اشماریہ صاحب نے جو موضوع چھیڑا ہے ،وہ نہایت اہم ہے،لیکن اس کا جواب تبھی ممکن ہے جب اس کا گہرائی سے جائزہ لیاجائے اورگہراجائزہ ایک طویل وقت کا متقاضی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دیکھناچاہئے کہ ائمہ جرح وتعدیل بالخصوص متاخرین نے اس سلسلے میں کیااصول اپنایاہے،میں محض ایک مثال پیش کرتاہوں، ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہےلیکن ابن معین سے جرح وتعدیل کے جواقوال اس کے واسطہ سے منقول ہیں، انہیں تقریباسبھی ائمہ جرح وتعدیل نے بلااختلاف نقل کیاہے،اب دورحاضر میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ابن محرز کی توثیق منقول نہیں لہذا ان کے واسطہ سے ابن معین کے جرح وتعدیل کےا قوال غیرمعتبر ہیں،جب کہ آپ کتب جرح وتعدیل کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گاکہ کسی بھی امام جرح وتعدیل نے محض اس بنیاد پر ابن محرز کی واسطہ سے نقل اقوال کو مسترد نہیں کیاکہ اس کی توثیق منقول نہیں ہے، ایسے میں ہمیں رک کر سوچنااورغورکرناچاہئے کہ جولوگ آج اب محرز پرتوثیق نہ ہونے کی وجہ سے اسے غیرمعتبر قراردے رہے ہیں، کیا ان کا یہ طرزعمل ائمہ جرح وتعدیل کے طرز عمل سے مطابقت رکھتاہے، کیاائمہ جرح وتعدیل کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہے؟
دوسری طرف آجائیں، آجر ی ہیں، جن کے واسطہ سے امام ابوداؤد صاحب سنن کے جرح وتعدیل کے بھی اقوال منقول ہیں، ان کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے کہ ان کی توثیق منقول نہیں توکیاہمیں ان کے واسطہ سے منقول تمام جرح وتعدیل کے اقوال مسترد کردیناچاہئے، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں رک کر ،غورکرکے ائمہ جرح وتعدیل جیسے مزی،ذہبی ،ابن حجر وغیرہ کی کتابوں کا جائزہ لیناچاہئے کہ اگرانہوں نے اس بنیاد پر ان کو اوران کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو مسترد نہیں کیا ہے تواس کی کیاوجہ رہی ہوگی،محض اصول پرستی کا نعرہ لگانااور ائمہ جرح وتعدیل کے طرزعمل سے آنکھیں چرالینامناسب نہیں ہے۔
ایک بات میں اکثر سوچتاہوں کہ کیا کسی امام جرح وتعدیل کا کسی کا ثقہ یاصدوق کہنا ہی سب سے بڑی اتھارٹی ہے؟اگر ابن محرز کی کسی سے توثیق منقول نہیں تو وہ مکمل غیرمعتبر ہوجائیں گے اور اگرکسی نے صدوق کہہ دیاہوتا تو وہ مکمل معتبر ہوجاتے،ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال بیشک اہمیت کے حامل ہیں لیکن کسی صاحب علم کے فضل وکمال کا مکمل طورپر اسی سے منسلک کردینامناسب نہیں ہے، بہت سے صاحبان علم ایسے گزرے ہیں جن کی توثیق منقول نہیں لیکن ان کے علم وفضل کا ہرایک نے اعتراف کیاہے،ہمیں اس معاملے میں ذرا کھلے دل سے سوچناچاہئے اورجس تقلیدی جمود سے ہمارے احباب برگشتہ ہیں،اس برگشتگی کا ثبوت کچھ یہاں بھی دیناچاہئے، اصول جرح وتعدیل بھی انسانی کاوش وکوشش کا ثمرہ ہے، وحی اور منزل من اللہ نہیں ہے۔
آپ حافظ ذہبی کے کلام کی جانب غورکریں توپائیں گے کہ انہوں نے متعدد مرتبہ یہ بات کہی ہے کہ بہت سارے راوی خود صحیح بخاری میں ایسے ہیں جن کی توثیق منقول نہیں حقیقت اتنی ہے کہ جن کا شمار مشائخ میں ہو اور محدثین نے ان کی روایات کوقبول کیاہو توان کی روایتیں قبول ہوں گی۔
اسی اصول کا اطلاق جرح وتعدیل کے باب میں بھی ہوناچاہئے کہ جس کی روایت اورجس کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو ائمہ نے نقل کیاہو اس کومعتبر ماناجائے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مزی ،ذہبی اور دیگرحضرات متاخرین محض ناقل ہیں،انہیں جرح وتعدیل کا مطالعہ ذرا وسیع کرناچاہئے ،یہ حضرات محض ناقل نہیں ہیں، انہوں نے اس فن کو مہذب کیاہے، ہرفن میں تین دور ہوتے ہیں، ابتدا،توسیع اور تہذیب ،اسی طرح جرح وتعدیل کا بھی فن ہے، اس کی ابتداہوئی، پھر اس کی توسیع ہوئی اوراس تہذیب مزی وذہبی کے دور میں ہوئی، ان کی کاوشوں کو محض نقل کہناان کے ساتھ زیادتی ہے۔
دوسری طرف آجائیں، آجر ی ہیں، جن کے واسطہ سے امام ابوداؤد صاحب سنن کے جرح وتعدیل کے بھی اقوال منقول ہیں، ان کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے کہ ان کی توثیق منقول نہیں توکیاہمیں ان کے واسطہ سے منقول تمام جرح وتعدیل کے اقوال مسترد کردیناچاہئے، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں رک کر ،غورکرکے ائمہ جرح وتعدیل جیسے مزی،ذہبی ،ابن حجر وغیرہ کی کتابوں کا جائزہ لیناچاہئے کہ اگرانہوں نے اس بنیاد پر ان کو اوران کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو مسترد نہیں کیا ہے تواس کی کیاوجہ رہی ہوگی،محض اصول پرستی کا نعرہ لگانااور ائمہ جرح وتعدیل کے طرزعمل سے آنکھیں چرالینامناسب نہیں ہے۔
ایک بات میں اکثر سوچتاہوں کہ کیا کسی امام جرح وتعدیل کا کسی کا ثقہ یاصدوق کہنا ہی سب سے بڑی اتھارٹی ہے؟اگر ابن محرز کی کسی سے توثیق منقول نہیں تو وہ مکمل غیرمعتبر ہوجائیں گے اور اگرکسی نے صدوق کہہ دیاہوتا تو وہ مکمل معتبر ہوجاتے،ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال بیشک اہمیت کے حامل ہیں لیکن کسی صاحب علم کے فضل وکمال کا مکمل طورپر اسی سے منسلک کردینامناسب نہیں ہے، بہت سے صاحبان علم ایسے گزرے ہیں جن کی توثیق منقول نہیں لیکن ان کے علم وفضل کا ہرایک نے اعتراف کیاہے،ہمیں اس معاملے میں ذرا کھلے دل سے سوچناچاہئے اورجس تقلیدی جمود سے ہمارے احباب برگشتہ ہیں،اس برگشتگی کا ثبوت کچھ یہاں بھی دیناچاہئے، اصول جرح وتعدیل بھی انسانی کاوش وکوشش کا ثمرہ ہے، وحی اور منزل من اللہ نہیں ہے۔
آپ حافظ ذہبی کے کلام کی جانب غورکریں توپائیں گے کہ انہوں نے متعدد مرتبہ یہ بات کہی ہے کہ بہت سارے راوی خود صحیح بخاری میں ایسے ہیں جن کی توثیق منقول نہیں حقیقت اتنی ہے کہ جن کا شمار مشائخ میں ہو اور محدثین نے ان کی روایات کوقبول کیاہو توان کی روایتیں قبول ہوں گی۔
اسی اصول کا اطلاق جرح وتعدیل کے باب میں بھی ہوناچاہئے کہ جس کی روایت اورجس کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو ائمہ نے نقل کیاہو اس کومعتبر ماناجائے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مزی ،ذہبی اور دیگرحضرات متاخرین محض ناقل ہیں،انہیں جرح وتعدیل کا مطالعہ ذرا وسیع کرناچاہئے ،یہ حضرات محض ناقل نہیں ہیں، انہوں نے اس فن کو مہذب کیاہے، ہرفن میں تین دور ہوتے ہیں، ابتدا،توسیع اور تہذیب ،اسی طرح جرح وتعدیل کا بھی فن ہے، اس کی ابتداہوئی، پھر اس کی توسیع ہوئی اوراس تہذیب مزی وذہبی کے دور میں ہوئی، ان کی کاوشوں کو محض نقل کہناان کے ساتھ زیادتی ہے۔