہ یونس،آیت31)
یہ ہے توحید ربوبیت ،لیکن صرف یہ اقرار کرنے والا کہ ہر چیز کا خالق ،مالک،رازقاور مدبر صرف اللہ ہے ۔ضروری نہیں کہ وہ توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کو بھی مانتا ہو۔اس لیے کہ انسانوں کی اکثریت توحید ربوبیت کو تسلیم کرتی ہے،لیکن اس کے باوجود وہ اس کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توحید الوہیت

اس کا مطلب ہے،یہ عقیدہ رکھا جائے کہ معبود بھی صرف وہی اللہ ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے ساتھ خاص ہیں ۔عبادت کے لغوی معنی ہیں،سرفگندگی ،ذلت و عاجزی اور خشوع وخضوع۔اور بعض علماء نے معنی کیے ہیں ،کمال خضوع کے ساتھ کمال محبت۔اس اعتبار سے توحید الوہیت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہو گی کہ عبادت میں اخلاص کامل ہو،یعنی اس کا کوئی حصہ بھی غیراللہ کے لیے نہ ہو۔پس ایک مومن اللہ کی عبادت کرتا ہے اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہین کرتا،اس کی محبت بھی صرف اللہ کے ساتھ ہوتی ہے ،اس کے دل میں خوف بھی صرف اللہ کا ہوتا ہے،اس کی امیدیں بھی اسی سے وابستہ ہوتی ہیں،اس کا اعتماد و توکل بھی اسی پر ہوتا ہے،دعا و فریاد بھی اسی سے کرتا ہے ار اطاعت و فرمانبرداری بھی اسی کی۔نذرونیاز بھی اسی کے نام کی دیتا ہےکسی اور کے نام پر نہیں،اپنی جبیں نیاز بھی اسی کے سامنے جھکاتا اور عاجزی و ذلت کا اظہار بھی اسی کے سامنے کرتا ہے،غرض عبادت کی جتنی بھی شکلیں اور صورتیں ہیںوہ صرف اور صرف اللہ واحد کے لیے بجا لاتا ہےاس میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔توحید کی یہ قسم،توحید کی دوسری قسموں کو بھی اپے دامن میں سمیٹ لیتی ہے ،اس میں توحید ربوبیت بھی آ جاتی ہے اور توحید اسماء و صفات بھی ،لیکن صرف توحید ربوبیت میں توحید کی دوسری قسمیں نہیں آتیں۔اس لیے کہ اللہ کو واحد رب ماننے والا ضروری نہیں کہ اس کو الوہیت میں بھی واحد مانے ،وہ اللہ کو رب مانتا ہے،لیکن اللہ کی عبادت و اطاعت نہیں کرتا ،یا صرف اسی ایک کی عبادت و اطاعت نہیں کرتا۔اسی طرح توحید اسماء و صفات بھی ،توحید کی دوسری انواع کو اپنے اندر شامل نہیں کرتی۔لیکن توحید الوہیت کو ماننے والا جو یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی مستحق عبادت ہے،اس کے سوا کوئی عبادت کامستحق نہیں،وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ رب العالمین بھی وہی ہے،علاوہ ازیں اس کے اسماء و حسنی اور صفات کاملہ ہیں،اس لیے اخلاص فی العبادات اسی کے لیے ہو سکتا ہےجو رب ہو نہ کہ کسی اور کے لیے بھی۔ اسی طرح وہ ہر عیب اور نقص سے پاک بھی ہو،نہ کہ اس کے لیے بھی جس میں نقص ہو ۔اس کی عبادت کس طرح جائز ہو سکتی ہے جو کسی چیز کا خالق ہو نہ مدبر،بلکہ مخلوق ہو اور مدبر،اسی طرھ وہ بھی معبود نہیں ہو سکتا جو سوتا یا بیمار ہوتا اور موت سے ہمکنار ہوتا ہے ،کیونکہ یہ سب صفات نقص ہیں۔اور اللہ رب العالمین ان تمام نقائص سے پاک ہے۔
مسلمانوں کا کلمہ توحید شہادت "لا الہ الا اللہ"(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)توحید کی تین قسموں کو حاوی ہےاسی لیے اس کلمےکو ادا کرنے والامسلمان قرار پاتا ہے ،ورنہ توحید ربوبیت تو مشرکین بھی مانتے ہیں مگر وہ مسلمان نہیں۔دائرہ اسلام میں وہی داخل سمجھا جائے گا جو توحید کی تینوں قسموں پر ایمان رکھے گا ،کیونکہ "لا الہ الا اللہ" میں تینوں قسمیں شامل ہیں۔اسی توحید الوہیت کے لیے اللہ نے انسانوں اور جنوں کو پیدا فرمایا ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾
ترجمہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے (سورۃ الذاریات،آیت56)
تمام انبیاء کی بعثت بھی اسی توحید الوہیت ہی کے لیے ہوئی۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾
ترجمہ: اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا (سورۃ النحل،آیت36)

"طاغوت" کیا ہے؟ہر وہ چیز جس کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جائے،"طاغوت"ہے۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ ﴿25﴾
ترجمہ: اور ہم نے تم سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سومیری ہی عبادت کرو (سورۃ الانبیاء،آیت25)
اور یہی کلمہ اسلام کے پانچ بنیادہ رکن بلکہ رکن اول ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ حضرت نوح علیہ السلام ،ھود علیہ السلام،صالح علیہ السلام،شعیب علیہ السلام،ان تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو یہی دعوت دی۔
وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًۭا ۗ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿65﴾
ترجمہ: اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں سو کیا تم ڈرتے نہیں (سورۃ الاعراف،آیت65)
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَٰلِحًۭا ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌۭ مُّجِيبٌۭ ﴿61﴾
ترجمہ: اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اورتمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا (سورۃ ھود،آیت61)

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿23﴾
ترجمہ: اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس بھیجا پھر اس نے کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں پھر تم کیوں نہیں ڈرتے (سورۃ المومنون،آیت23)

صرف ایک اللہ کی عبادت کے اقرار سے دوسرے معبودوں کی عبادت کی از خود نفی ہو جاتی ہے اور ایک الہ کے عقیدے سے دوسرے تمام معبود باطل قرار پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو "لا الہ الا اللہ"(اللہ کے سواکوئی الہ نہیں)کی دعوت دی،تو انہوں نے کہا:
أَجَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌۭ ﴿5﴾
ترجمہ: کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنایا ہے بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے (سورۃ ص،آیت5)
اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ جس نے کلمہ "لا الہ الا اللہ" کا اقرار کر لیا ،تو اس کا مطلب ہر ماسوی اللہ کی عبادت کی نفی اور تمام معبودوں کا بطلان ہے،کیونکہ الہ کے معنی ہی معبو دکے ہیں۔یعنی وہ ذات جس کی عبادت کی جائے اورعبادت کیا ہے؟عبادت کا مطلب ہے صرف اسی ذات کی رضا کے لیے اس کے سامنے عجز و تذلل کا اظہار کرتے ہوئے ہر وہ کام کیا جائے جسے وہ پسند کرتا ہے ۔مشرکین مکہ کو یہی پسند نہیں تھا کہ وہ صرف آسمان والے اللہ کو ،جسے وہ رب تو تسلیم کرتے تھے ،اپنے تمام کاموں کامقصود و منتہا بھی صرف اسی کو مان لیں ،نماز پڑھیں تو اسی کے لئے پڑھیں،روزے رکھیں تو صرف اسی کے لیے رکھیں،نذر و نیاز دیں تو صرف اسی کے نام کی دیں،استغاثہ و استمداد کریں تو صرف اسی سے کریں اور ان تمام معبوودوں کو نظر انداز کردیں جن کو وہ اللہ کے ساتھ ساتھ مذکورہ کاموں میں شریک رکھتے تھے۔توحید الوہیت کے اسی تقاضے کو وہ سمجھتے تھے جسے آج کا مسلمان نہیں سمجھتا۔اسی لیے ضروری ہے کہ توحید الوہیت کے تقاضوں اور لوازم کو بھی سمجھا جائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توحید الوہیت کے لوازم

توحید الوہیت کے تسلیم کرنے پر کن کن چیزوں پر اعتقاد و یقین رکھنا ضروری ہے۔اس کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:
(1)اللہ کے ساتھ خالص محبت رکھی جائے ،اس کا مطلب ہے کسی کو اللہ کا شریک نہ بنایا جائے ،اور نہ اللہ کی محبت پر کسی اور کی محبت غالب آئے۔کیونکہ انسان کی فطرت میں کئی چیزوں کی محبت رکھی گئی ہے۔اسے ماں باپ،بیوی،بچوں سے،بہن بھائیوں سے،احباب و اقارب سے،دنیا کے مال واسباب سے حتی کہ اپنے وطن سے مولد و مسکن سے بھی محبت ہوتی ہے ،یہ تمام محبتیں جائز ہیں،بشرطیکہ اپنی فطری حدود میں رہیں اور دائرہ شریعت سے تجاوز نہ کریں۔علاوہ ازیں جب محبتوں میں سے کسی محبت کااللہ کی محبت سے تصادم ہو جائےت،تو وہاں اللہ کی محبت کے تقاضوں کو ترجیح دی جائے۔نہ کہ انسان اللہ کی محبت کو نظر انداز کر کے مذکورہ محبتوں کا اسیر ہو جائے۔اہل ایمان کی صفت ہے:

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًۭا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ ٱللَّهِ ۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّۭا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ إِذْ يَرَوْنَ ٱلْعَذَابَ أَنَّ ٱلْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعَذَابِ ﴿165﴾
ترجمہ: اورایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے الله کے سوا اور شریک بنا رکھے ہیں جن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ الله سے رکھنی چاہیئے اور ایمان والوں کو تو الله ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور کاش دیکھتے وہ لوگ جو ظالم ہیں جب عذاب دیکھیں گے کہ سب قوت الله ہی کے لیے ہے اور الله سخت عذاب دینے والا ہے (سورۃ البقرہ،آیت165)
اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کا مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ کے حکم اور رضاء کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں۔اس کی محبت پر سب محبتوں کو قربان کر دیتے ہیں۔
(2)دعا و فریاد اللہ ہی سے کی جائے،اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور جن چیزوں پر صرف اللہ ہی قادر ہے ،ان کی امید صرف اللہ ہی سے رکھی جائے،ان میں کسی اور سے امید وابستہ نہ کی جائے۔
(3)خوف بھی صرف اللہ ہی کا ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی اپنی مشیت اور قدرت سے کسی کو نقصا ن نہیں پہنچا سکتا۔ہاں اگر اللہ چاہے تو وہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا سبب بنا سکتا ہے۔ اس لئے ظاہری اسباب کے بغیر کسی سے خوف کھانا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کی مشیت اور اذن کے بغیرکوئی نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے،مشرکانہ فعل اور عقیدہ ہے۔
جیسے کسی فوت شدہ شخص سے ڈرنا کہ وہ مجھے نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے،یہ خوف عبادت ہے جو اللہ کا حق ہے،فطری خوف نہیں جو جائز ہے۔اس طرح کسی زندہ شخص کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کی مشیت ہو یا نہ ہو،یہ شخص مجھے اپنی مشیت سے نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے،یہ بھی خوف عبادت ہے۔ہاں ظاہری اسباب کی حد تک وہ زندہ شخص نقصان پہنچا سکتا ہے،مگر کب؟جب اللہ کی مشیت ہو گی۔اگر اللہ کی مشیت نہ ہو تو ہر طرح کے اسباب و وسائل سے بہرہ ور ہونے کے باوجود وہ نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔بنا بریں ایک مسلح شخص یا دشمن سے یا کسی درندے اور خوفناک جانور سے،ظاہری اسباب کی رو سے خوف محسوس کرنا،فطری کوف ہے جس پر کوئی گرفت نہیں۔لیکن اس میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ نقصان اسی وقت پہنچا سکیں گے جب اللہ کی مشیت ہو گی،محض اپنی مشیت سے یہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔اللہ کی مشیت نہیں ہو گی تو یہ اسباب و وسائل جو وہ نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کریں گے ،بےکار ثابت ہوں گے
(4)عبادات کی جتنی بھی قسمیں ہیں،وہ سب اللہ کے لیے خاص ہیں،بدنی عبادات ہوں،جیسے نماز روزہ ،رکوع ،سجود،طواف وغیرہ۔مالی عبادات ہوں جیسے زکوۃ،قربانی،نذرونیازوغیرہ۔قولی عبادات ہوں جیسے ذکر،استغفار،وغیرہ۔مالی و بدنی عبادات کا مجموعہ ہو جیسے حج۔ہر قسم کی عبادت صرف اللہ کا حق ہے۔ان میں سے کوئی بھی عبادت اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہیں کی جا سکتی۔اگر کی جائے گی تو ایسا کرنا توحید الوہیت کے خلاف اور شرک ہو گا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توحید اسماء و صفات

توحید کی یہ تیسری قسم ہے۔اس کا مطلب یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات کمال سے متصف اوت تمام صفات نقص سے پاک ہےاور ان دونوں باتوں میں وہ یکتا و تنہا ہے۔اللہ کے سوا کائنات میں کوئی ہستی ایسی نہیں جو ہر قسم کے کمالات سے متصف اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہو۔توحید کی یہ قسم تین بنیادوں پر قائم ہے۔
اول
اللہ ہر نقص سے پاک اور مخلوق کے مشابہ ہونے سے پاک ہے۔
دوم
اللہ کے جو اسماء و صفات ،قرآن و احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ان پر ایمان رکھنا ہے ،بغیر اس کے کہ ان میں کوئی کمی کی جائےیا زیادتی یا تحریف کی جائے یا تعطیل (نفی)۔
سوم
اللہ کی صفات کی حقیقت،کنہ اور کیفیت کا ادراک کسی کے لیے ممکن نہیں۔
پہلی بنیاد کا مطلب ہے ،اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں،اس لیے وہ اس بات سے پاک ہے کہ وہ اپنی کسی صفت میں مخلوق کی صفت کے مشابہ ہو:
فَاطِرُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٰجًۭا وَمِنَ ٱلْأَنْعَٰمِ أَزْوَٰجًۭا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۭ ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ﴿11﴾
ترجمہ: وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسی نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے بنائے اور چارپایوں کےبھی جوڑے بنائے تمہیں زمین میں پھیلاتا ہے کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے (سورہ الشوری،آیت11)
وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌۢ ﴿4﴾
ترجمہ: اور اسکا کوئی ہمسر نہیں (سورۃ اخلاص،آیت4)

بعض علماء نے اس کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
"اس کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں،اس کے نام جیسا کوئی نام نہیں،اس کے کام جیسا کوئی کام نہیں،اس کی صفت جیسی کوئی صفت نہیں،سوائے لفظی موافقت کے ۔وہ قدیم ذات اس سے کہیں بلند ہے کہ اس کے لیے کوئی حادث صفت ہوجیسےیہ ناممکن ہے کہ نو پیدا ذات کے لیے کوئی قدیم صفت ہو۔(تفسیر قرطبی،تحت آیت " لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۭ"16/8)

اس اعتبار سے اللہ کو ہر اس چیز سے پاک ماننا ضروری ہے جو اس کے اپنے یا رسول اللہﷺ کے بیان کردہ وصف کے خلاف ہو۔بنا بریں توحید صفات کا تقاضا ہے کہ اس کو بیوی سے،اولاد سے،شریک سے،ہمسر اور مددگار سے،اس کی اجازت کے بغیر کسی سفارشی سے ،ولی اور دوست سے،عاجزی اور کمزوری سے پاک مانا جائے۔اس طرح یہ بھی اس کا تقاضا ہے کہ اسے نیند سے،اونگھ سے،تعب و تکان سے،موت سے،جہالت سے،ظلم سے اور غفلت و بھول سے اور اس قسم کے دیگر نقائص سے پاک تسلیم کیا جائے۔
دوسری بنیاد کا تقاضا ہے کہ اللہ کے اسماء و صفات کو اس طرح مانا جائے جیسے وہ قرآن کریم یا احادیث میں وارد ہوئے ہیں،ان کا تمام تر مدار،سماع و نقل پر ہے،رائے اور قیاس و عقل پر نہیں۔پس اللہ عزوجل کا وہی وصف بیان کیا جائے جو خود اس نے یا رسول اللہ ﷺ نے اس نام سے اسے پکارا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی اپنی ذات کو اور اپنی صفات کو اور اسماء کو خوب جانتا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی بات بھی اس کی بابت اس لیے صحیح ہے کہوہ بھی صادق اور مصدوق اور وہی بات بتلاتے ہیں جس کی خبر ان کو وحی کے ذریعے سے دی جاتی ہے ،اس لیے الہ اور اس کے رسول ﷺ کے بیان کردہ اسماء و صفات سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے۔نعیم بن حماد کا قول ہے:
"جس نے اللہ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہہ دی اس نے کفر کیا۔جس نے اس کے اس وصف کا انکار کیا جو خود اس نے یا اس کے رسول ﷺ نے بیان کیا اس نے بھی کفر کیااور اللہ کے وہ اوصاف جو خود اس نے اپنے لیے یا اس کے رسول ﷺ نے اس کے لیے بیان کیے ہیں ان میں تشبیہہ اور تمثیل نہیں ہے۔"(الروضۃ الندیۃ،ص:22،بحوالہ کتاب الایمان ،الدکتور محمد یاسین،دارالفرقان،عمان،اردن ص30)

یعنی اللہ کو کسی کے ساتھ تشبیہہ دینا یا اس کو کسی کی مثل بتلانا کفر ہے۔لیکن اللہ کی ثابت شدہ صفات کو جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں،بیان کرنا،تشبیہہ و تمثیل کے ذیل میں نہیں آتا۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسماء و صفات باری تعالیٰ کو اسی طرح مانا جائے جس طرح وہ کتاب وسنت میں بیان ہوئی ہیں اور ان کو ان ہی ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے جو لغت عرب سے واضح اور ظاہر ہوں۔ان ظاہری معنوں کا انکار کر کے اللہ کی صفات کا انکار کیا جائے نہ ان کو ان کے ظاہری معنوں سے پھیرا جائے۔یعنی تعطیل کی جائے نہ تحریف و تاویل بلکہ ان کے ظاہری مفہوم پر بلا کیف و تشبیہہ ایمان رکھا جائے۔تیسری بنیاد کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کر دہ اسماء و صفات پر ایمان رکھا جائے ،ان کی کیفیت پوچھی جائے نہ ان کی کنہ و حقیقت کی بحث و کرید میں پڑا جائے۔اس لیے کہ صفات اپنے موصوف کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں صفت کی کیفیت اس وقت تک واضح نہیں ہوتی جب تک کیفیت ذات کی شناخت نہ ہو اور جن اللہ کی ذات کی کنہ و حقیقت و کیفیت کا کسی کو علم ہے نہ اس کی بابت سوال کرنا ہی جائز ہے تواس کی صفات کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بھی ناجائز ہے ،کیونکہ اس کی کیفیات صفات کا علم کسی کے پاس نہیں ہے ۔اس لیے کسی سلف کا یہ قول مشہور ہے ،جب ان سے استوا ء علی العرش کی کیفیت پوچھی گئی تو انہوں نے جواب دیا:
"استواء معلوم ہے(یعنی قرآن میں اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کا ذکر ہے)لیکن اس کی کیفیت نا معلوم ہے ،تاہم اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کی بابت سوال کرنا بدعت ہے۔"(الروضۃ الندیۃ،ص:29،بحوالہ الایمان،ص:31)

اس طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کا معاملہ ہے،وہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے لیکن کس طرح؟یہ کیفیت ہم بیان نہیں کر سکتے ،وہ سنتا ہے،وہ دیکھتا ہے،کلام فرماتا ہے،لیکن کیسے؟ہمیں ان کی کیفیات کا علم نہیں۔جب ہم کیفیت ذات سے ہی ناواقف اور بے خبر ہیں،تو صفات تو موصوف کی فرع اور اس کے تابع ہوتی ہے ،پھر ہم ان صفات کی کیفیات کو کس طرح جان سکتے ہیں؟اس لیے جب یہ بات متحقق ہے کہ نفس الامر میں اللہ تعالیٰ کا وجود ہے اور وہ تمام صفات کمال کو مستوجب ہے اور مخلوق میں سے کوئی اس کی مثل اور مشابہ نہیں تو اس کا سمع و بصر ،کلام نزول اور استواء وغیرہ صفات بھی ثابت ہیں اور وہ جن صفات کمال سے متصف ہے ان میں وہ مخلوقات کے سمع و بصر ،کلام و نزول اور استواء سے مشابہت نہیں رکھتا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توحید اسماء و صفات کے تقاضے

(1)مذکوہ تفصیل سے واضح ہے کہ اللہ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے ساتھ تشبیہہ نہیں دی جا سکتی ،جیسے عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ،یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اور مشرکین نے اپنے بتوں کو اللہ کے مشابہ قرار دیا جیسے بعض لوگوں نے اللہ کے چہرے کو مخلوق کے چہرے کے ساتھ ،اللہ کے ہاتھ کو مخلوق کے ہاتھ کے ساتھ ،اللہ کے سننے کو مخلوق کے سننے کے ساتھ تشبیہہ دی ۔
(2)تاویل کے ذریعے سے اللہ کے اسماء و صفات میں تحریف اور تغیر و تبدیلی جائز نہیں۔اس لیے قرآن و حدیث میں وارد صفات الہی (وجہ،ید،استواء،نزول،غضب و رضا ،وغیرہ)کے معانی میں ایسی تاویل کرناجن سے یہ صفات بے معنی،معطل اور باطل ہو جائیں یا ان میں سے کسی کا انکار لازم آئے ،منہج سلف کے خلاف ہے۔
(3)اللہ کی کسی صفت کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی اور نہ ان کی کنہ اور حقیقت کا ادراک کیا جا سکتا ہے ۔اس بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بڑا جامع ہے،ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ یہی کہے :
"میں ایمان لایا اللہ پر،اس پر جو اللہ کی طرف سے آیا،اللہ کی مراد کے مطابق اور ایمان لایا میں اللہ کے رسول پر اور اس پر جو اللہ کے رسول کی طرف سے آیا،رسول اللہ ﷺ کی مراد کے مطابق۔
اس بات کو ایک فارسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:
اے برتر از خیال و قیاس وگمان و وہم
وزہرچہ گفتہ اند،شنیدم و خواندہ ایم
منزل تمام گشت وبہ پایاں رسیدعمر
ماہم چناں در اول وصف تو ماندہ ایم​
ایک اور شاعر نے کہا:
اے بروں از وہم وقال و قیل من
خاک برفرق من و تمثیل من​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
توحید،بندوں پر اللہ کا سب سے بڑا حق ہے

مذکورہ طریقے سے اللہ کو ماننا اور اس کی عبادت کرنا،یہ اللہ کا وہ حق ہے جو بندوں پر فرض ہے ۔جیسے ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"کیا تو جانتا ہے اللہ کابندوں پر اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے"؟
حضرت معاذ فرماتے ہیں۔میں نے کہا :اللہ و رسولہ اعلم
اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں
آپ ﷺ نے فرمایا:
"بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے ذمے بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
یہ بندوں پر اللہ کا وہ حق ہے جو سب سے پہلے ہے ،اس حق پر کوئی حق مقدم نہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّۢ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًۭا كَرِيمًۭا ﴿23﴾
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا (سورۃ الاسراء،آیت23)
دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلْ تَعَالَوْا۟ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا ۖ وَلَا تَقْتُلُوٓا۟ أَوْلَٰدَكُم مِّنْ إِمْلَٰقٍۢ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا۟ ٱلْفَوَٰحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا۟ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿151﴾
ترجمہ: کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (سورۃ الانعام ،آیت 151)
تمام حقوق پر حق الہی کی اولیت و اولیت اور اس کے اساس دین ہونے کی وجہ ہی سے نبی ﷺ مکے کی تیرہ سالہ زندگی میں لوگوں کو صرف اسی توحید کی دعوت دیتےاور شرک سے لوگوں کو روکتے رہے۔گویا تیرہ سال تک منصب نبوت کی ادائیگی کا محور عقیدہ توحید کا اثبات اور معبودان باطل کا انکار ہے ۔
علاوہ ازیں قرآن کریم میں بھی اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس میں مختلف اندازسے اسے واضح کیا اور نکھارا گیا ہے ۔اس طرح ہر نماز میں ،چاہے وہ فرض ہو یا نفل،نمازی اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کہ یہ اقرار و اعتراف کرتا ہے۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿5﴾
ترجمہ: (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (سورۃ فاتحہ،آیت5)
یہ اقرار و اعتراف ،توحید الوہیت یا توحید عبادت کا ہی اقرار ہے اور یہی توحید ہر انسان کی فطرت میں ودیعت رکھی گئی ہے۔یعنی ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔اس بات کو نبی ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
"ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی نصرانی اور مجوسی (وغیرہ)بنا لیتے ہیں۔جیسے چوپائے کے بچے کو اس کی ماں صحیح سالم جنتی ہے ۔کیا تم اس میں اس کا کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو؟
اس (حدیث کے راوی )پھر ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًۭا ۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿30﴾
ترجمہ: سو تو ایک طرف کا ہو کر دین پرسیدھا منہ کیے چلا جا الله کی دی ہوئی قابلیت پر جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے الله کی بناوٹ میں ردو بدل نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے (سورۃ الروم،آیت30)
اس حدیث کی بنیاد پر ہی علماء کہتے ہیں کہ جہاں میں اصل چیز توحید ہے (کیونکہ یہ فطرت کی آواز ہے)اور شرک باہر سے مسلط چیز ہے جو شیطان کی مذموم کوششوں کے نتیجے میں انسان پر طاری ہو جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فرمان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّۦنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۚ وَمَا ٱخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لِمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلْحَقِّ بِإِذْنِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍ ﴿213﴾
ترجمہ: سب لوگ ایک دین پر تھے پھر الله نے انبیاء خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل کیں تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کرے جس میں اختلاف کرتے تھےاور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہیں لوگوں نے جنھیں وہ (کتاب) دی گئی تھی اس کے بعد کہ ا ن کے پاس روشن دلیلیں آ چکی تھیں آپس کی ضد کی وجہ سے پھر الله نے اپنے حکم سے ہدایت کی ان کو جو ایمان والے ہیں اس حق بات کی جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے اور الله جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے (سورۃ البقرہ،آیت213)
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَا كَانَ ٱلنَّاسُ إِلَّآ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ فَٱخْتَلَفُوا۟ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌۭ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿19﴾
ترجمہ: اوروہ لوگ ایک ہی امت تھے پھر جدا جدا ہو گئے اور اگر ایک بات تمہارے پرودگار کی طرف سے پہلے نہ ہو چکی ہو تی تو جن باتوں میں وہ اختلاف کر تے ہیں ان میں فیصلہ کر دیا جاتا ہے (سورۃ یونس،آیت19)
لوگ کس چیز میں متحد تھے؟اسی عقیدہ توحید میں۔بقول حضرت ابن عباس ،حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام تک جو دس قرنوں پر محیط ہے اسی دین اسلام پر لوگ قائم رہے۔(تفسیر ابن کثیر)
سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک پیدا ہوا ،جس کا سبب نیک لوگوں کی محبت میں غلو اور اپنے پیغمبر کی دعوت سے اعراض تھا ۔جب حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا:
وَقَالُوا۟ لَا تَذَرُنَّ ءَالِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّۭا وَلَا سُوَاعًۭا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًۭا ﴿23﴾
ترجمہ: اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعقوب اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا (سورۃ نوح،آیت23)
حضرت ابن عباس ہی سے صحیح بخاری میں منقول ہے کہ مذکورہ پانچ بتوں ،قوم نوح کے پانچ نیک لوگوں کے نام تھے ۔جب یہ صالحین فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں میں یہ بات ڈالی کہ ان کے مجسمے بنا کر اپنی مجلسوں میں رکھ لیں جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے اور ان مجلسوں کو ان مجسموں کو ان صالحین کے نام سے ہی موسوم کریں ۔چنانچہ انہون نے ایسا ہی کیا لیکن (یہ کام انہوں نے محض ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے کیا تھا)انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی۔البتہ جب ایک نسل ختم ہو گئی ،تو پھر بعد میں آنے والوں نے ان مجسموں کی عبادت شروع کر دی ۔
اس روایت میں یہ بھی ہے کہ قوم نوح کے یہ پانچوں بت عرب میں بھی پوجے جاتے رہے ۔چنانچہ "ود"دومۃ الجندل میں قبیلہ کلب کا،سواع قبیلہ ہذیل کا،یغوث قبیلہ مرادپھر سبا کے نزدیک جرف میں بنو غطیف کا ،یعوق قبیلہ ہمدان کااور نسر آل ذوالکلاع کی شاخ حمیر کا معبود رہا۔(صحیح بخاری،کتاب التفسیر،تفسیر سورۃ نوح،ح:4920)
حضرت ابن عباس کے اس اثر سے یہ واضح ہوا کہ قوم نوح میں شرک کا آغاز صالح لوگوں کی محبت میں غلو کرنے سے ہوا۔اس غلو محبت نے پہلے ان سے ان کی تصویریں اور ان کے مجسمے تیا رکروائے،پھر ان کو اپنی بیٹھکوں اور دیواروں پر نصب فرمایا۔یہی مجسمے پھر قابل تعظیم اور قابل عبادت قرار پائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تصویروں اور مجسموں کو حرام اور ناجائز قرار دیا ،کیونکہ یہ مجسمے ہی ہر دور میں شرک کا ذریعہ رہے ہیں۔آج بھی اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ،جاہل عوام آج بھی پیروں ،فقیروں اور حقیقی و مصنوعی بزرگوں حتی کہ ننگ دھڑنگ ملنگوں کی تصویروں کو گھروں اور دکانوں میں سجا کر رکھنے کو برکت کا باعث سمجھتے ہیں اور ان کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں جیسے مشرکین اپنے معبودوں کی تعظیم بجا لاتے ہیں ۔یہ تعظیم بے جا اور غلو محبت ہی عوام کو بتدریج شرک کی طرف لے جاتا ہے اور پھر وہ ان فوت شدگان ہی کو ھاجت روا،مشکل کشا اور نافع و ضار سمجھنے لگ جاتے ہیں۔فنعوذباللہ من ھذہ الغلو وفاس العقیدۃ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
باب سوم:
شرک کیا ہےاور مشرک کون ہے؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿48﴾
ترجمہ: اللہ نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا (سورۃ النساء،آیت 48)
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ ٱلْمَسِيحُ يَٰبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍۢ﴿72﴾
ترجمہ: وہ لوگ بےشبہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مریم کے بیٹے (عیسیٰ) مسیح اللہ ہیں حالانکہ مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی (اور جان رکھو کہ) جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (سورۃ المائدہ،آیت 72)

اس قسم کی متعدد آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی مذمت کی ہے اسے ظلم عظیم قرار دیا ہے اور اس کی وجہ سے تمام اعمال کےباطل ہونے کی خبر دی ہے۔شرک کی اتنی مذمت کیوں کی گئی؟اس لیے کہ یہ نا قابل معافی جرم ہے،اگر ایک مشرک نے دنیا ہی میں شرک سے توبہ نہ کی اورتوحید کا راستہ نہ اپنایا اور شرک کرتے کرتے ہی فوت ہو گیا،تو اس کے لیے معافی کی کوئی صورت نہیں،،اس کے لیے جہنم کی دائمی سزا ہے۔جیسے کافر،اللہ کو نہ ماننے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا ،ایسے ہی اللہ کو ماننے کے باوجود شرک کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا،ان دونوں کو جہنم کے عذاب سے کبھی نجات نہیں ملے گی۔یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے آکر اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید ہی کا درس دیا۔اور اسے شرک سے روکا،جیسا کہ قرآن میں صراحت ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شرک کیا ہے؟

جب شرک کی سزا دائمی جہنم ہے اور تمام انبیاء نے رد شرک ہی کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔تو ضروری ہے کہ ہم معلوم کریں کہ شرک کیا ہے؟
دو خالقوں اور دو معبودوں کا عقیدہ

شرک کی پہلی قسم
شرک کا ایک مطلب تو ہے ،ذات کے اعتبار سے مختلف الہ (معبود اور کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار رکھنے والے)تسلیم کرنا۔
یعنی یہ عقیدہ رکھا جائے کہ کائنات کا خالق و مالک اور اس کا مدبر و منتظم ایک معبود نہیں ہے،بلکہ کئی معبود ہیں۔جیسے مجوسیوں (آتش پرستوں)کا عقیدہ تھا اور ہے کہ کائنات میں خالق دو ہیں،ایک شر کا خالق ،دوسرا خیر کا۔ایک ظلمت کا خالق ،دوسرا نور کا۔
اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی اور فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہر چیز کا خالق صرف ایک ہی ہے اور مدبر و منتظم بھی صرف وہی ایک ۔کیونکہ اگر کائنات میں دو الہ (معبود) ہوتے اور اس میں دونوں کا تصرف اور ارادہ کارفرما ہوتا ،تو یہ نظام عالم اس طرح کبھی درست نہ رہتا جیسے وہ ہزاروں سال سے ہے۔چاند سورج کا طلوع و غروب ،رات اور دن کا آنا جانا ،موسموں کا تغیر و تبدل ،،کبھی بہار،کبھی خزاں،سردی گومی،سردیوں میں دنوں کا چھوٹا اور راتوں کا لمبا ہو جانا اور گرمیوں میں اس کے برعکس دنوں کا لمبا اور راتوں کا چھوٹا ہو جانا۔یہ نطام عالم ہزاروں سال سے یونہی چلا آ رہا ہے ،اس میں کبھی تبدیلی آئی ہے نہ اس میں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے اور نہ اس کے درمیان کوئی تصادم ہی ہوا ہے۔یہ یکسانیت،استحکام اور ہر چیز کی اُستواری ،اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا بھی ایک ہے اور اس میں نظم و تصرف بھی اسی کا کار فرما ہے ۔نہ اس کی تخلیق میں اور کی شرکت ہے نہ اس کی تدبیر و انتظام میں کسی اور کا حکم چلتا ہے۔کیونکہ خالق اگر ایک کی بجائے دو یا اس سے زیادہ ہوتے تو یہ استحکام اور استواری کبھی نہ ہوتی۔قرآن نے اس کو یوں بیان فرمایا:
لَوْ كَانَ فِيهِمَآ ءَالِهَةٌ إِلَّا ٱللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿22﴾
ترجمہ: اگر ان دونوں میں الله کے سوا اور معبود ہوتے تو دونوں خراب ہو جاتے سو الله عرش کا مالک ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں (سورۃ الانبیاء،آیت22)
یعنی اگر واقعی آسمان اور زمین میں دو یا اس سے زیادہ معبود ہوتے ،تو کائنات میں تصرف کرنے والی کئی ہستیاں ہوتیں،مختلف معبودوں کا ارادہ و شعور کار فرما ہوتا اور جب ایسا ہوتا یعنی کئی ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا ،تو یہ نظم کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے بغیر کسی ادنی توقف کے قائم چلا آ رہا ہے۔کیونکہ ان کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ان کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا،ان کے اختیارات ایک دوسرے کی مخلاف سمت میں استعمال ہوتے جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ و مشیت کارفرما ہے،جو کچھ بھی ہوتا ہے،صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے ،اس کے دئے ہوئے کو کوئی نہیں روک سکتااور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے،اس کو کوئی دینے والا نہیں۔ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ مِن وَلَدٍۢ وَمَا كَانَ مَعَهُۥ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًۭا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ ۚ سُبْحَٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿91﴾
ترجمہ: الله نے کوئی بھی بیٹا نہیں بنایا اورنہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہی ہے اگر ہوتا تو ہر الہ اپنی بنائی ہوئی چیز کو الگ لے جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا الله پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں (سورۃ المومنون،آیت 91)
مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ جب نظم عالم میں آج تک کوئی اختلال وفساد رونما نہیں ہوا تو مان لینا چاہیے کہ کائنات کا خالق و مالک اور مدبر و منتظم ایک ہی اللہ ہے،اس انکار بداہت اور روز روشن جیسی حقیقت کا انکار ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شرک کی دوسری اور عام قسم

شرک کی دوسری قسم جو عام ہے،اللہ کی ذات میں تو نہیں اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کرنا ہے،جیسے عالم الغیب ہونا۔دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سن لینا،ماورائے اسباب طریقے سے نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہونا،وغیرہ۔یہ سب اللہ کی صفات ہیں،اللہ کے سوا کوئی بھی ان صفات کا حامل نہیں ہے،نہ کوئی نبی ،نہ کوئی ولی،نہ کوئی اور ہی۔اگر کوئی اللہ کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھتا ہے،ہر ایک کی فریاد سننے پر اور مافوق الاسباب طریقے سے نفع و نقصان پہنچانے پر قادر سمجھتا ہے،تو گویا اس نے اللہ کی صفات دوسروں میں مان کر ان کو اللہ کا شریک قرار دے لیا۔
اسی طرح عبادت کا حق صرف ایک اللہ کا ہے،عبادت کی تمام قسمیں اسی کے لیے ہیں،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا،اس کے سامنے دست بستہ تعظیما کھڑےہونا،نذرونیاز دینا،اس سے دعائیں کرنا،مافوق الاسباب طریقے سے اس کی گرفت سے ڈرنا اور اس سے امیدیں وابستہ کرنا وغیرہ۔یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں جو صرف اللہ کے لیے خاص ہیں۔اس لیے نماز بھی صرف اللہ کے لیے پڑھی جا سکتی ہے۔نیاز بھی اسی کے نام کی دی جا سکتی ہے،تعظیم کے طور پر دست بستہ قیام بھی اسی کا حق ہے،دعائیں مانگنا اور استمداد و استغاثہ کرنا بھی اسی سے جائز ہے۔
ان میں سے کوئی کام بھی کسی اور کے لیے کیا جائے گا،تو وہ شرک ہو گا اور یہ شرک توحید الوہیت میں ہو گا۔شرک کی یہ دوسری قسم بہت عام رہی ہے۔مشرکین عرب کا شرک یہی تھا۔ہندو،مورتیوں کے پجاری ہیں،ان کا شرک بھی یہی ہے اور آج کل کے نام نہاد مسلمانوں کے اندر بھی اس شرک کے مظاہر عام ہیں۔اس شرک کے مرتکب توحید ربوبیت کے قائل رہے ہیں اور ہیں۔توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اور سب کا پالنہار صرف ایک اللہ ہے۔چنانچہ قرآن میں صراحت ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُل لِّمَنِ ٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿84﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿85﴾قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ ﴿86﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿87﴾قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍۢ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿88﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ﴿89﴾
ترجمہ: ان سے پوچھو یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے اگر تم جانتے ہو وہ فوراً کہیں گے الله کاہے کہہ دو پھر تم کیوں نہیں سمجھتے ان سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے وہ فوراً کہیں گے الله ہے کہہ دوکیاپھر تم الله سے نہیں ڈرتے ان سے پوچھو کہ ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور وہ بچا لیتا ہے اور اسے کوئی نہیں بچا سکتا اگر تم جانتے ہو وہ فوراً کہیں گے الله ہی کے ہاتھ میں ہے کہہ دو پھرتم کیسے دیوانے ہو رہے ہو (سورۃ المومنون،آیت 84تا89)
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتے (سورۃ یونس،آیت 31)
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۚ
ترجمہ: او راگر آپ ان سے پوچھیں آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے الله نے (سورۃ الزمر،آیت38)
قرآن کریم کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ مشرکین عرب مانتے تھے کہ آسمان و زمین کا خالق اللہ ہے،روزی رساں اللہ ہے،کائنات کی تدبیر کرنے والا اللہ ہے ،زندگی دینے اور موت سے ہمکنار کرنے والا اللہ ہے اور ہر چیز کا اختیار اسی کے پا س ہے۔جب وہ یہ سب کچھ مانتے تھے تو پھر وہ مشرک کیوں قرار پائے؟اس لیے کہ وہ صرف توحید ربوبیت کو مانتے تھے اور توحید الوہیت کے قائل نہیں تھے اور اللہ ئی اختیارات و اوصاف میں اور اس کے حق عبادت میں دوسروں کو شریک مانتے تھے،اسی لیے اللہ نے ان کو مشرک قرار دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ صرف توحید ربوبیت کو مان لینا کافی نہیں ہے،اس کے قائل تو مشرکین عرب بھی تھے۔توحید ربوبیت کے ساتھ توحید الوہیت کا ماننا بھی ضروری ہے ،جب تک توحید الوہیت کو نہیں مانا جائے گا ،توحید کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔یعنی یہ تسلیم کیا جائے گا کہ جس طرح وہ ذات کے اعتبار سے واحد ہے،اسی طرح صفات کے اعتبار سے بھی یکتا ہے،اس کی سی صفات کسی کے اندر نہیں پائی جاتیں۔اسی طرح عبادتوں کی تمام قسموں کا مستحق بھی صرف اور صرف وہی ہے جس طرح نماز اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہیں پڑھی جا سکتی،روزہ اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں رکھا جا سکتا،اسی طرح نذرونیاز بھی اللہ کے نام کے سوا کسی کے لیے نہیں دی جا سکتی کیونکہ نذر بھی عبادت ہے۔دعا بھی اللہ کے سوا کسی سے نہیں مانگی جا سکتی،کیونکہ دعا بھی عبادت ہے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : (الدعا ھو العبادۃ)طواف بھی بیت اللہ کے سوا،کسی اور جگہ کا نہیں کیا جا سکتا۔
افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بھی مشرکین عرب کی طرح توحید ربوبیت کی تو قائل ہے،لیکن توحید الوہیت کی منکر ہے،اسی لیے وہ مافوق الاسباب طریقے سے غیر اللہ سے بھی اُمیدیں وابستہ کرتی ہے،غیرالہو کے نام کی بھی نذرونیاز دیتی ہے۔،غیر اللہ سے بھی استمداد و استغاثہ کرتی ہے۔قبروں کا طواف کرتی ہے ،بہت سے لوگ قبروں کو سجدہ تک کرتے ہیں۔کیونکہ وہ غیر اللہ میں بھی اللہ والی صفات تسلیم کرتے ہیں۔حالانکہ یہ شرک ہے۔
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں اللہ سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
علامہ اقبال​
 
Top