• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تیمم کا طریقہ کار

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
تیمم کا طریقہ کا رکیا ہے؟اور یہ کس وقت کیا جاتا ہے مثلاً سردیوں میں بہت ٹھنڈا پانی ہوتا ہے بندہ غسل یا وضو نہیں کر سکتا تو کیا اُسکی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے نیز یہ بھی بتایا جائے تیمم کون کون سی چیز کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟ اگر کسی بھائی کو علم ہو تو ضرور راہنمائی کیجئے گا آپ کا ممنون ہوں گا۔ جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
7
تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دونوں ہاتھ پاک مٹی پر ایک دفعہ مارنے ہیں اُس کے بعد ہاتھوں پر جو مٹی ہے اُس کو پھوک مار کے ہٹا دینا ہے اگر ایک دفہ پھوک مارنے سے بھی مٹی نہیں اُترتی تو دو یا تین بار بھی پھوک مار سکتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے دونوں باتھ منہ پر مارنے ہیں جس طرح وضو کرتے وقت مارتے ہیں اُس کے بعد ہاتھوں کو ملنا ہے۔ ملنا اِس طرح ہے جس طرح ہم ہاتھ دھوتے ہیں۔ اس کو تیمم کہتے ہیں
 
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
7
تیمم اُس وقت کیا جاتا ہے جب پانی نہ ملے یا پانی تو ہو مگر کسی کو کوئی ایسی بیماری ہو گئی ہو جس میں اگر پانی استعمال کیا جائے تو بیماری کے بڑھ جانے یا جان جانے کا خطرہ ہو۔
 

salfi

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2016
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
6
Asalam u aliakum mujhay surah anfal ki ayat number 2 ka tafseer chahiye
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
Asalam u aliakum mujhay surah anfal ki ayat number 2 ka tafseer chahiye
و علیکم السلام
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالٰی کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالٰی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (١)
٢۔١ ان آیات میں اہل ایمان کی ٤ صفات بیان کی گئی ہیں ١، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ ٢۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ٣۔ تلاوت قرآن سے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) ٤۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض و گریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالٰی نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی نہیں سب کچھ ہی نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کار فرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لئے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کر سکیں گے اور اس یقین اعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد و اعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور مغفرت و رحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ(اللہ تعالٰی ہمیں بھی ان میں شمار فرمالے) جنگ بدر کا پس منظر۔ جنگ بدر جو۲ ہجری میں ہوئی کافروں کیساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی نیز بےسروسامانی کیوجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصرا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابو سفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سامال واسباب ہجرت کیوجہ سے مکہ رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابو سفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپناراستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابو جہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کامشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
حوالہ
 
Top