مزید حضرت عائشہr کی حدیث (مسلم: ۸۹۴) کے بارے میں بھی فرمایا:’’گویا یہ حدیث اس میں نص ہے کہ دو رکعتوں والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبيﷺ: ۳/ ۳۸۹)
سب سے پہلے مسلم کی یہ حدیث مکمل ملاحظہ ہو:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى 261)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ. وَالْقِرَاءَةِ، بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ، وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ. وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ» وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ[صحيح مسلم: 1/ 357 رقم 498]۔
مذکورہ حدیث میں مستدل الفاظ یہ ہے:
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ، وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى
اورہردو رکعت کے بعد التحیات پڑھتے تھے، اوراپنے بائیں پیر کو بچھا کررکھتے اوردایاں پیر کھڑا رکھتے تھے۔
عرض ہے کہ ان الفاظ سے عدم تورک پراستدلال غلط ومردود ہے۔
اولا:
اس لئے کہ یہاں بھی صرف بچھانے کا معنی پایاجاتاہے، بچھانے کے بعد اس پر بیٹھنے کا معنی قطعا نہیں پایاجاتا ، لہیذا یہ الفاظ تورک کے منافی نہیں ہیں کیونکہ تورک میں بھی بایاں پاؤں بچھاہوتاہے، مزید تفصیل گذشتہ سطورمیں حدیث نسائی پربحث کے ضمن میں ہوچکی ہے۔
یہاں ہم خاص اس حدیث کے مستدل الفاظ سے متعلق چنداہل علم کی تصریحات پیش کرتے ہیں:
مشہورحنفی عالم علامہ انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں:
وعارض الأحناف الشافعية بما في مسلم ص١٩٤ عن عائشة ذكر الافتراش في القعدتين ، ويمكن لهم أن في التورك أيضاً فرش اليسرى ونصب اليمنى [العرف الشذي للكشميري 1/ 333]۔
یعنی: احناف نے شوافع کی مخالفت مسلم میں ص 194 پرموجود عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی وجہ سے کی ہے کیونکہ اس میں دنوں قعدوں (دونوں تشہد کی بیٹھک) میں ’’افتراش‘‘ کی کیفیت مذکورہے ، لیکن شوافع اس کا یہ جواب دے سکتے ہیں اس میں صرف بایاں پیر بچھانے اورداہنا پیرکھڑا کرنے کی بات ہے اوریہ ’’تورک‘‘ کے منافی نہیں۔
علامہ محمد رئیس ندوی صاحب اللمحات رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ روایت (حدیث عائشہ) قعدہ اخیرہ میں تورک یعنی زمین پرسرین رکھ کر بیٹھنے اوربائیں پیرکو باہرنکال کر بچھانے کے ہرگز منافی نہیں ، بلکہ قعدہ اولی (تشہد اوسط) میں بھی تورک کے منافی نہیں اس کے لئے الگ سے دلیل کی ضرورت ہے کہ قعدہ اولی (یعنی دو تشہدی نماز کے تشہداوسط ) میں بایاں پیربچھا کراس پرسرین رکھ کربیٹھتے تھے اورقعدہ اخیرہ میں تورک کرتے تھے ،اورابوحمیدساعدی والی حدیث میں الگ سے اس کی تفصیل اس طرح موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔[رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص532].
مزید فرماتے ہیں:
حدیث عائشہ پر ہم نظر کرتے ہیں اس میں صرف یہ مذکور ہے کہ ہر قعدہ میں آپ داہنا پاؤں کھڑا اور بایاں بچھا ہوا رکھتے تھے ، اس میں مذکور نہیں کہ بچھے ہوئے بائیں پاؤں پر سرین رکھ کر بیٹھتے بھی تھے ، ظاہر ہے یہ روایت قعدہ اخیرہ میں تورک کے یعنی زمین پر سرین رکھ کر بیٹھنے اوربائیںپاؤں کو باہر نکال کر بچھادینے کے ہرگز منافی نہیں۔[رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص532].
معلوم ہوا کہ ’’فرش ‘‘ میں صرف بچھانے کا معنی پایا جاتا ہے نہ کہ بچھاکر اس پر بیٹھنے کا بھی معنی ۔
اگرکوئی صاحب بضد ہوں کہ نہیں ’’فرش‘‘ میں پاؤں کو بچھانے کے ساتھ ساتھ اس پر بیٹھنے کا بھی معنی پایا جاتا ہے تو عرض ہے کہ مسلم کی ایک حدیث میں تورک کی صورت میں دائیں پیر کے لئے بھی ’’فرش ‘‘ کا لفط مستعمل ہے ملاحظہ ہو یہ حدیث :
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلَاةِ، جَعَلَ قَدَمَهُ الْيُسْرَى بَيْنَ فَخِذِهِ وَسَاقِهِ، وَفَرَشَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى [صحيح مسلم: 1/ 408 رقم 579]۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کوران اورپنڈلی کے بیچ میں کرلیتے ( یعنی تورک کرتے) اور
داہنا پاؤں بچھاتے تھے ۔
اس حدیث میں غورکیجئے کہ یہاں پر
’’داہنے پاؤں‘‘ کے لئے مستعمل لفظ
’’فرش‘‘ ٹھیک وہی لفظ ہے جو فریق دوم کی مستدل حدیث عائشہ میں
’’بائیں پاؤں ‘‘ کے لئے استعمال ہوا ہے۔
فریق دوم ہمیں بتلائیں کہ کیا یہاں بھی
’’فرش‘‘ کا مطلب بچھانے کے بعد اس پربیٹھنا بھی ہوگا ؟؟؟
یادرہے کہ دنیا کے کسی محدث نے یہاں ’’فرش ‘‘ میں بچھانے کے ساتھ ساتھ اس پربیٹھنے کا بھی معنی شامل نہیں کیا ہے اوریہ کسی طرح ممکن بھی نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ تورک کا جوطریقہ مشہورہے وہ یہ کہ داہنا پیر کھڑا کیا جائے اوربائیں پیرکو داہنی طرف نکال کر سرین پر بیٹھا جائے ۔
لیکن مسلم کی حدیث میں تورک کی حالت میں دائیں پیر کے لئے ایک اورطریقہ بھی مذکورہے اوراس طریقہ کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صفۃ الصلواۃ میں بیان کیا ہے اوروہ یہ کہ بایاں پیر بچھاکرداہنی طرف نکال دیا جائے اور
’’دائیں پاؤں ‘‘ کو بھی بچھادیائے۔
تورک کا یہ طریقہ مسلم کی اسی حدیث میں ہے جسے ہم نے ابھی پیش کیا ہے اس میں دائیں پیر کے بچھانے کے لئے ’’فرش‘‘ کا لفظ استعمال ہواہے لیکن یہاں داہنا پاؤں بچھا کراس پربیٹھا نہیں جاتا ، معلوم ہوا کہ پاؤں کے لئے ’’فرش‘‘ کا استعمال اس بات کو مستلزم نہیں کہ پاؤں بچھا کراس پربیٹھا بھی جائے۔
ثانیا:
اگر مسلم کی مذکورہ حدیث عائشہ میں ’’فرش“ سے مراد پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا بھی لیں تو احناف نے اسی حدیث سے جو یہ استدلال کیا ہے کہ دونوں تشہد میں بائیں پاؤں پر ہی بیٹھیںگے ، یہ استدلال صد فی صد درست ثابت ہوگا ! کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں چار رکعت کا صراحۃ بیان ہے چنانچہ اس میںہے:
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ[صحيح مسلم: 1/ 357]۔
یعنی : اورہردو رکعت میں (یعنی ہردورکعت کے بعد دونوں تشہد میں ) التحیات پڑھتے تھے۔
یہ ٹکڑا اس سلسلے میں قاطع ہے کہ یہاں دو تشہدی نماز کی کیفیت بیان ہورہی ہے غور کیجئے کہ یہاں صرف ’’في الركعتين‘‘ (دورکعت میں ) نہیں کہا گیا بلکہ ’’ في كل ركعتين‘‘ (ہردورکعت میں)کہا گیا، پس
كان يقول في كل ركعتين التحية میں اس بات کی صریح دلیل ہے کہ یہاں جس نماز کی کیفیت بیان ہورہی ہے وہ دوتشہدی نماز ہے۔
جب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ حدیث عائشہ میں دو تشہدی نماز کا بیان ہے تو اگراس حدیث میں مستعمل لفظ ’’فرش‘‘ کو نفی تورک کے معنی میں لیں تو اس کا صریح تقاضا یہ ہے کہ دو تشہدی نماز کے دوسرے تشہد میں بھی تورک نہ کیا جائے کیونکہ اس حدیث میں ’’فرش ‘‘ کا ذکر خاص طور سے دونوں تشہد کے ذکر کے بعد ہی کیا گیا ہے، اسی لئے بعض احناف نے اس سے دنوں تشہد میں پاؤں پر بیٹھنے پراستدلال کیا ہے:
علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث سے احناف کا استدلال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لا سيما بعد وصفها للذكر المشروع في كل ركعتين، وتعقيب ذلك بذكر هيئة الجلوس [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 3/ 8].
یعنی خصوصا جب کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہر دو رکعت میں ’’التحیات‘‘ کی مشروعیت بیان کی ہے اوراس کےبعد فورا ہی بیٹھنے کی مذکورہ کیفیت بتلائی ہے (اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ہردورکعت کے بعد کی دونوں بیٹھکوں کو عام ہے نہ کہ کسی ایک ہی کے ساتھ خاص)
مشہورحنفی بزرگ ابن الترکمانی لکتھے ہیںِ:
واطلاقه يدل على ان ذلك كان في التشهدين بل هو في قوة قولها وكان يفعل ذلك في التشهدين إذ قولها اولا وكان يقول في كل ركعتين التحية يدل على هذا التقدير[الجوهر النقي 2/ 129]
یعنی : اس حدیث میں ’’فرش‘‘ کا اطلاق اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل (یعنی بائیں پاؤں پر بیٹھنا ) دونوں تشہد میں ہوتا تھا۔
بلکہ یہ اطلاق اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کے قائم مقام ہے کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں تشہد میں بائیں پاؤں پر بیٹھتے تھے ‘‘ ۔ کیونکہ پہلے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو یہ کہاکہ:’’ آپ ہردورکعت کے بعد التحیات پڑھتے تھے‘‘ اس سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو بعمومه حجة ظاهرة؛ لأنها ذكرت ذلك بعد قولها: في كل ركعتين التحية. فقولها: وكان يفرش ... إلخ؛ كأنه نص أنه في كل ركعتين أيضاً؛ [أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم 3/ 983 ]۔
یعنی حدیث عائشہ کا عموم بظاہر دونوں تشہد میں افتراش ہی کے لئے حجت ہے کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ’’في كل ركعتين التحية‘‘ کے بعد پاؤں بچھانے کا تذکرہ کیا ہے ، پس ماںعائشہ رضی اللہ عنہا کا اس کے بعد بائیں پاؤں پربیٹھنے کا ذکر کرنا گویا کہ نص ہے کہ یہ بیٹھک دونوں تشہد میں ہوگی۔
مذکورہ حنفی استدلال کا ماحصل یہ ہے کہ حدیث عائشہ میں افتراش کا ذکر ’’في كل ركعتين‘‘ کے معا بعد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں افتراش کا محل خاص طور سے ’’في كل ركعتين‘‘ یعنی دونوں تشہد ہی کو بتلایا جارہا ہے پھر مفہوم یہ ہوا کہ دو تشہدی نماز کے دونوں تشہد میں سنت افتراش یعنی بائیں پاؤں پر بیٹھنا ہی ہے ۔
الغرض یہ کہ اگر مذکورہ حدیث میں ’’فرش ‘‘ کا معنی پاؤں بچھا کراس پر بیٹھنا کریں گے تو احناف کا استدلال سوفی صد درست ہوگا ۔
فائدہ :
علامہ البانی رحمہ اللہ اس اعتراف کے بعد کہ مذکورہ حدیث عائشہ میں احناف کے لئے حجت ہے ، فرماتے ہیں:
لكن الحديث - وإن كان في " صحيح مسلم "؛ فهو - معلّ بالانقطاع كما بَيَّنَّاه هناك. ولو صح؛ لقلنا بجواز الافتراش في التشهد الأخير، وأنه سنة أحياناً، لكنه لم يصح.[أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم 3/ 983 ]۔
یعنی صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں احناف کے لئے حجت موجود ہے لیکن یہ حدیث گرچہ صحیح مسلم میں موجود ہے انقطاع کے سبب معلول یعنی ضعیف ہے جیساکہ میں نے افتتاح نماز کے مسائل میں بیان کیا ہے ، اوراگریہ حدیث صحیح ہوتی تو میں دوسرے تشہد میں بھی پاؤں پربیٹھنے کے جواز کا قائل ہوتا اورکہتا کہ ایسا بیٹھنا بھی کبھی کبھی سنت ہے لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
ہمارے نزیک صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث بالکل صحیح ہے اورانقطاع کا دعوی غلط ہے لیکن یہ تفصیل کا محل نہیں بہرحال حدیث صحیح ہے لیکن صاف صاف بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ’’فرش ‘‘ لغوی معنی میں ہے یعنی صرف پاؤں بچھانے کے معنی میں۔