• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تورک کا محل

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
امام شافعیa کے اس موقف کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو حمید الساعدیt سے رواۃِ حدیث نے حدیث کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے پہلے تشہد کا تذکرہ چھوڑ دیا اور دوسرے تشہد کو سلام والے تشہد سے تعبیر کر دیا، جس سے امام شافعیa وغیرہ سمجھے کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک ہوگا، حالانکہ ایسا نہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی یہ ترجمانی محل نظرہے۔
حدیث کے اختصاروطول سے امام شافعی رحمہ اللہ کو قطعا کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال آخرصلاۃ کی بیٹھک سے ہے یعنی ابوحمیدساعدی رحمہ اللہ کی روایت میں‌ آخرصلاۃ کی بیٹھک کی کیفیت بیان ہوئی ہے لہٰذا ہرنماز کی آخری بیٹھک کی کیفیت یہی ہوگی۔
جس طرح اسی حدیث میں ابتدائے نماز کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے:
إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ [صحيح البخاري: 1/ 165]۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا تکبیرہ تحریمہ کی یہ کیفیت صرف اس نماز کی ہوگی جس میں چاررکعتیں ہوں ؟؟؟؟ کیونکہ اس حدیث میں مذکورنماز چاررکعتوں والی تھی !!!
ظاہر ہے کہ یہاں ان الفاظ سے ہرنماز کی ابتدائی کیفیت بتلائی گئی ہے ، ٹھیک اسی طرح
وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ [صحيح البخاري: 1/ 165]
کے ذریعہ ہرنماز کی آخری بیٹھک کی کیفیت بتلائی گئی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
امام شافعیa وغیرہ کے موقف کی تردید:
چنانچہ امام ابن القیمa امام شافعیa کے اس استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’فھذا السیاق ظاھر في اختصاص ھذا الجلوس بالتشھد الثاني.‘‘ (زاد المعاد لابن القیم: ۱/ ۴۵۲)
حدیث کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ تورک ثلاثی اور رباعی رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں کیا جائے گا۔‘

ہم کہتے ہیں کہ اگر یہی طرز استدلال درست ہے تو جس طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ نے حدیث ابوحمید ساعدی کے سیاق یعنی ’’اس میں تورک کے تشہد ثانی میں مذکور ہونے سے‘‘ یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ تورک کی یہ کیفیت تشہد ثانی کے ساتھ خاص ہے ۔
ہم بھی انہیں‌کے طرز پر اسی حدیث کے سیاق سے یعنی ’’افتراش کے تشہداوسط میں مذکورہونے سے ‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں ہیں‌ کہ افتراش کی کیفیت تشہداوسط ہی کے ساتھ خاص ہے اورامام ابن قیم ہی کے اسلوب میں یوں کہہ سکتے ہیں:
سیاق حدیث کی دلالت یہ ہے کہ تشہدمیں افتراش چہاررکعتی یا سہ رکعتی صلوات کے اس تشہد اوسط کے ساتھ خاص‌ ہے جس کے بعد اگلی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ، کیونکہ ابوحمیدساعدی نے تشہداوسط میں افتراش کی کیفت بتاکر یہ بھی کہا ہے کہ ’’اس کے بعد جب سلام والا سجدہ ہوتا تو تورک کرکے بیٹھ جاتے ‘‘
یہ سیاق صاف ظاہر کرتاہے کہ افتراش کی کیفیت اس تشہداوسط ہی کے ساتھ خاص ہے جس کے بعد مزیدرکعت ادا کرنی باقی ہوتی ہے۔



غورکریں کہ جس چیز کو بنیاد بناکر ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’تورک ‘‘ کوتشہد ثانی کے ساتھ خاص مانا تھا عین اسی چیز کو بنیاد بناکر ہم نے بھی جلوس علی الیسری کی تخصیص تشہد اوسط کے ساتھ کردی۔
واضح رہے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کا یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر انہوں‌نے تشہد اوسط میں‌ درود کی مشروعیت کا انکار کیا ہے ، موصوف لکھتے ہیں:
کسی حدیث میں‌ آپ سے قطعا منقول نہیں‌کہ اس تشہد میں‌ آپ نے اپنے آپ پر یا اپنی آل پر درود بھیجا ہو اورعذاب قبر جہنم ، فتنہ حیات ، فتنہ موت اورفتنہ مسیح الدجال سے پناہ مانگی ہو، جنہوں نے اسے مستحب خیال کیا ہے دراصل انہوں نے کچھ ایسے عموم اوراطلاق سے اسے سمجھا ہے جس کے مقام کی وضاحت اورتعیین آخری تشہد کے اندر کی گئی ہے [زاد المعاد: مترجم ص 171]


فریق دوم بتلائیں کہ اگر ان کے نزدیک ابن قیم رحمہ اللہ کا مذکورہ اصول درست ہے تو کیا اس اصول کی بنیاد پر وہ تشہداوسط میں عدم مشروعیت کی بات کہیں‌ گے؟؟؟

ہم تو کہتے ہیں‌کہ نہ صرف تشہد اوسط بلکہ مذکورہ اصول کی روشنی میں یک تشہدی نماز مثلا فجر وغیرہ میں‌بھی درود کی مشروعیت کا انکار کردینا چاہئے جس طرح تورک کا انکار کیا ہے کیونکہ مذکورہ اصول کا یہی تقاضہ ہے ۔۔۔۔۔


فائدہ:
امام شوکانی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے موقف کی تردید کی ہے اورحدیث ابوحمید کی جوتاویل ابن قیم نے کی ہے اسے بے سود قراردیا ہے امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والتفصيل الذي ذهب إليه أحمد يرده قول أبي حميد في حديثه الآتي فإذا جلس في الركعة الأخيرة . وفي رواية لأبي داود حتى إذا كانت السجدة التي فيها التسليم . وقد اعتذر ابن القيم عن ذلك بما لا طائل تحته[نيل الأوطار 2/ 306]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
عالمِ اسلام کے مشہور محدث علامہ البانی صفۃ صلاۃ النبیe (۳/ ۷۸۹) اور شیخ محمد عمر باز مول (جزء حدیث أبي حمید الساعدي في صفۃ صلاۃ النبيﷺ، ص: ۲۵) بھی حضرت ابو حمید الساعدیt کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورک تین یا چار رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں ہوگا۔
اس لیے امام ابن القیمa اور دیگر محدثین کی اس تصریح کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعی کا یہ موقف قابلِ غور ہے اور حدیث کے صحیح معنی بھی وہی ہیں جو امام ابن القیم، مولانا رحمانی اور شیخ البانیs وغیرہ نے سمجھے ہیں۔
ان شخصیات کی ذاتی رائے دلائل سے خالی ہونے کی بناپر غیرمقبول ہے، لہٰذا صحیح موقف وہی ہے جسے درج ذیل شخصیات نے پیش کیا ہے۔

  1. بانی اصول فقہ ، ناصرالحدیث امام شافعی رحمہ اللہ۔
  2. امام دارالہجرہ ، استاذ الاساتذہ مالک بن انس رحمہ اللہ۔
    نوٹ:-امام مالک رحمہ اللہ سےمتعلق مشہوریہ ہے کہ وہ نمازکی ہربیٹھک میں‌ تورک کے قائل ہیں لیکن ان کی طرف منسوب بعض اقوال سے پتہ چلتا ہے ان کا بھی وہی موقف ہے جوامام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔
  3. صاحب سنن امام نسائی رحمہ اللہ۔
  4. شارح مسلم امام نوری رحمہ اللہ۔
  5. امام شوکانی رحمہ اللہ۔
  6. شارح ترمذی علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ۔
  7. صاحب اللمحالت محدث کبیر علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ۔
  8. ناشرالقران والسنہ مولانا داؤد راز رحمہ اللہ۔
  9. صاحب انوار مصابیح جامع المعقول والمنقول علامہ نذیراحمد املوی رحمہ اللہ ۔
  10. صاحب محمدیات محمد جوناگڈی رحمہ اللہ۔


وغیرہم ۔


مذکورہ شخصیات کی عبارات اورحوالوں کی تفصیل ہماری کتاب دفع الشبهات عن مشروعية التورك في جميع الصلوات میں‌ملے گی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
تنبیہ: مسند الفاروق لابن کثیر (۱/ ۶۶۱) میں حضرت عمرt کی مرفوع روایت سے مطلقاً سلام والے تشہد میں تورک کا اثبات بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ عبداﷲ بن القاسم مولی ابی بکر الصدیق مجہول راوی ہے۔ جسے حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات (۵/ ۶۴) میں ذکر کیا ہے، یہ قاعدہ معروف ہے کہ حافظ صاحب ایسے مجاہیل کو کتاب الثقات میں ذکر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث مولیٰ ابی بکر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے
عبداللہ بن القاسم کو مجہول کہنا بہت عجیب وغریب بات ہے ذیل میں ہم ان کاتعارف اورمتعدد محدثین نے ان کی توثیق پیش کرتے ہیں:


عبد اللہ بن القاسم،رحمہ اللہ کا تعارف:
آپ عمرفارق رضی اللہ عنہ کے شاگردہیں ،دیکھئے : [اکمال تہذیب الکمال :ج 8ص124 ت 3129، تہذیب الکمال للمزی ج 15 ص 437]۔
اورابو عیسی سلیمان بن کیسان کے استاذ ہیں دیکھئے:[الجرح و التعدیل لابن أبی حاتم رقم 602]۔
آپ ثقہ ہیں،کبارتابعین میں سے ہیں ان پرکسی ایک بھی محدث نے کوئی بھی جرح نہیں کی ہے بلکہ:

پہلی توثیق:
امام ابن حبان (المتوفی٣٥٤) نے انہیں ثقہ کہا ہے [الثقات لابن حبان:ج5ص46]۔

دوسری توثیق:
امام بن خلْفُون رحمہ اللہ (المتوفی ٦٣٦) نے بھی انہیں ثقہ کہاہے [اکمال تہذیب الکمال :ج 8ص 124 ت 3129،]۔

تیسری توثیق:
امام ہیثمی(٨٠٧) نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے [مجمع الزوائد للہیثمی :ج10ص154]۔


یادرہے کہ راوی کی راویت کی تصحیح راوی کی توثیق ہوتی ہے چنانچہ :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔
ایک دوسرے مقام پر کہا:
وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة [تعجيل المنفعة ص: 204]۔

امام ابن القطان رحمہ اللہ نے کہا:
وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]۔

امام زیلعی رحمہ اللہ نےکہا:
فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ، [نصب الراية 1/ 149]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
أن ضبة هذا قد وثقه ابن حبان، وقال الحافظ ابن خلفون الأندلسي: "ثقة مشهور"، وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي. [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16]۔


توثیق پرمزیدشواہد:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ''مولی ابی بکر'' سے معروف ایک راوی کے بارے میں کہتے ہیں:
''يکفيه نسبته إلي أبي بکر الصديق، فهو حديث حسن''[تفسیر ابن کثیر:ج2ص 15]۔

امام طحاوی رحمہ اللہ بھی اس طرح کے ایک راوی کے بارے میں کہتے ہیں :
لکن جهالته لاتضراذ تکفيه نسبته الي الصديق.[اتحاف المتقنین:ج5ص59]۔
یادرے کہ زیرتذکرہ راوی ابن القاسم بھی مولی ابوبکرسے معروف ہے ،لہذا معلوم ہواکہ یہ راوی امام ابن کثیر اورامام طحاوی رحمہماللہ کے نزدیک بھی حسن الحدیث ہے۔

نیز مذکورہ محدثین کی توثیق کے ساتھ ساتھ اس راوی سے تین سے زیادہ ثقہ رواة نے بھی روایت لی ہے لہٰذا بعض محدثین مثلا علامہ محدث البانی رحمہ اللہ وغیرہم کے اس اصول سے بھی یہ راوی ثقہ ہے[تمام المنہ: ص204 تا 207]۔
علامہ محدث ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اسی اصول کی بنیاد پر حدیث العجن (آٹاگوندھنے کی شکل میں ہاتھ ٹیک کرنماز میں اگلی رکعت کے لئے اٹھنے سے متعلق روایت) کو حسن قراردیاہے.

نیزاسی اصول کی بنیاد پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی حدیث نمبر(2795) کی تضعیف سے رجوع کرکے اسے حسن کہا ہے، [ھدایة الرواة: ج3ص128]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالوں سے معلوم ہوا کہ اگر صرف ابن حبان رحمہ اللہ نے ہی راوی مذکور کو ثقہ کہا ہوتا تب بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول سے یہ راوی لازمی طورپرثقہ قرار پاتا لہٰذا جولوگ اس راوی کو مجہول بتلارہے ہیں وہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس اصول کے بھی مخالف ہیں۔


مسند احمد کے محققین نے اپنی تعلیق میں راوی مذکور پرمشتمل ایک سندکے بارے میں کہا:’’إسناده حسن‘‘ [مسنداحمد محقق:ج5ص 270 رقم 22382]۔


خلاصہ کلام یہ کہ راوی مذکور ثقہ ہے متعدد محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
محدث البانیa کے ہاں رسول اﷲe کا دو رکعتوں والی نماز، جس میں سلام پھیرا جائے، میں افتراش کرنا ثابت ہے، ان کے الفاظ ہیں:
’’فھذا نص في أن الافتراش إنما کان في الرکعتین والظاھر أن الصلاۃ کانت ثنائیۃ ولعلھا صلاۃ الصبح.‘‘’’حضرت وائل بن حجرt کی حدیث اس موقف میں نص ہے کہ ثنائی رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا، کیونکہ حضرت وائلt کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دو رکعتوں والی نماز اور شاید نمازِ فجر تھی۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبي: ۳/ ۴۸۹ و تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
سب سے پہلے شیخ البانی رحمہ اللہ کی مستدل حدیث مکمل دیکھ لی جائے، پوری حدیث یہ ہے :
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد المقرئ قال حدثنا سفيان قال حدثنا عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال : أتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم فرأيته يرفع يديه إذا افتتح الصلاة حتى يحاذي منكبيه وإذا أراد أن يركع وإذا جلس في الركعتين أضجع اليسرى ونصب اليمنى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ونصب أصبعه للدعاء ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى قال ثم أتيتهم من قابل فرأيتهم يرفعون أيديهم في البرانس [سنن النسائي 2/ 236 رقم 1159 ]۔

مذکورہ حدیث میں مستدل الفاظ یہ ہے:
وإذا جلس في الركعتين أضجع اليسرى ونصب اليمنى
اورجب دورکعت میں بیٹھے تو بایاں پاؤں بچھاتے اوردایاں کھڑا رکھتے۔

عرض ہے کہ ان الفاظ سے عدم تورک پراستدلال کئی وجوہ سے غلط ہے:

اولا:
یہاں پر بائیں پیرکی کیفیت بتلاتے ہوئے ’’اضطجاع‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے اوراضطجاع میں صرف بچھانے کا معنی پایاجاتاہے، بچھانے کے بعد اس پر بیٹھنے کا معنی قطعا نہیں‌ پایاجاتا ، لہیذا یہ الفاظ تورک کے منافی نہیں ہیں کیونکہ تورک میں بھی بایاں‌ پاؤں بچھاہوتاہے۔
احناف نے مختلف احادیث میں اس طرح کے الفاظ سے عدم تورک پر استدلال کیا تومحدثین واہل علم حضرات نے ان کو یہی جواب دیا کہ اس طرح کے الفاظ میں صرف بایاں پیر بچھانے کی بات ہے اور تورک میں بھی بائیں پیر کی یہی کیفیت ہوتی ہے لہٰذا اس طرح کے الفاظ تورک کے منافی نہیں‌ ہیں ، ملاحظہ ہوں چند محدثین واہل علم کی تصریحات:

حافظ ابن حجررحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
لَمْ يُبَيِّنْ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ مَا يَصْنَعُ بَعْدَ ثَنْيِهَا هَلْ يَجْلِسُ فَوْقَهَا أَوْ يَتَوَرَّكُ [فتح الباري لابن حجر: 2/ 306]۔
یعنی اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ پاؤں بچھانے کے بعد پاؤں کے اوپر بیٹھا جائے گا یا تورک کیا جائے گا۔

شیخ عبدالحق لکھنوی فرماتے ہیں:
فيه نظر فإن أثر ابن عمر هذا الذي رواه ههنا مجمل لا يكشف المقصود لأن ثني الرجل اليسرى عام من أن يجلس عليها أو يجلس على الورك[التعليق المُمَجَّد للكنوي: 1/ 239]۔
یعنی ابن عمررضی اللہ عنہ کے اثر سے امام محمد کا عدم تورک پراستدلال محل نظر ہے کیونکہ یہاں ابن عمرکا جواثر مروی ہے وہ مجمل ہے جس سے ہمارے احناف کا مقصود حاصل نہیں ہوتا ، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ بائیں پاؤں کو بچھایا اوریہ معلوم نہیں کہ پاؤں ہی پر بیٹھے یا سرین پر بیٹھ کرتورک کیا ۔

محمد داؤد ارشد صاحب لکھتے ہیں:
روایت کے الفاظ مفتی صاحب کے موافق نہیں ہیں کیونکہ صراحت نہیں ہے کہ پاؤں مبارک بچھاکر،کولہے پربیٹھے تورک کرتے تھے یا پاؤں پر ہی بیٹھاکرتے تھے (دین الحق:ج1 ص 411 )

معلوم ہے کہ نسائی کی مستدل حدیث میں‌ صرف بایاں پاؤں بچھانے کے بات ہے اوریہ تورک کے منافی نہیں کیونکہ تورک میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے ، لہٰذا اس حدیث سے نفی تورک پراستدلال غلط ہے۔

تنبیہ :
نسائی کی مذکورہ حدیث کے جس طریق میں بائیں پیرپربیٹھنے کی صراحت ہے وہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں ۔


ثانیا:
نسائی کی مذکورہ حدیث میں‌ دو رکعت کے بعد سلام پھیرنے کے صراحت قطعا نہیں ہے لہٰذا یہ دعوی غلط ہے کہ یہ دو رکعت کی نماز تھی ، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ سہ رکعتی یا چہار رکعتی نماز کی ابتدائی دو رکعتوں کی بات ہو اور اس کے بعد کی کیفیت حدیث کو مختصرکرتے ہوئے راوی نے چھوڑدی ہے ۔
چنانچہ اسی حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند سے روایت کیا ہے اوراس میں اس بات کی صراحت ہے کہ وائل بن حجرنے جس نماز کی کیفیت بیان کی تھی وہ چار رکعتی نماز تھی اورچوتھی رکعت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسلام پھیردیا تھا ، چنانچہ طبرانی والی روایت میں صراحتا یہ الفاظ ہیں:
في جميع الصلاة حتى تمت أربع ركعات، ثم جلس في التشهد فوضع كفه اليمنى على ركبته اليمنى وخفض فخذه وحلق أصبعه يدعو به من تحت الثوب، وكان ذلك في الشتاء، وكان أصحابه خلفه أيديهم في ثيابهم يعملون هذا وتنفل، ثم سلم [المعجم الكبير للطبراني: 22/ 50]۔

نیز اسی حدیث کو امام بزاررحمہ اللہ نے بھی اپنی سند سے روایت کیا ہے اور اس میں بھی اس بات کی صراحت ہے کہ وائل بن حجرنے جس نماز کی کیفیت بیان کی تھی وہ چار رکعتی نماز تھی ، ملاحظہ ہوں بزار کےا لفاظ:
ثم صلى أربع ركعات يفعل فيهن ما يفعل في هذه ثم جلس جلسة في التشهد مثل ذلك ثم سلم[مسند البزار كاملا من 1-14 مفهرسا 2/ 147]۔

یاد رہے کہ نسائی ہی میں بظاہر دورکعت میں تورک سے متعلق بھی ایک صریح روایت یوں‌ ہے:
عن أبي حميد الساعدي قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا كان في الركعتين اللتين تنقضي فيهما الصلاة أخر رجله اليسرى وقعد على شقه متوركا ثم سلم [سنن النسائي 3/ 34]۔
اس حدیث میں دو رکعت کا ذکر ہے اور اخیرمیں اختتام نماز کی بھی صراحت ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسے دو رکعتی صلاۃ پر محمول کرنا اس لئے درست نہیں ہے کہ یہ حدیث یہاں پر مختصرہے اور بخاری وغیرہ میں مفصل یہ روایت مروی ہے جس میں دو سے زائد رکعات کا ذکرہے۔

ہم کہتے ہیں ٹھیک یہی معاملہ وائل بن حجر کی مذکورہ حدیث‌ کا بھی ہے کہ وہ نسائی میں مختصر بیان ہوئی اور طبرانی اوربزار وغیرہ کی روایت میں مفصل بیان ہوئی ہے جس میں‌ چار رکعات کا ذکر ہے۔

واضح رہے کہ ہماری نظر میں طبرانی وبزار کی محولہ روایت ضعیف ہے ورنہ یہ روایت حجت قاطع ہوتی کی نسائی کی روایت مختصر ہے، اور اس میں چہاررکعتی نماز کی ابتدائی دو رکعتوں کا بیان ہے، لیکن چونکہ نسائی کی روایت میں سلام پھیرنے کی صراحت قطعا نہیں ہے لہٰذا مذکورہ حدیث کو دو رکعتی صلاۃ باور کرنے والوں‌ کے ضروری ہے کہ وہ اس حدیث‌ میں اس بات کی صراحت دکھلائیں کہ انہیں دونوں رکعتوں پر سلام پھیر کرنماز ختم کردی گئی تھی، بصورت دیگر اس سے عدم تورک پراستدلال درست نہ ہوگا۔

ثالثا:
نسائی کی مذکورہ حدیث کے الفاظ واسلوب پر غورکرنے سے اقرب الی الصواب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس میں چہاررکعتی یا سہ رکعتی نماز کی ابتدائی دو رکعتوں ہی کابیان ہے ، درج ذیل نکات پرغورکریں:


  • مذکورہ حدیث میں موصوفہ نماز کی مکمل کیفیت نہیں بتلائی گئی ہے اگرایساہوتا تو اخیرمیں سلام یا اختتام نماز کی صراحت ضرورہوتی ، اورچونکہ دو رکعت کی کیفیت بتلائی جاچکی ہے اس لئے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موصوفہ نماز دو رکعت سے زائد والی نماز تھی۔
  • مذکورہ حدیث میں موصوفہ نماز کے جن حصوں کی کیفیت بتلائی گئی ہے وہ ابتدائی حصے ہیں کیونکہ حدیث میں ’’إذا افتتح الصلاة ‘‘ یعنی افتتاح نماز کی صراحت ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ موصوفہ کیفیت ابتدائے نماز کی ہے ایسی صورت میں ’’في الركعتين‘‘ سے جو بیٹھک متعین ہوتی ہے وہ تشہد اوسط کی بیٹھیک ہے یعنی ایسے تشہد جس کے بعد اگلی رکعت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

چنانچہ اسی طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں ’’في الركعتين‘‘ کی تعبیرہے اوروہاں ہرکوئی تشہد اوسط ہی کی بیٹھک مراد لیتا ہے مثلا:
عن عبد الرحمن الأعرج عن بن بحينة : أن النبي صلى الله عليه و سلم صلى فقام في الركعتين فسبحوا فمضى فلما فرغ من صلاته سجد سجدتين ثم سلم [سنن النسائي 2/ 244]۔



یہاں ہرکوئی ’’ في الركعتين‘‘ سے تشہد اوسط ہی مراد لیتا ہے ، ہم کہتے ہیں نسائی کی مذکورہ حدیث میں بھی ’’ في الركعتين‘‘ سے تشہد اوسط ہی مراد ہے ، اور موطا امام محمد میں امام محمد کے بقول امام مالک رحمہ اللہ نے بھی نسائی کی مذکورہ حدیث کا یہی مفہوم مراد لیا ہے، موظا امام محمد میں ہے:
وبهذا نأخذ وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله - وكان مالك بن أنس يأخذ بذلك في الركعتين الأوليين
یعنی امام مالک رحمہ اللہ وائل بن حجر کی حدیث کو (چہاررکعتی یا سہ رکعتی نماز کی ) پہلی دونوں رکعتوں پر محمول کرتے تھے۔[الموطأ رواية محمد بن الحسن :1/ 239]۔


فائدہ:
مذکورہ مستدل حدیث سنن نسائی کی ہے اوراس حدیث کے راوی امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ حدیث کو تشہد اوسط پر محمول کیا ہے ۔
یادرہے کہ امام نسائی ہرنماز کی آخری بیٹھک میں تورک کے قائل ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
مزید حضرت عائشہr کی حدیث (مسلم: ۸۹۴) کے بارے میں بھی فرمایا:’’گویا یہ حدیث اس میں نص ہے کہ دو رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبيﷺ: ۳/ ۳۸۹)
سب سے پہلے مسلم کی یہ حدیث مکمل ملاحظہ ہو:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى 261)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ. وَالْقِرَاءَةِ، بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ، وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ. وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ» وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ[صحيح مسلم: 1/ 357 رقم 498]۔

مذکورہ حدیث میں مستدل الفاظ یہ ہے:
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ، وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى
اورہردو رکعت کے بعد التحیات پڑھتے تھے، اوراپنے بائیں پیر کو بچھا کررکھتے اوردایاں پیر کھڑا رکھتے تھے۔

عرض ہے کہ ان الفاظ سے عدم تورک پراستدلال غلط ومردود ہے۔

اولا:
اس لئے کہ یہاں‌ بھی صرف بچھانے کا معنی پایاجاتاہے، بچھانے کے بعد اس پر بیٹھنے کا معنی قطعا نہیں‌ پایاجاتا ، لہیذا یہ الفاظ تورک کے منافی نہیں ہیں کیونکہ تورک میں بھی بایاں‌ پاؤں بچھاہوتاہے، مزید تفصیل گذشتہ سطورمیں حدیث نسائی پربحث کے ضمن میں ہوچکی ہے۔
یہاں‌ ہم خاص اس حدیث کے مستدل الفاظ سے متعلق چنداہل علم کی تصریحات پیش کرتے ہیں:

مشہورحنفی عالم علامہ انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں:
وعارض الأحناف الشافعية بما في مسلم ص١٩٤ عن عائشة ذكر الافتراش في القعدتين ، ويمكن لهم أن في التورك أيضاً فرش اليسرى ونصب اليمنى [العرف الشذي للكشميري 1/ 333]۔
یعنی: احناف نے شوافع کی مخالفت مسلم میں ص 194 پرموجود عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی وجہ سے کی ہے کیونکہ اس میں دنوں قعدوں (دونوں تشہد کی بیٹھک) میں ’’افتراش‘‘ کی کیفیت مذکورہے ، لیکن شوافع اس کا یہ جواب دے سکتے ہیں اس میں صرف بایاں پیر بچھانے اورداہنا پیرکھڑا کرنے کی بات ہے اوریہ ’’تورک‘‘ کے منافی نہیں۔


علامہ محمد رئیس ندوی صاحب اللمحات رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ روایت (حدیث‌ عائشہ) قعدہ اخیرہ میں تورک یعنی زمین پرسرین رکھ کر بیٹھنے اوربائیں پیرکو باہرنکال کر بچھانے کے ہرگز منافی نہیں ، بلکہ قعدہ اولی (تشہد اوسط) میں بھی تورک کے منافی نہیں اس کے لئے الگ سے دلیل کی ضرورت ہے کہ قعدہ اولی (یعنی دو تشہدی نماز کے تشہداوسط ) میں‌ بایاں پیربچھا کراس پرسرین رکھ کربیٹھتے تھے اورقعدہ اخیرہ میں تورک کرتے تھے ،اورابوحمیدساعدی والی حدیث میں الگ سے اس کی تفصیل اس طرح‌ موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔[رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص532].
مزید فرماتے ہیں:
حدیث عائشہ پر ہم نظر کرتے ہیں اس میں صرف یہ مذکور ہے کہ ہر قعدہ میں آپ داہنا پاؤں کھڑا اور بایاں‌ بچھا ہوا رکھتے تھے ، اس میں مذکور نہیں کہ بچھے ہوئے بائیں‌ پاؤں پر سرین رکھ کر بیٹھتے بھی تھے ، ظاہر ہے یہ روایت قعدہ اخیرہ میں تورک کے یعنی زمین پر سرین رکھ کر بیٹھنے اوربائیں‌پاؤں کو باہر نکال کر بچھادینے کے ہرگز منافی نہیں۔[رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص532].

معلوم ہوا کہ ’’فرش ‘‘ میں صرف بچھانے کا معنی پایا جاتا ہے نہ کہ بچھاکر اس پر بیٹھنے کا بھی معنی ۔
اگرکوئی صاحب بضد ہوں کہ نہیں ’’فرش‘‘ میں پاؤں کو بچھانے کے ساتھ ساتھ اس پر بیٹھنے کا بھی معنی پایا جاتا ہے تو عرض ہے کہ مسلم کی ایک حدیث میں تورک کی صورت میں دائیں پیر کے لئے بھی ’’فرش ‘‘ کا لفط مستعمل ہے ملاحظہ ہو یہ حدیث :
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلَاةِ، جَعَلَ قَدَمَهُ الْيُسْرَى بَيْنَ فَخِذِهِ وَسَاقِهِ، وَفَرَشَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى [صحيح مسلم: 1/ 408 رقم 579]۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں‌ کوران اورپنڈلی کے بیچ میں کرلیتے ( یعنی تورک کرتے) اور داہنا پاؤں بچھاتے تھے ۔

اس حدیث میں‌ غورکیجئے کہ یہاں‌ پر ’’داہنے پاؤں‌‘‘ کے لئے مستعمل لفظ ’’فرش‘‘ ٹھیک وہی لفظ ہے جو فریق دوم کی مستدل حدیث عائشہ میں ’’بائیں‌ پاؤں ‘‘ کے لئے استعمال ہوا ہے۔
فریق دوم ہمیں بتلائیں‌ کہ کیا یہاں بھی ’’فرش‘‘ کا مطلب بچھانے کے بعد اس پربیٹھنا بھی ہوگا ؟؟؟
یادرہے کہ دنیا کے کسی محدث نے یہاں ’’فرش ‘‘ میں بچھانے کے ساتھ ساتھ اس پربیٹھنے کا بھی معنی شامل نہیں کیا ہے اوریہ کسی طرح ممکن بھی نہیں ہے ۔

واضح رہے کہ تورک کا جوطریقہ مشہورہے وہ یہ کہ داہنا پیر کھڑا کیا جائے اوربائیں پیرکو داہنی طرف نکال کر سرین پر بیٹھا جائے ۔
لیکن مسلم کی حدیث میں تورک کی حالت میں دائیں پیر کے لئے ایک اورطریقہ بھی مذکورہے اوراس طریقہ کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صفۃ الصلواۃ میں بیان کیا ہے اوروہ یہ کہ بایاں پیر بچھاکرداہنی طرف نکال دیا جائے اور ’’دائیں پاؤں ‘‘ کو بھی بچھادیائے۔
تورک کا یہ طریقہ مسلم کی اسی حدیث میں ہے جسے ہم نے ابھی پیش کیا ہے اس میں دائیں پیر کے بچھانے کے لئے ’’فرش‘‘ کا لفظ استعمال ہواہے لیکن یہاں داہنا پاؤں بچھا کراس پربیٹھا نہیں جاتا ، معلوم ہوا کہ پاؤں کے لئے ’’فرش‘‘ کا استعمال اس بات کو مستلزم نہیں کہ پاؤں بچھا کراس پربیٹھا بھی جائے۔


ثانیا:
اگر مسلم کی مذکورہ حدیث عائشہ میں ’’فرش“ سے مراد پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا بھی لیں تو احناف نے اسی حدیث سے جو یہ استدلال کیا ہے کہ دونوں تشہد میں بائیں پاؤں پر ہی بیٹھیں‌گے ، یہ استدلال صد فی صد درست ثابت ہوگا ! کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں چار رکعت کا صراحۃ بیان ہے چنانچہ اس میں‌ہے:
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ[صحيح مسلم: 1/ 357]۔
یعنی : اورہردو رکعت میں (یعنی ہردورکعت کے بعد دونوں تشہد میں ) التحیات پڑھتے تھے۔

یہ ٹکڑا اس سلسلے میں قاطع ہے کہ یہاں‌ دو تشہدی نماز کی کیفیت بیان ہورہی ہے غور کیجئے کہ یہاں صرف ’’في الركعتين‘‘ (دورکعت میں ) نہیں کہا گیا بلکہ ’’ في كل ركعتين‘‘ (ہردورکعت میں)کہا گیا، پس كان يقول في كل ركعتين التحية میں اس بات کی صریح‌ دلیل ہے کہ یہاں جس نماز کی کیفیت بیان ہورہی ہے وہ دوتشہدی نماز ہے۔

جب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ حدیث عائشہ میں دو تشہدی نماز کا بیان ہے تو اگراس حدیث میں‌ مستعمل لفظ ’’فرش‘‘ کو نفی تورک کے معنی میں لیں تو اس کا صریح تقاضا یہ ہے کہ دو تشہدی نماز کے دوسرے تشہد میں بھی تورک نہ کیا جائے کیونکہ اس حدیث میں ’’فرش ‘‘ کا ذکر خاص طور سے دونوں تشہد کے ذکر کے بعد ہی کیا گیا ہے، اسی لئے بعض احناف نے اس سے دنوں تشہد میں پاؤں پر بیٹھنے پراستدلال کیا ہے:
علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث سے احناف کا استدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لا سيما بعد وصفها للذكر المشروع في كل ركعتين، وتعقيب ذلك بذكر هيئة الجلوس [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 3/ 8].
یعنی خصوصا جب کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہر دو رکعت میں ’’التحیات‘‘ کی مشروعیت بیان کی ہے اوراس کےبعد فورا ہی بیٹھنے کی مذکورہ کیفیت بتلائی ہے (اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ہردورکعت کے بعد کی دونوں بیٹھکوں کو عام ہے نہ کہ کسی ایک ہی کے ساتھ خاص)


مشہورحنفی بزرگ ابن الترکمانی لکتھے ہیںِ:
واطلاقه يدل على ان ذلك كان في التشهدين بل هو في قوة قولها وكان يفعل ذلك في التشهدين إذ قولها اولا وكان يقول في كل ركعتين التحية يدل على هذا التقدير[الجوهر النقي 2/ 129]
یعنی : اس حدیث میں ’’فرش‘‘ کا اطلاق اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل (یعنی بائیں پاؤں پر بیٹھنا ) دونوں تشہد میں ہوتا تھا۔
بلکہ یہ اطلاق اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کے قائم مقام ہے کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں‌ تشہد میں‌ بائیں پاؤں‌ پر بیٹھتے تھے ‘‘ ۔ کیونکہ پہلے اماں‌ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو یہ کہاکہ:’’ آپ ہردورکعت کے بعد التحیات پڑھتے تھے‘‘ اس سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔


علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو بعمومه حجة ظاهرة؛ لأنها ذكرت ذلك بعد قولها: في كل ركعتين التحية. فقولها: وكان يفرش ... إلخ؛ كأنه نص أنه في كل ركعتين أيضاً؛ [أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم 3/ 983 ]۔
یعنی حدیث عائشہ کا عموم بظاہر دونوں تشہد میں افتراش ہی کے لئے حجت ہے کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ’’في كل ركعتين التحية‘‘ کے بعد پاؤں بچھانے کا تذکرہ کیا ہے ، پس ماں‌عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس کے بعد بائیں‌ پاؤں‌ پربیٹھنے کا ذکر کرنا گویا کہ نص ہے کہ یہ بیٹھک دونوں‌ تشہد میں‌ ہوگی۔

مذکورہ حنفی استدلال کا ماحصل یہ ہے کہ حدیث عائشہ میں افتراش کا ذکر ’’في كل ركعتين‘‘ کے معا بعد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں‌ افتراش کا محل خاص طور سے ’’في كل ركعتين‘‘ یعنی دونوں تشہد ہی کو بتلایا جارہا ہے پھر مفہوم یہ ہوا کہ دو تشہدی نماز کے دونوں‌ تشہد میں‌ سنت افتراش یعنی بائیں پاؤں پر بیٹھنا ہی ہے ۔

الغرض یہ کہ اگر مذکورہ حدیث میں ’’فرش ‘‘ کا معنی پاؤں بچھا کراس پر بیٹھنا کریں گے تو احناف کا استدلال سوفی صد درست ہوگا ۔

فائدہ :
علامہ البانی رحمہ اللہ اس اعتراف کے بعد کہ مذکورہ حدیث عائشہ میں احناف کے لئے حجت ہے ، فرماتے ہیں:
لكن الحديث - وإن كان في " صحيح مسلم "؛ فهو - معلّ بالانقطاع كما بَيَّنَّاه هناك. ولو صح؛ لقلنا بجواز الافتراش في التشهد الأخير، وأنه سنة أحياناً، لكنه لم يصح.[أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم 3/ 983 ]۔
یعنی صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں احناف کے لئے حجت موجود ہے لیکن یہ حدیث گرچہ صحیح مسلم میں موجود ہے انقطاع کے سبب معلول یعنی ضعیف ہے جیساکہ میں نے افتتاح نماز کے مسائل میں بیان کیا ہے ، اوراگریہ حدیث صحیح ہوتی تو میں دوسرے تشہد میں بھی پاؤں پربیٹھنے کے جواز کا قائل ہوتا اورکہتا کہ ایسا بیٹھنا بھی کبھی کبھی سنت ہے لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔


ہمارے نزیک صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث بالکل صحیح ہے اورانقطاع کا دعوی غلط ہے لیکن یہ تفصیل کا محل نہیں بہرحال حدیث صحیح ہے لیکن صاف صاف بات یہ ہے کہ اس حدیث‌ میں ’’فرش ‘‘ لغوی معنی میں ہے یعنی صرف پاؤں بچھانے کے معنی میں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
’’حضرت ابن عمرw کی حدیث بھی حضرت وائلt اور حضرت عائشہr کی حدیث کی تائید کرتی ہے۔‘‘ (تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
علامہ البانی کے اصل الفاظ یہ ہے :
ويقويه حديث عائشة وابن عمر اللذين تقدما عند المؤلف في صفة الجلوس بين السجدتين [تمام المنة ص: 223]۔
یعنی علامہ البانی نے یہ نہیں کہا ہے کہ ابن عمرکی حدیث حضرات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تائید کرتی ہے بلکہ یوں‌ کہا ہے کہ اماں عائشہ اورابن عمرکی حدیث ، نسائی کی مذکورہ وائل بن حجر والی مستدل حدیث کے اس مفہوم کی تائید کرتی ہے جسے علامہ البانی نے سمجھا ہے۔
بہرحال نسائی سے ابن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ملاحظہ ہو:

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا الربيع بن سليمان بن داود قال حدثنا إسحاق بن بكر بن مضر قال حدثني أبي عن عمرو بن الحرث عن يحيى أن القاسم حدثه عن عبد الله وهو بن عبد الله بن عمر عن أبيه قال : من سنة الصلاة أن تنصب القدم اليمنى واستقباله بأصابعها القبلة والجلوس على اليسرى[سنن النسائي 2/ 236رقم 1158]۔


اس حدیث سے بھی عدم تورک پراستدلال درج ذیل وجوہات کی بناپرمردود ہے:

اولا:
یہ حدیث عام ہے اس میں بائیں پاؤں پربیٹھنے کی بات ضرور ہے مگر اس میں یہ صراحت قطعا نہیں کہ یہ کیفیت کون سے بیٹھک میں اپنائی جائے گی ، اگر اس سے ہرنماز کی تمام بیٹھکیں مراد لی جائیں تو پھر دو تشہدی نماز کے دوسرے تشہد میں بھی تورک غیرمشروع قرار پائے گا ۔
اوراگرکوئی کہے کہ دو تشہدی نماز کے دوسرے تشہد میں تورک صراحتا ثابت ہے اس لئے وہ اس حدیث کے حکم سے مستثنی ہے تو عرض ہے کہ دورکعتی نماز کے اکیلے تشہد میں‌ بھی تورک صراحتا ثابت ہے لہٰذا وہ بھی اس حکم سے مستثنی ہے۔


ثانیا:
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول میں ہرنماز کے اخری تشہد کی بیٹھک شامل نہیں ہے اس کی دلیل خود ان کا اپنا عمل ہے جو موطا وغیرہ میں بسند صحیح منقول ہے ۔
چنانچہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ قاسم بن محمد نے لوگوں‌ کو تشہد میں‌ بیٹھنا سکھایا پھر کہا کہ اس طرح بیٹھنا مجھے ابن عمر کے بیٹے عبداللہ نے سکھایا ہے اورفرمایا ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر نماز میں اسی طرح بیٹھتے تھے ، روایت کے الفاظ‌ یہ ہیں:
عن يحيى بن سعيد :أن القاسم بن محمد أراهم الجلوس في التشهد فنصب رجله اليمنى وثني رجله اليسرى وجلس على وركه الأيسر ولم يجلس على قدمه ثم قال أراني هذا عبد الله بن عبد الله بن عمر وحدثني أن أباه كان يفعل ذلك [الموطأ - رواية يحيى الليثي 1/ 90 رقم 202 ]۔
یعنی قاسم بن محمدنے لوگوں کوتشہد میں بیٹھنا سکھایا تو انہوں‌ نے اپنے داہنے پاؤں کو کھڑا کیا اوربائیں پاؤں کو موڑلیا اورسرین پربیٹھے پاؤں پر نہیں بیٹھے۔

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:

الف:
یہاں لفظ تشہد کی صراحت ہے کیونکہ مقصود صرف تشہد کی بیٹھک کی کیفیت بتلانی ہے نہ کہ تمام بیٹھکون کی۔
ب:
نسائی میں منقول ابن عمررضی اللہ عنہ کے قول میں نمازکی آخری بیٹھک والا تشہد کا محل شامل نہیں ، کیونکہ یہاں یک تشہدی یا دوتشہدی کی قید کے بغیر فرمایا کہ ابن عمررضی اللہ عنہ ’’تشہد‘‘ میں تورک کرتے تھے ، لہٰذا حکم ہرتشہد کو عام ہے اورکسی بھی تشہد کو اس سے خاص کرنے کے لئے صریح دلیل مطلوب ہے ، اورایسی صریح دلیل صرف دوتشہدی نماز کے درمیانی تشہد ہی کے لئے ہے کہ اس میں تورک نہیں ہے اس لئے صرف یہی تشہد مستثنی ہوگا۔
باقی ہرتشہد خواہ وہ دوتشہدی نماز کا دوسرا تشہد ہو یا ایک تشہدی نماز کا اکیلا تشہد، اس میں تورک ہی ثابت ہوگا، کیونکہ اس تشہد میں عدم تورک کی کوئی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
جزاک اللہ شیخ کفایت اللہ! اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ کو مزید علم و عمل کی دولت سے نواازے۔ اللہ نے آپ کو دلائل سے اپنے مئوقف کے استنباط اور مخالف کی تردید کے نکات نکالنے کی کمال خوبی عطا کی ہے۔ بہت خوب ماشاء اللہ۔
 
شمولیت
اکتوبر 21، 2020
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
علامہ البانی کے اصل الفاظ یہ ہے :
ويقويه حديث عائشة وابن عمر اللذين تقدما عند المؤلف في صفة الجلوس بين السجدتين [تمام المنة ص: 223]۔
یعنی علامہ البانی نے یہ نہیں کہا ہے کہ ابن عمرکی حدیث حضرات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تائید کرتی ہے بلکہ یوں‌ کہا ہے کہ اماں عائشہ اورابن عمرکی حدیث ، نسائی کی مذکورہ وائل بن حجر والی مستدل حدیث کے اس مفہوم کی تائید کرتی ہے جسے علامہ البانی نے سمجھا ہے۔
بہرحال نسائی سے ابن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ملاحظہ ہو:

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا الربيع بن سليمان بن داود قال حدثنا إسحاق بن بكر بن مضر قال حدثني أبي عن عمرو بن الحرث عن يحيى أن القاسم حدثه عن عبد الله وهو بن عبد الله بن عمر عن أبيه قال : من سنة الصلاة أن تنصب القدم اليمنى واستقباله بأصابعها القبلة والجلوس على اليسرى[سنن النسائي 2/ 236رقم 1158]۔


اس حدیث سے بھی عدم تورک پراستدلال درج ذیل وجوہات کی بناپرمردود ہے:

اولا:
یہ حدیث عام ہے اس میں بائیں پاؤں پربیٹھنے کی بات ضرور ہے مگر اس میں یہ صراحت قطعا نہیں کہ یہ کیفیت کون سے بیٹھک میں اپنائی جائے گی ، اگر اس سے ہرنماز کی تمام بیٹھکیں مراد لی جائیں تو پھر دو تشہدی نماز کے دوسرے تشہد میں بھی تورک غیرمشروع قرار پائے گا ۔
اوراگرکوئی کہے کہ دو تشہدی نماز کے دوسرے تشہد میں تورک صراحتا ثابت ہے اس لئے وہ اس حدیث کے حکم سے مستثنی ہے تو عرض ہے کہ دورکعتی نماز کے اکیلے تشہد میں‌ بھی تورک صراحتا ثابت ہے لہٰذا وہ بھی اس حکم سے مستثنی ہے۔


ثانیا:
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول میں ہرنماز کے اخری تشہد کی بیٹھک شامل نہیں ہے اس کی دلیل خود ان کا اپنا عمل ہے جو موطا وغیرہ میں بسند صحیح منقول ہے ۔
چنانچہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ قاسم بن محمد نے لوگوں‌ کو تشہد میں‌ بیٹھنا سکھایا پھر کہا کہ اس طرح بیٹھنا مجھے ابن عمر کے بیٹے عبداللہ نے سکھایا ہے اورفرمایا ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر نماز میں اسی طرح بیٹھتے تھے ، روایت کے الفاظ‌ یہ ہیں:
عن يحيى بن سعيد :أن القاسم بن محمد أراهم الجلوس في التشهد فنصب رجله اليمنى وثني رجله اليسرى وجلس على وركه الأيسر ولم يجلس على قدمه ثم قال أراني هذا عبد الله بن عبد الله بن عمر وحدثني أن أباه كان يفعل ذلك [الموطأ - رواية يحيى الليثي 1/ 90 رقم 202 ]۔
یعنی قاسم بن محمدنے لوگوں کوتشہد میں بیٹھنا سکھایا تو انہوں‌ نے اپنے داہنے پاؤں کو کھڑا کیا اوربائیں پاؤں کو موڑلیا اورسرین پربیٹھے پاؤں پر نہیں بیٹھے۔

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:

الف:
یہاں لفظ تشہد کی صراحت ہے کیونکہ مقصود صرف تشہد کی بیٹھک کی کیفیت بتلانی ہے نہ کہ تمام بیٹھکون کی۔
ب:
نسائی میں منقول ابن عمررضی اللہ عنہ کے قول میں نمازکی آخری بیٹھک والا تشہد کا محل شامل نہیں ، کیونکہ یہاں یک تشہدی یا دوتشہدی کی قید کے بغیر فرمایا کہ ابن عمررضی اللہ عنہ ’’تشہد‘‘ میں تورک کرتے تھے ، لہٰذا حکم ہرتشہد کو عام ہے اورکسی بھی تشہد کو اس سے خاص کرنے کے لئے صریح دلیل مطلوب ہے ، اورایسی صریح دلیل صرف دوتشہدی نماز کے درمیانی تشہد ہی کے لئے ہے کہ اس میں تورک نہیں ہے اس لئے صرف یہی تشہد مستثنی ہوگا۔
باقی ہرتشہد خواہ وہ دوتشہدی نماز کا دوسرا تشہد ہو یا ایک تشہدی نماز کا اکیلا تشہد، اس میں تورک ہی ثابت ہوگا، کیونکہ اس تشہد میں عدم تورک کی کوئی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ۔

وقال ابن قدامة رحمه الله في "المغنى" (1/318) : "جَمِيعُ جَلَسَاتِ الصَّلَاةِ لَا يُتَوَرَّكُ فِيهَا إلَّا فِي تَشَهُّدٍ ثَانٍ . لحَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ( أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا جَلَسَ لِلتَّشَهُّدِ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى , وَنَصَبَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى). وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ مَا يُسَلِّمُ فِيهِ وَمَا لَا يُسَلِّمُ . وَقَالَتْ عَائِشَةُ : ( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ , وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ الْيُمْنَى ) رَوَاهُ مُسْلِمٌ . وَهَذَانِ يَقْضِيَانِ عَلَى كُلِّ تَشَهُّدٍ بِالِافْتِرَاشِ , إلَّا مَا خَرَجَ مِنْهُ ، لِحَدِيثِ أَبِي حُمَيْدٍ فِي التَّشَهُّدِ الثَّانِي , فَيَبْقَى فِيمَا عَدَاهُ عَلَى قَضِيَّةِ الْأَصْلِ , وَلِأَنَّ هَذَا لَيْسَ بِتَشَهُّدٍ ثَانٍ , فَلَا يَتَوَرَّكُ فِيهِ كَالْأَوَّلِ , وَهَذَا لِأَنَّ التَّشَهُّدَ الثَّانِيَ , إنَّمَا تَوَرَّكَ فِيهِ لِلْفَرْقِ بَيْنَ التَّشَهُّدَيْنِ , وَمَا لَيْسَ فِيهِ إلَّا تَشَهُّدٌ وَاحِدٌ لَا اشْتِبَاهَ فِيهِ , فَلَا حَاجَةَ إلَى الْفَرْقِ " انتهى باختصار .
وقد سئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله في "لقاء الباب المفتوح" : متى يجلس المصلي جلسة التورك في الصلاة وفي أي صلاة ؟
فأجاب : " التورك يكون في التشهد الأخير في كل صلاة ذات تشهدين ، أي : الأخيرة من المغرب ، والأخيرة من العشاء ، والأخيرة من العصر ، والأخيرة من الظهر ، أما الصلاة الثنائية ، كالفجر ، وكذلك الرواتب ، فإنه ليس فيها تورك ، التورك إذاً في التشهد الأخير في كل صلاة فيها تشهدان " انتهى .
 
Top