• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تہذیب الکمال، سیر الاعلام، تہذیب التہذیب وغیرہ میں بے سند جرح و تعدیل

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اشماریہ صاحب نے جو موضوع چھیڑا ہے ،وہ نہایت اہم ہے،لیکن اس کا جواب تبھی ممکن ہے جب اس کا گہرائی سے جائزہ لیاجائے اورگہراجائزہ ایک طویل وقت کا متقاضی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دیکھناچاہئے کہ ائمہ جرح وتعدیل بالخصوص متاخرین نے اس سلسلے میں کیااصول اپنایاہے،میں محض ایک مثال پیش کرتاہوں، ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہےلیکن ابن معین سے جرح وتعدیل کے جواقوال اس کے واسطہ سے منقول ہیں، انہیں تقریباسبھی ائمہ جرح وتعدیل نے بلااختلاف نقل کیاہے،اب دورحاضر میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ابن محرز کی توثیق منقول نہیں لہذا ان کے واسطہ سے ابن معین کے جرح وتعدیل کےا قوال غیرمعتبر ہیں،جب کہ آپ کتب جرح وتعدیل کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گاکہ کسی بھی امام جرح وتعدیل نے محض اس بنیاد پر ابن محرز کی واسطہ سے نقل اقوال کو مسترد نہیں کیاکہ اس کی توثیق منقول نہیں ہے، ایسے میں ہمیں رک کر سوچنااورغورکرناچاہئے کہ جولوگ آج اب محرز پرتوثیق نہ ہونے کی وجہ سے اسے غیرمعتبر قراردے رہے ہیں، کیا ان کا یہ طرزعمل ائمہ جرح وتعدیل کے طرز عمل سے مطابقت رکھتاہے، کیاائمہ جرح وتعدیل کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہے؟
دوسری طرف آجائیں، آجر ی ہیں، جن کے واسطہ سے امام ابوداؤد صاحب سنن کے جرح وتعدیل کے بھی اقوال منقول ہیں، ان کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے کہ ان کی توثیق منقول نہیں توکیاہمیں ان کے واسطہ سے منقول تمام جرح وتعدیل کے اقوال مسترد کردیناچاہئے، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں رک کر ،غورکرکے ائمہ جرح وتعدیل جیسے مزی،ذہبی ،ابن حجر وغیرہ کی کتابوں کا جائزہ لیناچاہئے کہ اگرانہوں نے اس بنیاد پر ان کو اوران کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو مسترد نہیں کیا ہے تواس کی کیاوجہ رہی ہوگی،محض اصول پرستی کا نعرہ لگانااور ائمہ جرح وتعدیل کے طرزعمل سے آنکھیں چرالینامناسب نہیں ہے۔
ایک بات میں اکثر سوچتاہوں کہ کیا کسی امام جرح وتعدیل کا کسی کا ثقہ یاصدوق کہنا ہی سب سے بڑی اتھارٹی ہے؟اگر ابن محرز کی کسی سے توثیق منقول نہیں تو وہ مکمل غیرمعتبر ہوجائیں گے اور اگرکسی نے صدوق کہہ دیاہوتا تو وہ مکمل معتبر ہوجاتے،ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال بیشک اہمیت کے حامل ہیں لیکن کسی صاحب علم کے فضل وکمال کا مکمل طورپر اسی سے منسلک کردینامناسب نہیں ہے، بہت سے صاحبان علم ایسے گزرے ہیں جن کی توثیق منقول نہیں لیکن ان کے علم وفضل کا ہرایک نے اعتراف کیاہے،ہمیں اس معاملے میں ذرا کھلے دل سے سوچناچاہئے اورجس تقلیدی جمود سے ہمارے احباب برگشتہ ہیں،اس برگشتگی کا ثبوت کچھ یہاں بھی دیناچاہئے، اصول جرح وتعدیل بھی انسانی کاوش وکوشش کا ثمرہ ہے، وحی اور منزل من اللہ نہیں ہے۔
آپ حافظ ذہبی کے کلام کی جانب غورکریں توپائیں گے کہ انہوں نے متعدد مرتبہ یہ بات کہی ہے کہ بہت سارے راوی خود صحیح بخاری میں ایسے ہیں جن کی توثیق منقول نہیں حقیقت اتنی ہے کہ جن کا شمار مشائخ میں ہو اور محدثین نے ان کی روایات کوقبول کیاہو توان کی روایتیں قبول ہوں گی۔
اسی اصول کا اطلاق جرح وتعدیل کے باب میں بھی ہوناچاہئے کہ جس کی روایت اورجس کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو ائمہ نے نقل کیاہو اس کومعتبر ماناجائے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مزی ،ذہبی اور دیگرحضرات متاخرین محض ناقل ہیں،انہیں جرح وتعدیل کا مطالعہ ذرا وسیع کرناچاہئے ،یہ حضرات محض ناقل نہیں ہیں، انہوں نے اس فن کو مہذب کیاہے، ہرفن میں تین دور ہوتے ہیں، ابتدا،توسیع اور تہذیب ،اسی طرح جرح وتعدیل کا بھی فن ہے، اس کی ابتداہوئی، پھر اس کی توسیع ہوئی اوراس تہذیب مزی وذہبی کے دور میں ہوئی، ان کی کاوشوں کو محض نقل کہناان کے ساتھ زیادتی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ صاحب نے جو موضوع چھیڑا ہے ،وہ نہایت اہم ہے،لیکن اس کا جواب تبھی ممکن ہے جب اس کا گہرائی سے جائزہ لیاجائے اورگہراجائزہ ایک طویل وقت کا متقاضی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دیکھناچاہئے کہ ائمہ جرح وتعدیل بالخصوص متاخرین نے اس سلسلے میں کیااصول اپنایاہے،میں محض ایک مثال پیش کرتاہوں، ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہےلیکن ابن معین سے جرح وتعدیل کے جواقوال اس کے واسطہ سے منقول ہیں، انہیں تقریباسبھی ائمہ جرح وتعدیل نے بلااختلاف نقل کیاہے،اب دورحاضر میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ ابن محرز کی توثیق منقول نہیں لہذا ان کے واسطہ سے ابن معین کے جرح وتعدیل کےا قوال غیرمعتبر ہیں،جب کہ آپ کتب جرح وتعدیل کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گاکہ کسی بھی امام جرح وتعدیل نے محض اس بنیاد پر ابن محرز کی واسطہ سے نقل اقوال کو مسترد نہیں کیاکہ اس کی توثیق منقول نہیں ہے، ایسے میں ہمیں رک کر سوچنااورغورکرناچاہئے کہ جولوگ آج اب محرز پرتوثیق نہ ہونے کی وجہ سے اسے غیرمعتبر قراردے رہے ہیں، کیا ان کا یہ طرزعمل ائمہ جرح وتعدیل کے طرز عمل سے مطابقت رکھتاہے، کیاائمہ جرح وتعدیل کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ابن محرز کی توثیق کسی سے منقول نہیں ہے؟
دوسری طرف آجائیں، آجر ی ہیں، جن کے واسطہ سے امام ابوداؤد صاحب سنن کے جرح وتعدیل کے بھی اقوال منقول ہیں، ان کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے کہ ان کی توثیق منقول نہیں توکیاہمیں ان کے واسطہ سے منقول تمام جرح وتعدیل کے اقوال مسترد کردیناچاہئے، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں رک کر ،غورکرکے ائمہ جرح وتعدیل جیسے مزی،ذہبی ،ابن حجر وغیرہ کی کتابوں کا جائزہ لیناچاہئے کہ اگرانہوں نے اس بنیاد پر ان کو اوران کے واسطہ سے منقول جرح وتعدیل کے اقوال کو مسترد نہیں کیا ہے تواس کی کیاوجہ رہی ہوگی،محض اصول پرستی کا نعرہ لگانااور ائمہ جرح وتعدیل کے طرزعمل سے آنکھیں چرالینامناسب نہیں ہے۔
جزاک اللہ خیرا
بہت عمدہ نکتے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ خضر بھائی نے تساہل کا جو کہا ہے اس کا مطلب بھی غالباً یہی نکلتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سو سال میں کسی نے بھی اس موضوع پر کوئی کام نہیں کیا؟
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مزی ،ذہبی اور دیگرحضرات متاخرین محض ناقل ہیں،انہیں جرح وتعدیل کا مطالعہ ذرا وسیع کرناچاہئے ،یہ حضرات محض ناقل نہیں ہیں، انہوں نے اس فن کو مہذب کیاہے، ہرفن میں تین دور ہوتے ہیں، ابتدا،توسیع اور تہذیب ،اسی طرح جرح وتعدیل کا بھی فن ہے، اس کی ابتداہوئی، پھر اس کی توسیع ہوئی اوراس تہذیب مزی وذہبی کے دور میں ہوئی، ان کی کاوشوں کو محض نقل کہناان کے ساتھ زیادتی ہے۔
خضر بھائی اس پر کچھ کہیں گے؟
یہ متاخر علماء ناقل ہیں ، انہوں نے متقدمین علماء کی کتابوں سے یہ چیزیں نقل کی ہیں ، اور جن کتابوں سے انہوں نے نقل کیا ہے ، انہوں کو اقوال کو بالاسانید ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔
التاریخ الکبیر للبخاری ، الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ، الطبقات لابن سعد ، تاریخ الدمشقی ، تاریخ الفسوی ، تواریخ ابن معین ، الکامل لابن عدی ، ابن حبان ، خطیب بغدادی حتی کہ حافظ ابن عساکر وغیرہ تک جتنی کتب ہیں ،سب کتب مسندہ ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خضر بھائی اس پر کچھ کہیں گے؟
صرف اتنا کہوں گا کہ رحمانی صاحب یہ بات کہتے ہوئے ، سیاق و سیاق کو یا میری بات کو سمجھ نہیں پائے ، میں نےجس معنی میں ناقل کہا تھا وہ یہ تھا کہ ان حضرات نے متقدمین کی کتب سے اقوال کو نقل کیا ہے ، اور متقدمین نے تقریبا سب کچھ بالاسانید نقل کیا ہے ۔ اس میں غلط کیا ہے ؟ اگر انہوں نے اقوال نقل نہیں کیے تو اپنی طرف سے گھڑ لیے ہیں ؟
باقی یہ بات بالکل درست ہے کہ ان علماء کرام نے صرف مکھی پر مکھی نہیں ماری ، بلکہ تتبع و استقراء ، اور تہذیب و ترتیب کے ذریعے بعد والوں کے لیے اس عظیم فن کی تفہیم و تقریب کا کام سر انجام دیا ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
صرف اتنا کہوں گا کہ رحمانی صاحب یہ بات کہتے ہوئے ، سیاق و سیاق کو یا میری بات کو سمجھ نہیں پائے ، میں نےجس معنی میں ناقل کہا تھا وہ یہ تھا کہ ان حضرات نے متقدمین کی کتب سے اقوال کو نقل کیا ہے ، اور متقدمین نے تقریبا سب کچھ بالاسانید نقل کیا ہے ۔ اس میں غلط کیا ہے ؟ اگر انہوں نے اقوال نقل نہیں کیے تو اپنی طرف سے گھڑ لیے ہیں ؟
باقی یہ بات بالکل درست ہے کہ ان علماء کرام نے صرف مکھی پر مکھی نہیں ماری ، بلکہ تتبع و استقراء ، اور تہذیب و ترتیب کے ذریعے بعد والوں کے لیے اس عظیم فن کی تفہیم و تقریب کا کام سر انجام دیا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہم عام حالات میں ان متاخرین علماء کی نقل کردہ جرح و تعدیل پر اعتماد کر کے راوی پر حکم لگا سکتے ہیں کیوں کہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ کہاں کتنی نرمی کرنی ہے اور کہاں اقوال کو قبول کرنا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خلاصہ کلام یہ کہ ہم عام حالات میں ان متاخرین علماء کی نقل کردہ جرح و تعدیل پر اعتماد کر کے راوی پر حکم لگا سکتے ہیں کیوں کہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ کہاں کتنی نرمی کرنی ہے اور کہاں اقوال کو قبول کرنا ہے؟
راوی پر حکم لگانے کا ایک تقلیدی اور آسان انداز ہے ، وہ یہ ہے کہ آب حافظ ابن حجر کی تقریب یا ذہبی کی کاشف یا ان حضرات کی میزان و لسان پکڑ کر حکم لگادیں ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس راوی پر سب سے پہلے جس نے کلام کیا ہے ، اس سے شروع کرکے متقدمین و متاخرین میں سب کے اقوال کا مقارنہ و موازنہ ، توجیہ و تعلیل ، اور ترجیح کے مراحل سے گزر کر اس راوی کے متعلق ’ فائنل حکم ‘ بیان کریں ۔ عام طور پر یہ حکم حافظ ابن حجر یا ذہبی وغیرہ کے خلاصہ کے قریب ہی ہوگا ، بعض دفعہ مختلف بھی ہوگا ، لیکن بہر صورت اس راوی اور اس کی روایات کے متعلق مالہ و ماعلیہ سب آپ کی نظر میں ہوں گے تو آپ اگر حافظ ابن حجر کا حکم صدوق یخطی ، صدوق لہ أوہام بھی نقل کردیں گے ، لیکن راوی کی روایات کی حقیقت کو جاننے اور پہچاننے میں غلطی نہیں کریں گے ۔
میرے جیسے لوگ عام طور پر اگر سہولت کی خاطر پہلا طریقہ اختیار کرتے ہیں ،تو ایک تو انہیں یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ میں نے کس پر اعتماد کیا ہے ، دوسرا اگر کوئی دوسرے اور صحیح طریقے کے مطابق چلتا ہے تو اختلاف کی صورت میں ضد بازی سے گریز کرنا چاہیے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
راوی پر حکم لگانے کا ایک تقلیدی اور آسان انداز ہے ، وہ یہ ہے کہ آب حافظ ابن حجر کی تقریب یا ذہبی کی کاشف یا ان حضرات کی میزان و لسان پکڑ کر حکم لگادیں ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس راوی پر سب سے پہلے جس نے کلام کیا ہے ، اس سے شروع کرکے متقدمین و متاخرین میں سب کے اقوال کا مقارنہ و موازنہ ، توجیہ و تعلیل ، اور ترجیح کے مراحل سے گزر کر اس راوی کے متعلق ’ فائنل حکم ‘ بیان کریں ۔ عام طور پر یہ حکم حافظ ابن حجر یا ذہبی وغیرہ کے خلاصہ کے قریب ہی ہوگا ، بعض دفعہ مختلف بھی ہوگا ، لیکن بہر صورت اس راوی اور اس کی روایات کے متعلق مالہ و ماعلیہ سب آپ کی نظر میں ہوں گے تو آپ اگر حافظ ابن حجر کا حکم صدوق یخطی ، صدوق لہ أوہام بھی نقل کردیں گے ، لیکن راوی کی روایات کی حقیقت کو جاننے اور پہچاننے میں غلطی نہیں کریں گے ۔
میرے جیسے لوگ عام طور پر اگر سہولت کی خاطر پہلا طریقہ اختیار کرتے ہیں ،تو ایک تو انہیں یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ میں نے کس پر اعتماد کیا ہے ، دوسرا اگر کوئی دوسرے اور صحیح طریقے کے مطابق چلتا ہے تو اختلاف کی صورت میں ضد بازی سے گریز کرنا چاہیے ۔
جزاک اللہ احسن الجزاء
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب حدیث حجل پر آپ نے زکریا بن ابی زائدہ اور ابو اسحاق السبیعی سے متعلق بحث پر آپ نے پہلی بار میری رہنمائی فرمائی تھی۔ علم جرح و تعدیل کو میں نے اس رہنمائی کے بعد پڑھنا شروع کیا تھا۔
جزیت خیرا الف الف مرات
(@خضر حیات بھائی)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
ما شاء اللہ!
اللہ آپ لوگوں کو جزاۓ خیر عطا فرمائے. کافی کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے.
بارک اللہ فیکم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب حدیث حجل پر آپ نے زکریا بن ابی زائدہ اور ابو اسحاق السبیعی سے متعلق بحث پر آپ نے پہلی بار میری رہنمائی فرمائی تھی۔ علم جرح و تعدیل کو میں نے اس رہنمائی کے بعد پڑھنا شروع کیا تھا۔
جزیت خیرا الف الف مرات
(@خضر حیات بھائی)
بارک اللہ فیکم و زادکم علما و فضلا
 
Top