اس فورم کے علمی نگران محترم شیخ @خضر حیات صاحب حفظہ اللہ ، خوش قسمتی وہ مدینۃ الرسول ﷺ میں ہی قیام رکھتے ہیں ، اسلئے انہی سے صورتحال واضح کرنے کی درخواست ہے،بھائی میرے ایک دوست ہیں ۔ وہ دو تین دفعہ عمرے پر جاچکے ہیں ۔ ان کے مطابق مدینہ منورہ میں روزانہ تہجد کے وقت اذان بھی ہوتی ہے اور اس کے بعد دو رکعت جماعت بھی ہوتی ہے ۔ اب اس کی تصدیق کوئی سعودی عرب میں موجود شخصیت ہی کر سکتی ہے ۔
محترماذان پر تو آپ کو معلومات مل گئیں ۔
خضر بهائی سے پوچهنا چاہیئے!
مذکورہ دونوں احادیث سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل رمضان میں ہوتا تھا۔ اگر کسی دوسری حدیث سے غیر رمضان میں بھی اس آذان کا ذکر تو وہ لکھ دی جائے۔پہلی حدیث ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : «لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَوْ اَحَدًا مِّنْکُمْ۔ اَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُوْرِہٖ فَإِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَائِمَکُمْ ، وَلِیُنَبِّہَ نَائِمکُمْ… الخ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بلال رضی الله عنہ کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان کہہ دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا(آرام کے لیے ) لوٹ جائے اورجو ابھی سویا ہوا ہے اسے بیدار کر دے۔
اور دوسری حدیث ہے:
عَنْ عَائِشَة وَابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم (روزہ کے لیے ) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہوعلیکم السلام
بھائی میرے ایک دوست ہیں ۔ وہ دو تین دفعہ عمرے پر جاچکے ہیں ۔ ان کے مطابق مدینہ منورہ میں روزانہ تہجد کے وقت اذان بھی ہوتی ہے اور اس کے بعد دو رکعت جماعت بھی ہوتی ہے ۔ اب اس کی تصدیق کوئی سعودی عرب میں موجود شخصیت ہی کر سکتی ہے ۔
آپ کی یہ سوچ اس بات پر مبنی ہے کہ روزے رکھنا ، اور اس کے لیے سحری کے وقت کھانا پینا بھی رمضان کے ساتھ ہی خاص ہے ، دونوں ہی باتیں درست نہیں ۔مذکورہ دونوں احادیث سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل رمضان میں ہوتا تھا۔ اگر کسی دوسری حدیث سے غیر رمضان میں بھی اس آذان کا ذکر تو وہ لکھ دی جائے۔
ابتدا میں نماز کی اطلاع کے لئے مختلف مشورے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آذان والے مشورہ کو پسند کیا اور اسے جاری فرمادیا۔
اسی طرح ان احادیث سے ایسے لگ رہا ہے کہ سحری کی اطلاع کے لئے بھی آذان ہی کو ذریعہ بنایا گیا لہٰذا اس کو رمضان کے ساتھ ہی خاص رہنا چاہیئے۔ واللہ اعلم بالصواب