• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکفیر

شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
پهر اتمام حجت سے کیا مراد ہوتا ہے.
معذرت خلل ڈالنے پر ... میں ضمنا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کر رہا ہوں جو کہ "الجواب الصحیح" میں ہے‫‫‫...

قال شيخ الإسلام رحمه الله:

....وَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ : فَمَعْلُومٌ أَنَّ الْحُجَّةَ إِنَّمَا تَقُومُ بِالْقُرْآنِ عَلَى مَنْ بَلَغَهُ ، كَقَوْلِهِ: ( لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ) [الأنعام: 19] .

فَمَنْ بَلَغَهُ بَعْضُ الْقُرْآنِ دُونَ بَعْضٍ : قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِمَا بَلَغَهُ ، دُونَ مَا لَمْ يَبْلُغْهُ .

فَإِذَا اشْتَبَهَ مَعْنَى بَعْضِ الْآيَاتِ ، وَتَنَازَعَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ الْآيَةِ : وَجَبَ رَدُّ مَا تَنَازَعُوا فِيهِ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ .
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
موانع تکفیر میں جهالت اور تاویل کا جو ذکر ہے اس کی تفصیل بیان کرلیں.
ابن باز حمہ اللہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا انہوں نے اسکا جواب دیا تھا کہ جہالت کب عذر بن سکتی ہے شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ سے بھی جب اسی جہالت کے بارے پوچھا گیا کہ وہ کب عذر بن سکتی ہے تو انہوں نے اپنی کتاب کلمہ گو مشرک میں اس سوال کے جواب میں شیخ ابن باز حمہ اللہ کا یہی فتوی نقل کیا ہے وہ فتوی محدث فورم پہ بھی اردو میں موجود ہے میں اسی کا لنک یہاں دیتا ہوں اوراگلی پوسٹ میں اسکو کاپی کر دیتا ہوں
محدث فتوی (جہالت کی وجہ سے کون معذور سمجھا جائے گا)
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ کون لوگ ہیں جنہیں جہالت کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا یعنی کیا امور فقہیہ میں جہالت کی وجہ سے معذورسمجھاجائے گایاعقیدہ اورتوحید کے بارے میں بھی جہالت کی وجہ سے کون معذور سمجھا جائے گا؟اس حوالہ سے حضرات علماءکرام پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہالت کا دعوی اوراس کی وجہ سے عذرایک تفصیل طلب مسئلہ ہے ۔جہالت کی وجہ سے ہر شخص کو معذورقرارنہیں دیا جاسکتا کہ وہ امور جنہیں اسلام نے پیش کیا،رسول اللہ ﷺنے لوگوں کے سامنے بیا ن فرمایا،کتاب اللہ نے ان کی وضاحت فرمائی اورمسلمانوں میں یہ امور پھیل گئےتو ان کے بارے میں یہ دعوی بالکل قابل قبول نہیں ہے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺکو اس لئے مبعوث فرمایا کہ آپ (ﷺ) لوگوں کے سامنے دین کی وضاحت اورتشریح فرمادیں ،چنانچہ آپؐ نے نہایت وضاحت کے ساتھ دین کی تبلیغ فرمائی اوردین کی حقیقت کو امت کے سامنے نہایت کھول کھول کربیان فرمادیا اوردین سے متعلق ہر چیز کو نہایت شرح وبسط سے بیان فرمادیا اورامت کوایسی روشن اورمنورشریعت دی جس نی راتیں بھی دنوں کی طرح جگمگاتی ہیں اور کتاب اللہ سراپا ہدایت ونور ہے،لہذا اگر کچھ لوگ ان امورکے بارے میں جہالت کا دعوی کریں جو بالضروردین سے معلوم ہیں اورمسلمانوں میں وہ پھیل چکے ہیں مثلا کوئی شرک اورغیراللہ کی عبادت کے بارے میں جہالت کا دعوی کرے یا یہ دعوی کرے کہ نماز واجب نہیں ہے یا رمضان کے روزے واجب نہیں ہیں یا زکوۃ واجب نہیں ہے یا استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی حج واجب نہیں ہے تو اس طرح کا کوئی دعوی بھی قابل قبول نہ ہوگاکیونکہ یہ تمام امور مسلمانوں کو معلوم ہیں اوردین اسلا م سے یہ ضروری طورپر معلوم ہیں اورمسلمانوں میں یہ امور عام ہوچکے ہیں لہذا ان میں سے کسی کے بارے میں جہالت کا دعوی قابل قبول نہ ہوگا۔اسی طرح اگرکوشخص یہ دعوی کرے کہ وہ ان امور سے جاہل ہے جسے مشرکین قبروں اوربتوں کے پاس کرتے ہیں یعنی مردوں کو پکارتے،ان سے استغاثہ کرتے ،ان کے نام پر ذبح کرتے اوران کی نذر مانتے ہیں یا مردوں ،بتوں ،جنوں،فرشتوں یا نبیوں سے شفایادشمنوں کے خلاف مددمانگتے ہیں توان میں سے ہر ہرامرکے بارے میں ضروری طورپر دین سے یہ بات معلوم ہےکہ یہ شرک اکبر ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں واضح طورپر بیان فرمایاہے اوراس کے رسول ﷺنے بھی اسے صاف صاف بیان فرمادیا ہے،چنانچہ آپﷺنے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک لوگوں کو اس شرک سے درایا ،اسی طرح دس سال تک آپﷺنے مدینہ منورہ میں اس شرک کی مذمت کی اوراس سے بچنے کی تلقین فرمائی اورواضح فرمایا کہ یہ واجب ہےکہ اخلاص کے ساتھ عبادت صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک کی کی جائے ،اس سلسلہ میں آپ قرآن مجید کی درج ذیل آیات کی تلاوت بھی فرماتے:
﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)

"اور تمہارے پروردگار نے ارشادفرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"
اورفرمایا:
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحۃ۵/۱)

‘‘ (اے پروردگار!) ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورصرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔’’
نیز فرمایا:
﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کو حکم تویہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں (اوریکسوہوکر) دین کو (شرک سے) خالص کرکے اللہ کی عبادت کرو۔’’
مزید فرمایا:
﴿ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (الزمر۳۹/۲۔۳)

‘‘ (اے نبی!) خالص اللہ ہی کی بندگی کیا کرو۔’’
ایک اورارشاد:
﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِ‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْ‌تُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾(الانعام۶/۱۶۲۔۱۶۳)

‘‘ (اے نبی!) کہہ دو کہ میری نماز،میری قربانی،میراجینااورمیرا مرناسب اللہ رب العالمین ہی کے لئےہے جس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے اول فرماں بردارہوں۔’’
اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول (ﷺ) سے مخاطب ہوکر فرمایا:
﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ‌ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌﴾ (الکوثر۱۰۸/۱۔۲)

‘‘ (اے محمد!ﷺ) ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے تو اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔’’
ارشادباری تعالی ہے:
﴿فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا﴾ (الجن۱۸/۷۲)

‘‘پس اللہ کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو’’
اورفرمایا:
﴿وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ لَا بُرْ‌هَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ‌ونَ﴾ (المومنون۲۳/۱۱۷)

‘‘اورجو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی بھی سندنہیں تواس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا،کچھ شک نہیں کہ کافررستگاری (چھٹکارا) نہیں پائیں گے۔’’
اسی طرح دین کا مذاق اڑانا ،دین میں طعنہ زنی کرنا ،دین کے ساتھ استہزاء کرنا اوردین کو گالی دینا ،یہ سب کفر اکبر ہے۔اس کے ارتکاب کرنے والے کو بھی معذورتصور نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ بات بھی ضروری طور پر دین سے معلوم ہےکہ دین کو گالی دینایا رسول اللہ کو گالی دینایا استہزاءومذاق اڑانا بھی کفر اکبر ہے۔ارشادباری تعالی ہے:
﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ۹/۶۵۔۶۶)

‘‘کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟بہانے مت بناوتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’
لہذا اہل علم پر واجب ہے ،خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں ،کہ یہ باتیں لوگوں کو بتائیں اوران کے سامنے انہیں ظاہر کریں تاکہ عوام کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اوریہ امر عظیم لوگوں میں عام ہوجائے اوروہ مردوں کے ساتھ تعلق اوراستغاثہ کو چھوڑ دیں،خواہ اس کا تعلق دنیا میں کسی جگہ سے بھی ہو،مصر سے ہو یا شام سے ،عراق سے ہو یا مدینہ میں نبی کریمﷺکے روضہ کے پاس سے یا مکہ مکرمہ سے ہویا کسی بھی اورجگہ سے تاکہ حاجیوں کو بھی یہ بات معلوم ہوجائے اورعام لوگوں میں بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالی کا دین کیا ہے اوراس کی شریعت کیا ہے؟
علماء کے سکوت کی وجہ سے عوام کے تباہی وبربادی اورجہالت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے اہل علم پر یہ واجب ہے ،خواہ وہ دینا میں کسی بھی جگہ کے رہنے والے ہوں،کہ وہ لوگوں کے پاس اللہ کے دین کو پہنچائیں،انہیں اللہ تعالی کی توحید کا علم سکھائیں اوربتائیں کہ شرک کی کون کون سی قسمیں ہیں تاکہ وہ علی وجہ البصیرت شرک کو ترک کردیں اوراللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ۔اسی طرح بدوی یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبروں کے پاس جوکچھ ہوتا ہے یا مدینہ منورہ میں نبی ﷺکی قبر شریف کے پاس جوہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماءلوگوں کوسمجھائیں اوربتائیں کہ عبادت صرف اورصرف اللہ وحدہ کا حق ہے،اس حق میں اس کے ساتھ کوئی سہیم وشریک نہیں ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے کہ :
﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينََ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں’’
اورفرمایا:
﴿ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (الزمر۳۹/۲)

‘‘اللہ کی عبادت کرو (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک) سے خالص کر کے،دیکھوخالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا) ہے۔’’
مزید فرمایا:
﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)

"اور تمہارے پروردگار نے ارشادفرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"
کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے پروردگارنےیہ حکم دیا ہےکہ ۔۔۔۔۔لہذا تمام اسلامی ممالک کے اہل علم پر ،ان ملکوں کے اہل علم پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اوردنیا میں کسی بھی جگہ رہنے والے اہل علم پر یہ واجب ہے کہ لوگوں کو اللہ کی توحید سکھائیں ،انہیں علی وجہ البصیرت اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی تعلیم دیں اوراللہ تعالی کی ذات گرامی کے ساتھ شرک سے انہیں ڈرائیں کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے اورلوگوں کو بتائیں کہ اللہ تعالی نے جنوں اورانسانوں کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ یہ اس کی عبادت کریں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات۵۶/۵۱)

‘‘اور میں نے جنوں اورانسانوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه میری ہی عبادت کریں’’
اوراس کی عبادت یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے،اس کے رسول ﷺکی تابعداری کی جائے،اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کی جائے اوردلوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے،ارشادباری تعالی ہے :
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ۲/۲۱)

‘‘لوگواپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اورتم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔’’
باقی رہے وہ مسائل جو مخفی ہوتے ہیں مثلا مسائل معاملات،نمازاورروزہ کے بعض مسائل توان میں جاہل کو معذورتصور کیا جائے گا جس طرح نبی کریمﷺنے اس آدمی کو معذورسمجھا تھا جس نے ‘‘جبہ’’میں احرام باندھ لیا اوراسے خوشبوسے معطر بھی کررکھا تھا تو آپؐ نے اس سے فرمایا‘‘جبہ اتاردو،اپنے جسم سے خوشبو کو دھو ڈالواورعمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔’’اس شخص کی جہالت کی وجہ سے آپؐ نے اسے فدیہ اداکرنے کا حکم نہیں دیا۔اسی طرح بعض دیگر مسائل جو مخفی ہوتے ہیں ان کے بارے میں جاہل کو بتایااورسکھایا جائے گالیکن وہ امور جو اصولی ہیں جن کا تعلق اصول عقیدہ ،ارکان اسلام اورمحرمات ظاہرہ سے ہے ،ان میں جہالت کا عذر قابل قبول نہ ہوگا۔اگرکوئی شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ زنا حرام ہے تو اس کا یہ عذر قبول نہ ہوگا ،بلکہ اس پر حد زنا جاری کی جائے گی یا مسلمانوں میں رہتے ہوئے اگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ شراب حرام ہے تو اس کا بھی یہ عذر قبول نہ ہوگابلکہ اس پر شراب کی حد جاری کی جائے گی یااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ والدین کی نافرمانی حرام ہے تواس کی یہ بات درست تسلیم نہ کی جائے گی،بلکہ اسے سزادی جائے گی اورادب سکھایا جائے گایااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ لواطت۔۔۔ (ہم جنس پرستی) ۔۔۔حرام ہے تواس کا یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا اوراس پر حدجاری کی جائے گی کیونکہ یہ ظاہری امور ہیں جو مسلمانوں میں معروف ہیں اوریہ بات بھی معروف ہے کہ ان کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر کیا ہے۔
ہاں!اگر کوئی شخص کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں دوردورتک اسلام نہ ہو یاوہ افریقہ کے کسی ایسے گمنام علاقے میں ہو جہاں مسلمان نہ ہوں تو اس کا دعوی جہا لت قبول کیا جائے گااورجب وہ اس حالت میں فوت ہوجائے تواس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہوگا اوراس کا حکم اہل فترت جیسا ہوگا اورصحیح بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا روز قیامت امتحان ہوگا اگریہ امتحان میں کامیاب ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ،توجنت میں داخل ہوں گےاوراگرنافرمانی کی توجہنم رسید ہوں گے ۔لیکن جو شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے کفرکا ارتکاب کرتا اورمعلوم شدہ فرائض وواجبات کو ترک کرتا ہے تو ایسے شخص کا عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ معاملہ بالکل واضح ہے ۔مسلمان بحمدا للہ موجود ہیں جو نماز پڑھتے ،روزہ رکھتے اورحج کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ زنا ،شراب اوروالدین کی نافرمانی حرام ہے اوریہ تمام باتیں مسلمانوں میں مشہورومعروف ہیں ،لہذا ان حالات میں جہالت کا دعوی ایک باطل دعوی قرارپائے گا۔
واللہ المستعان۔


صفحہ 188

محدث فتویٰ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کیونکہ اس طرح تو قادیانی بهی تاویل کرتے ہیں گو کہ وہ تاویل باطل ہوتی لیکن تمام گمراہ فرقوں کی تاویل باطل ہی ہوا کرتی ہے...اور اس طرح ان کی عوام میں بہت سے جهالت کے عذر کا سہارا لے سکتے ہیں...بہتر یہ ہوگا کہ کسی کتاب کا حوالہ دے دیں جس میں مفصل بیان ہو..عربی کتب بهی صحیح رہیں گی...
جہالت کی طرح تاویل کا معاملہ بھی اسی طرح ہی ہے کہ تاویل درست ہونی چاہئے غلط تاویل قابل قبول نہیں ہوتی
اوپر جس کتاب کا ذکر کیا ہے کلمہ گو مشرک اس میں قادیانیوں کی اسی تاویل کا ذکر کیا گیا ہے او ساتھ مشرکین کی تاویل کا بھی ذک کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایسی تاویل عذر نہیں بن سکتی
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کیا ہم قرآن اور حدیث کو دیکهیں گے کہ جن معاملات کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے یا مثلا کفر کی وہ اقسام جس پر اجماع ہے اس میں جهالت عذر نہی ہوگا یا معاشرہ کی حالت کو دیکها جائے گا

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پهر اتمام حجت سے کیا مراد ہوتا ہے.
معذرت خلل ڈالنے پر ... میں ضمنا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کر رہا ہوں جو کہ "الجواب الصحیح" میں ہے‫‫‫...
قال شيخ الإسلام رحمه الله:
....وَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ : فَمَعْلُومٌ أَنَّ الْحُجَّةَ إِنَّمَا تَقُومُ بِالْقُرْآنِ عَلَى مَنْ بَلَغَهُ ، كَقَوْلِهِ: ( لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ) [الأنعام: 19] .
فَمَنْ بَلَغَهُ بَعْضُ الْقُرْآنِ دُونَ بَعْضٍ : قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِمَا بَلَغَهُ ، دُونَ مَا لَمْ يَبْلُغْهُ .
فَإِذَا اشْتَبَهَ مَعْنَى بَعْضِ الْآيَاتِ ، وَتَنَازَعَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ الْآيَةِ : وَجَبَ رَدُّ مَا تَنَازَعُوا فِيهِ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ .
جی واقعی ایسے ہی بات ہے کہ قرآن کا جو حصہ اسکو پہنچ چکا تو اسکی حجت پہنچ چکی اور جو حصہ نہیں پہنچا تو سمجھو کہ اسکی حجت نہیں پہنچی اور جہاں معنی متشابہ ہو جائے اور لوگ اس میں اختلاف کھتے ہوں تو اسکو قرآن و حدیث کے مطابق ہی حل کیا جائے گا
اس کو علماء مزید دوسرے طریقے سے سمجھاتے ہیں کہ جیسا کہ اوپر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی میں بھی اشارہ ہے کہ دین میں دو طرح کے معاملات ہوتے ہیں
۱۔وہ ظاہری اعمال کہ جنکو سمجھنے کے لئے کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی ایسے اعمال میں خالی بلاغ ہی کافی ہوتا ہے یعنی انکا پہنچنا ہی کافی ہوتا ہے جیسا کہ اوپر ابن تیمہ نے بلاغ کو ہی حجت کہا ہے یہ ظاہری امور میں ہے مثلا غیراللہ کی عبادت نہ کرنا نماز پڑھنے کا اقرار کرنا رسالت کا اقرار کرنا ختم نبوت کا اقرار کرنا وغیرہ ایسے امور میں خٓلی بلاغ (یعنی حکم کے پہنچنے سے ہی) حجت قائم ہو جائے گی اور پہنچنے سے مراد کہ وہ حکم مسلمانوں میں پھیل چکا ہو اور جو بھی اسکو معلوم کرنے کے لئے کوشش کے تو وہ معلوم کر سکتا ہو یہ نہیں کہ وہ معلوم کرنے کے لئے کوشش ہی نہ کرے اور پھر کہے کہ میں معلوم نہیں کر سکا
اوپر ابن باز رحمہ اللہ کے فتوی میں بھی انکو ظاہری امور کہا گیا ہے اس فتوی میں لکھا ہے کہ

لہذا اگر کچھ لوگ ان امورکے بارے میں جہالت کا دعوی کریں جو بالضروردین سے معلوم ہیں اورمسلمانوں میں وہ پھیل چکے ہیں مثلا کوئی شرک اورغیراللہ کی عبادت کے بارے میں جہالت کا دعوی کرے یا یہ دعوی کرے کہ نماز واجب نہیں ہے یا رمضان کے روزے واجب نہیں ہیں یا زکوۃ واجب نہیں ہے یا استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی حج واجب نہیں ہے تو اس طرح کا کوئی دعوی بھی قابل قبول نہ ہوگاکیونکہ یہ تمام امور مسلمانوں کو معلوم ہیں

مزید لکھتے ہیں

وہ امور جو اصولی ہیں جن کا تعلق اصول عقیدہ ،ارکان اسلام اورمحرمات ظاہرہ سے ہے ،ان میں جہالت کا عذر قابل قبول نہ ہوگا۔اگرکوئی شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ زنا حرام ہے تو اس کا یہ عذر قبول نہ ہوگا ،بلکہ اس پر حد زنا جاری کی جائے گی یا مسلمانوں میں رہتے ہوئے اگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ شراب حرام ہے تو اس کا بھی یہ عذر قبول نہ ہوگابلکہ اس پر شراب کی حد جاری کی جائے گی یااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ والدین کی نافرمانی حرام ہے تواس کی یہ بات درست تسلیم نہ کی جائے گی،بلکہ اسے سزادی جائے گی اورادب سکھایا جائے گایااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ لواطت۔۔۔ (ہم جنس پرستی) ۔۔۔حرام ہے تواس کا یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا اوراس پر حدجاری کی جائے گی کیونکہ یہ ظاہری امور ہیں جو مسلمانوں میں معروف ہیں اوریہ بات بھی معروف ہے کہ ان کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر کیا ہے۔
ہاں!اگر کوئی شخص کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں دوردورتک اسلام نہ ہو یاوہ افریقہ کے کسی ایسے گمنام علاقے میں ہو جہاں مسلمان نہ ہوں تو اس کا دعوی جہا لت قبول کیا جائے گااورجب وہ اس حالت میں فوت ہوجائے تواس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہوگا اوراس کا حکم اہل فترت جیسا ہوگا اورصحیح بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا روز قیامت امتحان ہوگا اگریہ امتحان میں کامیاب ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ،توجنت میں داخل ہوں گےاوراگرنافرمانی کی توجہنم رسید ہوں گا


۲۔دوسرے وہ خفی امور ہوتے ہیں جن میں دلیل کے بلاغ کے ساتھ ساتھ اسکی وضاحت کا پہنچانا بھی لازم ہوتا ہے مثلا اللہ تعالی کا ہر جگہ حاضر ناظر نہ ہونا بلکہ عرش پہ ہونا
پس اگر کسی کو خالی دلیل تو پہنچ گئی کہ اللہ ہر جگہ نہیں ہے بلکہ صرف عش پہ ہے اور سنے نہیں مانا تو اس پہ حجت قائم نہیں ہو گی کیونکہ یہ خفی امور سے ہے جن میں ایک سے زیادہ دلائل ہوتے ہیں پس ایسے شخص کو کافر یا گمراہ نہیں کہا جائے گا جو اللہ کو ہر جگہ حاضر ناظر مانتا ہے جب تک کہ اسکو اسکے دلائل بھی نہ سمجھا دیئے جائیں کیونکہ اس میں علماء میں ہی اختلاف رہا ہے واللہ اعلم
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جزاک اللہ خیرا...بارک اللہ فی علمک وعملک... میں کلمہ گو مشرک کتاب پڑهوں گا پهر ان شاء اللہ اگر سوال ہوے تو کروں گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کیا ہم قرآن اور حدیث کو دیکهیں گے کہ جن معاملات کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے یا مثلا کفر کی وہ اقسام جس پر اجماع ہے اس میں جهالت عذر نہی ہوگا یا معاشرہ کی حالت کو دیکها جائے گا
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
جی اوپر ابن باز رحمہ اللہ کے فتوی میں تو یہی بتایا گیا ہے کہ کوئی عمل اصل میں بے شک کفر ہو مگر کسی پہ کفر کا فتوی لگانے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا معاشرے میں اسکا کفر ہونا واضح ہے یا نہیں
ابن باز لکھتے ہیں کہ

لہذا اگر کچھ لوگ ان امورکے بارے میں جہالت کا دعوی کریں جو بالضروردین سے معلوم ہیں اورمسلمانوں میں وہ پھیل چکے ہیں مثلا کوئی شرک اورغیراللہ کی عبادت کے بارے میں جہالت کا دعوی کرے یا یہ دعوی کرے کہ نماز واجب نہیں ہے یا رمضان کے روزے واجب نہیں ہیں یا زکوۃ واجب نہیں ہے یا استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی حج واجب نہیں ہے تو اس طرح کا کوئی دعوی بھی قابل قبول نہ ہوگاکیونکہ یہ تمام امور مسلمانوں کو معلوم ہیں اوردین اسلا م سے یہ ضروری طورپر معلوم ہیں اورمسلمانوں میں یہ امور عام ہوچکے ہیں لہذا ان میں سے کسی کے بارے میں جہالت کا دعوی قابل قبول نہ ہوگا

یہاں وہ کسی حکم کے کفر ہونے کا معاشرے میں پھیلنے کا ہی اعتبار کر رہے ہیں البتہ اس پھیلنے میں عددی قلت یا کثرت کو نہیں دیکھا جائے گا یعنی کچھ لوگوں کو ہی معلوم ہو جائے کہ فلاں چیز کفر ہے اور باقی معاشرہ کے لوگ کوشش کر کے اسکو معلوم کر سکتے ہوں تو پھر حجت قائم ہو جائے گی چاہے وہ دین سے اعراض کرتے ہوئے ان جاننے والے لوگوں سے اسکا نہ پوچھیں
پورا فتوی یہاں موجود ہے جس میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ

وہ جو اس ملک میں دیکھتا جس میں اسلام پھیلا ہوا ہے اس کا رہنے والا ہائے گا دو فرقوں کو جو اپنی طرف کھنچ رہے ہیں ایک فرقہ شرک آمیز اور غیر شرکی بدعتوں کی طرف بلا رہا ہے، جھوٹی باتوں اور عجیب وغریب قصوں جو جاذبیت کے اسلوب کو لئے ہوئے ہیں سے جوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور اپنی طاقت بھر کوشش سے بدعتوں کو ان کے لئے خوبصورت بنا بنا رہا ہے، اور دوسرا فرقہ حق اور ہدایت کی طرف بلا رہا ہے، اور كتاب وسنت سے دلیلیں دے رہا ہے اور پہنے فرقہ کی جھوٹی باتوں کو باطل ثابت کر رہا ہے، تو اس فرقہ کی تبلیغ وبیان حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہو، لائق تسلیم بات حق کو لیل سے بیان کرنا ہے نہ کہ تعداد کی کثرت تو عقلمند وہ ہے جو ایسے ملک میں رہتا ہے تو وہ طاقت بھر حق کو اس کے اہل سے جانے گا جب کہ وہ اس کی طلب میں کوشش کرے اور فرقہ بازی ونفس پرستی سے دور رہے، اور مالداروں کی دولت سے اور لیڈروں کی لیڈری سے دھوکہ نہ کھائے اور نہ ہی بڑے لوگوں کے بڑکپن سے اور اپنی فکر کو کمزور، اور اپنی عقل بیکار نہ کرے

البتہ یہاں یہ بھی یاد کھنا چاہئے کہ آج کل بہت سے مسائل میں لوگوں کے درمیان بات مختلط ہو چکی ہے چناچہ وہاں موانع تکفیر کا پایا جانا بڑھ گیا ہے اور ان میں خالی بلاغ کی بجائے اسکی تفصیل دلائل کے ساتھ سمجھایا جانا بھی ضروری ہو گیا ہے پس ان معاملات میں تکفیر سے باز رہنا بہتر ہوتا ہے
اور یہ بھی یاد رہے کہ کچھ لوگ اوپر کی باتوں میں بھی یعنی ظاہری باتوں میں بھی جہالت کو عذر دیتے ہیں پس اسکو بھی اسکا حق ہے اور انکو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ تم لازمی جہالت کا عذر نہ دو ورنہ تم بھی کافر ہو جاو گے اس بارے میں اسی فتوی میں شیخ ابن باز کہتے ہیں کہ

اور اسی سے یہ جان لیا جائے گا کہ وہ موحدین قبر پرستوں کے کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ان موحد بھائیوں کی تکفیر کریں جو ان کے کفر پر خاموش ہیں یہاں تک کہ ان پر حجت قائم کی جائے؛ اس لئے کہ ان کا تکفیر کرنے سے خاموش ہونے میں شبہ ہے اور وہ یہ کہ ان کا اعتقاد کہ ان قبوریوں پر حجت قائم کی جائے ان کی تکفیر سے پہلے بر خلاف اس کے جس کے کفر میں شبہ نہ ہو جیسا کہ یہودی عيسائي اور کمیونسٹ اور ان ہم نوا تو ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں اور نہ اس کے جو ان کی تکفیر نہ کرے،

یعنی انکی تکفیر ہندوں و عسیائیوں جیسی نہیں جو خود کو کافر کہتے ہیں واللہ اعلم
 
Top