محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
مافوق الاسباب اور ما تحت الاسباب مدد مانگنے کا مطلب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذا سالت فاسال الله واذا استعنت فاستعن بالله) (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 )
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
یعنی انسان کو جب ایسی کسی چیز کی حاجت ہو جو ظاہری اسباب سے پوری ہونے والی نہ ہو یا اس کی دسترس میں نہ ہو تو انسان وہ چیز صرف اللہ سے مانگے، اسی سے دعا و التجا کرے۔ اس لئے کہ مافوق الاسباب طریقے سے دعاؤں کا سننے والا اور اسباب کے بغیر کسی کی حاجت پوری کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کے سوا کسی کے اندر یہ قوت و طاقت نہیں ہے۔ اسباب کے ماتحت تو انسان ایک دوسرے کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لئے اسباب کی حد تک ان سے سوال کرنا بھی جائز ہے جیسے کسی زندہ انسان سے ایک شخص کوئی چیز مانگے، تو وہ سننے پر بھی اور اس کی حاجت پوری کرنے پر بھی قادر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) (المائدہ : 2) یہی مدد انبیاء علیھم السلام نے بھی اللہ کے بندوں سے مانگی، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : (مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ) "اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں کون میری مدد کرنے والا ہے؟ "حواریوں نے کہا، (نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ) (آل عمران: 52) "ہم اللہ کے مددگار ہیں" (یعنی اللہ کی طرف بلانے میں آپ کی مدد کرنے والے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بھی آتا ہے کہ دس سالہ مکی دور میں جب کہ تبلیغ اسلام میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مخالفتیں تھیں، حج کے موسم میں آپ مختلف قبائل عرب پر اسلام پیش کرتے اور ان سے اپنی قوم (قریش) سے بچاؤ کے لئے مدد بھی طلب فرماتے اور یہ استدعا کرتے کہ کوئی ایسا ہے جو مجھے پناہ دے اور میری مدد کرے تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان فرماتے ہیں:
(مكث رسول الله صلي الله عليه وسلم عشر سنين يتبع الناس في منازلهم بعكاظ ومجنة في المواسم بمني يقول من يؤويني' من ينصرني حتي ابلغ رسالة ربي وله الجنة) (الفتح الرباني: 20/269)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے دس سالہ دورِ قیام میں موسم حج میں، بمقام منیٰ لوگوں کی قیام گاہوں، عکاظ اور مجنہ میں لوگوں کے پیچھے جاتے اور فرماتے : کون ہے جو مجھے جگہ (پناہ) دے؟ کون ہے جو میری مدد کرے؟ تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، اس کے بدلے اس کے لئے جنت ہے۔"
ایک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح فرما رہے تھے، کون ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے کیونکہ قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں؟ تو ہمدان قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے پوچھا، (هل عند قومك من منعة) کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ (الفتح الربانی: 20 / 267) بیعت عقبہ ثانیہ، جس میں 72 آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، اس بیعت میں دیگر باتوں کے ساتھ ایک عہد یہ تھا:
(وعلي ان تنصروني فتمنعوني اذا قدمت عليكم ما تمنعون منه انفسكم وازواجكم وابناءكم) (الفتح الرباني: 20/270)
"اور یہ کہ جب میں تمہارے پاس آؤں گا تو تم میری مدد کرو گے اور میری طرف سے اسی طرح مفادعت کرو گے، جیسے تم اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔"
اس تفصیل سے مقصد اس پہلو کی وضاحت کرنا ہے کہ انبیاء علیھم السلام سمیت تمام انسان ظاہری اسباب کی حد تک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔ اس لئے اسباب کے ماتحت ایک دوسرے سے سوال کرنا، ایک دوسرے سے مدد مانگنا اور چیز ہے اور ماورائے اسباب طریقے سے سوال کرنا اور مدد مانگنا اور چیز ہے۔
پہلی صورت نہ صرف جائز ہے بلکہ ناگزیر ہے، جب کہ دوسری صورت صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ کوئی انسان بھی ماورائے اسباب طریقے سے نہ کسی کی بات سن سکتا ہے اور نہ مدد کر سکتا ہے۔ یہ صفات صرف اللہ کے اندر ہیں، اللہ کے سوا کوئی ان صفات کا حامل نہیں، حدیث مذکور الصدر میں پہلی صورت کا نہیں، بلکہ دوسری صورت کا ذکر ہے۔ یعنی ماورائے اسباب طریق سے سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے کرو، مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مانگو، کیونکہ دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد وہی سن سکتا ہے اور وہی ہر ایک کی مدد کر سکتا ہے، فوت شدہ افراد کسی کی فریاد سن سکتے ہیں نہ مدد کر سکتے ہیں۔