• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین دن سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرنا !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
11694895_889809017769113_6531700816587940541_n.jpg



تین دن سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرنا !
  • عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہر مہینے میں قرآن کا ایک ختم کیا کرو میں نے عرض کیا مجھ کو تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا سات راتوں میں ختم کیا کر اس سے زیادہ مت پڑھ

صحیح بخاری 5053 ، کتاب فضائل القرآن

  • ایک دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس نے تین دن سے کم میں قرآن کو ختم کیا اس نے اسے کچھ سمجھا ہی نہیں یعنی اس نے اسے سمجھ کر نہیں پڑھا

(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ :1394 ، ترمذی ، کتاب القراءۃ:2949 ، ابن ماجہ ،اقامۃ الصلاۃ :1347 ، علامہ البانی نے اس روایت کوصحیح قراردیاہے ، دیکھئے : صحیح سنن ابن ماجہ :1115)


  • مزید ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن مسعود فرماتےہیں :

" جس نے تین دن سے کم میں قرآن مجید کو ختم کیا وہ راجز (رجزیہ اشعارپڑھنے والا) ہے" (سنن سعیدبن منصور:447، مصنف عبدالرزاق :3/353،)

ہیثمی فرماتےہیں کہ : " اسے طرانی نے کبیرمیں روایت کیاہے اوراس کےرجال صحیح کے رجال ہیں "(مجمع الزوائد:2/269)۔
 

Talha Salafi

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2018
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
28
جزاک اللہ خیرا،

لیکن اسلاف میں امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ سے تو تین دن سے پہلے قرآن ختم کرنے کا عمل ملتا ہے؟؟؟
بلکہ امام شافعی کے متعلق تو رمضان میں 60 قرآن ختم کرنے کی صحیح روایت ملتی ہے،
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک رکعت میں قران ختم کرنے کی روایت ملتی ہے۔
 

Talha Salafi

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2018
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
28
عامر عدنان بھائی یہ تحقیق میں پڑھ چکا ہوں، مگر اس میں بھی امام شافعی والے اعمل کو غلط نہیں مانا گیا ہے، بلکہ ثابت مانا گیا ہے،
ہاں اُن تک حدیث نا پہچنے کی بات کی گئی ہے، بس۔۔۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے یا نہیں ۔۔۔ والله اعلم
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
@عامر عدنان
آپ کی رہنمائی کا شکریہ ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے محترم @اسحاق سلفی صاحب نے ایک تھریڈ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ والی روایت کو صحیح کہا تھا۔ اس کا لنک مجھے یاد نہیں ہے۔
محترم اسحاق صاحب اس کی توثیق یا تردید کرسکتے ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جہاں تک مجھے یاد ہے محترم @اسحاق سلفی صاحب نے ایک تھریڈ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ والی روایت کو صحیح کہا تھا۔ اس کا لنک مجھے یاد نہیں ہے۔
محترم اسحاق صاحب اس کی توثیق یا تردید کرسکتے ہیں۔
خود مجھے اس کے متعلق کچھ یاد نہیں ،نہ تلاش کرنے پر کچھ ملا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تین دن سے کم قرآن کریم کی تلاوت اور سلف کے واقعات پر اشکال

قرآن کریم کو تین دن سے کم عرصے میں پڑھنے کے حوالے سے اور بھی کئی لوگوں کو اعتراض کرتے ہوئے سنا ہے.. ان اعتراضات اور اشکالات کی بنیاد دو نکتے ہیں:
1۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم پڑھنے سے منع فرمایا ہے... لہذا جو ایسا کرے گا، وہ سنت کا مخالف ہے.. اور یہ صحابہ کرام اور عظیم شخصیات سنت کی مخالف نہیں ہوسکتیں.
2۔ تین دن سے کم پڑھنے کے جو واقعات منقول ہیں، ان میں وقت بہت محدود بتایا گیا ہے...مثلا ایک ہی رات میں قرآن پڑھنا، رمضان میں ساتھ مرتبہ قرآن پڑھنا. وغیرہ.
اور اتنے وقت میں کوئی پڑھ ہی نہیں سکتا.. وغیرہ.
ہمارے نزدیک تین دن سے کم پڑھنے کے واقعات صحیح اسانید سے ثابت ہیں. اور اس پر
1۔ مخالفت سنت کا فتوی عالم کا شذوذ وتفرد اور غیر عالم کی لاعلمی ہے۔
نووی اور ابن حجر وغیرہ اہل علم نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اس حدیث میں تین دن سے کم کی تحریم والا معنی موجود نہیں، اور اکثر سلف صالحین قراءت قران میں دنوں کی بابندی کی بجائے قوت ونشاط کا خیال رکھتے تھے، اور کثیر تعداد ایسی تھی جو تین دن سے کم میں ختم کرلیا کرتے تھے. حافظ ابن حجر کی عبارت ملاحظہ کرلیں:
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يختم القرآن في أقل من ثلاث وهذا اختيار أحمد وأبي عبيد وإسحاق بن راهويه وغيرهم وثبت عن كثير من السلف إنهم قرؤوا القرآن في دون ذلك قال النووي والاختيار أن ذلك يختلف بالأشخاص فمن كان من أهل الفهم وتدقيق الفكر استحب له أن يقتصر على القدر الذي لا يختل به المقصود من التدبر واستخراج المعاني وكذا من كان له شغل بالعلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين العامة يستحب له أن يقتصر منه على القدر الذي لا يخل بما هو فيه ومن لم يكن كذلك فالأولى له الاستكثار ما أمكنه من غير خروج إلى الملل ولا يقرؤه هذرمة والله أعلم......ولأبي داود والترمذي والنسائي من طريق وهب بن منبه عن عبد الله بن عمرو أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم في كم يقرأ القرآن قال في أربعين يوما ثم قال في شهر ثم قال في عشرين ثم قال في خمس عشرة ثم قال في عشر ثم قال في سبع ثم لم ينزل عن سبع وهذا إن كان محفوظا احتمل في الجمع بينه وبين رواية أبي فروة تعدد القصة فلا مانع أن يتعدد قول النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن عمرو ذلك تأكيدا ويؤيده الاختلاف الواقع في السياق وكأن النهي عن الزيادة ليس على التحريم كما أن الأمر في جميع ذلك ليس للوجوب وعرف ذلك من قرائن الحال التي أرشد إليها السياق وهو النظر إلى عجزه عن سوى ذلك في الحال أو في المآل وأغرب بعض الظاهرية فقال يحرم أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث وقال النووي أكثر العلماء على أنه لا تقدير في ذلك وإنما هو بحسب النشاط والقوة فعلى هذا يختلف باختلاف الأحوال والأشخاص والله أعلم
(فتح الباري لابن حجر (9/ 97)
یہاں صراحت کے ساتھ سلف صالحین کا موقف بیان کرنے کے بعد تین دن سے کم کی تحریم والے قول کو کسی ظاہری عالم کا عجیب و غریب موقف قرار دیا گیا ہے۔
ابن رجب فرماتے ہیں:
إنما ورد النهي عن قراءة القرآن في أقل من ثلاث على المداومة على ذلك فأما في الأوقات المفضلة كشهر رمضان خصوصا الليالي التي يطلب فيها ليلة القدر أو في الأماكن المفضلة كمكة لمن دخلها من غير أهلها فيستحب الإكثار فيها من تلاوة القرآن اغتناما للزمان والمكان وهو قول أحمد وإسحاق وغيرهما من الأئمة وعليه يدل عمل غيرهم كما سبق ذكره.
(لطائف المعارف (ص: 171)
2۔ رہی یہ بات کہ اتنے وقت میں پڑھا نہیں جاسکتا، تو یہ ان بزرگوں اور ان کے حالات کو اپنے زمانے اور اپنی شخصیات پر قیاس کرنے کی وجہ سے ہے.
اور یہ شاید قیاس مع الفارق ہے۔
قرآن کریم کو جو جتنا زیادہ پڑھتا ہے، اس کے پڑھنے میں اتنی ہی روانی آجاتی ہے... اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر میرے وقت میں برکت نہیں رہی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلف بھی اس ’برکت‘ سے خالی تھے۔
تین دن سے کم ایک دن اور رات میں، ایک رکعت یا دو رکعتوں میں قرآن ختم کرنے والوں میں صحابہ کرام ، تابعین اور خیر القرون کے لوگوں کے نام ہیں، اگر ان پر یہ دو اعتراض درست ہوتے، تو یہ واقعات ان دو اعتراضات کے بنا نقل نہ ہوتے... ضرور ان پر یہ ایجیکشن لگا ہوا ہوتا۔
رہی بات فہم قرآن کی، تو وہ ہمارے جیسے تو حدیث میں بیان کردہ آخری حد چالیس دن بھی لگائیں، تو شاید ’لم یفقہ‘ والی لائن میں ہی آئیں گے.. ویسے بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے.. لیکن بلا فہم بھی صرف تلاوت قرآن بھی باعث ثواب ہے. تلاوت قرآن کی مثالی مدت تین سے لیکر چالیس دن ہے، لیکن لوگوں کی طبیعت اور ذوق کے مطابق اس میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج نہیں.. اور اس سلسلے میں سلف سے مروی واقعات کی ضرب تقسیم کرکے انکار والا مزاج یہ تو انکار حدیث والا ذہن ہے۔ واللہ أعلم۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک رکعت یا دو رکعتوں یا ایک رکعات میں تکمیل قرآن کے سلف سے بعض آثار:

عن عبد الرحمن بن عثمان، قال: «قمت خلف المقام أصلي، وأنا أريد أن لا يغلبني عليه أحد تلك الليلة، فإذا رجل من خلفي يغمزني فلم ألتفت إليه، ثم غمزني فالتفت، فإذا هو عثمان بن عفان، فتنحيت، وتقدم وقرأ القرآن كله في ركعة ثم انصرف»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8589)
عن ابن سيرين، عن عثمان، «أنه قرأ القرآن في ركعة في ليلة»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8591)
عن ابن سيرين، «أن تميما الداري قرأ القرآن كله في ركعة»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8588)
عن سعيد بن جبير قال: «قرأت القرآن في الكعبة في ركعتين»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8594)
عن مجاهد، قال: «كان علي الأزدي يختم القرآن في رمضان في كل ليلة»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8595)​
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
its amazing really appreciated Its awesome one keep sharing
 
Top