سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
پهر اتمام حجت سے کیا مراد ہوتا ہے.
معذرت خلل ڈالنے پر ... میں ضمنا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کر رہا ہوں جو کہ "الجواب الصحیح" میں ہے...پهر اتمام حجت سے کیا مراد ہوتا ہے.
ابن باز حمہ اللہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا انہوں نے اسکا جواب دیا تھا کہ جہالت کب عذر بن سکتی ہے شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ سے بھی جب اسی جہالت کے بارے پوچھا گیا کہ وہ کب عذر بن سکتی ہے تو انہوں نے اپنی کتاب کلمہ گو مشرک میں اس سوال کے جواب میں شیخ ابن باز حمہ اللہ کا یہی فتوی نقل کیا ہے وہ فتوی محدث فورم پہ بھی اردو میں موجود ہے میں اسی کا لنک یہاں دیتا ہوں اوراگلی پوسٹ میں اسکو کاپی کر دیتا ہوںموانع تکفیر میں جهالت اور تاویل کا جو ذکر ہے اس کی تفصیل بیان کرلیں.
جہالت کی طرح تاویل کا معاملہ بھی اسی طرح ہی ہے کہ تاویل درست ہونی چاہئے غلط تاویل قابل قبول نہیں ہوتیکیونکہ اس طرح تو قادیانی بهی تاویل کرتے ہیں گو کہ وہ تاویل باطل ہوتی لیکن تمام گمراہ فرقوں کی تاویل باطل ہی ہوا کرتی ہے...اور اس طرح ان کی عوام میں بہت سے جهالت کے عذر کا سہارا لے سکتے ہیں...بہتر یہ ہوگا کہ کسی کتاب کا حوالہ دے دیں جس میں مفصل بیان ہو..عربی کتب بهی صحیح رہیں گی...
پهر اتمام حجت سے کیا مراد ہوتا ہے.
جی واقعی ایسے ہی بات ہے کہ قرآن کا جو حصہ اسکو پہنچ چکا تو اسکی حجت پہنچ چکی اور جو حصہ نہیں پہنچا تو سمجھو کہ اسکی حجت نہیں پہنچی اور جہاں معنی متشابہ ہو جائے اور لوگ اس میں اختلاف کھتے ہوں تو اسکو قرآن و حدیث کے مطابق ہی حل کیا جائے گامعذرت خلل ڈالنے پر ... میں ضمنا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کر رہا ہوں جو کہ "الجواب الصحیح" میں ہے...
قال شيخ الإسلام رحمه الله:
....وَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ : فَمَعْلُومٌ أَنَّ الْحُجَّةَ إِنَّمَا تَقُومُ بِالْقُرْآنِ عَلَى مَنْ بَلَغَهُ ، كَقَوْلِهِ: ( لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ) [الأنعام: 19] .
فَمَنْ بَلَغَهُ بَعْضُ الْقُرْآنِ دُونَ بَعْضٍ : قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِمَا بَلَغَهُ ، دُونَ مَا لَمْ يَبْلُغْهُ .
فَإِذَا اشْتَبَهَ مَعْنَى بَعْضِ الْآيَاتِ ، وَتَنَازَعَ النَّاسُ فِي تَأْوِيلِ الْآيَةِ : وَجَبَ رَدُّ مَا تَنَازَعُوا فِيهِ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ .
جی اوپر ابن باز رحمہ اللہ کے فتوی میں تو یہی بتایا گیا ہے کہ کوئی عمل اصل میں بے شک کفر ہو مگر کسی پہ کفر کا فتوی لگانے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا معاشرے میں اسکا کفر ہونا واضح ہے یا نہیںکیا ہم قرآن اور حدیث کو دیکهیں گے کہ جن معاملات کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے یا مثلا کفر کی وہ اقسام جس پر اجماع ہے اس میں جهالت عذر نہی ہوگا یا معاشرہ کی حالت کو دیکها جائے گا
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk