• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا حکم !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا حکم !!!

سوال: توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:


توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی بات سے ایسا معنی مراد لے جو ظاہر کے خلاف ہو، یہ دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1- الفاظ اس معنی کا احتمال رکھتے ہوں

2- توریہ کی وجہ سے کسی پر ظلم نہ ہو

چنانچہ اگر کسی نے کہا کہ میں تو "وتد" پر ہی سوتا ہوں، وتد ایک لکڑی کو کہتے جسے دیوار میں ٹھونک کر سامان لٹکایا جاتا ہے، [جیسے ہک وغیرہ] اور وہ کہے کہ میری وتد سے مراد پہاڑ ہے، چنانچہ یہ توریہ درست ہوگا، کیونکہ وتد کے دونوں معانی درست ہیں اور اس میں کسی پر ظلم بھی نہیں ہے۔

اسی طرح اگر کسی نے کہا کہ : "اللہ کی قسم میں سقف [چھت]کے نیچے ہی سوؤں گا" اور پھر چھت پر چڑھ کر سو گیا ، پھر وضاحت کی کہ میں نے سقف سے مراد آسمان لیا تھا، تو یہ بھی ٹھیک ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے آسمان کو قرآن مجید میں سقف کہا ہے، فرمایا: ( وجعلنا السماء سقفاً محفوظاً ) الأنبياء /32اور ہم نے آسمان کو محفوظ سقف [چھت] بنایا ۔

جبکہ توریہ اگر ظلم ڈھانے کیلئے کیا جائے تو جائز نہیں ہوگا، جیسے کسی نے ایک آدمی کا حق ہڑپ کرلیا، اور مظلوم انسان قاضی کے پاس چلا گیا لیکن اسکے پاس کوئی گواہ یا دلیل نہیں تھی تو قاضی نے ملزم سے کہا کہ تم قسم دو کہ تمہارے پاس مدعی کی کوئی چیز نہیں ہے تو اس نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا: " والله ما له عندي شيء " ["ما" نفی کیلئے ہوتو اسکا معنی ہوگا: اللہ کی قسم اسکی کوئی چیز میرے پاس نہیں] تو قاضی نے ملزم کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے بری کردیا۔

تو ملزم کو لوگوں نے بتلایا کہ جو تم نے قسم اٹھائی ہے کہ یمین غموس ہے، اور جو بھی اس طرح کی قسم اٹھاتا ہے وہ جہنم میں جائے گا، جیسے کہ حدیث میں بھی آیا ہے: (جس شخص نے بھی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کیا ، وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس غضبناک ہوگا)

تو ملزم جواب میں کہتا ہے کہ: میں نے تو نفی کی ہی نہیں، میں نے اثبات میں جواب دیا تھا، اور "ما لہ"لفظ کا مطلب میری نیت میں یہ تھا کہ یہ "ما"اسم موصول ہے یعنی میرا مطلب تھا: "اللہ کی ذات کی قسم ! میرے پاس اسکی چیز ہے"

چنانچہ مذکورہ لفظ اس مفہوم کا احتمال تو رکھتا ہے لیکن یہ ظلم ہے اس لئے جائز نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ: (تمہاری قسم اسی مفہوم میں معتبر ہوگی جس مفہوم میں قسم لینے والا سمجھے گا) اور اللہ کے ہاں اس قسم کی تأویل مفید نہیں ہوگی، اور ایسی صورت میں یہ قسم جھوٹی تصور ہوگی۔

ایسے ہی اگر ایک آدمی کی بیوی پر کسی نے تہمت لگادی حالانکہ وہ تہمت سے بری تھی ، تو اس آدمی نے کہہ دیا: "اللہ کی قسم یہ میری بہن ہے" اور یہاں پر بہن سے مراد اسلامی بہن لیا تو یہ توریہ درست ہوگا، کیونکہ وہ واقعی اسکی اسلامی بہن ہے جس پر ظلم کیا جا رہا تھا.

ماخوذ از: "مجموع دروس وفتاوى الحرم المكي" (3/367) از شيخ ابن عثيمين
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تین جھوٹ کے متعلق میں صحیح بخاری کی روایت سے متفق نہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تین جھوٹ کے متعلق میں صحیح بخاری کی روایت سے متفق نہیں۔

کیا آپ قرآن سے متفق نہیں ؟
پہلا واقعہ: بت شکنی:
دوسرا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کیا آپ قرآن سے متفق نہیں ؟
پہلا واقعہ: بت شکنی:
دوسرا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت
آپ قرآن سے پہلے ”دو جھوٹ“ ثابت کریں کہ حضرت ابراہیمؑ نے جھوٹ بالا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جھوٹ کہا ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اور جہاں تک بات ہے قرآن سے متفق ہونے کی تو میں یقینا قرآن سے متفق ہوں۔ کیا آپ اس آیت سے متفق ہیں ؟
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔
قرآن ، سورت مریم ، آیت نمبر 41
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آپ قرآن سے پہلے ”دو جھوٹ“ ثابت کریں کہ حضرت ابراہیمؑ نے جھوٹ بالا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جھوٹ کہا ہے۔

پہلے آپ ہی اس آیت کی تفسیر بیان کر دیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آپ قرآن سے پہلے ”دو جھوٹ“ ثابت کریں کہ حضرت ابراہیمؑ نے جھوٹ بالا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جھوٹ کہا ہے۔
حدیث ابراہیمی پر اعتراض اور جواب

از حضرت العلام مولانا ثناء اللہ صاحب فتاویٰ

حدیث شریف میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت ایک حقیقت کا اظہارکیا ہے۔ اس پر بہت سے منکرین حدیث بلکہ بعض قائلین حدیث بھی اعتراض کرتے ہیں۔ جماعت مرزایئہ نے تو آج کل اس کو اپنا سہارا بنا رکھا ہے۔ اس لئے آج ہم اس مشکل کو اپنے ناقص علم کے مطابق حل کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔ حدیث شریف مذکورہ کے الفاظ یہ ہیں۔

عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلو لم يكذب ابراهيم عليه الصلواة والسلام الا ثلاث كذبات

''ترجمہ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین جھوٹ (بخاری شریف ص 474)

معترضین اس حدیث پر دو طرح اعتراض کرتے ہیں ایک اس طرح کے نبی کی شان نہیں کہ جھوٹ بولے۔ دوسرا اس طرح کے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صدیق کہا گیا ہے۔ اور حدیث شریف میں ان کے تین جھوٹ بیان ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے۔ اور ناقابل قبول ہے۔ مرزائی اس حدیث سے یہ فائدہ بھی لینا چاہتے ہیں۔ کہ ایک دو تین جھوٹوں کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی صدیق رہے۔ تو مرزا صاحب کے اگر چند جھوٹ ثابت ہوجایئں تو ان کی نبوت میں کیا خرابی لازم آتی ہے۔ ؟ پس ان سب اعتراضوں کے جواب غور سے سنیے۔ اصل اصول ایسے امور سمجھنے کا وہ حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ انما الاعمال بالنيات یعنی اعمال کا شرعی وجود نیتوں سے ہے۔ جیسی نیت ویسا پھل ۔ مناسب ہے کہ اصل مقصد سے پہلے ایک حدیث بطور مثال پیش کردوں۔ اس مثالی حدیث میں غلط گوئی کی اجازت لے کر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کیا یک جماعت کارخاص کو جاتی ہے۔ اور کامیاب ہوکر ددربار رسالت میں رپورٹ کرتی ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔

قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلو من الكعب ابن الاشرف فايه قد اذي الله ورسوله فقام محمد بن سلمة فقال يا رسول الله اتحب ان اقتله قال نعم فاذن لي ان اقول شيئا قال قل فانا محمد بن مسلمة فقال ان هذا الرجل (محمد) قد سالنا صدقة وانه قدعنا نا واين اتيتك استسلفك قال وايضا لتملنه قال انا قد اتبعنا ه فلا لجت ان ندعه حتي فنظر الي اي شئ يصير شانه فقال اناذن لي ان اشم ل سك قال فلما استمكن عنه قال دونكم فقتلوه ثم اتوا النبي صلي الله عليه وسلم فاخبروه (بخاری ص567)

ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہے کوئی جو کعب بن اشرف سے بدلہ لے لے۔ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایزا دی ہے۔ یعنی بغاوت پھیلا رکھی ہے۔ یہ سن کر محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ تو اس نے کہا کہ پھر آپ ﷺ مجھ کو اجازت دیجیے۔ کہ میں آپ کے حق میں کچھ نا مناسب الفاظ اس کے سامنے کہہ دوں۔ فرمایا کہہ دینا۔ پس محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعب کے پاس آکر کہا کہ اس شخص (محمد ﷺ) نے ہم سے بارہا صدقہ مانگ کر ہم کو تنگ کررکھاہے۔ میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے کچھ قرض دیں۔ اس نے کہا کہ آیندہ اتنا مانگے گا کہ تم اس سے تنگ آجائو گے۔ محمد بن سلمہ نے کہا کہ اب تو ہم اس کے پیچھے ہوئے کہ اس کا کیا انجام ہوتاہے۔ ؟ اس گفتگو کے بعد محمد بن سلمہ نے کعب کو کہا کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ آپ ے سر کے بالوں سے خوشبو سونگھوں اس نے کہا ہاں ۔ پس اس نے اس کے سر کو سونگھا اور اپنے ساتھ والوں کو سونگھایا پھر کہا ایک دفعہ اور اجازت دیجئے۔ جب اس نے اجازت دے دی تو اچھی طرح اس کے سر کو پکڑ لیا۔ اور ساتھوں کوآواز دی کہ پکڑ لو۔ پس اس نے اس کو قتل کر کے ددربار رسالت میں اطلاع دی۔

ناظرین:


اس حدیث میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے کعب کے سامنے بحق رسالت جوکچھ کہا وہ قطعا نا درست ہے۔ بلکہ ایمان کے سراسر خلاف ہے۔ مگر کیا کوئی کہے گا کہ انہوں نے واقعی کوئی ایمان ک خلاف کام کیا۔ نہیں تو کیوں نہیں؟ اس لئے کہ دینی مقصد کے لئے اجازت لے کر یہ کام کیا۔ اس واقعہ کو یاد رکھ کر سنیئے۔


1۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بُت توڑدییئے۔ تو ان کو ماخوذ کر کے پنچوں کے سامنے لایاگیا۔ اورسوال ہوا کہ تو نے یہ کام کیا۔ تو انہوں نے جوابدیا۔

قالَ بَل فَعَلَهُ كَبيرُ‌هُم هـٰذا فَسـَٔلوهُم إِن كانوا يَنطِقونَ ﴿٦٣﴾
''ترجمہ۔ میں نے نہیں بلکہ ان کے اس بڑے بت نے ایسا کام کیا ہے۔ اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔ ''


اس کلام میں فعل کا فاعل بڑے بت کو بنایا ہے۔ مگر حقیقت یہ نہیں نہ بڑے بت نے دوسرے کو توڑا نہ مشورہ دیا یا حکم دیا۔

2۔ چونکہ کفار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بت خانہ کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ اس لئے انھوں نے بطور معذرت کہا۔ ''انی سقیم'' (میں بیمار ہوں) بقرینہ مقام بیماری سے مراد وہ بیماری ہونی چاہیے۔ جوچلنے پھرنے سے مانع ہو چونکہ آپ کی حالت ایسی نہ تھی۔ لہذا کلام غلط ہے۔

3۔ تیسری بات حدیث میں یہ آئی کہ ایک ظالم حاکم کے سامنے بغرض حفاظت اپنی منکوحہ (بیوی) کواخت (بہن) کہہ کر بچا لیا۔ یہ ہیں وہ تین جملے جن میں سے دو تو قرآن مجید میں مذکور ہیں ایک حدیث میں ہے۔

ان سارے واقعات کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام حدیث میں یوں منقول ہے۔

اني كذبت ثلاث كذبات (میں نے تین دفعہ جھوت کہا)

مگر رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بغرض بریت فرمایا۔ ما منها كذبة الا ما حل بها عن دين الله (متفق علیہ) یعنی یہ تینوں جھوٹ ایسے تھے کہ ان کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام دینی مواخذہ سے نکل گئے؟

مطلب اس کا یہ ہے کہ دینی کام میں جو ان پر تکلیف آئی تھی ایسا کرنے سے آپ اس تکلیف سے بچ گئے۔ اس لفظ سے پیغمبر نے حضرت ابراہیم ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح جھوٹ کے مواخذہ سے بری ٖظاہر فرمادیا۔ جس طرح کے محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتل کعب بن اشرف کو باوجودآلودہ بالکذب ہونے کے کزب سے بچا لیا۔ پس جس طرح محمد بن مسلمہ کا کذب باوجود وقوع پزیر ہونے کے اہل معرفت کے مقولہ سب صحابی رضوان اللہ عنہم اجمعین ثقہ ہیں ک ےخلاف نہیں۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام باوجود ان واقعات کے صدیقا نبیاً ہیں۔ لاشک فیہ۔

ہاں مرزاقادیانی صاحب کے کزبات ایسے نہیں۔ وہ و اپنے دعوے کے اثبات کے لئے بطوردلیل کے لاتے ہیں۔ جو وقوع پزیر نہیں ہوتے۔ تو منکرین کو دین اسلام پر اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پھر اس سے اس کو کیانسبت سوائے اس کے کہ کہہ جائے۔ شیر قالیں وفگر است وشیر نیستاںوگر است

نتیجہ
اس لئےمرزا قادیانی نے اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کو بہت مکروہ الفاظ سے یاد کیا ہے۔ (آیینہ کمالات) (اہل حدیث 25 رمضان 1352ء؁)


فتاویٰ ثنائیہ
جلد 01 ص 304
محدث فتویٰ
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس معاملے میں مولانا مودودیؒ نے ” رسائل ومسائل ، جلد نمبر03 ، صفحہ 66-61 “ اور ” تفہیم القرآن “ میں جو معروضات پیش کی ہیں میں ان کو معقول مانتا ہوں اگر آپ کسی دوسرے عالمِ دین کے دیئے ہوئے دلائل سے مطمئن ہیں تو الجھنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ہمیں راویوں کی ” صداقت “ سے زیادہ حضرت ابراہیمؑ کی ” صدیقیت “ پر یقینِ کامل ہے۔
 
Top