١٠) آخر میں ابن عربی کی تعریف کرنے والوں اور اس پر کفر و ضلالت کا فتویٰ نہ لگانے والوں کا حکم پوچھنے والوں سے سوال ہے کہ کتاب و سنت میں منصوص اور اجماعی طور پر جن کا کفر یا کافر ہونا ثابت ہو، ان کو مسلمان و مومن جاننے اور ان کی تحسین کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور کیا کبھی ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کیا ہے؟ اگر سمجھ نہیں آئی تو ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ بریلویوں کے استاذ الاساتذہ و امام المناطقہ عطا محمد بندیالوی چشتی نے لکھا:
’’چراغ گولڑہ حضرت قبلہ پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ (روئیداد مناظرہ، گستاخ کون؟ ص۴۳)
عطا محمد بندیالوی نے مزید لکھا:
’’بقیۃ السلف، عمدۃ الابرارخاتمۃ المحققین شیخ الاسلام و المسلمین زبدۃ الکبراء البلد الامین شیخنا و برکتناو سیدنا و قدوتناعلامہ سید شریف احمد زینی دحلان مکی رضی اللہ تعالےٰ عنہ‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۱۵ص۲۵۵)
ان سب قائلین اسلام و ایمان ابو طالب کے مقابلے میں احمد رضا خان بریلوی نے صاف لکھا:
۲۔ فرعون کا خدائی دعویدار ہونا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا شدید گستاخ ودشمن ہونا قرآن پاک کی واضح تصریحات سے ثابت ہے۔ احمد رضا خان بریلوی نے تسلیم کیا:
’’فرعون بالاجماع و بنص قطعی قرآن کافر تھا‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۱۵ص۲۷۲)
مگر میر اشرف سمنانی نے اپنے ایک مکتوب میں با تائیدو بطور حجت لکھا:
احمد رضا بریلوی نے لکھا: ’’شیخ شیوخ علماء الہندمحقق فقیہ نبیہ مولٰنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی ....اپنی تصانیف جلیلہ جمیلہ معتمدہ مستندہ مثل....اخبار الاخیار....‘‘ (فتاویٰ رضویہ:ج۲۱ص۳۲۱)
۳۔ بریلوی ’’اعلیٰ حضرت ‘‘احمد رضا خان قادری نے بنارس کے ایک مندر سے نکلنے والے سادھوکو ’ابدال وقت‘ قرار دیا۔ دیکھئے اعلیٰ حضرت اعلیٰ سیرت (ص۱۳۴) نیز امام احمد رضا اور تصوف (ص۱۰۷)
فرعون کے ایمان کو ثابت کرنے والے ، اسے پاک صاف ماننے والے جن کے نزدیک’ کامل ولی اللہ ‘مانے جائیں اور جن کے ہاں مندر کے ہندو سادھو ’ابدال وقت‘ قرار پائیں، ان کے متبعین و مقلدین کا ابن عربی کی تعریف کرنے والوں پر سوال اٹھانا، کیا شرم سے ڈوب مرنے کا مقام نہیں!!؟
۱۔ بریلویوں کے استاذ الاساتذہ و امام المناطقہ عطا محمد بندیالوی چشتی نے لکھا:
بریلوی پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کے شعر کا ایک مصرعہ یوں نقل کیا گیا:’’ابو طالب کے ایمان کا اقرار کرنا ہو گا‘‘ (تحقیق ایمان ابو طالب ص۱۲)
’’اور چونکہ حضرت ابو طالب کے حق میں شفاعت مقبول ہے لہٰذا ثابت ہواکہ وہ کافر نہ تھے بلکہ مسلمان تھے۔‘‘ (تحقیق ایمان ابو طالب ص۲۲)
حنیف قریشی کے معاون مناظر امتیاز حسین کاظمی نے لکھا:’’میرا دل قائل ایمان ِ ابو طالب ہے‘‘ (تحقیق ایمان ابو طالب: سرورق)
’’چراغ گولڑہ حضرت قبلہ پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ (روئیداد مناظرہ، گستاخ کون؟ ص۴۳)
عطا محمد بندیالوی نے مزید لکھا:
ایمان و نجات ابو طالب کے قائل اس احمد دحلان کے متعلق احمد رضا خان بریلوی نے کہا:’’حضرت سید احمد دحلان قدس سرہ ایمان اور نجاۃ ابو طالب کے قائل ہیں اور اس مسئلہ پر ان کا ایک رسالہ بھی ہے جسکا نام السنی المطالب فی نجاۃ ابی طالب ہے‘‘ (تحقیق ایمان ابو طالب ص۳۱)
’’بقیۃ السلف، عمدۃ الابرارخاتمۃ المحققین شیخ الاسلام و المسلمین زبدۃ الکبراء البلد الامین شیخنا و برکتناو سیدنا و قدوتناعلامہ سید شریف احمد زینی دحلان مکی رضی اللہ تعالےٰ عنہ‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۱۵ص۲۵۵)
ان سب قائلین اسلام و ایمان ابو طالب کے مقابلے میں احمد رضا خان بریلوی نے صاف لکھا:
ابو طالب کہ جس کے کفر پر مرنے ، ایمان سے انکار کرنے اور اصحابِ نار سے ہونے پر قرآن و حدیث سے بقول بریلوی ’’اعلیٰ حضرت‘‘ بھی پختہ ثبوت موجود ہوں کہ کسی سُنی کو مجال انکار نہ ہو،کے ایمان و اسلام کی گواہی دینے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟’’آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ متوافرہ متظافرہ سے ابو طالب کا کفر پر مرنااور دمِ واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنااور عاقبت کار اصحابِ نار سے ہوناایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سُنی کو مجال ِ دم زدن نہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۲۹ص۶۶۱)
۲۔ فرعون کا خدائی دعویدار ہونا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا شدید گستاخ ودشمن ہونا قرآن پاک کی واضح تصریحات سے ثابت ہے۔ احمد رضا خان بریلوی نے تسلیم کیا:
’’فرعون بالاجماع و بنص قطعی قرآن کافر تھا‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۱۵ص۲۷۲)
مگر میر اشرف سمنانی نے اپنے ایک مکتوب میں با تائیدو بطور حجت لکھا:
اس مکتوب کو نقل کرنے والے شیخ عبدالحق دہلوی نے میر اشرف سمنانی کے بارے میں کہا: ’’آپ صاحب کرامت و تصرف اور بڑے کامل ولی اللہ تھے...مرید ہونے سے قبل ہی آپ کشف و کرامت کے مقامات علیا حاصل کر چکے تھے، حقائق اور توحید کے بارے میں بڑی بلند باتیں فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (اخبار الاخیار،اردوص۳۵۳)’’فرعون کا ایمان معتد بہ اور صحیح ہو گا....اور فرعون کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے اس کا ایماندار ہونا مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو بوقت غرق عطا کیا تھااور اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا سے پاک و صاف کر کے قبض کر لیا اس لیے کہ وہ ایمان لانے کے بعد کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا۔‘‘ (اخبار الاخیار،اردو ص۳۵۴طبع اکبر بک سیلرز، لاہور)
احمد رضا بریلوی نے لکھا: ’’شیخ شیوخ علماء الہندمحقق فقیہ نبیہ مولٰنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی ....اپنی تصانیف جلیلہ جمیلہ معتمدہ مستندہ مثل....اخبار الاخیار....‘‘ (فتاویٰ رضویہ:ج۲۱ص۳۲۱)
۳۔ بریلوی ’’اعلیٰ حضرت ‘‘احمد رضا خان قادری نے بنارس کے ایک مندر سے نکلنے والے سادھوکو ’ابدال وقت‘ قرار دیا۔ دیکھئے اعلیٰ حضرت اعلیٰ سیرت (ص۱۳۴) نیز امام احمد رضا اور تصوف (ص۱۰۷)
فرعون کے ایمان کو ثابت کرنے والے ، اسے پاک صاف ماننے والے جن کے نزدیک’ کامل ولی اللہ ‘مانے جائیں اور جن کے ہاں مندر کے ہندو سادھو ’ابدال وقت‘ قرار پائیں، ان کے متبعین و مقلدین کا ابن عربی کی تعریف کرنے والوں پر سوال اٹھانا، کیا شرم سے ڈوب مرنے کا مقام نہیں!!؟
(ماہنامہ الحدیث: شمارہ نمبر ٩٢، جنوری ٢٠١٢)