غازی
رکن
- شمولیت
- فروری 24، 2013
- پیغامات
- 117
- ری ایکشن اسکور
- 183
- پوائنٹ
- 90
تین تین ! تین ایک!
شعبان بیدار
طلاق گھریلو معاشرے کی خرابیوں کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا اس طرح طلاق ایک ذریعہ ہے آپسی فساد کو فساد عظیم بننے سے روکنے کا ۔ یعنی طلاق کو توڑ کا ذریعہ سمجھنا اور خالص ایک منفی زاویئے سے دیکھنا اور سمجھنا صحیح طرز فکر نہیں ہے ۔ اتحاد واتفاق کی باقی ماندہ صورتیں بھی متأثر نہ ہوجائیں طلاق اسی اندیشے کورفع کرتا ہے البتہ جوڑ کا یہ سسٹم جو فی الواقع محمود نہیں ہے اس وقت قابل قدر قرار دیا گیا ہے جب استواری کے دیگر ذرائع فیل ہو چکے ہوں ۔
ہر چند کہ طلاق ایک گہرے رشتے کو توڑ دیتا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا خمیازہ کئی کئی نفسوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ایک ایسا تعلق جو الفت ومحبت کی پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہوا تھا طلاق کاچھوٹا سا لفظ اس تعلق کو تارتار کر دیتا ہے اور حضرت شیطان پانی کے عرش پر مارے خوشی کے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے ۔ اس کے باوجود حقیقت سے آنکھ چرانا حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ جب صبح کا سورج روشنی کے بجائے دوزخ کی تپش لے کے نمودار ہونے لگے اور شا م کی سیاہی کاجل کی دل آویزی کے بجائے محض ایک منحوس اور وحشت ناک تاریکی کا اعلامیہ بن جائے ۔ اولاد ماں باپ کے تنازعا ت سے ڈپریشن اور تنہائیوں کا شکار ہونے لگے اور ایک پورا کنبہ دو افرادکی نا ہموار یوں کے کھڈ میں بار بار گر کر ٹیس میں مبتلا ہو۔ اسلام ایسی صورت حال کو قطعی پسند نہیں کرتا اور دو مشکلات میں سے ایک کم تر اور ہلکی مشکل کو قبول کر لینے کی راہ بتاتا ہے یعنی ایسے موقع کے لئے ہی شریعت نے طلاق کی تجویز رکھی ہے تاہم یہ تجویز آناً فاناً ہر گز نہیں ہے ۔ بلکہ اس تجویز کے کچھ قانونی اور ترغیبی پہلو ہیں جن پہ اگر کما حقہ عمل کیا جائے تو طلاق کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
اولاً شادی کے موقع پر ہی اسلام نے شادی کی ترجیحات کے ذریعہ بہت کچھ صاف کردیا ہے اس کے باوجود اگر شادی کے بعد زوجین میں نا اتفاقی کی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ جنم لیتا ہے تو اسلام کے نظام حقوق و فرائض اور عفو و در گذر کی تعلیمات روشنی فراہم کرتی ہیں ان باتو ں کے باوجود نا اتفاقی پیدا ہوجاتی ہے اور بڑھتی جارہی ہے تو اسلام نے اس کے لئے ایک مرتب اور خوبصورت ترغیبی نقشہ تجویز کیا ہے یہ نقشہ اتنا اہم اور معتبر ہے کہ قرآن پاک نے اپنے اجمالی طرزبیان سے الگ اس مسئلے کو قابل لحاظ تفصیلات کے ذریعہ واضح کیا ہے ۔
{ الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وّ بما انفقوا من اموالھم فالصٰلحٰتُ قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ ، والّٰتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً ان اللہ کا علیا کبیرا، وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکما من اھلھا ان یریدا ٓ اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما خبیرا}
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الہٰی نگہداشت رکھنے والیاںہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلند ی اور بڑائی والا ہے ۔اور اگر تم کوان دونوں (شوہر بیوی کے)بیچ اَن بن ہونے کا ڈر ہو تو ایک حَکَم شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے مقرر کرو ، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں تو اللہ ان دونوں کو ملا دے گا ، بے شک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے ‘‘۔( النساء :۳۴۔۳۵)
پہلی آیت میں اول اول مردو ںکو احساس ذمہ داری پر ابھارا گیا ہے وہ یوں کہ بحیثیت ’’قوام‘‘ مرد گھر کا اصل ذمہ دار ہے اس لئے مرد اپنی ذمہ داری کا احساس ہر آن تازہ رکھے اور بحیثیت اصل ذمہ دار انسان کے اندر جو سوجھ بوجھ ہونی چاہئے اور جس انداز کا صبر و ضبط بناہ کرنے کے لئے ازبس ضروری ہے اسے پیش نگاہ رکھنا ہوگا۔
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو طلاق اور طلاق سے پیداشدہ فساد کی اصل ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف ہماری معاشرتی زندگی اور دینی تصورات میں گھریلو فساد کی کل اور اصل ذمہ دارعورت کو قرار دیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ ایک عورت کا گھریلو امن میں اصل اور بنیادی رول ہوتاہے لیکن مرد کو اس ذمہ داری سے یکسر الگ کر دینا قرین انصاف ہر گز نہیں ہے ۔
آیت میں جہاں ’’قوام‘‘ کہہ کر مردوں کو احساس دلایا گیا ہے وہیں یہ بات صاف صاف بتائی گئی ہے کہ مرد نے چونکہ مردانہ صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے اس نے عورت کی حفاظت کا شرعی فریضہ انجام دیا ہے اس کے نان و نفقہ اور حسن معاشرت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اس لئے عورتوں پر مردوں کا حق بنتا ہے کہ شوہروں کی فرمانبرداری کریں۔ شوہروں کی فرمانبرداری کی کیا نوعیت ہے اور یہ فرمانبرداری کس طور پرانجام دینی ہے اس کی تفصیلات جابہ جا حدیثوں میں خوبصورت انداز سے پیش کردی گئی ہیں۔
چونکہ طبیعتیں یکساں نہیں ہوتیں اور بعض عورتیں اپنے مزاج اور عادات و اطوار میں نامناسب رجحانات کی حامل ہوتی ہیں بلکہ ایک معیاری خاتون سے بھی نافرمانی اور گھریلو استحکام کو منتشر کردینے والی چیزیں دانستہ ونادانستہ سرزد ہوسکتی ہیں اس لئے ایسے مخدوش مواقع کے لئے نصیحت کی ہدایت کی گئی ہے ۔
نصیحت کا یہاں وہ مفہوم قطعاً نہیں ہے جو بد قسمتی سے ہماری گھریلو تہذیب کا اٹوٹ انگ بن چکا ہے ۔ناجائز ڈانٹ ڈپٹ ، طعنہ زنی ، طلاق کی دھمکی ، خوفناک وارننگ ،گالی گلوچ جیسی چیزیں آخر نصیحت کیونکر ہوسکتی ہیں یہ تو سراپا فضیحت ہیں جو عموماً گھر کے افراد ماں، بیٹے، نندیں وغیرہ فریضہ کے طور پر انجام دیتی رہتی ہیں نصیحت فی الاصل ایک صحت مند عمل اور تندرست رویہ ہے جس میں انتہا درجے کی دردمندی اور اعلیٰ درجے کی ہوش مندی اور کمال کی حکمت موجود ہوتی ہے ۔
اس لئے کسی بگڑی عورت کو راہِ راست پر لانے کے لئے حد درجہ مخلصانہ طور طریق اپنائے جانے کی حاجت ہے اور تادیر ہر ممکن گوشے کو اچھی طرح آزمائے بغیر قرآنی نصیحت کا نسخہ بہر صورت مفید نہیں ہوسکتا ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی جاننے کی ہے گھر کے اندر شوہر کی بہنوں اور دیگر عورتوں کو بھی خود اپنے اخلاق و عادات پر ناقدانہ نگاہ ڈالنی ہوگی اور محاسبہ کرنا ہوگا بلکہ شوہر کو اپنی ذات کا احتساب بڑا ہی ضروری امر ہوگا ۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے کہ گھر کا دینی اور اخلاقی معیار انتہائی پست اور عفونت زدہ ہو لیکن دینداری کا چرچا کرنے اور تہذیب کی شہرت جمانے کے لئے بیوی اور بہو سے کسی سنجوئے سجائے اور خوابوں میں پالے ہوئے معیار کا مطالبہ کرلیا جائے۔
اگر کوئی عورت تا دیر سچی نصیحت اور زجرو توبیخ کے باوجود اپنی راہ صحیح نہیں کرتی تو ایک آخری چارۂ کا ر کے طور پراس کے بستر سے الگ ہوجائے اس مرحلے میں ایک بگڑی ہوئی مگر شوہر سے محبت کرنے والی عورت بہر حال چونکے گی ۔ شوہر کا اس سے مسلسل بے تکلفانہ روابط کا بند کردینا اور حد یہ کہ بستر بھی الگ کردینا سوچنے کی چیزیں بن جائیں گی۔ اس کے باوجود اگر عورت کے اندر سدھار پیدا نہ ہوسکے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسی عورت جاہل ، غیر تربیت یافتہ اور موٹے دماغ کی ہو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جس گھرانے اور جس معاشرے سے نکل کرآئی ہے وہ اکھڑ اور بَدْ وِی قسم کا ہو اس لئے مرد کو یہاں یہ اختیار دیا گیا کہ اسے تادیب کے لئے سزا بھی دے سکتا ہے یاد رہے مرد کی جانب سے یہ تادیب آخری تادیب ہوگی اور یہیں سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ مرد کو اس موقع کے علاوہ شریعت نے مارنے کا کوئی اور موقع ہر گز نہیں دیا ہے اس کے بر عکس اگر عورت مرد کے ہاتھوں آئے دن زدو کوب کا شکار ہو اور ماری پیٹی جائے ۔ ساس کی جھاڑو اور نندوں کی گالیوں سے ہر صبح و شام اس کی تواضع کی جائے تو اس قرآنی تادیب کی فی الواقع کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اس لئے یہ بات یاد رکھی جائے کہ مردانہ غلبے کی ناروا ذہنیت خود مردانگی کے خلاف ہے اور گھریلو امن کو غارت کرنے والی ہے ۔
ایک اور بات خاص طور پر ذہن نشین کرنے کی ہے کہ سزا اور تادیب ایسی نہ ہو کہ کسی قسم کا پائدار اثر چھوڑ جائے کیونکہ سزا کا مقصد سزا نہیں بلکہ دوا اور وفا ہے سزا کا اصل مقصود اصلاح ہے اور اصلاح و تعمیر کا یہ نسخہ موجب تخریب بن جائے تو نہ صرف یہ کہ آخرت کی عدالت میں مرد کو حساب دینا پڑے گا دنیا میں بھی اسلامی عدالت مرد سے محاسبہ کرے گی اور قرار واقعی تادیب کی مجا ز ہوگی۔
مذکورہ بالا کاروائی ایک صبر آزما اور دیر پا عمل ہے ایسا بالکل نہیں ہے کہ ادھر آپ نے نصیحت فرمائی ادھر بیوی نے پلٹ کر جواب دے دیا ، شام ہوئی نہیں کہ بستر الگ! اور صبح دم آپ چمتکار کے منتظر رہے کوئی جادوئی اثر نظر نہ آیا آپ مارنے کو دوڑ پڑے اور خاصابوال اٹھ کھڑا ہوا جیسا کہ ہمارے جلد باز اور ناپختہ سماج کی عادت بھی ہے ۔
بہر کیف اگر عورت ذکر کردہ تفصیلی تادیب کے بعد اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مائل ہوجاتی ہے تو مرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پیچھے کی تمام باتیں بھلا دے اگر ماضی کی یادیں عذاب بن کر اس کے ذہن ودماغ پر مسلط رہیں گی تو مستقبل میں دوبارہ بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔
اللہ کے فرمان {فلا تبغواعلیھن سبیلا} کا یہی کچھ تقاضا ہے ۔ موقع بہ موقع عورت کو پچھلی غلطیاں یاد دلانا، کچوکے لگانا، عار دلانا قطعی غیر صحت مند رویہ ہے ۔اگر عورت کا رویہ کسی طور اصلاح کی طرف مائل نہیں ہے صورت حال جو ں کی توں قائم ہے یا بگڑتی جارہی ہے ۔ اختلاف و انتشار کی آگ دو لوگوں کے بجائے دو خاندانوں کو بھی جلادینا چاہتی ہے تو اس کیفیت کے لئے شریعت نے ایک دوسرا نسخہ تجویز کر رکھا ہے وہ یہ کہ میکہ اور سسرال یعنی مردوزن دونوں کے خاندانوں سے دو سوجھ بوجھ والے انصاف پسند اور نیک طبع افراد کو جمع کیا جائے اور میاں بیوی کے اختلافات کی پوری نوعیت انہیں بتا دی جائے تاکہ وہ لوگ صلح کا کوئی راستہ تلاش کر لیں۔ ظاہر ہے یہ صلح تبھی ممکن ہوگی جب تمام لوگ صلح اور امن و آشتی میں دل چسپی لیں گے ہر کسی کی خواہش یہ ہوگی کہ گھراجڑنے نہ پائے ۔ اگر اللہ نے دو لوگوں کو اپنی مشیت سے اکٹھا کیا ہے تو ہماری ہر حکمت اس امر پر صرف ہو کہ یہ لوگ ہر گز ہر گز جدا نہ ہوں۔
یہیں سے یہ مسئلہ بھی از خود نکلتا ہے کہ فریقین کو غور وخوض کے بعد اگر صلح والی کوئی راہ نظر نہ آئے گی تووہ طلاق اور جدائی کا فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں طلاق کا معاملہ بھی سنجیدگی سے انجام پائے گا یوں ایک بار پھر میاں بیوی کے مابین رفاقت کی صورتیں پیدا ہونے کا امکان تلاشا جانے لگے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعبان بیدار
طلاق گھریلو معاشرے کی خرابیوں کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا اس طرح طلاق ایک ذریعہ ہے آپسی فساد کو فساد عظیم بننے سے روکنے کا ۔ یعنی طلاق کو توڑ کا ذریعہ سمجھنا اور خالص ایک منفی زاویئے سے دیکھنا اور سمجھنا صحیح طرز فکر نہیں ہے ۔ اتحاد واتفاق کی باقی ماندہ صورتیں بھی متأثر نہ ہوجائیں طلاق اسی اندیشے کورفع کرتا ہے البتہ جوڑ کا یہ سسٹم جو فی الواقع محمود نہیں ہے اس وقت قابل قدر قرار دیا گیا ہے جب استواری کے دیگر ذرائع فیل ہو چکے ہوں ۔
ہر چند کہ طلاق ایک گہرے رشتے کو توڑ دیتا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا خمیازہ کئی کئی نفسوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ایک ایسا تعلق جو الفت ومحبت کی پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہوا تھا طلاق کاچھوٹا سا لفظ اس تعلق کو تارتار کر دیتا ہے اور حضرت شیطان پانی کے عرش پر مارے خوشی کے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے ۔ اس کے باوجود حقیقت سے آنکھ چرانا حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ جب صبح کا سورج روشنی کے بجائے دوزخ کی تپش لے کے نمودار ہونے لگے اور شا م کی سیاہی کاجل کی دل آویزی کے بجائے محض ایک منحوس اور وحشت ناک تاریکی کا اعلامیہ بن جائے ۔ اولاد ماں باپ کے تنازعا ت سے ڈپریشن اور تنہائیوں کا شکار ہونے لگے اور ایک پورا کنبہ دو افرادکی نا ہموار یوں کے کھڈ میں بار بار گر کر ٹیس میں مبتلا ہو۔ اسلام ایسی صورت حال کو قطعی پسند نہیں کرتا اور دو مشکلات میں سے ایک کم تر اور ہلکی مشکل کو قبول کر لینے کی راہ بتاتا ہے یعنی ایسے موقع کے لئے ہی شریعت نے طلاق کی تجویز رکھی ہے تاہم یہ تجویز آناً فاناً ہر گز نہیں ہے ۔ بلکہ اس تجویز کے کچھ قانونی اور ترغیبی پہلو ہیں جن پہ اگر کما حقہ عمل کیا جائے تو طلاق کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
اولاً شادی کے موقع پر ہی اسلام نے شادی کی ترجیحات کے ذریعہ بہت کچھ صاف کردیا ہے اس کے باوجود اگر شادی کے بعد زوجین میں نا اتفاقی کی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ جنم لیتا ہے تو اسلام کے نظام حقوق و فرائض اور عفو و در گذر کی تعلیمات روشنی فراہم کرتی ہیں ان باتو ں کے باوجود نا اتفاقی پیدا ہوجاتی ہے اور بڑھتی جارہی ہے تو اسلام نے اس کے لئے ایک مرتب اور خوبصورت ترغیبی نقشہ تجویز کیا ہے یہ نقشہ اتنا اہم اور معتبر ہے کہ قرآن پاک نے اپنے اجمالی طرزبیان سے الگ اس مسئلے کو قابل لحاظ تفصیلات کے ذریعہ واضح کیا ہے ۔
{ الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وّ بما انفقوا من اموالھم فالصٰلحٰتُ قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ ، والّٰتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً ان اللہ کا علیا کبیرا، وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکما من اھلھا ان یریدا ٓ اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیما خبیرا}
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الہٰی نگہداشت رکھنے والیاںہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلند ی اور بڑائی والا ہے ۔اور اگر تم کوان دونوں (شوہر بیوی کے)بیچ اَن بن ہونے کا ڈر ہو تو ایک حَکَم شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے مقرر کرو ، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں تو اللہ ان دونوں کو ملا دے گا ، بے شک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے ‘‘۔( النساء :۳۴۔۳۵)
پہلی آیت میں اول اول مردو ںکو احساس ذمہ داری پر ابھارا گیا ہے وہ یوں کہ بحیثیت ’’قوام‘‘ مرد گھر کا اصل ذمہ دار ہے اس لئے مرد اپنی ذمہ داری کا احساس ہر آن تازہ رکھے اور بحیثیت اصل ذمہ دار انسان کے اندر جو سوجھ بوجھ ہونی چاہئے اور جس انداز کا صبر و ضبط بناہ کرنے کے لئے ازبس ضروری ہے اسے پیش نگاہ رکھنا ہوگا۔
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو طلاق اور طلاق سے پیداشدہ فساد کی اصل ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف ہماری معاشرتی زندگی اور دینی تصورات میں گھریلو فساد کی کل اور اصل ذمہ دارعورت کو قرار دیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ ایک عورت کا گھریلو امن میں اصل اور بنیادی رول ہوتاہے لیکن مرد کو اس ذمہ داری سے یکسر الگ کر دینا قرین انصاف ہر گز نہیں ہے ۔
آیت میں جہاں ’’قوام‘‘ کہہ کر مردوں کو احساس دلایا گیا ہے وہیں یہ بات صاف صاف بتائی گئی ہے کہ مرد نے چونکہ مردانہ صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے اس نے عورت کی حفاظت کا شرعی فریضہ انجام دیا ہے اس کے نان و نفقہ اور حسن معاشرت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اس لئے عورتوں پر مردوں کا حق بنتا ہے کہ شوہروں کی فرمانبرداری کریں۔ شوہروں کی فرمانبرداری کی کیا نوعیت ہے اور یہ فرمانبرداری کس طور پرانجام دینی ہے اس کی تفصیلات جابہ جا حدیثوں میں خوبصورت انداز سے پیش کردی گئی ہیں۔
چونکہ طبیعتیں یکساں نہیں ہوتیں اور بعض عورتیں اپنے مزاج اور عادات و اطوار میں نامناسب رجحانات کی حامل ہوتی ہیں بلکہ ایک معیاری خاتون سے بھی نافرمانی اور گھریلو استحکام کو منتشر کردینے والی چیزیں دانستہ ونادانستہ سرزد ہوسکتی ہیں اس لئے ایسے مخدوش مواقع کے لئے نصیحت کی ہدایت کی گئی ہے ۔
نصیحت کا یہاں وہ مفہوم قطعاً نہیں ہے جو بد قسمتی سے ہماری گھریلو تہذیب کا اٹوٹ انگ بن چکا ہے ۔ناجائز ڈانٹ ڈپٹ ، طعنہ زنی ، طلاق کی دھمکی ، خوفناک وارننگ ،گالی گلوچ جیسی چیزیں آخر نصیحت کیونکر ہوسکتی ہیں یہ تو سراپا فضیحت ہیں جو عموماً گھر کے افراد ماں، بیٹے، نندیں وغیرہ فریضہ کے طور پر انجام دیتی رہتی ہیں نصیحت فی الاصل ایک صحت مند عمل اور تندرست رویہ ہے جس میں انتہا درجے کی دردمندی اور اعلیٰ درجے کی ہوش مندی اور کمال کی حکمت موجود ہوتی ہے ۔
اس لئے کسی بگڑی عورت کو راہِ راست پر لانے کے لئے حد درجہ مخلصانہ طور طریق اپنائے جانے کی حاجت ہے اور تادیر ہر ممکن گوشے کو اچھی طرح آزمائے بغیر قرآنی نصیحت کا نسخہ بہر صورت مفید نہیں ہوسکتا ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی جاننے کی ہے گھر کے اندر شوہر کی بہنوں اور دیگر عورتوں کو بھی خود اپنے اخلاق و عادات پر ناقدانہ نگاہ ڈالنی ہوگی اور محاسبہ کرنا ہوگا بلکہ شوہر کو اپنی ذات کا احتساب بڑا ہی ضروری امر ہوگا ۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے کہ گھر کا دینی اور اخلاقی معیار انتہائی پست اور عفونت زدہ ہو لیکن دینداری کا چرچا کرنے اور تہذیب کی شہرت جمانے کے لئے بیوی اور بہو سے کسی سنجوئے سجائے اور خوابوں میں پالے ہوئے معیار کا مطالبہ کرلیا جائے۔
اگر کوئی عورت تا دیر سچی نصیحت اور زجرو توبیخ کے باوجود اپنی راہ صحیح نہیں کرتی تو ایک آخری چارۂ کا ر کے طور پراس کے بستر سے الگ ہوجائے اس مرحلے میں ایک بگڑی ہوئی مگر شوہر سے محبت کرنے والی عورت بہر حال چونکے گی ۔ شوہر کا اس سے مسلسل بے تکلفانہ روابط کا بند کردینا اور حد یہ کہ بستر بھی الگ کردینا سوچنے کی چیزیں بن جائیں گی۔ اس کے باوجود اگر عورت کے اندر سدھار پیدا نہ ہوسکے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسی عورت جاہل ، غیر تربیت یافتہ اور موٹے دماغ کی ہو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جس گھرانے اور جس معاشرے سے نکل کرآئی ہے وہ اکھڑ اور بَدْ وِی قسم کا ہو اس لئے مرد کو یہاں یہ اختیار دیا گیا کہ اسے تادیب کے لئے سزا بھی دے سکتا ہے یاد رہے مرد کی جانب سے یہ تادیب آخری تادیب ہوگی اور یہیں سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ مرد کو اس موقع کے علاوہ شریعت نے مارنے کا کوئی اور موقع ہر گز نہیں دیا ہے اس کے بر عکس اگر عورت مرد کے ہاتھوں آئے دن زدو کوب کا شکار ہو اور ماری پیٹی جائے ۔ ساس کی جھاڑو اور نندوں کی گالیوں سے ہر صبح و شام اس کی تواضع کی جائے تو اس قرآنی تادیب کی فی الواقع کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اس لئے یہ بات یاد رکھی جائے کہ مردانہ غلبے کی ناروا ذہنیت خود مردانگی کے خلاف ہے اور گھریلو امن کو غارت کرنے والی ہے ۔
ایک اور بات خاص طور پر ذہن نشین کرنے کی ہے کہ سزا اور تادیب ایسی نہ ہو کہ کسی قسم کا پائدار اثر چھوڑ جائے کیونکہ سزا کا مقصد سزا نہیں بلکہ دوا اور وفا ہے سزا کا اصل مقصود اصلاح ہے اور اصلاح و تعمیر کا یہ نسخہ موجب تخریب بن جائے تو نہ صرف یہ کہ آخرت کی عدالت میں مرد کو حساب دینا پڑے گا دنیا میں بھی اسلامی عدالت مرد سے محاسبہ کرے گی اور قرار واقعی تادیب کی مجا ز ہوگی۔
مذکورہ بالا کاروائی ایک صبر آزما اور دیر پا عمل ہے ایسا بالکل نہیں ہے کہ ادھر آپ نے نصیحت فرمائی ادھر بیوی نے پلٹ کر جواب دے دیا ، شام ہوئی نہیں کہ بستر الگ! اور صبح دم آپ چمتکار کے منتظر رہے کوئی جادوئی اثر نظر نہ آیا آپ مارنے کو دوڑ پڑے اور خاصابوال اٹھ کھڑا ہوا جیسا کہ ہمارے جلد باز اور ناپختہ سماج کی عادت بھی ہے ۔
بہر کیف اگر عورت ذکر کردہ تفصیلی تادیب کے بعد اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مائل ہوجاتی ہے تو مرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پیچھے کی تمام باتیں بھلا دے اگر ماضی کی یادیں عذاب بن کر اس کے ذہن ودماغ پر مسلط رہیں گی تو مستقبل میں دوبارہ بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔
اللہ کے فرمان {فلا تبغواعلیھن سبیلا} کا یہی کچھ تقاضا ہے ۔ موقع بہ موقع عورت کو پچھلی غلطیاں یاد دلانا، کچوکے لگانا، عار دلانا قطعی غیر صحت مند رویہ ہے ۔اگر عورت کا رویہ کسی طور اصلاح کی طرف مائل نہیں ہے صورت حال جو ں کی توں قائم ہے یا بگڑتی جارہی ہے ۔ اختلاف و انتشار کی آگ دو لوگوں کے بجائے دو خاندانوں کو بھی جلادینا چاہتی ہے تو اس کیفیت کے لئے شریعت نے ایک دوسرا نسخہ تجویز کر رکھا ہے وہ یہ کہ میکہ اور سسرال یعنی مردوزن دونوں کے خاندانوں سے دو سوجھ بوجھ والے انصاف پسند اور نیک طبع افراد کو جمع کیا جائے اور میاں بیوی کے اختلافات کی پوری نوعیت انہیں بتا دی جائے تاکہ وہ لوگ صلح کا کوئی راستہ تلاش کر لیں۔ ظاہر ہے یہ صلح تبھی ممکن ہوگی جب تمام لوگ صلح اور امن و آشتی میں دل چسپی لیں گے ہر کسی کی خواہش یہ ہوگی کہ گھراجڑنے نہ پائے ۔ اگر اللہ نے دو لوگوں کو اپنی مشیت سے اکٹھا کیا ہے تو ہماری ہر حکمت اس امر پر صرف ہو کہ یہ لوگ ہر گز ہر گز جدا نہ ہوں۔
یہیں سے یہ مسئلہ بھی از خود نکلتا ہے کہ فریقین کو غور وخوض کے بعد اگر صلح والی کوئی راہ نظر نہ آئے گی تووہ طلاق اور جدائی کا فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں طلاق کا معاملہ بھی سنجیدگی سے انجام پائے گا یوں ایک بار پھر میاں بیوی کے مابین رفاقت کی صورتیں پیدا ہونے کا امکان تلاشا جانے لگے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔