• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مافوق الاسباب اور ما تحت الاسباب مدد مانگنے کا مطلب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذا سالت فاسال الله واذا استعنت فاستعن بالله) (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 )
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
یعنی انسان کو جب ایسی کسی چیز کی حاجت ہو جو ظاہری اسباب سے پوری ہونے والی نہ ہو یا اس کی دسترس میں نہ ہو تو انسان وہ چیز صرف اللہ سے مانگے، اسی سے دعا و التجا کرے۔ اس لئے کہ مافوق الاسباب طریقے سے دعاؤں کا سننے والا اور اسباب کے بغیر کسی کی حاجت پوری کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کے سوا کسی کے اندر یہ قوت و طاقت نہیں ہے۔ اسباب کے ماتحت تو انسان ایک دوسرے کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لئے اسباب کی حد تک ان سے سوال کرنا بھی جائز ہے جیسے کسی زندہ انسان سے ایک شخص کوئی چیز مانگے، تو وہ سننے پر بھی اور اس کی حاجت پوری کرنے پر بھی قادر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) (المائدہ : 2) یہی مدد انبیاء علیھم السلام نے بھی اللہ کے بندوں سے مانگی، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : (مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ) "اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں کون میری مدد کرنے والا ہے؟ "حواریوں نے کہا، (نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ) (آل عمران: 52) "ہم اللہ کے مددگار ہیں" (یعنی اللہ کی طرف بلانے میں آپ کی مدد کرنے والے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بھی آتا ہے کہ دس سالہ مکی دور میں جب کہ تبلیغ اسلام میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مخالفتیں تھیں، حج کے موسم میں آپ مختلف قبائل عرب پر اسلام پیش کرتے اور ان سے اپنی قوم (قریش) سے بچاؤ کے لئے مدد بھی طلب فرماتے اور یہ استدعا کرتے کہ کوئی ایسا ہے جو مجھے پناہ دے اور میری مدد کرے تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان فرماتے ہیں:
(مكث رسول الله صلي الله عليه وسلم عشر سنين يتبع الناس في منازلهم بعكاظ ومجنة في المواسم بمني يقول من يؤويني' من ينصرني حتي ابلغ رسالة ربي وله الجنة) (الفتح الرباني: 20/269)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے دس سالہ دورِ قیام میں موسم حج میں، بمقام منیٰ لوگوں کی قیام گاہوں، عکاظ اور مجنہ میں لوگوں کے پیچھے جاتے اور فرماتے : کون ہے جو مجھے جگہ (پناہ) دے؟ کون ہے جو میری مدد کرے؟ تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، اس کے بدلے اس کے لئے جنت ہے۔"
ایک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح فرما رہے تھے، کون ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے کیونکہ قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں؟ تو ہمدان قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے پوچھا، (هل عند قومك من منعة) کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ (الفتح الربانی: 20 / 267) بیعت عقبہ ثانیہ، جس میں 72 آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، اس بیعت میں دیگر باتوں کے ساتھ ایک عہد یہ تھا:
(وعلي ان تنصروني فتمنعوني اذا قدمت عليكم ما تمنعون منه انفسكم وازواجكم وابناءكم) (الفتح الرباني: 20/270)
"اور یہ کہ جب میں تمہارے پاس آؤں گا تو تم میری مدد کرو گے اور میری طرف سے اسی طرح مفادعت کرو گے، جیسے تم اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔"
اس تفصیل سے مقصد اس پہلو کی وضاحت کرنا ہے کہ انبیاء علیھم السلام سمیت تمام انسان ظاہری اسباب کی حد تک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔ اس لئے اسباب کے ماتحت ایک دوسرے سے سوال کرنا، ایک دوسرے سے مدد مانگنا اور چیز ہے اور ماورائے اسباب طریقے سے سوال کرنا اور مدد مانگنا اور چیز ہے۔
پہلی صورت نہ صرف جائز ہے بلکہ ناگزیر ہے، جب کہ دوسری صورت صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ کوئی انسان بھی ماورائے اسباب طریقے سے نہ کسی کی بات سن سکتا ہے اور نہ مدد کر سکتا ہے۔ یہ صفات صرف اللہ کے اندر ہیں، اللہ کے سوا کوئی ان صفات کا حامل نہیں، حدیث مذکور الصدر میں پہلی صورت کا نہیں، بلکہ دوسری صورت کا ذکر ہے۔ یعنی ماورائے اسباب طریق سے سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے کرو، مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مانگو، کیونکہ دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد وہی سن سکتا ہے اور وہی ہر ایک کی مدد کر سکتا ہے، فوت شدہ افراد کسی کی فریاد سن سکتے ہیں نہ مدد کر سکتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
لا الہ الا اللہ کا مطلب

لا الہ الا اللہ کے معنی و مفہوم پر گذشتہ صفحات میں قدرے تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔ ذیل کے مضمون میں بھی اسی نکتے پر بحث ہے، لیکن یہ کئی سال قبل کا تحریر کردہ ہے اور مختصر ہے۔ اس لیے تکرار کے باوجود قند مکرر کے طور پر اسے بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
لا الہ الا اللہ، یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کلمہ توحید ہے، اس میں توحید الوہیت کا اقرار ہے، جس کا انکار ہر دور کے مشرکین کا شیوہ رہا ہے۔ مشرکین یہ تو مانتے آئے ہیں اور مشرکین مکہ بھی جانتے تھے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا، سب کو روزی عطا کرنے والا ہے۔ کائنات کی تنظیم و تدبیر کرنے والا وہی رب ہے جو آسمانوں میں ہے۔ اسے توحید ربوبیت کہتے ہیں، اس توحید ربوبیت کو سب تسلیم کرتے ہیں، لیکن توحید الوہیت سے وہ انکار کرتے تھے، حالانکہ توحید الوہیت، توحید ربوبیت کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے، جب آسمان و زمین کا خالق، مالک، سب کا رازق اور کائنات کا مدبر صرف ایک اللہ ہے، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، تو پھر عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے، اس میں دوسرے کی شرکت کو وہ کیونکر برداشت کر سکتا ہے؟ لیکن مشرکین توحید الوہیت کو نہیں مانتے۔ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں۔
عبادت کے معنی ہیں، کسی صاحب قدرت ہستی کے سامنے انتہائی تذلل اور عاجزی کا اظہار کرنا۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں، اس کی بارگاہ اقدس میں سربہ سجود ہونا، اس کے سامنے تعظیما کھڑا ہونا، اس کے لئے رکوع کرنا، اس کے لئے طواف کرنا، اس کے نام کی نذر و نیاز دینا، اس کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا، اس سے مافوق الاسباب طریقے سے امیدیں وابستہ کرنا اور ڈرنا، اس کے لئے نماز پڑھنا، روزے رکھنا، اس سے دعائیں اور التجائیں کرنا۔ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں اور کلمہ توحید کے اقرار کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے کوئی کام بھی اللہ کے سوا کسی کے لئے نہ کیا جائے، ورنہ عبادت میں شرک لازم آئے گا۔
بدقسمتی سے بہت سے پیدائشی مسلمان، جنہیں دین کا صحیح شعور اور توحید کے حقیقی مفہوم کا علم نہیں، وہ صرف سجدہ کرنے کو شرک سمجھتے ہیں، اس لئے وہ غیر اللہ کو سجدہ تو نہیں کرتے (اور بعض جاہل تو سجدہ بھی کر لیتے ہیں) لیکن دوسرے سارے کام وہ غیراللہ کے لئے کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں ہم مشرک کس طرح ہو سکتے ہیں؟ چنانچہ وہ غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، بزرگوں کی خوشنودی کے لئے جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور دیگیں بھی تقسیم کرتے ہیں، ان کی قبروں کے گرد طواف بھی کرتے ہیں۔ ان سے دعائیں اور التجائیں بھی کرتے ہیں، ان سے امیدیں بھی وابستہ کرتے اور ڈرتے بھی ہیں، قبروں میں مدفون بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر انہیں مدد کے لئے پکارتے بھی ہیں، انہیں نافع، ضار اور عالم الغیب بھی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کام عبادات ہیں اور یہ نام نہاد مسلمان انہیں غیراللہ کے لئے بجا لا کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اعاذناللہ منھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان لا الہ الا اللہ، زبان سے تو پڑھتا ہے لیکن اس کے مفہوم سے قطعا نا آشنا ہے، اس لئے وہ مشرکین مکہ کی طرح توحید ربوبیت کو تو تسلیم کرتا ہےے، لیکن توحید الوہیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توحید ربوبیت کے ماننے کے باوجود انہیں مشرک قرار دیا۔ کیوں؟ صرف اسی لئے کہ وہ توحید الوہیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ بنا بریں توحید الوہیت کو ماننا نہایت ضروری ہے جو کلمہ توحید لا الہ الا اللہ میں بیان کی گئی ہے۔ اس کے بغیر توحید ربوبیت پر اعتقاد کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ صرف اس سے توحید کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
اس کلمہ توحید کی یہی اہمیت ہے جس کی وجہ سے اسے سب سے زیادہ فضیلت والا ذکر قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مثل کوئی اور کلمہ نہیں، یہی کفر و اسلام اور شرک و توحید کے درمیان فرق کرنے والا ہے، یہی کلمہ انسانوں کو اللہ سے جوڑنے والا اور غیروں سے توڑنے والا ہے۔ یہی انسان کے نفس کا سب سے بہتر تزکیہ کرنے والا اور اس کے باطن کی صفائی کرنے والا ہے اور یہی سب سے زیادہ خبث نفس سے پاک کرنے والا اور دل کو شیطان کی آماجگاہ بننے سے بچانے والا ہے۔ کاش مسلمان اس کلمہ توحید و اخلاص کی حقیقت و اہمیت کو سمجھ سکیں اور اپنے عقیدہ و عمل کو اس کے مطابق کر سکیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب چہارم
استدلالات اور ان کا جائزہ

(إِيَّاكَ نَعْبُدُ) میں إِيَّاكَ (مفعول) کے مقدم کرنے میں جو حصر کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے، اس سے جہاں اس بات کا اثبات ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں۔ وہاں دوسروں کی عبادت کی نفی بھی ہوتی ہے۔ یوں گویا کلمہ شہادت (لا الہ الا اللہ) کے معنی کا تحقیق ہو جاتا ہے۔ اس کلمے میں بھی اثبات اور نفی دونوں چیزیں موجود ہیں۔ اللہ کی عبادت کا اثبات اور غیراللہ کی نفی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان دونوں باتوں کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے۔ مثلا سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا:
(اعْبُدُوا رَبَّكُمُ) (البقرة: 21)
"اپنے رب کی عبادت کرو۔"
تو اس کے ساتھ ہی فرمایا:
(فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا) (البقرة: 22)
"تم اللہ کے شریک نہ ٹھہراؤ۔"
دوسرے مقام پر فرمایا:
(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ) (النحل: 36)
"ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جس نے یہ پیغام دیا) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو"
"اللہ کی عبادت کرو" میں اثبات ہے اور "طاغوت سے بچو" میں غیراللہ کی نفی ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
( فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا) (البقرة: 256)
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا، اس نے مضبوط کڑا تھام لیا۔"
اس میں بھی طاغوت کا انکار کرنا، نفی ہے اور اللہ پر ایمان لانا، اثبات ہے۔ اس طرح اور بھی متعدد مقامات پر یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اثبات بھی متعدد مقامات پر یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اثبات توحید کے ساتھ معبودان باطلہ کی نفی اور ان کی تردید بھی نہایت ضروری ہے۔
اسی لئے گزشتہ صفحات میں ہم نے بعض مغالطوں کی وضاحت بھی کی ہے، تاہم ضروری ہے کہ اس مقام پر اُن دیگر دلائل کا بھی جائزہ پیش کیا جائے جو بعض حلقوں کی طرف سے مشرکانہ عقائد و اعمال کے جواز و اثبات میں پیش کئے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں شرکیہ عقیدے اور شرکیہ اعمال و مظاہر، اسلامی ممالک میں عام ہیں اور علماء و مشائخ کے ایک بہت بڑے طبقے کے دنیوی مفادات چونکہ ان سے وابستہ ہیں، اس لئے علماء کا یہ طبقہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کو سندِ جواز دینے پر تُلا رہتا ہے اور اس کے لئے وہ عجیب عجیب دلائل اور بے سروپنا روایات و حکایات سے استدلال کرتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان دلائل کی حقیقت واضح کی جائے تاکہ توحید کے اس مسئلے میں، جس کو قرآن کریم نے نہایت شرح و بسط سے بیان کیا ہے اور اسے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد وحید بتلایا ہے، کوئی ابہام یا انکال باقی نہ رہے۔
(لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ) (الانفال: 42)
"تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے اور جو جیتا رہے، وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(1)کیا بزرگانِ دین کو مدد کے لئے پکارنا شرک نہیں ہے؟

ایک دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ "اللہ تعالیٰ کو فاعلِ حقیقی تسلیم کرتے ہوئے بزرگانِ دین کو وسیلہ امداد اور مظہرِ اعانتِ الہی قرار دیتے ہوئے ان سے استغاثہ کرنا اور ان کو امداد کے لئے پکارنا جائز ہے۔ یہ پکارنا شرک نہیں ہے البتہ ان کی عبادت و پرستش کرنا شرک ہے۔"
بلاشبہ مطلقا پکارنا شرک نہیں ہے، ہم اپنے بچے کو پکار کر بلاتے ہیں، کسی دوست کو آواز دیتے ہیں اور کسی کو زور سے ندا دیتے ہیں۔ یہ شرک نہیں ہے اور نہ یہ پکارنا مابہ النزاع ہے۔ مابہ النزاع پکارنا (جو شرک کی ایک صورت ہے) وہ ہے جو لوگ مردہ (قبروں میں مدفون) لوگوں کو مافوق الاسباب طریق سے پکارتے ہیں۔ جیسے: یا شیخ عبدالقادر شیئاللہ، یارسول اللہ اغثنا، یاعلی مدد وغیرہ۔ یہ پکارنا شرک ہی کے ذیل میں آتا ہے کیوں کہ پکارنے والا ان کی بابت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ہزاروں میل کے فاصلے کے باوجود یہ فوت شدہ بزرگ میری آواز کو سنتا ہے، میرے حالات سے باخبر ہے۔ وہ حاضر ناظر ہے اور کائنات میں تصُرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اسی لئے یہ شخص اس بزرگ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کے نام کی نذر دیتا ہے۔ اس کے نام پر جانور قربان کرتا ہے، اس کی قبر پر غلاف چڑھاتا ہے اور اس کی ناراضی سے ڈرتا ہے۔ اس کا اعتقاد ہوتا ہے کہ اگر میں نے گیارہویں نہ دی (یعنی اس بزرگ کے نام کی نیاز نہ دی) تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے، میرے کاروبار کو نقصان پہنچائیں گے۔ حالانکہ عالم الغیب، نافع و ضار، حاضر و ناظر اور متصرف فی الامور ، صرف اللہ کی ذات ہے اور یہ تمام صفات اللہ کے لئے خاص ہیں، جن میں اس کا کوئی شریک نہیں لیکن یاعلی مدد، یا شیخ عبدالقادر شیئاللہ، وغیرہ پکارنے والا یہ تمام صفاتِ خداوندی اس مُردہ بزرگ میں تسلیم کرتا ہے اور اس بزرگ کو اُن اُلوہی صفات میں شرک مانتا ہے۔
اس عقیدے کے ساتھ کسی بھی مُردہ شخص کو پکارنا، یہی اس کی عبادت و پرستش ہے۔ اسی کو قرآن نے (يدعون) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی سب کے نزدیک "عبادت و پوجا" کرنے کے ہیں۔ یہ حضرت، عوام کو باور کراتے ہیں کہ ہم تو بزرگوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت و پرستش نہیں کرتے حالانکہ اس طرح مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو پکارنا، یہی اس کی عبادت ہے۔ اس لئے دُعا "پکارنا" بھی بلا اختلاف عبادت ہی سمجھی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(الدعا هو العبادة) (جامع الترمذي' الدعوات' باب منه "الدعاء مخ العبادة" ح: 3372)
"پکارنا (دعا کرنا) عبادت ہی ہے۔"
بلکہ دوسری حدیث میں فرمایا:
(الدعا مخ العبادة) (جامع الترمذي' الدعوات' باب منه "الدعاء مخ العبادة" ح: 3371)
"دُعا (پکارنا) عبادت کا مغز ہے۔"
اور قرآن کریم نے بھی دُعا کو عبادت ہی کہا ہے، فرمایا:
(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴿٦٠﴾) (المومن: 60)
"اور تمہارے رب نے فرمایا: "مجھے پکارو! میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا، بلاشبہ جو لوگ میری عبادت (یعنی مجھے پکارنے اور مجھ سے دعائیں کرنے) سے انکار کرتے ہیں، عنقریب وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے۔"
یہاں (يستكبرون عن دعوتي) کی جگہ اللہ تعالیٰ نے (عبادتي) کے الفاظ استعمال فرمائے اور قرآن مجید کا یہ سیاق صاف بتلا رہا ہے کہ مافوق الاسباب طریق سے کسی کو پکارنا اور حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر اس سے دُعا کرنا اس کی عبادت ہی ہے اِس لئے مُردہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنا اور ان سے استغاثہ کرنا اور یا شیخ عبدالقادر شیئاللہ، یاعلی مدد وغیرہ کہنا ان کی عبادت و پرستش ہی ہے۔ قیامت کے دن یہ بزرگ اپنی اس عبادت و پرستش کا بالکل انکار کر دیں گے اور بارگاہ الہی میں عرض کریں گے کہ مولائے کریم ہم تو ان کی عبادت اور پوجا سے جو یہ (دُعا و استغاثہ کی صورت میں) ہماری کرتے تھے، بالکل بے خبر تھے:
(إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ ﴿٢٩﴾) (يونس: 29)
یہاں بھی فوت شدہ بزرگوں سے دُعا کو ان کی عبادت ہی کہا گیا ہے جس سے وہ روزِ قیامت انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو ان کی عبادت (دُعا و پکار) کا کوئی علم ہی نہیں۔ بہرحال کسی شخص کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر مافوق الاسباب طریق سے اسے پکارنا، اس سے استمداد کرنا اور اس سے دعائیں کرنا یہ اس کی عبادت ہی ہے۔ اسے اگر مگر اور چونکہ چنانچہ سے جائز قرار دینا مغالطہ انگیزی ہے
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(2)صحابہ و تابعین نے کسی بھی فوت شُدہ کو کبھی نہیں پُکارا

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
"صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے لے کر اب تک مسلمانوں کا اس پر اجماع و اتفاق رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مؤثر حقیقی و فاعل حقیقی ہونے کا اعتقاد کرتے ہوئے فوت شدہ بُزرگانِ دین کو بطورِ وسیلہ پکارنا، ان سے استغاثہ کرنا اور ان کو امداد کے لئے پکارنا جائز ہے۔"
یہ دعویٰ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُمتِ مسلمہ پر بُہت بڑا افترا اور بہتانِ عظیم ہے (سُبْحَانَكَ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ) اس دعوے کے اثبات میں صحابہ کرام کے دور کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی، تابعین و تبع تابعین کا کوئی عمل پیش نہیں کیا جا سکتا، حتیٰ کہ امام ابوحنیفہ کا کوئی قول یا فقہ حنفی کی مشہور اور متداول کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا جب ایسا ہے تو اس پر اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیسا؟
امر واقع یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین، ائمہ عظام رحمۃ اللہ علیھم اور فقہائے احناف میں سے کسی نے بھی کسی مردہ کو امداد کے لئے نہیں پکارا اور کبھی ان سے استغاثہ نہیں کیا کیونکہ ان کا عقیدہ یہی تھا کہ مرنے کے بعد کوئی مردہ کسی کی فریاد نہیں سُن سکتا جس کی صراحت قرآن نے کی ہے:
(وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿٢٢﴾) (الفاطر: 22)
"(اے پیغمبر!) تو قبروں والوں کو کوئی بات نہیں سنا سکتا۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(3)فوت شدگان سے استغاثہ کرنا اور ان کا وسیلہ پکڑنا جائز نہیں
اس کے دلائل سنئے، صحیح بخاری میں ہے:
(إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا ، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا . فَيُسْقَوْنَ) (صحيح البخاري' الاستسقاء' باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا' ح: 1010)
"حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بھی قحط سالی ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دُعا کرواتے اور فرماتے: "اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے (جب وہ زندہ ہم میں موجود تھے) بارش کے لئے دُعا کرواتے تو تو ہمیں بارانِ رحمت سے سیراب فرماتا۔ اب (جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود نہیں ہیں) تیرے نبی کے چچا کو ہم تیری بارگاہ میں بطورِ وسیلہ (یعنی دُعا کے لئے) پیش کر کے دُعا کر رہے ہیں۔ یا اللہ! اس دُعا کو قبول فرما، ہم پر بارش کا نزول فرما۔ (راوی کہتا ہے کہ) اس پر بارش ہو جاتی۔"
اور فتح الباری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دُعا کے یہ الفاظ منقول ہیں:
(اللهم انه لم ينزل بلاء الال بذنب ولم يكشف الا بتوبة وقد توجه القوم بي اليك لمكاني من نبيك وهذه ايدينا اليك بالذنوب ونواصينا اليك بالتوبة فاسقنا الغيث)
"یا اللہ! بلاؤں کا نزول گناہوں کی وجہ سے ہی ہوتا ہے اور توبہ کے ذریعہ سے وہ دور ہو جاتی ہیں۔ یا اللہ! تیرے نبی کے ساتھ مجھ کو قریبی تعلق اور نسبت کی وجہ سے جو عزت و مقام حاصل ہے۔ اس کے پیشِ نظر انہوں نے مجھے تیری بارگاہ میں ذریعہ بنایا ہے (یعنی دُعا کے لئے لائے ہیں) یا اللہ! یہ گناہ آلود ہاتھ تیری طرف پھیلے ہوئے ہیں اور ہماری پیشانیاں توبہ کے لئے تیری طرف جُھکی ہوئی ہیں، یا اللہ ہم پر بارش نازل فرما۔"
روایت کے الفاظ ہیں:
(فارخت السماء مثل الجبال حتي اخصبت الارض وعاش الناس) (فتح الباري' باب مذكور: 2/641)
"اس دُعا کے بعد آسمان نے پہاڑوں جیسے دھانے کھول دئیے۔ زمین خوب شاداب ہو گئی اور لوگوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔"
اس واقعے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا طرزِ عمل واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کسی مُردہ شخص سے دُعا نہیں کرائی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ نہیں کیا۔ انہیں مدد کے لئے نہیں پکارا اور ان کا واسطہ دے کر دُعا نہیں مانگی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں۔ استسقاء کی دُعا اور نماز مجمع عام میں ہوتی ہے تو گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عام فعل یہی رہا قرار پایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ تک سے دُعا کرانی جائز نہیں تو آپ سے زیادہ صاحبِ فضیلت کون ہے کہ جس سے اَب دُعا کرائی جائے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دَور کا ایک اور واقعہ ہے، جسے مُلا علی قاری حنفی نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں دسویں صدی ہجری کے شافعی فقیہ ابن حجر مکی ہتیمی کے حوالے سے نقل کیا ہے:
(قال ابن حجر: واستقي معاوية بيزيد بن الاسود فقال: اللهم انا نستقي بخيرنا وافضلنا ' اللهم انا نستقي بزيد بن الاسود يا يزيد: ارفع يديك الي الله فرفع يديه ورفع الناس ايديهم فثارت سحابة من المغرب كانها ترس وهبت ريح فسقوا حتي كاد الناس لا يبلغون منازلهم) (مرقاة: 2/288 طبع قديم)
"ابن حجر (مکی) کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید بن اسود رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر بارش کے لئے دُعاء کرائی اور فرمایا: "اے اللہ! ہم میں جو بہتر اور افضل ہے اس کے ذریعے سے ہم تیری بارگاہ میں بارش کی دُعا کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم یزید بن اسود رضی اللہ عنہ کو ساتھ لائے ہیں اور استسقاء کر رہے ہیں۔ (پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا) اے یزید! بارگاہِ الہی میں دُعا کے لئے ہاتھ اٹھائیے انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے پس مغرب کی طرف سے ڈھال کی طرح ایک گھٹا اُٹھی اور ہوا چلی اور ان کے لئے بارش کا اس طرح نزول ہوا کہ قریب تھا کہ لوگ اپنے گھروں کو نہ پہنچ سکیں۔"
اس واقعے سے بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل، زندہ سے دُعا کرانے کا تو تھا لیکن فوت شدہ سے دُعا کرانے کا ان کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کے لئے دُعا کرانے کی حدیث ذکر کر کے فرماتے ہیں:
"ازیں جا ثابت شُد کہ توسُل بہ گزشتگان و غائبان جائز نہ داشتد وگرنہ عباس رضی اللہ عنہ از سرورِ عالم بہتر نہ بود چرا نہ گفت کہ توسُل می کردیم بی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تو والحال توسل کنیم بہ رُوحِ پیغمبر تو۔" (البلاغ المبین: 16، طبع لاہور) یعنی "اس واقعے سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم گزرے ہوئے (فوت شگان) اور غائب لوگوں کو وسیلہ پکڑنا جائز نہیں سمجھتے تھے ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نہ تھے (اگر فوت شدہ سے دُعا کرنا جائز ہوتا) تو انہوں نے کیوں نہ کہا کہ یا اللہ! پہلے ہم تیرے نبی کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے، اب ہم تیرے نبی کی روح کے ساتھ وسیلہ پکڑتے ہیں۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ:

یہ تو واقعات ہوئے عہد صحابہ و تابعین کے، اب خاص امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو جس کو شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگردِ رشید مولانا محمد بشیر الدین قبوجی (متوفیٰ: 1296ھ) نے فقہ کی ایک کتاب "غرائب فی تحقیق المذاہب" کے حوالہ سے لکھا ہے:
(راي الامام ابوحنيفة من ياتي القبور لاهل الصلاح فيسلم ويخاطب ويتكلم يقول: يا اهل القبور هل لكم من خبر وهل عندكم من اثر اني اتيتكم من شهور وليس سؤالي الا الدعاء فهل دريتم ام غفلتم فسمع ابوحنيفة بقول يخاطبه بهم فقال: هل اجابوا لك؟ قال: لا! فقال له: سحقا لك وتربت يداك كيف تكلم اجسادا لا يستطيعون جوابا ولا يملكون شيئا ولا يسمعون صوتا وقرا (وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ) (تفهيم المسائل مولانا محمد بشير الدين قنوجي)
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آ گر ان سے کہہ رہا تھا: "اے قبروں والو! کیا تمہیں خبر بھی ہے اور کیا تمہارے پاس کچھ اثر بھی ہے؟ میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آ رہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں، تم سے میرا سوال بجز دُعا کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟" امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی یہ بات سُن کر اس سے پوچھا: "کیا (ان قبروں والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟" وہ کہنے لگا: "نہیں!" تو آپ نے فرمایا: "تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی کی آواز (فریاد) سُن سکتے ہیں، پھر امام صاحب نے یہ آیت پڑھی:
(وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ) (الفاطر: 22)
"(اے پیغمبر!) تو ان کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں۔" (1)

علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت:
علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
(ان الاستغاثة بمخلوق وجعله وسيلة بمعني طلب الدعاء منه لا شك في جوازه ان كان المطلوب منه حيا ... واما اذا كان المطلوب منه ميتا او غائبا فلا يستريب عالم انه غير جائز وانه من البدع التي لم يفعلها احد من السلف) (تفسير روح المعاني 2/297' طبع قديم 1301ه)
"کسی شخص سے درخواست کرنا اور اس کو اس معنی میں وسیلہ بنانا کہ وہ اس کے حق میں دُعا کرے اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے وہ درخواست کی جائے وہ زندہ ہو ... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب، تو ایسے استغاثے ان بدعات میں سے ہے جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔"
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ، تابعین، ائمہ کرام اور تمام اسلافِ صالحین رحمۃ اللہ علیھم زندہ نیک لوگوں سے تو دُعا کرانے کے قائل تھے لیکن کسی مُردہ کو انہوں نے مدد کے لئے نہیں پکارا اور ان سے استغاثہ نہیں کیا۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سے استغاثہ نہیں کیا۔ اب آپ کے بعد کونسی ہستی ایسی ہے جو آپ سے زیادہ فضیلت رکھتی ہو کہ اسے مدد کے لئے پکارا جائے اور اس سے استعانت کی جائے۔ (فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ؟)
وسیلے کی جائز صورتیں:
اس تفصیل سے واضح ہے کہ وسیلے کی کئی صورتیں ہیں۔ بعض جائز ہیں اور بعض ممنوع ۔ وسیلے کی جائز صورتیں حسب ذیل ہیں۔
(1)کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کی درخواست کی جائے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
(2)اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے وسیلے یعنی ان کے حوالے سے دعا کی جائے جیسے قرآن مجید میں ہے:
(وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴿١١٨﴾) (المومنون: 118)
"اور آپ کہئے اے رب! تو معاف کر دے اور رحم فرما، اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔"
یہاں اللہ سے رحم کرنے کی دعا کی جا رہی ہے اس کی صفت خیر الراحمین کے حوالے سے۔ اسی طرح یا ارحم الراحمین کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس سے رزق کی دعا اس کی صفت رزاق اور خیر الرازقین کے حوالے سے اور دیگر دعائیں ان کے حسب حال دیگر اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے کی جائیں۔
(3)اپنی تکلیف، اپنی تقصیر اور فقر و حاجت کا اظہار کر کے اس سے دعا کی جائے۔ اس صورت میں گویا انسان اپنی بے چارگی و بے کسی اور اپنی عاجزی و درماندگی کا وسیلہ یعنی حوالہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے۔ جیسے حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیماری کے حوالے سے دعا فرمائی۔
( أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿٨٣﴾) (الانبياء: 83)
"بے شک مجھے تکلیف (بیماری) پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔"
اور جیسے زکریا علیہ السلام نے اولاد کے لئے دعا فرمائی تو اس میں ظاہری اسباب کے مطابق اپنی بے چارگی کا اس طرح اظہار فرمایا:
( رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ﴿٤﴾) (مريم: 4)
"اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے، لیکن اے میرے رب! میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا ہو۔"
حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اپنی تقصیر کا اعتراف کرتے ہوئے یوں دعا فرمائی:
( لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾) (الانبياء: 87)
"تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی قصوروار ہوں۔"
(4)نیک اعمال کے وسیلے یعنی حوالے سے دعا کی جائے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:
(رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ﴿١٩٣﴾) (آل عمران : 193)
"اے ہمارے رب! ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا جو ایمان قبول کرنے کی آواز لگا رہا تھا، پس ہم (اس کی پکار پر) ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! پس (اس ایمان کی بدولت) تو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ فوت کرنا۔"
یا جیسے حدیث میں سابقہ امتوں میں سے تین اشخاص کا واقعہ آتا ہے جنہوں نے بارش آنے پر غار میں پناہ لی تو غار کا منہ بند ہو گیا اور وہ تینوں غار میں پھنس گئے۔ وہاں ان تینوں نے اپنا اپنا خالص عمل، جو انہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا، اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا اور اس کے وسیلے اور حوالے سے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبول فرما کر غار کے دھانے سے اس چٹان کو سرکا دیا جس نے غار کا منہ بند کر دیا تھا اور وہ سب اس سے باہر نکل آئے۔ (صحیح بخاری، احادیث الانبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465)
قرآن مجید میں دو مقام پر "الوسیلہ" کا لفظ آیا ہے، دونوں جگہ وسیلے سے مراد یہی ذریعہ قرب الہی یعنی اعمال صالحہ ہیں۔ یہ دونوں مقام حسب ذیل ہیں:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ) (المائدة: 35)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔"
یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
(أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ) (الاسراء: 57)
"وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں، وہ تو اپنے رب کی طرف وسیلہ (ذریعہ قرب) تلاش کرتے ہیں کہ کون ان میں سے (اللہ کے) زیادہ قریب ہے۔ اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔"
زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگ فرشتوں کی پوجا کرتے تھے اور کچھ جنات کی۔ اللہ نے فرمایا، یہ تو خود اللہ کا قرب تلاش کرنے کی فکر میں رہتے اور اس کی رحمت کی آس لگائے رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ جب یہ خود ایسے ہیں، تو یہ معبود کس طرح بن سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)مولانا محمد اسحاق دہلوی کی کتاب "ماۃ مسائل" کے رد میں ایک کتاب "تصحیح المسائل" نامی مولوی فضل رسول بدایونی نے لکھی تھی اس کا جواب مولانا محمد بشیر الدین قنوجی نے تفہیم المسائل کے نام سے دیا تھا۔ خوب مدلل کتاب ہے پہلے 1269ھ میں پہلی دفعہ مطبع "الرحمٰن" شاہجہان آباد میں طبع ہوئی پھر دوسری دفعہ محمدی پریس لاہور میں چھپی۔ تاریخ طبع معلوم نہیں)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ناجائز اور ممنوع وسیلہ

اس کی صورت یہ ہے کہ کسی مخلوق کے واسطے اور وسیلے سے دعا کی جائے۔ مثلا: "یا اللہ! فلاں کے صدقے ہمارا فلاں کام کر دے۔ یا، فلاں کے حق یا جاہ و مرتبت کے واسطے ہماری دعا قبول فرما۔"
یہ وسیلہ اس لیے ناجائز ہے کہ یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا ہے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اختیار فرمودہ ہے۔ یہ گویا بدعی طریقہ ہے، علاوہ زیں یہ شرک کا ذریعہ بنتا ہے۔ لوگ جن کو اللہ کے ہاں معزز و مقرب سمجھ کر ان کے واسطے اور صدقے سے دعائیں مانگتے ہیں، شریعت اور توحید کے تقاضوں سے نا آشنا عوام پھر انہی بزرگوں کو متصرف الامور سمجھ لیتے ہیں اور ان سے بھی اسی طرح استمداد و استغاثہ کرنے لگ جاتے ہیں جیسے اللہ سے کیا جاتا ہے۔ یا ان کی قبروں پر جا کرنذر و نیاز چڑھانے یا وہاں جا کر دیگیں تقسیم کرنے کو حاجت بر آنے کے لیے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ آخر الذکر یہ دونوں صورتیں شرک صریح کی ذیل میں آ جاتی ہیں۔ اس لیے مذکورہ بدعی طریقے سے دعا کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اس سے شرک کا دروازی کھلتا ہے۔ جیسا کہ واقعتا ایک حلقے میں اس طرح کا شرک عام ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میرے لیے اس میں شرک کا کوئی اندیشہ نہیں ہے تب بھی اس طریقے کے بدعی ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ مسنون طریقہ چھوڑ کر بدعی طریقہ اختیار کرنا بھی ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ اس لیے دعا، صرف اللہ کے اسمائے حسنیٰ یا اعمال صالحہ ہی کے حوالے سے کی جائے یا کسی نیک زندہ شخص سے دعا کروائی جائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حدیث الاعمیٰ سے استدلال اور اس کا جواب

بحق فلاں یا بہ جاہ فلاں دعا کرنے والے حضرت حدیث میں بیان کردہ ایک واقعے سے استدلال کرتے ہیں، ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس پر بھی کچھ گفتگو ہو جائے۔ یہ واقعہ حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے۔
ایک نابینا شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: ادع الله ان يعافيني "آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت عطا فرمادے۔" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
(ان شئت دعوت وان شئت صبرت فهو خير لك)
"اگر تو چاہے تو دعا کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہے تو صبر کر لے، تیرے لیے یہ زیادہ بہتر ہے۔"
اس نے کہا: آپ اللہ سے دعا ہی فرما دیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے آئے اور ان الفاظ کے ساتھ دعا کرے۔
(اللهم اني اسئلك واتوجه اليك بنبيك محمد نبي الرحمة' اني توجهت بك الي ربي في حاجتي هذه لتقضي لي اللهم فشفعه في) (جامع الترمذي' الدعوات' باب ١١٨ (بعد باب في دعاء الضيف) ' ح: 3578)
"اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد پیغمبر رحمت (کی دعا) کو متوجہ کرتا ہوں۔ بے شک میں آپ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں سفارشی بناتا ہوں، تاکہ میری حاجت پوری کر دی جائے۔ اے اللہ! پس تو آپ کی میرے بارے میں سفارش (دعا) کو قبول فرما۔"
یہاں شفاعت (سفارش) بمعنی دعا ہے، سیاق سے یہ معنی واضح ہے۔ گویا اس میں زندہ بزرگ کی شفاعت یا دعا کو بطور وسیلہ اختیار کیا گیا ہے، یعنی نیک آدمی سے دعا کروانا۔ اور یہ وسیلے کی ایک جائز صورت ہے، کیونکہ یہ صورت بھی دراصل اعمال صالحہ کے ذریعے سے دعا کرنے میں شامل ہے۔ انسان کسی نیک آدمی سے دعا کی درخواست کرتا ہے تو اس کی نیکی کی بنیاد اعمال صالحہ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ قسم بھی دراصل اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے دعا کرنے ہی میں شامل ہے۔
اس میں بحق فلاں یا بہ جاہ فلاں یا فلاں کے صدقے، والی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ نابینا آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آتا، بلکہ گھر بیٹھے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اور واسطے، یا آپ کے حق اور جاہ و مرتبت کے حوالے سے دعا کر لیتا۔ اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ آپ سے دعا کی درخواست کے لیے آپ کے پاس آیا۔ یعنی آپ کی دعا کے ساتھ توسل کیا، نہ کہ آپ کے ذات یا آپ کے جاہ کے ساتھ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے یہ نہیں کہا کہ تجھے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی، تو گھر بیٹھے ہی میرے صدقے یا میرے حق کے حوالے سے دعا کر لیتا۔ اس کی بجائے آپ نے اسے وضوء کر کے (اور سنن ابن ماجہ کی روایت کے مطابق، پھر دو رکعت ادا کر کے) مذکورہ طریقے سے دعا کرنے کا حکم دیا اور وضوء کر کے دو رکعت ادا کرنا، عمل صالح ہی ہے، اس عمل صالح کے بعد اللہ سے دعا کرنے کی تلقین فرمائی۔ علاوہ ازیں نابینا نے بھی آپ سے دعا کے لئے اصرار کیا، جس پر آپ نے بھی وعدے کے مطابق اس کی عافیت کے لیے دعا فرمائی۔
اس اعتبار سے اس واقعے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اس نابینا آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر دعا کی درخواست کی اور پھر اس نے خود، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق پہلے اپنے لیے دعا کی۔ پھر اس دعا میں اس نے اپنے متعلق آپ کی دعا اور سفارش کے قبول کرنے کی بھی بارگاہ الہی میں التجا کی۔ اس لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اتوجه اليك بنيبك میں مضاف مخذوف ہے۔ یعنی اتوجه اليك بدعاء نبيك "میں تیری طرف تیرے نبی کی دعا پیش کرتا (یا اس کی دعا کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوتا) ہوں۔"
اس واقعے اور حدیث سے قطعا اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ مخلوق کی ذات یا اس کے حق اور جاہ مرتبت کے وسیلے سے دعا کی جائے یا انہیں غائبانہ مدد کے لیے پکارا جائے۔ اس حدیث سے صرف زندہ نیک آدمی سے دعا کروانے کا، علاوہ ازیں وہ جو دعا کسی کے لیے کرے، اس کی قبولیت کی التجاء کرنے کا اثبات ہوتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(4)صفم پرست مشرکین بھی فاعلِ حقیقی اللہ ہی کو مانتے تھے
بعض لوگ کہتے ہیں "اللہ تعالیٰ کو فاعلِ حقیقی مانتے ہوئے کسی کو مدد کے لئے پکارا جائے تو یہ شرک نہیں۔" اس سلسلے میں عرض ہے کہ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ دُنیا میں شرک کا وجود کبھی رہا ہی نہیں ہے اور قرآن کریم میں (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ نے خواہ مخواہ لوگوں کو مشرک قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بار بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عرب کے مشرکین جو دعوتِ توحید کے مخاطبِ اول تھے، وہ یہ مانتے تھے کہ زمین و آسمان اور کائنات کا خالق و مالک اور پروردگار صرف اللہ ہے اور وہی واحد ہستی ہے جس کے ہاتھ میں کائنات کی تدبیر اور تُصرف ہے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ان عربوں کو مشرک کہا۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود وہ مشرک کیوں قرار پائے؟ یہی وہ نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے شرک کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مشرکینِ عرب نے اللہ کے سوا جن ہستیوں کو معبود اور دیوتا مان رکھا تھا وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اس کا مملوک اور بندہ ہی جانتے تھے لیکن اس کے ساتھ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ چونکہ یہ لوگ اپنے اپنے وقتوں میں اللہ کے نیک بندے اور اس کے چہیتے تھے اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں خاص مقام حاصل تھا اس بناء پر وہ بھی کچھ اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ہم ان کی عبادت (پوجا) اس لئے نہیں کرتے کہ یہ خدائی اختیارات کے حامل ہیں، ہم تو ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں اوعر بطورِ وسیلہ اور سفارش ان کو پکارتے ہیں اور ان سے استغاثہ کرتے ہیں۔ خود قرآن کریم میں مشرکین کے یہ اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ سورۃ یونس میں فرمایا:
(وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ) (يونس 10/18)
"اور (وہ مشرکین عرب) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کے نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ نفع۔ اور کہتے (یہ) ہیں کہ یہ تو ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس۔"
دوسرے مقام پر فرمایا:
(وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ) (الزمر 39/3)
"جن لوگوں نے اللہ کے سوا اپنے حمایتی پکڑ رکھے ہیں (ان کا کہنا ہے) کہ ہم تو ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ کے قریب پہنچا دیں۔"
اور صحیح احادیث میں آتا ہے کہ مشرکینِ عرب حج میں یہ تلبیہ پڑھا کرتے تھے:
(لبيك لا شريك لك الا شريكا هولك'تملكه وما ملك) (صحيح مسلم' الحج' باب التلبية وصفتها ووقتها' ح: 1185)
"اے اللہ! ہم تیرے حضور حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں، سوائے اس شریک کےجو تیرا ہی تو اس کا مالک ہے اور جن پر اس کی ملکیت اور حکومت ہے ان کا مالک بھی تو ہی ہے۔"
قومِ نوح کے پانچ بُت بھی دراصل اللہ کے نیک بندوں ہی کے نام تھے
اور صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صراحت موجود ہے کہ قومِ نوح کے وہ پانچ بُت جن کا ذکر قرآن مجید (سورۃ نوح) میں کیا گیا ہے۔ جن کی وہ عبادت و پرستش کرتے تھے اللہ کے نیک بندوں کے بُت تھے:
(اسماء رجال صالحين من قوم نوح فلما هلكوا اوحي الشيطان الي قومهم ان انصبوا الي مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائ هم ففعلوا فلم تعبد حتي اذا هلك اولئك وتنسخ العلم عبدت) (صحيح البخاري' التفسير' تفسير سوره نوح' ح: 4920)
یعنی "قومِ نوح کے پانچ بُت دراصل قومِ نوح کے نیک آدمیوں کے نام تھے جب وہ مَر گئے تو شیطان نے ان کے ارادت مندوں سے کہا کہ (ان کی یاد تازہ رکھنے کے لئے) ان کے مجسمے بنا کر اپنی بیٹھکوں میں رکھ لو۔ اور ان کو ان کے ناموں ہی سے موسوم کرو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی عبادت نہ کی گئی حتی کہ جب یہ (مجسمے بنانے والے) فوت ہو گئے تو ان کے بعد کی نسل نے لا علمی اور جہالت کی بناء پر ان تصویروں اور مجسموں کی عبادت شروع کر دی۔"
بہرحال قرآن و حدیث اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشرکین عرب کا شرک بھی یہی تھا کہ انہوں نے اللہ کے نیک بندوں کو ان کی وفات کے بعد اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا، ان کے نام کی نذریں اور نیازیں دیں اور ان کے آستانوں پر سالانہ میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا، ورنہ فاعلِ حقیقی وہ بھی اللہ کو مانتے تھے اور جب زیادہ مشکلات میں گھرتے تو پھر وہ ان بتوں کو چھوڑ کر فاعل حقیقی اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے، جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے۔ مثلا: سمندر میں جہاں کوئی ظاہری مادی سہارا انہیں نظر نہ آتا تو وہاں صرف اللہ رب العالمین کو پکارتے اور اپنے خود ساختہ بزرگوں اور معبودوں کو چھوڑ دیتے:
(فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ) (العنكبوت 29/65)
"جب یہ مشرکین (دریائی سفر میں) کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو (خطرے کے وقت) خالص اعتقاد کرتے ہوئے اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔"
دوسری جگہ فرمایا:
(وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ) (بني اسرائيل 17/67)
"جب تم دریا میں (طوفان وغیرہ کی) مصیبت میں گھر جاتے ہو تو تمہارے وہ دیوتا جن کو تم پکارا کرتے ہو، غائب اور گم ہو جاتے ہیں۔ اس وقت تم بس اللہ ہی کو پکارتے ہو۔"
 
Top